سوچوں کی بلوائیت
سوچوں کی بلوائیت کا موجب کسی بھی پیشے کے عطائی لوگ ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے مجسمے گرتے ہیں۔
KARACHI:
میں بہت عرصے سے کسی جواب کی تلاش میں تھا۔ پاکستان ، بھارت کے بعد برطانیہ اور امریکا میں ڈاکٹرز اور انجینئرز ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش دنیا کے سب سے بہترین ڈاکٹرز پیدا کرتے ہیں۔ وہ ڈاکٹرز جن کی ٹریننگ زندہ انسانوں پر کی جاتی ہے۔ جب یہ بڑے ڈاکٹر بن جاتے ہیںتو انھیں برطانیہ اور امریکا اُٹھا کر لے جاتا ہے اور وہ غریب انسان جن پر یہ سیکھ سیکھ کر اپنے ہنر کو اپنے تجربے کی آگ میں سینچ کر اس مقام پر پہنچتے ہیں، سسٹم کی محرومیوں میں ہی سسکتے رہ جاتے ہیں اور ڈاکٹر باہر چلے جاتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ایسی کیا وجوہات ہیںجو ان چیزوں کو جنم دیتی ہیں؟ وہ ایسی کیا چیز ہے جو ایک پڑھے لکھے، سمجھدار اور تربیت یافتہ ڈاکٹر کو اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے پر مجبور کرتی ہے؟ جب میں نے اس پر تحقیق کی تو سعادت حسن منٹو کی ایک کتاب کا حوالہ مل گیا۔ اُس کتاب میں ذکر تھا ''سر گنگا رام'' کا ۔ وہ گنگا رام جو جدید لاہور کے بانی ہیں۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ گنگا رام کا مال روڈ لاہور پرکئی دہائیوں سے ایک مجسمہ تھا۔مال روڈ لاہور پر گنگا رام کی خدمات کو سراہنے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی ان کابہت بڑا مجسمہ سجا کر لگایا گیا تھا۔ لیکن جب لاہور میں 1947میں دنگے فساد پھوٹے تو بلوائیوں کا گروہ حملہ آور ہوا ، اس گروہ نے ہندو اکثریت کے علاقہ پر ہلا بولا۔اور پھر وہاں موجود سر گنگا رام کا مجسمہ دیکھ کر بلوائیوں کا گروہ اس مجسمے پر ٹوٹ پڑا۔
بلوائیوں کے اس گروہ میں شامل لوگوں نے پہلے اس مجسمے کو پتھر مارے اور اُس کے بعد چہرے پر کوئلہ ملا ، اور بعد میں ایک شخص نے جوتوں کا ہار بنایا اور گنگا رام کے مجسمے کے گلے میں ڈال دیا۔ دنگے فساد پھوٹنے کے نتیجے میں پولیس آئی تو فائرنگ ہوئی۔ پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں ایک شخص وہ بھی شامل تھا جس نے اُس مجسمے کو جوتوں کا ہار پہنایا تھا، یہ دیکھ کر حاضرین میںسے کئی لوگ چیخ اُٹھے کہ اس زخمی شخص کو گنگا رام اسپتال لے چلو۔اُسی گنگا رام کے اسپتال جس کے مجسمے پرکچھ دیر قبل انھی بلوائیوں نے جوتوں کا ہار ڈال کر اس کی توہین کی تھی ۔
گنگا رام بھارت کے سب سے بڑے فلاحی رہنما تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سول انجینئیر تھے، انھوں نے ہی رینالہ ہائیڈرل پاور اسٹیشن بنایا۔ انھوں نے لاہور میں متعدد اسکول وکالجز بنوائے۔ لاہور میوزیم، جنرل پوسٹ آفس ، ایچی سن کالج اور گنگا رام اسپتال کے ساتھ ، گورنمنٹ کالج ، میو اسپتال کا ایک ونگ اور راوی روڈ ہائوس بھی بنوایا تھا۔ لیکن لاہور کی اتنی خدمت کرنے کے باوجود وہ سوچ پر پڑے پردے کی وجہ سے عقل کے اندھے بلوائیوں کا شکار ہوگئے۔ ان کے ذہنوں میں اُس وقت ایک عطائی سحر پیدا ہوا جس کی وجہ سے انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر گنگا رام کے مجسمہ پر حملہ کر دیا۔
سوچوں کی بلوائیت اس حملے کی حقیقی وجہ تھی۔اس سے سر گنگا رام کا کچھ نہیں گیا مگر ایک مجسمہ ضرور تھا،جو گر گیا۔وہ لاہور کی یاد تھا اور آج مال روڈ پر کسی کو معلوم نہیں کہ یہاں کبھی ایک ہندو کا مجسمہ بھی ہوا کرتا تھا۔ میں کافی عرصہ سے گائوں قصبوں میں کچھ ایسی خبریں دیکھا کرتا تھا کہ جس پر کسی ڈاکٹر ،نرس کی جھوٹی خبر لگ جایا کرتی تھی ۔ چھوٹے علاقوں میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے تھے جو ذات پات کے اعتبار سے نہ تو رپورٹرز ہوتے تھے،اور ان کا دور دور تک صحافت سے کوئی تعلق ہوتا ہے، ایسے افراد اکثر ایسی خبروں کا موجب ہوتے ہیں۔ لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد دور بدل گیا۔
سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب چینلز کا ٹرینڈ آنے کے بعد انھی افراد نے جو کسی طور صحافی نہیں تھے ، چھوٹے چھوٹے شہروں کے فیس بُک چینلز بنانا شروع کر دیے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا اصل، حقیقی اور بنیادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ ہی انھوں نے صحافت کی کوئی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ یوں کہہ لیں کہ یہ سب لوگ صحافت کے عطائی تھے۔ ان لوگوں نے وہاں ایم این اے ، ایم پی ایز کے کام آنا شروع کیا اور وہ کام جو کسی زمانے میں ایک چھوٹے سے اخبار میں جھوٹی خبر لگا کرکیاجاتا تھا وہ پھیل کر سوشل میڈیا تک آن پہنچا۔
اب سوشل میڈیا کا کام ایک چھوٹی سی خبر تک محدود نہیں ہوتا، سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی کوئی بھی خبر ملک کے ٹی وی چینلز تک اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔جس کو بسا اوقات بغیر تحقیق کے نشر بھی کر دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک ویڈیو میری نظر سے گزری جس میں ایک عطائی فیس بک رپورٹر ایک دیہی مرکز صحت کے ایم ایس کو فیس بُک لائیو آن کر کے شدید بے عزت کر رہا تھا اور وہ بڑے تحمل اور اطمینان سے ان کا جواب دے رہے تھے۔
اس طرح کی سرگرمیوں سے ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ، جس کے تحت یہ بات زبان زد عام ہو گئی کہ پاکستان کے ڈاکٹرز کام کرنے کی بجائے ہڑتالیں کرتے ہیں۔ وہ مریض نہیں دیکھتے اور یوں ڈاکٹرز کی غفلت اور ہڑتالیں مریضوں کی جان لے جاتی ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ہر شخص لا شعوری طور پر اپنے ذہن میں یہی خیال لے کر آتا ہے کہ ڈاکٹر کام نہیں کرتے اور ہم ان پر دھاوا بولیں گے۔ جب یہ خیال ذہن میں بیٹھ جاتا ہے تو اس قسم کے واقعات میں بلوائیوں کا ایک گروہ اس مائنڈ سیٹ کو سامنے لے آتا ہے اور پھر پوری کمیونٹی کے مجسمے کو، چاہے وہ کتنی ہی محنت کرتی ہو اور لوگوں کی جانیں بچاتی ہو، بلوائیوں کی ایک پوری پلٹن گرانے پر تُل جاتی ہے۔
بلوائیوں کی ان حرکتوں کا نقصان اس کمیونٹی کو نہیں ہوتا ٹھیک اُسی طرح جس طرح بلوائیوں کے حملے نے گنگا رام کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، لیکن اس سے نقصان معاشرے کو ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے ڈاکٹرز کے طبقے کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک چلا جاتا ہے اور غریب آدمی سسک سسک کر مر جاتا ہے۔ سوچوں کے اغوا کا یہ کھیل معاشرے میں ایک بھیانک کردار ادا کرتا ہے بالخصوص اُس وقت جب یہ بلوائیت کی شکل اختیار کر لے۔
ایک گونج یہی کہتی ہے کہ ہمیں معاشرے میں ہمیشہ اپنی سوچ کو اپنی ہی سمجھ بوجھ کے تابع رکھنا ہے اور ہمیں اس قسم کی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے جو معاشرے کو تباہی کی طرف لے جائے۔ ہمیں چاہیے کہ جب بلوائیت کا سوچ پرغلبہ ہو تو ہم اس کے نرغے سے دور رہیں اور نتیجے میں ہم معاشرے میں کسی بڑے بگاڑ کا موجب نہ بنیں گو جدید سوشل میڈیا کے دور میں ایسا کرنا مشکل ہے۔ سوچوں کی بلوائیت کا موجب کسی بھی پیشے کے عطائی لوگ ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے مجسمے گرتے ہیں اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر ایک بڑا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کے صحافی دنیا کے بہترین صحافی کہلاتے ہیں ،وہ جن کی امریکا کا صدر بھی ہر جگہ تعریف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ڈاکٹر بھی پوری دنیا کے بہترین ڈاکٹر کہلاتے ہیں،ایسے میں گائوں میں بیٹھا جس طرح ایک عطائی ڈاکٹر جس کا ڈاکٹری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا پورے گائوں میں بیماری بانٹتا ہے،اسی طرح ایسے افراد جو اصل میں صحافی نہیں ہوتے،وہ سوچوں کی عطائیت کو جنم دیتے ہیں اور پھر اس سے نظام میں ایسی بلوائیت جنم لیتی ہے جو سب تباہ کردیتی ہے۔ ہمیں معاشرے کو عطائیت اور سوچوں کی بلوائیت سے محفوظ رکھنے کی سعی کرنا ہوگی۔
میں بہت عرصے سے کسی جواب کی تلاش میں تھا۔ پاکستان ، بھارت کے بعد برطانیہ اور امریکا میں ڈاکٹرز اور انجینئرز ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش دنیا کے سب سے بہترین ڈاکٹرز پیدا کرتے ہیں۔ وہ ڈاکٹرز جن کی ٹریننگ زندہ انسانوں پر کی جاتی ہے۔ جب یہ بڑے ڈاکٹر بن جاتے ہیںتو انھیں برطانیہ اور امریکا اُٹھا کر لے جاتا ہے اور وہ غریب انسان جن پر یہ سیکھ سیکھ کر اپنے ہنر کو اپنے تجربے کی آگ میں سینچ کر اس مقام پر پہنچتے ہیں، سسٹم کی محرومیوں میں ہی سسکتے رہ جاتے ہیں اور ڈاکٹر باہر چلے جاتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ایسی کیا وجوہات ہیںجو ان چیزوں کو جنم دیتی ہیں؟ وہ ایسی کیا چیز ہے جو ایک پڑھے لکھے، سمجھدار اور تربیت یافتہ ڈاکٹر کو اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے پر مجبور کرتی ہے؟ جب میں نے اس پر تحقیق کی تو سعادت حسن منٹو کی ایک کتاب کا حوالہ مل گیا۔ اُس کتاب میں ذکر تھا ''سر گنگا رام'' کا ۔ وہ گنگا رام جو جدید لاہور کے بانی ہیں۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ گنگا رام کا مال روڈ لاہور پرکئی دہائیوں سے ایک مجسمہ تھا۔مال روڈ لاہور پر گنگا رام کی خدمات کو سراہنے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی ان کابہت بڑا مجسمہ سجا کر لگایا گیا تھا۔ لیکن جب لاہور میں 1947میں دنگے فساد پھوٹے تو بلوائیوں کا گروہ حملہ آور ہوا ، اس گروہ نے ہندو اکثریت کے علاقہ پر ہلا بولا۔اور پھر وہاں موجود سر گنگا رام کا مجسمہ دیکھ کر بلوائیوں کا گروہ اس مجسمے پر ٹوٹ پڑا۔
بلوائیوں کے اس گروہ میں شامل لوگوں نے پہلے اس مجسمے کو پتھر مارے اور اُس کے بعد چہرے پر کوئلہ ملا ، اور بعد میں ایک شخص نے جوتوں کا ہار بنایا اور گنگا رام کے مجسمے کے گلے میں ڈال دیا۔ دنگے فساد پھوٹنے کے نتیجے میں پولیس آئی تو فائرنگ ہوئی۔ پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں ایک شخص وہ بھی شامل تھا جس نے اُس مجسمے کو جوتوں کا ہار پہنایا تھا، یہ دیکھ کر حاضرین میںسے کئی لوگ چیخ اُٹھے کہ اس زخمی شخص کو گنگا رام اسپتال لے چلو۔اُسی گنگا رام کے اسپتال جس کے مجسمے پرکچھ دیر قبل انھی بلوائیوں نے جوتوں کا ہار ڈال کر اس کی توہین کی تھی ۔
گنگا رام بھارت کے سب سے بڑے فلاحی رہنما تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سول انجینئیر تھے، انھوں نے ہی رینالہ ہائیڈرل پاور اسٹیشن بنایا۔ انھوں نے لاہور میں متعدد اسکول وکالجز بنوائے۔ لاہور میوزیم، جنرل پوسٹ آفس ، ایچی سن کالج اور گنگا رام اسپتال کے ساتھ ، گورنمنٹ کالج ، میو اسپتال کا ایک ونگ اور راوی روڈ ہائوس بھی بنوایا تھا۔ لیکن لاہور کی اتنی خدمت کرنے کے باوجود وہ سوچ پر پڑے پردے کی وجہ سے عقل کے اندھے بلوائیوں کا شکار ہوگئے۔ ان کے ذہنوں میں اُس وقت ایک عطائی سحر پیدا ہوا جس کی وجہ سے انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر گنگا رام کے مجسمہ پر حملہ کر دیا۔
سوچوں کی بلوائیت اس حملے کی حقیقی وجہ تھی۔اس سے سر گنگا رام کا کچھ نہیں گیا مگر ایک مجسمہ ضرور تھا،جو گر گیا۔وہ لاہور کی یاد تھا اور آج مال روڈ پر کسی کو معلوم نہیں کہ یہاں کبھی ایک ہندو کا مجسمہ بھی ہوا کرتا تھا۔ میں کافی عرصہ سے گائوں قصبوں میں کچھ ایسی خبریں دیکھا کرتا تھا کہ جس پر کسی ڈاکٹر ،نرس کی جھوٹی خبر لگ جایا کرتی تھی ۔ چھوٹے علاقوں میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے تھے جو ذات پات کے اعتبار سے نہ تو رپورٹرز ہوتے تھے،اور ان کا دور دور تک صحافت سے کوئی تعلق ہوتا ہے، ایسے افراد اکثر ایسی خبروں کا موجب ہوتے ہیں۔ لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد دور بدل گیا۔
سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب چینلز کا ٹرینڈ آنے کے بعد انھی افراد نے جو کسی طور صحافی نہیں تھے ، چھوٹے چھوٹے شہروں کے فیس بُک چینلز بنانا شروع کر دیے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا اصل، حقیقی اور بنیادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ ہی انھوں نے صحافت کی کوئی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ یوں کہہ لیں کہ یہ سب لوگ صحافت کے عطائی تھے۔ ان لوگوں نے وہاں ایم این اے ، ایم پی ایز کے کام آنا شروع کیا اور وہ کام جو کسی زمانے میں ایک چھوٹے سے اخبار میں جھوٹی خبر لگا کرکیاجاتا تھا وہ پھیل کر سوشل میڈیا تک آن پہنچا۔
اب سوشل میڈیا کا کام ایک چھوٹی سی خبر تک محدود نہیں ہوتا، سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی کوئی بھی خبر ملک کے ٹی وی چینلز تک اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔جس کو بسا اوقات بغیر تحقیق کے نشر بھی کر دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک ویڈیو میری نظر سے گزری جس میں ایک عطائی فیس بک رپورٹر ایک دیہی مرکز صحت کے ایم ایس کو فیس بُک لائیو آن کر کے شدید بے عزت کر رہا تھا اور وہ بڑے تحمل اور اطمینان سے ان کا جواب دے رہے تھے۔
اس طرح کی سرگرمیوں سے ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ، جس کے تحت یہ بات زبان زد عام ہو گئی کہ پاکستان کے ڈاکٹرز کام کرنے کی بجائے ہڑتالیں کرتے ہیں۔ وہ مریض نہیں دیکھتے اور یوں ڈاکٹرز کی غفلت اور ہڑتالیں مریضوں کی جان لے جاتی ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ہر شخص لا شعوری طور پر اپنے ذہن میں یہی خیال لے کر آتا ہے کہ ڈاکٹر کام نہیں کرتے اور ہم ان پر دھاوا بولیں گے۔ جب یہ خیال ذہن میں بیٹھ جاتا ہے تو اس قسم کے واقعات میں بلوائیوں کا ایک گروہ اس مائنڈ سیٹ کو سامنے لے آتا ہے اور پھر پوری کمیونٹی کے مجسمے کو، چاہے وہ کتنی ہی محنت کرتی ہو اور لوگوں کی جانیں بچاتی ہو، بلوائیوں کی ایک پوری پلٹن گرانے پر تُل جاتی ہے۔
بلوائیوں کی ان حرکتوں کا نقصان اس کمیونٹی کو نہیں ہوتا ٹھیک اُسی طرح جس طرح بلوائیوں کے حملے نے گنگا رام کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، لیکن اس سے نقصان معاشرے کو ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے ڈاکٹرز کے طبقے کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک چلا جاتا ہے اور غریب آدمی سسک سسک کر مر جاتا ہے۔ سوچوں کے اغوا کا یہ کھیل معاشرے میں ایک بھیانک کردار ادا کرتا ہے بالخصوص اُس وقت جب یہ بلوائیت کی شکل اختیار کر لے۔
ایک گونج یہی کہتی ہے کہ ہمیں معاشرے میں ہمیشہ اپنی سوچ کو اپنی ہی سمجھ بوجھ کے تابع رکھنا ہے اور ہمیں اس قسم کی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے جو معاشرے کو تباہی کی طرف لے جائے۔ ہمیں چاہیے کہ جب بلوائیت کا سوچ پرغلبہ ہو تو ہم اس کے نرغے سے دور رہیں اور نتیجے میں ہم معاشرے میں کسی بڑے بگاڑ کا موجب نہ بنیں گو جدید سوشل میڈیا کے دور میں ایسا کرنا مشکل ہے۔ سوچوں کی بلوائیت کا موجب کسی بھی پیشے کے عطائی لوگ ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے مجسمے گرتے ہیں اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر ایک بڑا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کے صحافی دنیا کے بہترین صحافی کہلاتے ہیں ،وہ جن کی امریکا کا صدر بھی ہر جگہ تعریف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ڈاکٹر بھی پوری دنیا کے بہترین ڈاکٹر کہلاتے ہیں،ایسے میں گائوں میں بیٹھا جس طرح ایک عطائی ڈاکٹر جس کا ڈاکٹری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا پورے گائوں میں بیماری بانٹتا ہے،اسی طرح ایسے افراد جو اصل میں صحافی نہیں ہوتے،وہ سوچوں کی عطائیت کو جنم دیتے ہیں اور پھر اس سے نظام میں ایسی بلوائیت جنم لیتی ہے جو سب تباہ کردیتی ہے۔ ہمیں معاشرے کو عطائیت اور سوچوں کی بلوائیت سے محفوظ رکھنے کی سعی کرنا ہوگی۔