کوچۂ سخن
غزل
کٹی ہے عمر اِسی امتحان میں، مَیں ہوں
مکان مجھ میں، مکیں یا مکان میں، مَیں ہوں
مجھے ہی مجھ میں کبھی کوئی کھینچ مارے گا
کسی کے جسم کسی کی میان میں، مَیں ہوں
طلب نہیں ہے کسی کی نہ آرزو اب کے
خود اپنی گھات میں بیٹھا مچان میں مَیں ہوں
زمیں کو جتنا ملا ہوں یہی بہت ہوں مگر
یقیں ہے اب بھی بہت آسمان میں، مَیں ہوں
بچھڑ کے مجھ سے وہ خود سے بھی مل نہیں سکتا
کھڑا ہے دونوں طرف درمیان میں مَیں ہوں
کہیں ہوں رانجھا کہیں قیس تو کہیں عزمی
محبتوں کی ہر اک داستان میں، مَیں ہوں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
یہ ہم جو سب میں تری خُو تلاش کرتے ہیں
خود اپنے کرب کے پہلو تلاش کرتے ہیں
وہ قحطِ اشک ہے اس بار دشتِ ہجراں میں
سب اپنی آنکھ میں آنسو تلاش کرتے ہیں
دلِ تباہ! چلو مل کے اس کڑی شب میں
خیالِ یار کے جگنو تلاش کرتے ہیں
ہوائے شہر سے پوچھو ہم اُس کے دامن میں
ترے لباس کی خوشبو تلاش کرتے ہیں
تری تلاش میں نکلے تو ہم نے جانا کہ
خود اپنی ذات کو ہر سُو تلاش کرتے ہیں
وہ جن کو باندھ کے رقصاں ہو میری تنہائی
اے بزمِ یار، وہ گھنگرو تلاش کرتے ہیں
دعائیں خیمۂ شب میں بھٹکتی ہیں ایماں
فرشتے صدق کا جادو تلاش کرتے ہیں
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
اب رضامند ہے کرنے پہ گزارا پتھر
میں نے اس پیار سے شیشے میں اتارا پتھر
ہو بھی سکتا ہے جنوں رنگ دکھائے اپنا
دے بھی سکتا ہے پھسلتے کو سہارا پتھر
دشت میں کھلتے ہوئے در کو ہمی نے کھولا
شدتِ کرب سے جب کوئی پکارا پتھر
ایک آواز کو سننے کے لیے ہوگئے ہیں
آسماں، چاند، زمین اور ستارا پتھر
وجد میں آتا ہوا، رقص کناں ہوتا ہوا
لہر میں آیا تو پتھر بھی پکارا پتھر
اس نے پہنا ہے بڑے چاؤ سے اک سرخ عقیق
اس طرح ہوتا ہے پتھر کو گوارا پتھر
(عاجزکمال۔ جوہر آباد، خوشاب)
۔۔۔
غزل
برسوں خواب پڑے رہتے تھے آنکھوں کی الماری میں
میں ہی سستی کر جاتی تھے چننے کی دشواری میں
اماں بابا کے سائے میں جو گھر کی شہزادی تھی
سپنے بیچنے آئی ہے وہ مجبوری ناداری میں
ماضی حال و مستقبل کے دھاگے الجھے رہتے ہیں
گرہیں کھولتی رہتی ہوں میں تنہا شب بیداری میں
گھر کی خستہ دیواروں کو آپ گرانا پڑتا ہے
ہوتا ہے تعمیر کا پہلو چیزوں کی مسماری میں
میں بھی لڑتے لڑتے اس کے سینے سے لگ جاتی ہوں
شکوے دل سے بہہ جاتے ہیں سارے گریہ زاری میں
وہ بھی تنہا رات گئے تک اب سڑکوں پر پھرتا ہے
میرے ہاتھ بھی جل جاتے ہیں، روٹی کی تیاری میں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔۔
غزل
یک بیک پنجرۂ الفت میں پھڑکنے لگ جائے
طائرِ ہجر مری راہ نہ تکنے لگ جائے
کاش میں دل ترے سینے میں اتاروں اپنا
اور مرا غم تری رگ رگ میں دھڑکنے لگ جائے
عین ممکن ہے کسی روز میں نکلوں گھر کو
اور مسکن کی طلب راہ میں تھکنے لگ جائے
لمس کا جام مرے ہاتھ سے چھوٹے یک دَم
آنکھ شرمندۂ غم ہو کے چھلکنے لگ جائے
روح تہ خانۂ حرمت میں چھپا لے خود کو
جسم بچے کی طرح رونے بلکنے لگ جائے
پاس رہ کر بھی نہ منہدی کی مہک ماند پڑے
دور رہ کر بھی وہ کنگن نہ کھنکنے لگ جائے
کیسے اس شخص کو اپنے سے الگ کر لوں میں
کیسے اک صبح اندھیرے کو لپکنے لگ جائے
لاکھ موسم کا نیا رخ مجھے چھیڑے باقی
لاکھ بارش میں کوئی آگ بھڑکنے لگ جائے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
بھیگا بھیگا ساون رُت کا چاروں جانب پہرا تھا
باہر کچھ برسات نہیں تھی، آنکھ میں پانی ٹھہرا تھا
دل پہ وار کیا تھا اُس نے تنہائی کے خنجر سے
گھپا ہوا یہ دل میں خنجر روح کی حد تک گہرا تھا
پیار میں اُس کے پہلے پہلے ہر سو رنگ بہاراں تھا
رت بدلی تو خزاں کا منظرسامنے میرے صحرا تھا
راہِ وفا میں کیا کیا یارو لوگوں نے الزام دھرے
سُن کر بھی سب جگ کی باتیں بنا ہوا میں بہرا تھا
کیسے بھولیں اُس پیکر کو ہم نے دل سے چاہا تھا
جس کا چہرہ چاند سے روشن، زلف کا رنگ سنہرا تھا
(عامر مُعان۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
سدا ہم کو محبت میں سہارے مار دیتے ہیں
سمندر کچھ نہیں کہتا کنارے مار دیتے ہیں
زمانے کا ازل سے ہے یہی دستور اے ہمدم
سزا یوں دیتے ہیں ہم کو دلاسے مار دیتے ہیں
سنو ہم جو شکستہ پا ہیں تو اک بھید ہے اس میں
ہمیں اکثر ہمارے اپنے پیارے مار دیتے ہیں
ہماری جیت کیا ہوگی ترے یوں سامنے آ کر
تری آنکھوں کے یہ ہم کو اشارے مار دیتے ہیں
ہزاروں صدمے ہم پر بے اثر رہتے ہیں غیروں کے
کبھی جو بہتے ہیں آنسو تمہارے، مار دیتے ہیں
سمے بھی کاٹ کھاتے ہیں وہ خواہش بین کرتی ہے
جو مہوش تم نہیں ہو تو نظارے مار دیتے ہیں
(اُمِ فاطمہ۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
جو ایک لمحے کو زندگی سے چھڑایا ہاتھ
تھی ایسی جلدی اجل سے جا کے ملایا ہاتھ
تمام قاتل ہیں میرے اپنے ہی جانتا ہوں
نہیں ہے سازش میں کوئی بھی تو پرایا ہاتھ
میں ڈوب جاتا مگر کوئی تھا بچانے والا
میں دیکھتا ہوں کہیں اچانک سے آیا ہاتھ
تھی شرط اس کی کوئی چرا کر دکھائے دل کو
وہ میں تھا جس نے سزا میں ایسی، کٹایا ہاتھ
لٹا رہا تھا مجھے وہ اک دن تمام تحفے
پرائی منہدی کے شوق سے کپکپایا ہاتھ
عجیب ہے تیری دوستی بھی عجیب تُو بھی
جھٹک دیا ہے تجھے کہ جس نے بڑھایا ہاتھ
(زوہیب نازک۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
خراب حالوں میں آج خانہ خراب خوش ہیں
کہ تیرے عشاق سارے زیرِ عتاب خوش ہیں
یہ لمحہ لمحہ تری جدائی میں پک رہے ہیں
تری محبت میں لوگ بن کر کباب خوش ہیں
یہ کم نہیں ہے کہ میں خوشی کا سبب بنا ہوں
کہ بے بسی پر مری! عدو، بے حساب خوش ہیں
میں بیچ رستے سے اِس لیے اب پلٹ رہا ہوں
نہ ساتھ ہونے سے میرے، سب ہم رکاب خوش ہیں
رقیب خوش ہیں تو اِس پہ حیرانگی نہیں ہے
جو دیکھ لیتے ہیں خواب اس کے جناب خوش ہیں
یہ کون سچ کو چھپا رہا تھا سبھی سے فیصل
وہ کون کہتا رہا چمن میں گلاب خوش ہیں
(فیصل کاشمیری، گوجرانوالہ۔ وزیرآباد)
۔۔۔
غزل
اس سینے میں ترتیب سے غم رکھا گیا ہے
رونے میں تبھی ایک ردھم رکھا گیا ہے
ورنہ تو یہ خوابوں کے شجر سوکھ ہی جاتے
صد شکر مری آنکھ میں نم رکھا گیا ہے
ہم لوگ کہیں راہ کو منزل نہ سمجھ لیں
رستے میں اسی واسطے خم رکھا گیا ہے
کل شعر مرے سن کے وہ رویا تو میں سمجھا
کتنا مرے الفاظ میں دم رکھا گیا ہے
پہلے تو زباں دے کے مجھے پرکھا گیا تھا
اور پھر مرے ہاتھوں میں قلم رکھا گیا ہے
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ ۔پنجاب)
۔۔۔
غزل
ہر خواب ترا خواب ہے، ہر رات تری ہے
محفل ہو کہ تنہائی ہو، ہر بات رہے
پہچان نہیں پاتا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں
یہ میں ہوں کہ اب مجھ میں نہاں ذات تری ہے
جوتے کی تجھے نوک پہ رکھا ہے ہمیشہ
دنیائے خرابات یہ اوقات تری ہے
گر نفس کے ہاتھوں ہُوا مجبور شفی تُو
یہ ہار کسی کی نہیں، یہ مات تری ہے
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
اگر وہ ذات سے سارا حسد نکالیں گے
پھر ان کے فیصلے میری مدد نکالیں گے
وہ اپنی حد میں اگر ہم سے ہمکلام ہوئے
ہم اُس کے بعد کہیں اپنی حد نکالیں گے
ہماری خاک کی قیمت نہیں ہے دنیا میں
ہماری خاک سے پھر خال و خد نکالیں گے
پتہ چلے گا بہتر ہمارے فرقے ہیں
ہم اہلِ دل جو حسد کے عدد نکالیں گے
ہم عہدِ نو کے سخنور کہ ہیں چھپے رستم
چھوئیں گے کہکشاں جس وقت قد نکالیں گے
ابھی تو اور تماشا بھی ہونا باقی ہے
ابھی تو خود سے وہ تازہ سند نکالیں گے
( اسد علی باقی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کب تلک خود کو یوں گنواؤں میں
میں نے چاہا تھا چاہا جاؤں میں
اس کی آنکھوں پہ اک غزل کہہ کے
پاس بیٹھے تو گنگناؤں میں
مونگ دلتا ہے میرے سینے پر
اس کا مطلب بھی اب بتاؤں میں؟
مجھ کو پاگل بنا کے کہتا ہے
آپ آئے ہیں، کیا بناؤں میں
اس کی آنکھوں میں دیکھنا ہے مجھے
ایسی آنکھیں کہاں سے لاؤں میں
(منیر انجم منیر۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
پاس کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو
جی بہت چاہتا ہے رونے کو
اب سمجھ آیا آپ آئے تھے
بس مری کشتیاں ڈبونے کو
مجھ سے ملنا گلے تو ہاتھوں میں
چاقو رکھنا مجھے چبھونے کو
آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے دل
توڑ ہی دیجیے کھلونے کو
خون نہ چھوٹے ان کے دامن سے
خون ہی دیجیے گا دھونے کو
(ابولویزا علی۔ کراچی)