کیا ٹی ٹوئنٹی ٹیم نمبر ون رہے گی
سلیکشن میں اور بھی کئی غلطیاں ہوئیں مگر ملبہ صرف سرفراز پرگرا، مصباح کو صرف ایک موقع کی تلاش تھی جو انھیں مل گیا۔
LANDI KOTAL:
''مصباح نے جب قومی ٹیم کے کوچ اور چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سنبھالی تم وہ تاریخ نوٹ کر لو،اس دن اور جب وہ عہدہ چھوڑے تب کی رینکنگ کا موازنہ کر لینا پتا چل جائے گا اس کی کیسی کارکردگی رہی، بورڈ کا یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہو گا اور ہاں سرفراز کو بتا دو اب وقار یونس اور مصباح کی پھر سے جوڑی بن گئی ہے اپنا سامان پیک کر لے''
سری لنکا سے سیریز کے دوران جب ایک سابق کرکٹر نے مجھ سے یہ کہا تو میرا جواب تھا کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نمبر ون ہے،لگاتار 11 سیریز جیتیں، ایک ایسی ٹیم کے کپتان کو بھلا کوئی کیوں ہٹائے گا، مگر پھرہوم گراؤنڈ میں ٹی ٹوئنٹی میچز کے دوران جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ایک بی ٹیم سے ہم تینوں میچز ہار گئے، عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے کھلاڑیوں کو زبردستی ٹیم میں شامل کر دیا گیا۔
سلیکشن میں اور بھی کئی غلطیاں ہوئیں مگر ملبہ صرف سرفراز پرگرا، مصباح کو صرف ایک موقع کی تلاش تھی جو انھیں مل گیا، مجھے ابھی ابھی انہی سابق کرکٹر کا ایک واٹس ایپ میسیج ملا جس پر صرف ایک مسکراہٹ والی ایموجی موجود ہے، میں دل سے چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں غلط ثابت ہوں لیکن ایسا لگتا ہے اب ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی تباہی کا آغاز ہو چکا ہے،مصباح جب کپتان تھے تو انھیں ٹھنڈے مزاج کا حامل قرار دیا جاتا تھا، پاکستان کو شکست ہو مگر تب بھی ان کی انفرادی کارکردگی بہتر رہتی لہذا وہ بچ جاتے تھے، البتہ اب حالات مختلف ہیں مصباح کے ہاتھ میں بیٹ موجود نہیں جس سے وہ خود کچھ کر سکیں، اب انھیں 11 دیگر افراد کے کھیل پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔
ویسے ہی بورڈ نے ان کو چیف سلیکٹر، کوچ، بیٹنگ کوچ وغیرہ وغیرہ کی ذمہ داری سونپ کرماہانہ 32 لاکھ روپے پوری طرح وصول کرنے کا پلان بنایا ہے، ساتھ ہی سی ای او وسیم خان یہ بھی کہہ چکے کہ اب مصباح ہی ہر معاملے میں جوابدہ ہوں گے، اسی لیے ایک سیریز میں شکست پر ہی ان کی ہوائیاں اڑ گئیں اور پینک بٹن دبا دیا، میڈیاکانفرنس میں انھوں نے جس انداز میں صحافیوں کو جوابات دیے وہ صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں، چند روز کے دوران ان کا سرفراز سے جو رویہ تھا وہی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہا تھا، ایک بار بھی ملاقات نہیں کی، پھر جب اچانک یہ خبریں آئیں کہ مصباح کھلاڑیوں اور کپتان سے ناخوش ہیں تو مجھے یقین ہوگیا کہ اب کوئی بڑا فیصلہ سامنے آنے والا ہے۔
سی ای او سے ملاقات میں جب مصباح نے کہا کہ انھیں نیا کپتان چاہیے تو میں نے خبر شائع کر دی، ایک ٹی وی چینل نے اسے بنیاد بناکر ٹکرز چلا دیے تو انھیں بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ سے فون آ گیا کہ ''ایسی کوئی بات نہیں کپتان سرفراز ہی رہیں گے''، مگر اب مذکورہ چینل کے میرے دوست صحافی کہہ رہے ہیں کہ ''آپ درست تھے''۔
مصباح نے نہ صرف قیادت میں تبدیلی کی بلکہ کھلاڑیوں کا اعتماد بھی خراب کر دیا، اب بیشتر اپنی پوزیشنز بچانے میں لگے ہوئے ہیں، کوچ کی مسلسل تنقید بھی انھیں پریشان کر رہی ہے، ٹیم کے واٹس ایپ گروپ میں ہر تھوڑی دیر بعد کوئی پیغام آ جاتا ہے، کھانے پینے میں حد سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے، ٹریننگ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کھلاڑی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں،اسی لیے عامر سہیل یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ''کیا پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ریسلنگ مقابلے یا اولمپکس کیلیے تیار کیا جا رہا ہے'' کئی کھلاڑیوں سے میری بات ہوئی وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ ''ہمیں اسکول کے بچوں کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے، مکی آرتھر کی بہت یاد آتی ہے، پاکستانی ٹیم کیلیے غیرملکی کوچ ہی بہتر تھا'' یہ باتیں تشویشناک ہیں۔
صرف ایک سیریز کے بعد یہ سب کچھ ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ آئندہ کے حالات مزید خراب ہوں گے، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرفراز کی حالیہ کارکردگی اچھی نہیں لیکن یہ بھی تو دیکھیں دیگر کھلاڑیوں نے کیا کیا، اگر صرف پرفارمنس پر ٹیم کا انتخاب کرنا ہے تو آدھے سے زیادہ پلیئرز کو باہر کرنا ہوگا، آپ ٹیسٹ کی کپتانی سے انھیں ہٹا دیں اسکواڈ میں بھی نہ رکھیں مگر ٹی ٹوئنٹی سے باہر کرنے کی کوئی لاجک نہیں بنتی، پاکستان کو طویل عرصے بعد بابر اعظم کی صورت میں ایک ورلڈکلاس بیٹسمین ملا، ان میں ویرات کوہلی سے بڑا کھلاڑی بننے کی مکمل صلاحیت موجود ہے لیکن اب مجھے ڈر ہے کہ قبل از وقت کپتانی سنبھالنے سے کہیں ان کا کھیل متاثر نہ ہو جائے۔
یہ درست ہے کہ کوہلی بھارتی ٹیم کی قیادت کے ساتھ بہترین بیٹنگ بھی کر رہے ہیں مگر پاکستان کا معاملہ الگ ہے، کوہلی کا ٹیم کمبی نیشن زبردست اور انھیں بہترین کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہے، مگر ہمارے کئی کرکٹرز آؤٹ آف فارم ہیں لہذا بابر دہرے دباؤ کا شکار ہوں گے، قیادت کے ساتھ انھیں بیٹنگ میں بھی ٹیم کو سنبھالنا ہوگا، البتہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اصل کپتان مصباح الحق ہی ہوں گے جو باہر سے ہی معاملات سنبھالیں گے،ان کیلیے بابر کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا، سرفراز کو ایک، ایک سیریز کیلیے کپتان بنایا جاتا رہا مگر اب اظہر علی اور بابر اعظم کو طویل المدتی ذمہ داری دی گئی ہے،اس سے امتیازی سلوک واضح ہوگیا۔
ماضی کی طرح اس بار بھی سلیکشن کمیٹی میں ون مین شو ہے، اوسط درجے کے سابق کرکٹرز صوبائی کوچز کی صورت میں مصباح کے ساتھ بطور ڈمی موجود ہیں، جب تک کمیٹی میں ایک ہی لیول کے تین، چار سابق اسٹارز نہ ہوئے معاملات نہیں سلجھ سکتے، اب آسٹریلیا کا مشکل ترین دورہ سرپر ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید چند نئے کھلاڑیوں کو منتخب کر لیا جائے تاکہ خدانخواستہ اگر نتائج اچھے نہ رہے تو کہہ دیں کہ ''ٹیم تشکیل نو کے دور سے گذر رہی ہے، نوجوانوں کو تھوڑا وقت دیں'' اسی دوران ورلڈکپ بھی آ جائے گا۔
سری لنکا سے ہوم سیریزمیں جہاں ینگسٹرز کو آزمانا چاہیے تھا وہاں نہیں آزمایا اب آسٹریلیا لے جا کر قربانی کا بکرا بنایا جائے گا، پاکستان کرکٹ کے معاملات مجھے اچھے انداز میں چلتے دکھائی نہیں دے رہے، نئے بورڈ نے ایک سال میں بے تحاشا غلط فیصلے کیے ہیں، آگے بھی مسائل بڑھتے ہی دکھائی دے رہے ہیں اللہ خیر کرے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
''مصباح نے جب قومی ٹیم کے کوچ اور چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سنبھالی تم وہ تاریخ نوٹ کر لو،اس دن اور جب وہ عہدہ چھوڑے تب کی رینکنگ کا موازنہ کر لینا پتا چل جائے گا اس کی کیسی کارکردگی رہی، بورڈ کا یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہو گا اور ہاں سرفراز کو بتا دو اب وقار یونس اور مصباح کی پھر سے جوڑی بن گئی ہے اپنا سامان پیک کر لے''
سری لنکا سے سیریز کے دوران جب ایک سابق کرکٹر نے مجھ سے یہ کہا تو میرا جواب تھا کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نمبر ون ہے،لگاتار 11 سیریز جیتیں، ایک ایسی ٹیم کے کپتان کو بھلا کوئی کیوں ہٹائے گا، مگر پھرہوم گراؤنڈ میں ٹی ٹوئنٹی میچز کے دوران جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ایک بی ٹیم سے ہم تینوں میچز ہار گئے، عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے کھلاڑیوں کو زبردستی ٹیم میں شامل کر دیا گیا۔
سلیکشن میں اور بھی کئی غلطیاں ہوئیں مگر ملبہ صرف سرفراز پرگرا، مصباح کو صرف ایک موقع کی تلاش تھی جو انھیں مل گیا، مجھے ابھی ابھی انہی سابق کرکٹر کا ایک واٹس ایپ میسیج ملا جس پر صرف ایک مسکراہٹ والی ایموجی موجود ہے، میں دل سے چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں غلط ثابت ہوں لیکن ایسا لگتا ہے اب ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی تباہی کا آغاز ہو چکا ہے،مصباح جب کپتان تھے تو انھیں ٹھنڈے مزاج کا حامل قرار دیا جاتا تھا، پاکستان کو شکست ہو مگر تب بھی ان کی انفرادی کارکردگی بہتر رہتی لہذا وہ بچ جاتے تھے، البتہ اب حالات مختلف ہیں مصباح کے ہاتھ میں بیٹ موجود نہیں جس سے وہ خود کچھ کر سکیں، اب انھیں 11 دیگر افراد کے کھیل پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔
ویسے ہی بورڈ نے ان کو چیف سلیکٹر، کوچ، بیٹنگ کوچ وغیرہ وغیرہ کی ذمہ داری سونپ کرماہانہ 32 لاکھ روپے پوری طرح وصول کرنے کا پلان بنایا ہے، ساتھ ہی سی ای او وسیم خان یہ بھی کہہ چکے کہ اب مصباح ہی ہر معاملے میں جوابدہ ہوں گے، اسی لیے ایک سیریز میں شکست پر ہی ان کی ہوائیاں اڑ گئیں اور پینک بٹن دبا دیا، میڈیاکانفرنس میں انھوں نے جس انداز میں صحافیوں کو جوابات دیے وہ صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں، چند روز کے دوران ان کا سرفراز سے جو رویہ تھا وہی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہا تھا، ایک بار بھی ملاقات نہیں کی، پھر جب اچانک یہ خبریں آئیں کہ مصباح کھلاڑیوں اور کپتان سے ناخوش ہیں تو مجھے یقین ہوگیا کہ اب کوئی بڑا فیصلہ سامنے آنے والا ہے۔
سی ای او سے ملاقات میں جب مصباح نے کہا کہ انھیں نیا کپتان چاہیے تو میں نے خبر شائع کر دی، ایک ٹی وی چینل نے اسے بنیاد بناکر ٹکرز چلا دیے تو انھیں بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ سے فون آ گیا کہ ''ایسی کوئی بات نہیں کپتان سرفراز ہی رہیں گے''، مگر اب مذکورہ چینل کے میرے دوست صحافی کہہ رہے ہیں کہ ''آپ درست تھے''۔
مصباح نے نہ صرف قیادت میں تبدیلی کی بلکہ کھلاڑیوں کا اعتماد بھی خراب کر دیا، اب بیشتر اپنی پوزیشنز بچانے میں لگے ہوئے ہیں، کوچ کی مسلسل تنقید بھی انھیں پریشان کر رہی ہے، ٹیم کے واٹس ایپ گروپ میں ہر تھوڑی دیر بعد کوئی پیغام آ جاتا ہے، کھانے پینے میں حد سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے، ٹریننگ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کھلاڑی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں،اسی لیے عامر سہیل یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ''کیا پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ریسلنگ مقابلے یا اولمپکس کیلیے تیار کیا جا رہا ہے'' کئی کھلاڑیوں سے میری بات ہوئی وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ ''ہمیں اسکول کے بچوں کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے، مکی آرتھر کی بہت یاد آتی ہے، پاکستانی ٹیم کیلیے غیرملکی کوچ ہی بہتر تھا'' یہ باتیں تشویشناک ہیں۔
صرف ایک سیریز کے بعد یہ سب کچھ ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ آئندہ کے حالات مزید خراب ہوں گے، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرفراز کی حالیہ کارکردگی اچھی نہیں لیکن یہ بھی تو دیکھیں دیگر کھلاڑیوں نے کیا کیا، اگر صرف پرفارمنس پر ٹیم کا انتخاب کرنا ہے تو آدھے سے زیادہ پلیئرز کو باہر کرنا ہوگا، آپ ٹیسٹ کی کپتانی سے انھیں ہٹا دیں اسکواڈ میں بھی نہ رکھیں مگر ٹی ٹوئنٹی سے باہر کرنے کی کوئی لاجک نہیں بنتی، پاکستان کو طویل عرصے بعد بابر اعظم کی صورت میں ایک ورلڈکلاس بیٹسمین ملا، ان میں ویرات کوہلی سے بڑا کھلاڑی بننے کی مکمل صلاحیت موجود ہے لیکن اب مجھے ڈر ہے کہ قبل از وقت کپتانی سنبھالنے سے کہیں ان کا کھیل متاثر نہ ہو جائے۔
یہ درست ہے کہ کوہلی بھارتی ٹیم کی قیادت کے ساتھ بہترین بیٹنگ بھی کر رہے ہیں مگر پاکستان کا معاملہ الگ ہے، کوہلی کا ٹیم کمبی نیشن زبردست اور انھیں بہترین کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہے، مگر ہمارے کئی کرکٹرز آؤٹ آف فارم ہیں لہذا بابر دہرے دباؤ کا شکار ہوں گے، قیادت کے ساتھ انھیں بیٹنگ میں بھی ٹیم کو سنبھالنا ہوگا، البتہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اصل کپتان مصباح الحق ہی ہوں گے جو باہر سے ہی معاملات سنبھالیں گے،ان کیلیے بابر کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا، سرفراز کو ایک، ایک سیریز کیلیے کپتان بنایا جاتا رہا مگر اب اظہر علی اور بابر اعظم کو طویل المدتی ذمہ داری دی گئی ہے،اس سے امتیازی سلوک واضح ہوگیا۔
ماضی کی طرح اس بار بھی سلیکشن کمیٹی میں ون مین شو ہے، اوسط درجے کے سابق کرکٹرز صوبائی کوچز کی صورت میں مصباح کے ساتھ بطور ڈمی موجود ہیں، جب تک کمیٹی میں ایک ہی لیول کے تین، چار سابق اسٹارز نہ ہوئے معاملات نہیں سلجھ سکتے، اب آسٹریلیا کا مشکل ترین دورہ سرپر ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید چند نئے کھلاڑیوں کو منتخب کر لیا جائے تاکہ خدانخواستہ اگر نتائج اچھے نہ رہے تو کہہ دیں کہ ''ٹیم تشکیل نو کے دور سے گذر رہی ہے، نوجوانوں کو تھوڑا وقت دیں'' اسی دوران ورلڈکپ بھی آ جائے گا۔
سری لنکا سے ہوم سیریزمیں جہاں ینگسٹرز کو آزمانا چاہیے تھا وہاں نہیں آزمایا اب آسٹریلیا لے جا کر قربانی کا بکرا بنایا جائے گا، پاکستان کرکٹ کے معاملات مجھے اچھے انداز میں چلتے دکھائی نہیں دے رہے، نئے بورڈ نے ایک سال میں بے تحاشا غلط فیصلے کیے ہیں، آگے بھی مسائل بڑھتے ہی دکھائی دے رہے ہیں اللہ خیر کرے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)