کبھی غیرت کبھی خودی بیچی
ایک گاؤں میں ایک ساہوکار کے گھر سے متصل ایک مزدور کا گھر تھا ساہوکار کے گھر میں ہمیشہ دال سبزی پکتی تھی
گھر میں جو چیز مل گئی بیچی ۔۔۔ چند سانسیں خریدنے کے لیے ۔۔۔ ہم نے ہر بار زندگی بیچی اور کچھ کیا بھی کیا جا سکتا ہے، جب گھر میں بیچنے کے لیے اور کوئی بچا ہی نہیں ہو، ڈاکو سارا مال متاع اٹھا کر لے جا چکے ہوں بقول غالبؔ
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کو جو تھا جل گیا
یہ ہم کسی اور کی نہیں اس گھر کی بات کر رہے ہیں جو اس زمین کی سطح پر واحد خانۂ انوریؔ کہلایا جا سکتا ہے بلکہ اسے چیونٹیوں کا گھر بھی کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں پشتو کہاوت ہے کہ چیونٹی کا گھر کبھی ''ماتم'' سے خالی نہیں ہوتا، کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی چیونٹی کے مرگ مفاجات کی خبر تو آ چکی ہوتی ہے کہ فلاں جگہ اتنی چیونٹیوں کو کسی نے روند دیا ہے، فلاں جگہ اتنی چیونٹیاں پرندوں کا شکار بن گئیں، اتنی پانی میں بہہ گئیں اور اتنی کسی گاڑی نے کچل دی ہیں، اتنی گھائل ہوئیں،
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
سنا ہے آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو پابند کیا ہوا ہے کہ روزنامہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر وہ اپنا ہر حساب کتاب لے کر حاضر ہو ورنہ ''دودھ'' نہیں بخشا جائے گا، ہمیں ان دنوں کسی ماہر لغت کی تلاش ہے کہ وہ ذرا ہمیں ''آزادی'' کے معنی سمجھا دے کیونکہ جو معنی ہمیں بتائے گئے تھے، ان میں اور نئے معنوں میں جو آئی ایم ایف کی طرف سے لاگو ہوئے ہیں، بڑا فرق پیدا ہو گیا ہے، صرف ماہر لغت ہی کیا ہمیں کسی ماہر اقبالیات کی بھی تلاش ہے کیونکہ علامہ کے کئی شعروں کے معنی اتھل پتھل ہو گئے ہیں ،
اے طائر لاہوتی ۔۔۔ خودی کو کر بلند اتنا ۔۔۔ اس رزق سے موت اچھی ۔۔۔ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے ۔۔۔ نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے ۔۔۔ جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ۔۔۔۔ اپنی خودی پہچان اور غافل افغان اور پاکستان وغیرہ ۔۔۔ ویسے ایک ماہر ہمیں مل گیا تھا لیکن وہ صرف ایک شعر کی تشریح کر سکا،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر ''تحریر'' سے پہلے
آئی ایم ایف یہ پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مزے کی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے حساب تو لیتا ہے بجلی کے گیس کے پٹرولیم کے نرخ بھی وہ طے کرتا ہے حتیٰ کہ شاید کھانے کا مینو بھی وہی بنا کر دیتا ہے، لیکن یہ کبھی نہیں پوچھتا کہ انکم سپورٹ اسکیموں، وزیر اعظم کی اسکیموں، غلط سلط ترقیاتی اسکیموں پر یہ کھربوں روپے کیوں خرچ کر رہے ہو ۔۔۔ لیکن یہ کوئی لاینحل معمہ نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ایک سوچا سمجھا رویہ ہے، ساہوکار سے قرضہ لے کر اگر کوئی اسے صحیح جگہ پر لگائے اور اڑانے کے بجائے اس سے کوئی نفع بخش کام لینا شروع کرے تو ساہوکار کا تو بھٹہ ہی بیٹھ جائے، ہر ایرے غیرے نتھو خیرے ساہوکار کی رقم سے نفع بخش کاروبار شروع کر کے منافع کمانے لگے گا اور کچھ ہی عرصے میں نہ صرف ساہوکار کا قرضہ مع سود کے اس کے منہ پر مار دے اور اس کے مقابلے میں اپنا دھندہ چالو کر دے گا، اس طرح دھیرے دھیرے سارے قرضہ لینے والے اس کے ہاتھ سے نکلتے جائیں گے اور بے چارا ساہوکار اپنے پھٹے پر یکہ و تنہا بیٹھا مکھیاں مارنے لگے گا، یہ تو اپنے پیسوں سے اپنے لیے دشمن خریدنے والی بات ہوئی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے بجائے اپنے پیر آرہ مشین میں دینے والا دھندہ ہے جو کم از کم کوئی ساہوکار ایسا دھندہ کبھی نہیں کرے گا، گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو بھوکوں مر جائے گا
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ساہوکار کم از کم اپنے کام میں کبھی کوئی غلطی نہیں کرتا، کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ آئی ایم ایف یا اس طرح کے دوسرے ساہوکار کیا ہمارے سگے والے ہوتے ہیں، کیا وہ ہمارے چچیرے، ممیرے اور خلیرے ہوتے ہیں یا انھوں نے بین الاقوامی لنگر خانہ کھول رکھا ہے وہاں سے ڈالر لے کر ہمارے غم میں آ کر برابر کے بلکہ کچھ زیادہ ہی شریک ہو جاتے ہیں، وہ کسی غم میں ''شریک'' نہیں ہوتے بلکہ اپنی دارو بیچتے ہوئے ہمارے ''شریک'' بن جاتے ہیں، وہی شریک جو اصل میں ''شر ۔۔۔ یک'' ہوتے ہیں، کیا پاکستان بین الاقوامی سید زادہ یا پیر زادہ یا اخوند زادہ ہے جو وہ ان کو ''ہدیے'' پیش کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔۔۔ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
ایک گاؤں میں ایک ساہوکار کے گھر سے متصل ایک مزدور کا گھر تھا ساہوکار کے گھر میں ہمیشہ دال سبزی پکتی تھی لیکن پڑوس والے مزدور کے گھر سے روزانہ ''تڑکے بگھار کی چسا چس سنائی دیتی تھی اور طرح طرح کی اشتہا انگیز خوش بوئیں پھیلتی رہتی تھیں کیوں کہ مزدو جو کچھ کما لیتا تھا اسے دست بدست خرچ کر کے اڑا دیتا تھا، ساہوکار کی بیوی ہر روز شوہر کو جلی کٹی سناتی تھی کہ اس مزدور کو دیکھو روزانہ کی دیہاڑی میں یہ مزے کر رہا ہے اور یہاں ہمارے پاس لاکھوں روپے ہیں لیکن بے مزہ کھانے اپنی زندگی کو بے مزہ کیے ہوئے ہیں، تنگ آ کر ساہوکار نے کہا ابھی کچھ دن صبر کرو دیکھنا میں کیا کرتا ہوں، چنانچہ اس نے کچھ روپے پوٹلی میں باندھے اور ایک دن مزدور کے راستے میں گرا دیے مزدور نے روپے دیکھے تو واپس گھر چلا گیا اور روپے بیوی کو دیے اور مزدوری کرنے چلا گیا اس دن تو وہ حسب معمول اللے تللے کر گیا لیکن رات کو روپے گنے تو خیال آیا کہ کیوں نہ ان میں اضافہ کر دوں اس کے بعد چسکے لسکے گئے اور حتی الوسع جمع کرنے میں گیا اس کے بعد کبھی اس کے گھر سے خوشبوئیں نہیں اٹھیں
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اس کہانی میں جو کچھ ہوا اس کہانی کے جدید ایڈیشن میں ویسا نہیں ہوا کیونکہ ساہوکار پرانے زمانے کا تھا، اپنی تدبیر سے اس نے اپنے لیے رقیب پیدا کیا تھا، لیکن آئی ایم ایف نامی ساہوکار ویسے ہی خود رو ساہوکار نہیں ہے بلکہ جدید علوم و فنون سے لیس نہایت ہی ماہر اور شاطر ساہوکار ہے اس نے ''مزدور'' کے آگے پوٹلی تو پھینکی لیکن اس مقام پر پھینکی جہاں سامنے ہی جوا خانہ اور شراب خانہ تھا چنانچہ مزدور نے سوچا مفت کی رقم ہے، چلو آج ذرا قست آزمائیں، ظاہر ہے کہ قسمت تو اس کی وہی تھی جو اپنے ساتھ لکھوا کر لایا تھا چنانچہ سارا اندوختہ ہار گیا، باہر نکلا تو کھیسے میں مال تو نہیں تھا لیکن دماغ میں جوئے کا خیال باقاعدہ جڑیں پھیلا کر بیٹھ گیا تھا، اس کے بعد وہ کچھ عرصے تو مزدوری کر کے آدھی رقم سے جوا کھیلتا رہا، پھر پوری رقم ہارنے لگا اور آخر میں جب ہوش آیا تو ایک بھاری قرضہ اپنے اوپر چڑھا چکا تھا، ظاہر ہے کہ اتنا بھاری قرضہ مزدوری سے تو نہیں چکایا جا سکتا تھا چنانچہ گھر کے اثاثے کو چپکے چپکے بیوی کی نظریں بچا کر بیچنے لگا، بے چاری بیوی پاکستانی عوام کی طرح اللہ میاں کی گائے تھی، شوہر کو مجازی شوہر مان کر سب کچھ دیتی رہی، زیورات سامان کھاٹ پلنگ سب کچھ دے چکی تو یہاں وہاں کے رشتہ داروں اور مائیکے والوں سے بھی مانگ تانگ کرنے لگی، لیکن اس نادان فرماں بردار اور وفا دار بیوی کو معلوم ہی نہ تھا کہ شوہر گھر بھی گروی رکھ چکا ہے اور اپنے اوپر اتنا قرضہ چڑھا چکا ہے کہ اس کے بچے اور پھر ان بچوں کے بچے بھی ادا نہیں کر پائیں گے،
قرض کی پیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہاں وہ ماہر لغت کی بات تو رہ گئی، ہمیں ایک ایسے ماہر لغت کی ضرورت ہے جو ہماری لغت کو اپ ٹو ڈیٹ کر دے کیونکہ بہت سارے الفاظ کے معنی اب آئوٹ ڈیٹ ہو چکے ہیں، خودی اور آزادی کا تو ہم نے بتا دیا لیکن کچھ اور الفاظ بھی تشریح طلب ہیں، ان میں سرفہرست تو محفوظ ہاتھ اور ''مضبوط ہاتھ'' ہیں، سنا ہے پاکستان محفوظ ہاتھوں میں بھی ہے اور مضبوط ہاتھوں میں بھی ۔۔۔ سمجھ میں ہماری اس لیے نہیں آتا کہ ہم تو صرف دو ہاتھوں کو جانتے ہیں ایک اوپر والا ہاتھ اور ایک نیچے والا ہاتھ جن میں سے سنا جاتا ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ اچھا ہوتا ہے، اب معلوم صرف یہ کرنا ہے کہ پاکستان ان دنوں میں سے کس ہاتھ میں ہے، اوپر والے ہاتھوں میں یا نیچے والے ہاتھوں ۔۔۔۔ مضبوطی اور محفوظی تو خیر ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کو جو تھا جل گیا
یہ ہم کسی اور کی نہیں اس گھر کی بات کر رہے ہیں جو اس زمین کی سطح پر واحد خانۂ انوریؔ کہلایا جا سکتا ہے بلکہ اسے چیونٹیوں کا گھر بھی کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں پشتو کہاوت ہے کہ چیونٹی کا گھر کبھی ''ماتم'' سے خالی نہیں ہوتا، کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی چیونٹی کے مرگ مفاجات کی خبر تو آ چکی ہوتی ہے کہ فلاں جگہ اتنی چیونٹیوں کو کسی نے روند دیا ہے، فلاں جگہ اتنی چیونٹیاں پرندوں کا شکار بن گئیں، اتنی پانی میں بہہ گئیں اور اتنی کسی گاڑی نے کچل دی ہیں، اتنی گھائل ہوئیں،
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
سنا ہے آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو پابند کیا ہوا ہے کہ روزنامہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر وہ اپنا ہر حساب کتاب لے کر حاضر ہو ورنہ ''دودھ'' نہیں بخشا جائے گا، ہمیں ان دنوں کسی ماہر لغت کی تلاش ہے کہ وہ ذرا ہمیں ''آزادی'' کے معنی سمجھا دے کیونکہ جو معنی ہمیں بتائے گئے تھے، ان میں اور نئے معنوں میں جو آئی ایم ایف کی طرف سے لاگو ہوئے ہیں، بڑا فرق پیدا ہو گیا ہے، صرف ماہر لغت ہی کیا ہمیں کسی ماہر اقبالیات کی بھی تلاش ہے کیونکہ علامہ کے کئی شعروں کے معنی اتھل پتھل ہو گئے ہیں ،
اے طائر لاہوتی ۔۔۔ خودی کو کر بلند اتنا ۔۔۔ اس رزق سے موت اچھی ۔۔۔ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے ۔۔۔ نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے ۔۔۔ جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ۔۔۔۔ اپنی خودی پہچان اور غافل افغان اور پاکستان وغیرہ ۔۔۔ ویسے ایک ماہر ہمیں مل گیا تھا لیکن وہ صرف ایک شعر کی تشریح کر سکا،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر ''تحریر'' سے پہلے
آئی ایم ایف یہ پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مزے کی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے حساب تو لیتا ہے بجلی کے گیس کے پٹرولیم کے نرخ بھی وہ طے کرتا ہے حتیٰ کہ شاید کھانے کا مینو بھی وہی بنا کر دیتا ہے، لیکن یہ کبھی نہیں پوچھتا کہ انکم سپورٹ اسکیموں، وزیر اعظم کی اسکیموں، غلط سلط ترقیاتی اسکیموں پر یہ کھربوں روپے کیوں خرچ کر رہے ہو ۔۔۔ لیکن یہ کوئی لاینحل معمہ نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ایک سوچا سمجھا رویہ ہے، ساہوکار سے قرضہ لے کر اگر کوئی اسے صحیح جگہ پر لگائے اور اڑانے کے بجائے اس سے کوئی نفع بخش کام لینا شروع کرے تو ساہوکار کا تو بھٹہ ہی بیٹھ جائے، ہر ایرے غیرے نتھو خیرے ساہوکار کی رقم سے نفع بخش کاروبار شروع کر کے منافع کمانے لگے گا اور کچھ ہی عرصے میں نہ صرف ساہوکار کا قرضہ مع سود کے اس کے منہ پر مار دے اور اس کے مقابلے میں اپنا دھندہ چالو کر دے گا، اس طرح دھیرے دھیرے سارے قرضہ لینے والے اس کے ہاتھ سے نکلتے جائیں گے اور بے چارا ساہوکار اپنے پھٹے پر یکہ و تنہا بیٹھا مکھیاں مارنے لگے گا، یہ تو اپنے پیسوں سے اپنے لیے دشمن خریدنے والی بات ہوئی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے بجائے اپنے پیر آرہ مشین میں دینے والا دھندہ ہے جو کم از کم کوئی ساہوکار ایسا دھندہ کبھی نہیں کرے گا، گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو بھوکوں مر جائے گا
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ساہوکار کم از کم اپنے کام میں کبھی کوئی غلطی نہیں کرتا، کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ آئی ایم ایف یا اس طرح کے دوسرے ساہوکار کیا ہمارے سگے والے ہوتے ہیں، کیا وہ ہمارے چچیرے، ممیرے اور خلیرے ہوتے ہیں یا انھوں نے بین الاقوامی لنگر خانہ کھول رکھا ہے وہاں سے ڈالر لے کر ہمارے غم میں آ کر برابر کے بلکہ کچھ زیادہ ہی شریک ہو جاتے ہیں، وہ کسی غم میں ''شریک'' نہیں ہوتے بلکہ اپنی دارو بیچتے ہوئے ہمارے ''شریک'' بن جاتے ہیں، وہی شریک جو اصل میں ''شر ۔۔۔ یک'' ہوتے ہیں، کیا پاکستان بین الاقوامی سید زادہ یا پیر زادہ یا اخوند زادہ ہے جو وہ ان کو ''ہدیے'' پیش کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔۔۔ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
ایک گاؤں میں ایک ساہوکار کے گھر سے متصل ایک مزدور کا گھر تھا ساہوکار کے گھر میں ہمیشہ دال سبزی پکتی تھی لیکن پڑوس والے مزدور کے گھر سے روزانہ ''تڑکے بگھار کی چسا چس سنائی دیتی تھی اور طرح طرح کی اشتہا انگیز خوش بوئیں پھیلتی رہتی تھیں کیوں کہ مزدو جو کچھ کما لیتا تھا اسے دست بدست خرچ کر کے اڑا دیتا تھا، ساہوکار کی بیوی ہر روز شوہر کو جلی کٹی سناتی تھی کہ اس مزدور کو دیکھو روزانہ کی دیہاڑی میں یہ مزے کر رہا ہے اور یہاں ہمارے پاس لاکھوں روپے ہیں لیکن بے مزہ کھانے اپنی زندگی کو بے مزہ کیے ہوئے ہیں، تنگ آ کر ساہوکار نے کہا ابھی کچھ دن صبر کرو دیکھنا میں کیا کرتا ہوں، چنانچہ اس نے کچھ روپے پوٹلی میں باندھے اور ایک دن مزدور کے راستے میں گرا دیے مزدور نے روپے دیکھے تو واپس گھر چلا گیا اور روپے بیوی کو دیے اور مزدوری کرنے چلا گیا اس دن تو وہ حسب معمول اللے تللے کر گیا لیکن رات کو روپے گنے تو خیال آیا کہ کیوں نہ ان میں اضافہ کر دوں اس کے بعد چسکے لسکے گئے اور حتی الوسع جمع کرنے میں گیا اس کے بعد کبھی اس کے گھر سے خوشبوئیں نہیں اٹھیں
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اس کہانی میں جو کچھ ہوا اس کہانی کے جدید ایڈیشن میں ویسا نہیں ہوا کیونکہ ساہوکار پرانے زمانے کا تھا، اپنی تدبیر سے اس نے اپنے لیے رقیب پیدا کیا تھا، لیکن آئی ایم ایف نامی ساہوکار ویسے ہی خود رو ساہوکار نہیں ہے بلکہ جدید علوم و فنون سے لیس نہایت ہی ماہر اور شاطر ساہوکار ہے اس نے ''مزدور'' کے آگے پوٹلی تو پھینکی لیکن اس مقام پر پھینکی جہاں سامنے ہی جوا خانہ اور شراب خانہ تھا چنانچہ مزدور نے سوچا مفت کی رقم ہے، چلو آج ذرا قست آزمائیں، ظاہر ہے کہ قسمت تو اس کی وہی تھی جو اپنے ساتھ لکھوا کر لایا تھا چنانچہ سارا اندوختہ ہار گیا، باہر نکلا تو کھیسے میں مال تو نہیں تھا لیکن دماغ میں جوئے کا خیال باقاعدہ جڑیں پھیلا کر بیٹھ گیا تھا، اس کے بعد وہ کچھ عرصے تو مزدوری کر کے آدھی رقم سے جوا کھیلتا رہا، پھر پوری رقم ہارنے لگا اور آخر میں جب ہوش آیا تو ایک بھاری قرضہ اپنے اوپر چڑھا چکا تھا، ظاہر ہے کہ اتنا بھاری قرضہ مزدوری سے تو نہیں چکایا جا سکتا تھا چنانچہ گھر کے اثاثے کو چپکے چپکے بیوی کی نظریں بچا کر بیچنے لگا، بے چاری بیوی پاکستانی عوام کی طرح اللہ میاں کی گائے تھی، شوہر کو مجازی شوہر مان کر سب کچھ دیتی رہی، زیورات سامان کھاٹ پلنگ سب کچھ دے چکی تو یہاں وہاں کے رشتہ داروں اور مائیکے والوں سے بھی مانگ تانگ کرنے لگی، لیکن اس نادان فرماں بردار اور وفا دار بیوی کو معلوم ہی نہ تھا کہ شوہر گھر بھی گروی رکھ چکا ہے اور اپنے اوپر اتنا قرضہ چڑھا چکا ہے کہ اس کے بچے اور پھر ان بچوں کے بچے بھی ادا نہیں کر پائیں گے،
قرض کی پیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہاں وہ ماہر لغت کی بات تو رہ گئی، ہمیں ایک ایسے ماہر لغت کی ضرورت ہے جو ہماری لغت کو اپ ٹو ڈیٹ کر دے کیونکہ بہت سارے الفاظ کے معنی اب آئوٹ ڈیٹ ہو چکے ہیں، خودی اور آزادی کا تو ہم نے بتا دیا لیکن کچھ اور الفاظ بھی تشریح طلب ہیں، ان میں سرفہرست تو محفوظ ہاتھ اور ''مضبوط ہاتھ'' ہیں، سنا ہے پاکستان محفوظ ہاتھوں میں بھی ہے اور مضبوط ہاتھوں میں بھی ۔۔۔ سمجھ میں ہماری اس لیے نہیں آتا کہ ہم تو صرف دو ہاتھوں کو جانتے ہیں ایک اوپر والا ہاتھ اور ایک نیچے والا ہاتھ جن میں سے سنا جاتا ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ اچھا ہوتا ہے، اب معلوم صرف یہ کرنا ہے کہ پاکستان ان دنوں میں سے کس ہاتھ میں ہے، اوپر والے ہاتھوں میں یا نیچے والے ہاتھوں ۔۔۔۔ مضبوطی اور محفوظی تو خیر ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔