قومی حکومت بنائی جائے
ناتجربہ کاری اور غلط منصوبہ بندی ، بغیر سوچے سمجھے پالیسیوں اور اقتصادی حالت نے لوگوں کی چیخیں نکال دیں۔
SINGAPORE:
اگست 2018ء سے لے کر آج تک پورے پاکستان میں مہنگائی کا جو ''سونامی'' آیا ہے، اس کا سب سے بڑا سبب ایف بی آرکو 550 ارب ٹیکس ٹارگٹ دینا ہے جوکہ بہت زیادہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے تمام چھوٹے بڑے دکانداروں سے لے کر بڑے تاجروں تک ایک چھوٹا سا کارخانہ چلانے والے سے لے کر بڑی صنعت تک کے لوگ بے چین ہوگئے۔
ابھی حکومت کی جانب سے کسی دکاندار پر یا تاجر پر یا صنعتکار پر ٹیکس کی رجسٹریشن بھی مکمل نہ ہونے پائی تھی۔ اس بے ڈھنگے نفاذ کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ ایک موچی سے لے کر باربر شاپ، چائے کے ہوٹل، ریسٹورنٹ، ٹرانسپورٹ کے کرائے، اسکولوں میں فیس، سبزی دالیں، فروٹ اور تمام اشیائے خورونوش میں 20 سے لے کر 30 فیصد اضافہ ہوا۔
تمام یوٹیلیٹی بلز میں اتنا اضافہ ہوا اس کی وجہ سے ملک کا نوے فیصد وہ طبقہ جو مڈل کلاس سے لے کر ایک محدود آمدنی رکھنے والا غریب بندہ پریشان ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے عوام الناس اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت سے بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ ناتجربہ کاری اور غلط منصوبہ بندی ، بغیر سوچے سمجھے پالیسیوں اور اقتصادی حالت نے لوگوں کی چیخیں نکال دیں۔
عوام الناس اور حکومت میں عدم اعتماد کی خلیج کو بڑھا دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے پورے سال میں آئی ایم ایف سے بھی قرضہ لیا، سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی، چین سے بھی قرضہ لیا۔ ایسی صورت میں ملک میں مہنگائی کا پہیہ رک جانا چاہیے۔ اسی وجہ سے پی ٹی آئی کا سیاسی گراف بلند نہیں ہوا۔
عوام الناس کو جو توقع عمران خان سے تھی وہ مایوسی میں بدل گئی۔ شاید حکومت کو یہ احساس نہیں کہ نہ تو ان کی غیر معمولی اکثریت قومی اسمبلی میں نہیں ہے نہ ہی سینیٹ میں ہے، ان کی حکومت (ق) لیگ اور ایم کیو ایم کی وجہ سے قائم ہے۔ یہ بے ساکھیاں کسی بھی وقت گر سکتی ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے عوام کرپشن کی داستان سن کر مسلم لیگ اور پی پی پی کی قیادت سے نالاں ہو گئے تھے۔
مگر حکومت نے اگر اپنے وعدے پر عمل کیا ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ ان کو چاہیے تھا کہ ہر پالیسی کو رفتہ رفتہ نافذ کرتے۔ کم ازکم 2 سال کا عرصہ چاہیے تھا اور اس طرح نافذ کرتے کہ مہنگائی کا سایہ بھی عوام پر نہ پڑنے دیتے۔ ہم نے اس حکومت میں سیاسی فقدان اور غلط حکمت عملی کو محسوس کیا ہے۔
ان کو نئے پاکستان کے لیے جو اقدامات لینے چاہیے تھے ان کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ تاکہ اس مشورے کی روشنی میں ابھی سنبھل جائیں کیونکہ پاکستان جیسا ملک جو 5 جولائی 1977ء سے پہلے ترقی پذیری کی طرف گامزن تھا۔ وہ ملک صرف پاکستان مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی میں تباہ کر دیا، اس دن سے آج تک ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے جاتا رہا، اس کا سبب آمریت ہے۔
اس آمریت نے پاکستان کی سیاسی قوتوں کو منتشر بھی کیا منقسم بھی کیا اور حقیقی سیاستدانوں کو فرنٹ لائن سے ہٹا کر گوشہ نشینی پر مجبور کیا اور اس سیاسی خلا کو ان لوگوں سے پرکیا جو ایک کونسلر کا انتخاب نہیں جیت سکتے تھے۔
جیسے ہی انھیں اختیار و اقتدار ملا انھوں نے مال و زر جمع کرنا شروع کر دیا، اس کے نتیجے میں سیاسی جمہوری قوتیں کمزور ہوتی چلی گئیں اور جعلی سیاستدان، جعلی سیاسی قوتیں اتنی طاقتور ہو گئیں کہ انھوں نے مافیا کی شکل اختیار کر لی اور ریاست کو مفلوج کر دیا اگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئی قدم نہ اٹھاتے تو ریاست کو مافیا سے آزاد کرانا بہت مشکل تھا۔ میں ان کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
انھوں نے جب دہشتگردی ختم کر دی تو کہا کہ اب معاشی دہشتگردی کا آپریشن ہونا چاہیے اس پر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بڑی حکمت عملی سے کام کر رہے ہیں۔ ابھی ہمیں اس ملک کو ترقی پذیر ملک کی سطح پر لے جانے کے لیے تمام اداروں بشمول فوج کی مدد درکار ہے، مگر وہ اس طرح کہ جمہوریت کا راستہ کہیں مسدود نہ ہو۔
میرا وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ ہے کہ فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلائیں اور ان کے سامنے کم از کم دو سال کے لیے ایک قومی حکومت کا خاکہ پیش کریں اور ان سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بہترین تجربہ کار ہیں اور ان پر کوئی بدعنوانی کا الزام نہ ہو۔ اسے قومی حکومت میں شامل کریں اور شہباز شریف کے اس مشورہ پر عمل کریں کہ میثاق معیشت طے ہو۔ احتساب کا معاملہ اداروں پر چھوڑ دیں۔
آپ پوری توجہ ملک کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر دیں۔ سب سے پہلے اشیائے خورونوش جیسے سبزی، دالیں، اناج، کھانے کا تیل، گھی، چائے، چینی اورگائے کا گوشت، بکرے کا گوشت، مرغی ان سب کی برآمدات پر پابندی لگا دیں۔ یہ تمام اشیائے خور ونوش سستی ہوجائیں گی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان جیسا غریب ملک ہر سال یا دو سال کے بعد عام انتخابات کا خرچہ نہیں برداشت کر سکتا۔ اس لیے موجودہ حکومت کو جاگنا ہوگا ہر ادارے میں توجہ دینا ہوگی۔ تھانہ کلچر، فلاحی سینٹر ہونا چاہیے ، پولیس میں 50 سال کی عمر تک کے لوگوں کوگولڈن شیک ہینڈ دیں نئے نوجوان بھرتی ہوں۔ اعلیٰ افسران کی خفیہ نگرانی ہو۔ تمام بیوروکریٹس پر بھی نگرانی ہو۔ مگر ان سب کو فری ہینڈ دیا جائے کیونکہ کسی حکومت کی کامیابی کا راز بہترین بیوروکریٹس پر ہے۔
عرب ملکوں میں حکمران اتنے تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ مثلاً شاہ خالد بن عبدالعزیز اور شاہ فہد بن عبدالعزیز لیکن ان کا دور سنہری دور اس لیے تھا کہ بہت تعلیم یافتہ اور ماہرین کو بیوروکریٹس بناتے تھے۔ موجودہ حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے بہترین لوگوں کو حکومت میں شامل کریں اور وقتی طور نیشنل حکومت بنالیں واحد حل ہے اور یہی وقت کا تقاضا ہے۔ یہ سب کچھ عمران خان اپنی قیادت میں کر سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ توجہ انسانی بنیادی حقوق پر دیں جو سب سے زیادہ تھانوں میں پامال ہوتے ہیں اور ایک اہم فیصلہ یہ بھی کریں کہ تمام اے ٹی سی عدالتوں کو ختم کر دیں تا کہ دنیا میں یہ پیغام جائے کہ پاکستان میں دہشتگردی ختم ہوگئی ہے۔ عام آدمی کے حصول انصاف کے لیے قوانین وضع ہوں جو سستا اور فوری انصاف فراہم کرے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں انھوں نے ماڈل عدالتیں قائم کی ہیں۔ بس انصاف میں ملزم کو مجرم کے طور پر نہ سمجھا جائے انصاف کا یہ اصول ہو کہ وہ ملزم کو صفائی اور بے گناہی کا ثبوت دینے کی آزادی ہو۔
اگست 2018ء سے لے کر آج تک پورے پاکستان میں مہنگائی کا جو ''سونامی'' آیا ہے، اس کا سب سے بڑا سبب ایف بی آرکو 550 ارب ٹیکس ٹارگٹ دینا ہے جوکہ بہت زیادہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے تمام چھوٹے بڑے دکانداروں سے لے کر بڑے تاجروں تک ایک چھوٹا سا کارخانہ چلانے والے سے لے کر بڑی صنعت تک کے لوگ بے چین ہوگئے۔
ابھی حکومت کی جانب سے کسی دکاندار پر یا تاجر پر یا صنعتکار پر ٹیکس کی رجسٹریشن بھی مکمل نہ ہونے پائی تھی۔ اس بے ڈھنگے نفاذ کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ ایک موچی سے لے کر باربر شاپ، چائے کے ہوٹل، ریسٹورنٹ، ٹرانسپورٹ کے کرائے، اسکولوں میں فیس، سبزی دالیں، فروٹ اور تمام اشیائے خورونوش میں 20 سے لے کر 30 فیصد اضافہ ہوا۔
تمام یوٹیلیٹی بلز میں اتنا اضافہ ہوا اس کی وجہ سے ملک کا نوے فیصد وہ طبقہ جو مڈل کلاس سے لے کر ایک محدود آمدنی رکھنے والا غریب بندہ پریشان ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے عوام الناس اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت سے بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ ناتجربہ کاری اور غلط منصوبہ بندی ، بغیر سوچے سمجھے پالیسیوں اور اقتصادی حالت نے لوگوں کی چیخیں نکال دیں۔
عوام الناس اور حکومت میں عدم اعتماد کی خلیج کو بڑھا دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے پورے سال میں آئی ایم ایف سے بھی قرضہ لیا، سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی، چین سے بھی قرضہ لیا۔ ایسی صورت میں ملک میں مہنگائی کا پہیہ رک جانا چاہیے۔ اسی وجہ سے پی ٹی آئی کا سیاسی گراف بلند نہیں ہوا۔
عوام الناس کو جو توقع عمران خان سے تھی وہ مایوسی میں بدل گئی۔ شاید حکومت کو یہ احساس نہیں کہ نہ تو ان کی غیر معمولی اکثریت قومی اسمبلی میں نہیں ہے نہ ہی سینیٹ میں ہے، ان کی حکومت (ق) لیگ اور ایم کیو ایم کی وجہ سے قائم ہے۔ یہ بے ساکھیاں کسی بھی وقت گر سکتی ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے عوام کرپشن کی داستان سن کر مسلم لیگ اور پی پی پی کی قیادت سے نالاں ہو گئے تھے۔
مگر حکومت نے اگر اپنے وعدے پر عمل کیا ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ ان کو چاہیے تھا کہ ہر پالیسی کو رفتہ رفتہ نافذ کرتے۔ کم ازکم 2 سال کا عرصہ چاہیے تھا اور اس طرح نافذ کرتے کہ مہنگائی کا سایہ بھی عوام پر نہ پڑنے دیتے۔ ہم نے اس حکومت میں سیاسی فقدان اور غلط حکمت عملی کو محسوس کیا ہے۔
ان کو نئے پاکستان کے لیے جو اقدامات لینے چاہیے تھے ان کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ تاکہ اس مشورے کی روشنی میں ابھی سنبھل جائیں کیونکہ پاکستان جیسا ملک جو 5 جولائی 1977ء سے پہلے ترقی پذیری کی طرف گامزن تھا۔ وہ ملک صرف پاکستان مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی میں تباہ کر دیا، اس دن سے آج تک ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے جاتا رہا، اس کا سبب آمریت ہے۔
اس آمریت نے پاکستان کی سیاسی قوتوں کو منتشر بھی کیا منقسم بھی کیا اور حقیقی سیاستدانوں کو فرنٹ لائن سے ہٹا کر گوشہ نشینی پر مجبور کیا اور اس سیاسی خلا کو ان لوگوں سے پرکیا جو ایک کونسلر کا انتخاب نہیں جیت سکتے تھے۔
جیسے ہی انھیں اختیار و اقتدار ملا انھوں نے مال و زر جمع کرنا شروع کر دیا، اس کے نتیجے میں سیاسی جمہوری قوتیں کمزور ہوتی چلی گئیں اور جعلی سیاستدان، جعلی سیاسی قوتیں اتنی طاقتور ہو گئیں کہ انھوں نے مافیا کی شکل اختیار کر لی اور ریاست کو مفلوج کر دیا اگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئی قدم نہ اٹھاتے تو ریاست کو مافیا سے آزاد کرانا بہت مشکل تھا۔ میں ان کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
انھوں نے جب دہشتگردی ختم کر دی تو کہا کہ اب معاشی دہشتگردی کا آپریشن ہونا چاہیے اس پر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بڑی حکمت عملی سے کام کر رہے ہیں۔ ابھی ہمیں اس ملک کو ترقی پذیر ملک کی سطح پر لے جانے کے لیے تمام اداروں بشمول فوج کی مدد درکار ہے، مگر وہ اس طرح کہ جمہوریت کا راستہ کہیں مسدود نہ ہو۔
میرا وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ ہے کہ فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلائیں اور ان کے سامنے کم از کم دو سال کے لیے ایک قومی حکومت کا خاکہ پیش کریں اور ان سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بہترین تجربہ کار ہیں اور ان پر کوئی بدعنوانی کا الزام نہ ہو۔ اسے قومی حکومت میں شامل کریں اور شہباز شریف کے اس مشورہ پر عمل کریں کہ میثاق معیشت طے ہو۔ احتساب کا معاملہ اداروں پر چھوڑ دیں۔
آپ پوری توجہ ملک کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر دیں۔ سب سے پہلے اشیائے خورونوش جیسے سبزی، دالیں، اناج، کھانے کا تیل، گھی، چائے، چینی اورگائے کا گوشت، بکرے کا گوشت، مرغی ان سب کی برآمدات پر پابندی لگا دیں۔ یہ تمام اشیائے خور ونوش سستی ہوجائیں گی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان جیسا غریب ملک ہر سال یا دو سال کے بعد عام انتخابات کا خرچہ نہیں برداشت کر سکتا۔ اس لیے موجودہ حکومت کو جاگنا ہوگا ہر ادارے میں توجہ دینا ہوگی۔ تھانہ کلچر، فلاحی سینٹر ہونا چاہیے ، پولیس میں 50 سال کی عمر تک کے لوگوں کوگولڈن شیک ہینڈ دیں نئے نوجوان بھرتی ہوں۔ اعلیٰ افسران کی خفیہ نگرانی ہو۔ تمام بیوروکریٹس پر بھی نگرانی ہو۔ مگر ان سب کو فری ہینڈ دیا جائے کیونکہ کسی حکومت کی کامیابی کا راز بہترین بیوروکریٹس پر ہے۔
عرب ملکوں میں حکمران اتنے تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ مثلاً شاہ خالد بن عبدالعزیز اور شاہ فہد بن عبدالعزیز لیکن ان کا دور سنہری دور اس لیے تھا کہ بہت تعلیم یافتہ اور ماہرین کو بیوروکریٹس بناتے تھے۔ موجودہ حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے بہترین لوگوں کو حکومت میں شامل کریں اور وقتی طور نیشنل حکومت بنالیں واحد حل ہے اور یہی وقت کا تقاضا ہے۔ یہ سب کچھ عمران خان اپنی قیادت میں کر سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ توجہ انسانی بنیادی حقوق پر دیں جو سب سے زیادہ تھانوں میں پامال ہوتے ہیں اور ایک اہم فیصلہ یہ بھی کریں کہ تمام اے ٹی سی عدالتوں کو ختم کر دیں تا کہ دنیا میں یہ پیغام جائے کہ پاکستان میں دہشتگردی ختم ہوگئی ہے۔ عام آدمی کے حصول انصاف کے لیے قوانین وضع ہوں جو سستا اور فوری انصاف فراہم کرے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں انھوں نے ماڈل عدالتیں قائم کی ہیں۔ بس انصاف میں ملزم کو مجرم کے طور پر نہ سمجھا جائے انصاف کا یہ اصول ہو کہ وہ ملزم کو صفائی اور بے گناہی کا ثبوت دینے کی آزادی ہو۔