تہرا قتل کیس پولیس کی روایتی بے حسی کے باعث مظلوم خاندان انصاف کو ترس گیا
تفتیش میں وقوعہ کا نقشہ ہی بدل دیا گیا،آئی جی کا نوٹس، کئی افسروں پر مقدمہ درج
بلاشبہ پولیس کے کئی جوانوں نے قربانیاںدے کر عوام کو پُرسکون اور جرائم سے پاک ماحول فراہم کرنے کی کوششیں کیں مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں پولیس کی قربانیوں کو قدر کی اس نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس کی یہ متقاضی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس قومی ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی، قوانین میں تبدیلی، میرٹ کی بالادستی، تربیت کی مناسب سہولتیں، آزاد ی عمل اور پوسٹنگ و ٹرانسفرز میں اشرافیہ اوربرسر اقتدار طبقات سے وہ آزادی حاصل نہیں ہو سکی جو کسی بھی جمہوری اور فلاحی معاشرے کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔
اگر ہر آفیسر نیک نیتی سے کام کر ے تو پولیس کلچر میں حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور پولیس عوام کا پسندیدہ ادارہ بن سکتا ہے، لیکن پولیس آفیسران کی سیاسی و سفارشی مجبوریوں کی وجہ سے معاشرہ میں سدھار آنے کے بجائے بگاڑ ہی آتا جا رہا ہے۔ پولیس اکثر و بیشترکئی جرائم کے مقدمات ہی درج نہیں کرتی اور اگر کرتی ہے تو ڈکیتی کی وارداتوں کا مقدمہ چوری کی دفعات کے تحت درج کردیتی ہے جبکہ قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش بھی سیاست، سفارش سے بالاتر ہو کر کرنے کے بجائے جانبداری کا مظاہرہ کرکے نئی دشمنیوں کی بنیاد رکھنے کا باعث بنتی ہے۔ پولیس کی اسی ناانصافی کا شکار ایک نہیں بلکہ ضلع گجرات کے تین خاندان بنے، جن کے 3جواں سالہ بیٹوں کو 6 ماہ قبل تہرے قتل کی واردات کے دوران دوسگے بھائیوں نے قتل کر دیا۔
قتل کی یہ واردات 11اپریل 2019ء کی شب نواحی گاؤں جنڈانوالہ میں رونما ہوئی، جہاںدونوں گھروں کے افراد کے بیرون ملک ہونے پر پیسے کی ریل پیل کے باعث ایک دوسرے پر سبقت لے جانے،گاؤں میں چودھراہٹ، رُعب قائم کرنے کے مقابلے کی سوچ پروان چڑھی، جس پر دو سگے بھائیوں نے اپنے ہی گاؤں کے تین دوستوں کو اس وقت اندھا دھند فائرنگ کر کے لمحوں میں ڈھیر کر دیا جب 26سالہ قاسم عباس کار ڈرائیوکرتے ہوئے اپنے دوستوں 24سالہ عثمان افضل اور 28سالہ محمد ارفاس کے ہمراہ گھر آرہا تھا کہ گلی کے آغاز پر ہی عدنان طارق نے بیرون ملک سے آئے اپنے بھائی سلیمان طارق کے ساتھ مل کر گاڑی پر فائرنگ کر دی، جس سے تینوں دوست مارے گئے جبکہ ملزم فرار ہو گئے۔
تھانہ صدر کھاریاں نے مقتول قاسم عباس کے ماموں محمد نواز کی مدعیت میں مختلف دفعات کے تحت دو ملزمان عدنان طارق اور سلیمان طارق کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ متاثرہ خاندانوں کے مطابق قتل ہونے والے تینوں نوجوانوں کے ورثاء کوپولیس نے انصاف کی فراہمی کی ایسی یقین دہانی کروائی کہ جائے وقوعہ کا نقشہ ہی بدل دیا گیا اور وقوعہ کو نیا رنگ دے دیا گیا کہ تینوں مقتولین ملزمان کے گھر میں گھس کر انہیں مارنے کیلئے آئے تھے، جہاں دونوں بھائیوںعدنان اور سلیمان نے اپنے دفاع میں اپنی کلاشنکوفوں سے فائرنگ کی، جس پر تینوں نوجوان جاں بحق ہو گئے۔
پولیس نے صرف یہی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے مدعیان اور مقدمہ کے گواہان کے بغیر تفتیش کا سارا مرحلہ مکمل کر کے مقدمہ سے اے ٹی اے کی دفعات ہی ختم کر ڈالیں، جس کا انکشاف مقتولین کے ورثاء کو ہوا تو انہوں نے تھانہ صدر کھاریاں کے ایس ایچ او ، تفتیشی آفیسر ارسلان چیمہ کی تفتیش پر عدم اطمینان کر اظہار کرتے ہوئے ایس پی انویسٹی گیشن غلام مصطفی گیلانی کو تفتیش تبدیل کرنے کی درخواست دی، جسے ناجانے کس مجبوری کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔
متاثرہ خاندانوں نے انصاف کیلئے آر پی او گوجرانوالہ ، سابق ڈی پی او کے دروازوں پر بھی دستکیں دیں مگر کچھ بن نہ پڑنے اور حالات کا ادراک ہونے پر متاثرہ خاندانوں نے آئی جی پنجاب کے سامنے پیش ہو کر انہیں روداد سنائی اور قاتلوں کے بعد ایس پی سمیت دیگر پولیس کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم و بے حسی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اعلیٰ سطحی انکوائری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی، جس پر ایڈیشنل آئی جی ملک ابو بکر خدا بخش نے جائے وقوعہ پر خود پہنچ کر مقتولین کے خاندان، علاقے کے لوگوںسے ملاقات کرکے شواہد اکٹھے کیے تو تفتیشی آفیسران کی سنگین غفلت سامنے آنے پر سابق ایس ایچ او سرفرازا نجم ، تفتیشی سب انسپکٹر ارسلان چیمہ کے خلاف مقدمہ درج کرواکے سب انسپکٹر ارسلان چیمہ کو گرفتار کر وا کر جیل یاترا کروادی گئی جبکہ سرفراز انجم نے عبوری ضمانت کروالی۔
کیس کی مزید تحقیقات کیلئے ڈی آئی جی کی نگرانی میں لاہور سے ٹیم نے 7مرتبہ دوبارہ جنڈانوالہ آکر انکوائری کی تو انصاف کا گلا گھونٹ کر اصل حقائق پوشید ہ رکھنے میں ایس پی انویسٹی گیشن غلام مصطفی گیلانی، ڈی ایس پی کھاریاں اسد اسحاق بھی مبینہ طور پر ملوث پائے گئے تو اے آئی جی ملک ابوبکر خدابخش نے انہیں شوکاز نوٹسز جاری کردئیے اور پہلی مرتبہ کسی ضلع میںاڑھائی ماہ قبل بطور ڈی پی اوگجرات تعینات ہونیوالے سید توصیف حیدر کو تمام تر حالات پر نظر رکھنے کی ہدایات کر دیں۔
جنڈانوالہ کے اس تہرے قتل کے مقدمہ میں جانبداری کا مظاہر ہ کرنیکا پنجاب پولیس کے آفیسران کا یہ کوئی اکلوتا مقدمہ نہیں بلکہ ایسے رویہ اختیار کرنیوالے آفیسران کی کارکردگی کو لمحہ بہ لمحہ آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی پنجاب ،آر پی او گوجرانوالہ کو بھی اپنے تجربہ کی نظر سے دیکھنا ہو گا اور ایسی مثال قائم کرنا ہوگی کہ انصاف کی تلوار صرف نچلے تفتیشی آفیسر تک ہی نہیں بلکہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنیوالے اعلیٰ سطحی آفیسران پر بھی چلے تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی ناانصافی کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
ڈی پی اوگجرات سید توصیف حیدر کو سنگین مقدمات کی تفتیش ا ور ان کی اجازت کے بغیر ضلع کے تھانوں میں مقدمات کے اندراج کے احکامات جاری کرنیوالے آفیسران کی مانیٹرنگ کر کے ان کی طرف سے لگائے جانیوالے دھبوں سے اپنی وردی کو محفوظ رکھنے کیلئے خود سارے عمل کو دیکھنا ہوگا اور مزید کئی خاندانوں کو اس ناانصافی کی چکی میں پس جانے سے بچانا ہوگا۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونیوالے افسران جن کے اندر نہ تو لیڈ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نہ ہی انصاف کرنے کی ہمت، وہ صرف اپنے سیاسی آقاؤں کے احکامات کو سرکار کے آرڈرز سے زیادہ معتبرسمجھتے ہوئے سیاسی وابستگی کو ہی اپنی ترقی کا زینہ بناتے ہیں اور اسی کرداریا رویہ کی وجہ سے لوگ پولیس سے خوفزدہ اور نالاں رہتے ہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایڈیشنل آئی جی ملک ابو بکر خدابخش کی طرح ہر پولیس افسر خود کو عوام کا حقیقی محافظ تصور کرے، کیوں کہ تھانہ کلچر اور نتیجتاً معاشرہ میں مثبت تبدیلی کیلئے یہ ناگزیر ہے۔
اگر ہر آفیسر نیک نیتی سے کام کر ے تو پولیس کلچر میں حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور پولیس عوام کا پسندیدہ ادارہ بن سکتا ہے، لیکن پولیس آفیسران کی سیاسی و سفارشی مجبوریوں کی وجہ سے معاشرہ میں سدھار آنے کے بجائے بگاڑ ہی آتا جا رہا ہے۔ پولیس اکثر و بیشترکئی جرائم کے مقدمات ہی درج نہیں کرتی اور اگر کرتی ہے تو ڈکیتی کی وارداتوں کا مقدمہ چوری کی دفعات کے تحت درج کردیتی ہے جبکہ قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش بھی سیاست، سفارش سے بالاتر ہو کر کرنے کے بجائے جانبداری کا مظاہرہ کرکے نئی دشمنیوں کی بنیاد رکھنے کا باعث بنتی ہے۔ پولیس کی اسی ناانصافی کا شکار ایک نہیں بلکہ ضلع گجرات کے تین خاندان بنے، جن کے 3جواں سالہ بیٹوں کو 6 ماہ قبل تہرے قتل کی واردات کے دوران دوسگے بھائیوں نے قتل کر دیا۔
قتل کی یہ واردات 11اپریل 2019ء کی شب نواحی گاؤں جنڈانوالہ میں رونما ہوئی، جہاںدونوں گھروں کے افراد کے بیرون ملک ہونے پر پیسے کی ریل پیل کے باعث ایک دوسرے پر سبقت لے جانے،گاؤں میں چودھراہٹ، رُعب قائم کرنے کے مقابلے کی سوچ پروان چڑھی، جس پر دو سگے بھائیوں نے اپنے ہی گاؤں کے تین دوستوں کو اس وقت اندھا دھند فائرنگ کر کے لمحوں میں ڈھیر کر دیا جب 26سالہ قاسم عباس کار ڈرائیوکرتے ہوئے اپنے دوستوں 24سالہ عثمان افضل اور 28سالہ محمد ارفاس کے ہمراہ گھر آرہا تھا کہ گلی کے آغاز پر ہی عدنان طارق نے بیرون ملک سے آئے اپنے بھائی سلیمان طارق کے ساتھ مل کر گاڑی پر فائرنگ کر دی، جس سے تینوں دوست مارے گئے جبکہ ملزم فرار ہو گئے۔
تھانہ صدر کھاریاں نے مقتول قاسم عباس کے ماموں محمد نواز کی مدعیت میں مختلف دفعات کے تحت دو ملزمان عدنان طارق اور سلیمان طارق کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ متاثرہ خاندانوں کے مطابق قتل ہونے والے تینوں نوجوانوں کے ورثاء کوپولیس نے انصاف کی فراہمی کی ایسی یقین دہانی کروائی کہ جائے وقوعہ کا نقشہ ہی بدل دیا گیا اور وقوعہ کو نیا رنگ دے دیا گیا کہ تینوں مقتولین ملزمان کے گھر میں گھس کر انہیں مارنے کیلئے آئے تھے، جہاں دونوں بھائیوںعدنان اور سلیمان نے اپنے دفاع میں اپنی کلاشنکوفوں سے فائرنگ کی، جس پر تینوں نوجوان جاں بحق ہو گئے۔
پولیس نے صرف یہی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے مدعیان اور مقدمہ کے گواہان کے بغیر تفتیش کا سارا مرحلہ مکمل کر کے مقدمہ سے اے ٹی اے کی دفعات ہی ختم کر ڈالیں، جس کا انکشاف مقتولین کے ورثاء کو ہوا تو انہوں نے تھانہ صدر کھاریاں کے ایس ایچ او ، تفتیشی آفیسر ارسلان چیمہ کی تفتیش پر عدم اطمینان کر اظہار کرتے ہوئے ایس پی انویسٹی گیشن غلام مصطفی گیلانی کو تفتیش تبدیل کرنے کی درخواست دی، جسے ناجانے کس مجبوری کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔
متاثرہ خاندانوں نے انصاف کیلئے آر پی او گوجرانوالہ ، سابق ڈی پی او کے دروازوں پر بھی دستکیں دیں مگر کچھ بن نہ پڑنے اور حالات کا ادراک ہونے پر متاثرہ خاندانوں نے آئی جی پنجاب کے سامنے پیش ہو کر انہیں روداد سنائی اور قاتلوں کے بعد ایس پی سمیت دیگر پولیس کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم و بے حسی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اعلیٰ سطحی انکوائری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی، جس پر ایڈیشنل آئی جی ملک ابو بکر خدا بخش نے جائے وقوعہ پر خود پہنچ کر مقتولین کے خاندان، علاقے کے لوگوںسے ملاقات کرکے شواہد اکٹھے کیے تو تفتیشی آفیسران کی سنگین غفلت سامنے آنے پر سابق ایس ایچ او سرفرازا نجم ، تفتیشی سب انسپکٹر ارسلان چیمہ کے خلاف مقدمہ درج کرواکے سب انسپکٹر ارسلان چیمہ کو گرفتار کر وا کر جیل یاترا کروادی گئی جبکہ سرفراز انجم نے عبوری ضمانت کروالی۔
کیس کی مزید تحقیقات کیلئے ڈی آئی جی کی نگرانی میں لاہور سے ٹیم نے 7مرتبہ دوبارہ جنڈانوالہ آکر انکوائری کی تو انصاف کا گلا گھونٹ کر اصل حقائق پوشید ہ رکھنے میں ایس پی انویسٹی گیشن غلام مصطفی گیلانی، ڈی ایس پی کھاریاں اسد اسحاق بھی مبینہ طور پر ملوث پائے گئے تو اے آئی جی ملک ابوبکر خدابخش نے انہیں شوکاز نوٹسز جاری کردئیے اور پہلی مرتبہ کسی ضلع میںاڑھائی ماہ قبل بطور ڈی پی اوگجرات تعینات ہونیوالے سید توصیف حیدر کو تمام تر حالات پر نظر رکھنے کی ہدایات کر دیں۔
جنڈانوالہ کے اس تہرے قتل کے مقدمہ میں جانبداری کا مظاہر ہ کرنیکا پنجاب پولیس کے آفیسران کا یہ کوئی اکلوتا مقدمہ نہیں بلکہ ایسے رویہ اختیار کرنیوالے آفیسران کی کارکردگی کو لمحہ بہ لمحہ آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی پنجاب ،آر پی او گوجرانوالہ کو بھی اپنے تجربہ کی نظر سے دیکھنا ہو گا اور ایسی مثال قائم کرنا ہوگی کہ انصاف کی تلوار صرف نچلے تفتیشی آفیسر تک ہی نہیں بلکہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنیوالے اعلیٰ سطحی آفیسران پر بھی چلے تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی ناانصافی کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
ڈی پی اوگجرات سید توصیف حیدر کو سنگین مقدمات کی تفتیش ا ور ان کی اجازت کے بغیر ضلع کے تھانوں میں مقدمات کے اندراج کے احکامات جاری کرنیوالے آفیسران کی مانیٹرنگ کر کے ان کی طرف سے لگائے جانیوالے دھبوں سے اپنی وردی کو محفوظ رکھنے کیلئے خود سارے عمل کو دیکھنا ہوگا اور مزید کئی خاندانوں کو اس ناانصافی کی چکی میں پس جانے سے بچانا ہوگا۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونیوالے افسران جن کے اندر نہ تو لیڈ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نہ ہی انصاف کرنے کی ہمت، وہ صرف اپنے سیاسی آقاؤں کے احکامات کو سرکار کے آرڈرز سے زیادہ معتبرسمجھتے ہوئے سیاسی وابستگی کو ہی اپنی ترقی کا زینہ بناتے ہیں اور اسی کرداریا رویہ کی وجہ سے لوگ پولیس سے خوفزدہ اور نالاں رہتے ہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایڈیشنل آئی جی ملک ابو بکر خدابخش کی طرح ہر پولیس افسر خود کو عوام کا حقیقی محافظ تصور کرے، کیوں کہ تھانہ کلچر اور نتیجتاً معاشرہ میں مثبت تبدیلی کیلئے یہ ناگزیر ہے۔