سانحہ بلدیہ ٹاؤن کراچی کو ایک برس بیت گیا پولیس ذمے داروں کے تعین میں تاحال ناکام

کسی نے سانحے کی ذمے داری قبول نہیں کی، فیکٹری مالکان نے فائربریگیڈ کی تاخیر کارونارویا، فائربریگیڈ کے عملے نے شارٹ۔۔۔

کراچی: 11 ستمبر 2012 کو ہولناک آگ سے متاثرہ فیکٹری کی عمارت میں امدادی کام کا ایک منظر. فوٹو: اے ایف پی/فائل

11 ستمبر 2012 شام 6 بجے کراچی کے علاقے سائٹ میںواقع علی انٹر پرائز گارمنٹس فیکٹری میںآتشزدگی کے افسوس ناک سانحے میں فیکٹری انتظامیہ کی غفلت کے باعث259 محنت کش زندہ جل کے ہلاک ہوگئے تھے جس میں درجنوں خواتین بھی شامل تھیں۔

سیکڑوںمزدور شدیدزخمی اور10 سے زائدمزدور جنھوں نے جان بچانے کے لیے بالائی منزل سے چھلانگ لگادی تھی، معذور ہوگئے تھے لیکن کسی نے بھی سانحے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ فیکٹری مالکان نے فائربریگیڈ کی تاخیر کا رونا رویا، فائر بریگیڈ کے عملے نے شارٹ سرکٹ قرار دیا جبکہ الیکٹرک انسپکٹر نے رپورٹ میں یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ فیکٹری کے اندر 210KW بجلی کی اجازت تھی جبکہ 318KW بجلی کی مقداراستعمال ہورہی تھی اور ممکن ہے کہ الیکٹرک وائرز پر زیادہ لوڈ پڑنے کی وجہ سے آگ لگی ہو، جبکہ اس نے کبھی فیکٹری کا دورہ نہیں کیا تھا۔ سانحے کو ایک برس بیت گیا لیکن ذمے داروں کو بے نقاب کرنے میں پولیس تاحال ناکام ہے۔

پولیس نے مفرور ملزم شاہ رخ کو گرفتار نہیں کیا جس نے فیکٹری کے تمام خارجی اور داخلی دروازوں کو تالا لگادیا تھا جس کی وجہ سے مزدور فیکٹری سے نہ نکل سکے۔ پولیس کی جانب سے ملزمان کو متعدد بار بچانے کی کوشش کی گئی لیکن عدالت اور سرکاری وکلا کی مداخلت نے پولیس کو غیر قانونی اقدام سے روکے رکھا۔ 259 مزدورں کے قتل میں نامزد تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں لیکن سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندان کے افراد کا کوئی پرسان حال نہیں۔ واقعے کی شام فیکٹری کے مالکان شاہد بھائلہ، ارشد بھائلہ اور جنرل منیجر منصور موقع پر موجود تھے لیکن انھوں نے فوری طور پر فائر بریگیڈ کو طلب نہیں کیا، نہ ہی گودام کے قریب پہلی منزل جانے والی سیڑھی کا آہنی دروازہ کھولا۔ پڑوسی پلاٹ کے مالک شاہد نامی شخص نے فائر بریگیڈ کو مطلع کیا جبکہ مالکان اپنا سامان بچانے میں مصروف رہے اور مزدورں کو زندہ جلتے ہوئے بے سہارا چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔




آگ پر 48 گھنٹے بعد قابو پایا گیا، اس دوران 259 محنت کش لقمہ اجل ہوچکے تھے۔ تھانہ سائٹ بی کے ایس ایچ او نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے اپنی ذمے داری پوری کی تھی، سانحے کی تحقیقات کرنے کے لیے مختلف پولیس افسران کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ایک پولیس افسر نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لیبر ڈائریکٹر، ایم ڈی سائٹ، سول ڈیفنس اور الیکڑک انسپکٹر اور فیکٹری کے مالکان کو سانحہ کا ذمے دار ٹھہرایا تھا لیکن اعلیٰ افسران کو ملوث کرنے پر پولیس کے اعلیٰ افسران کے دباؤ اور مالی فوائد حاصل کرکے دوسرے تفتیشی افسر نے دوران تفتیش بے گناہ قرار دیا اور ان کی بے گناہی کی رپورٹ فاضل عدالت میں جمع کرائی لیکن عدالت نے پولیس کی رپورٹ مسترد کردی اور لیبر ڈائریکٹر زاہد قربان شیخ ، ایم ڈی سائٹ رشید احمد ، غلام اکبر ، ایڈیشنل کنٹرولرسول ڈیفنس اور الیکڑک انسپکٹر امجد کے خلاف فوری کارروائی اور مفرور ملزم شاہ رخ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ 4ماہ تک تحقیقات ہوتی رہی عدالت پولیس کی ناقص تحقیقات سے مطمئن نہ ہوئی۔

بالآخرپولیس نے فیکٹری کے مالکان عبدالعزیز بھائلہ ، ارشد ، شاہد بھائلہ ، جنرل منیجر منصور ،سیکیورٹی گارڈ فضل احمد ، علی مراد کا چالان کیااور چالان میں قتل کی دفعہ302 کو خارج کردیا۔ صرف قتل بالسبب کی دفعہ 322 اور337 کے تحت چالان کیا قتل کی دفعہ خارج ہوتے ہی ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا گیا جبکہ وکیل سرکار نے اعتراض داخل کیا کہ پولیس نے سرکار کی رائے لیے بغیر قتل کی دفعہ خارج کی ہے لیکن ایک برس گزرجانے کا باوجود تفتیشی افسر عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ ستم ظرفی یہ ہے کہ ایک برس بیت جانے کا باوجود ملزمان پر فرد جرم بھی عائد نہ ہوسکی ، پولیس نے جوڈیشل پالیسی کی خلاف ورزی کی چالان میں 3 ماہ کی تاخیری کی چالان کے جمع ہونے کے بعد پراسیکیوشن کی جانب سے مقدمے کی نقول فراہم کی جانی چاہیے تھی لیکن تفتیشی افسر نے نے تاحال پولیس فائل ہی فراہم کی اور نہ خود عدالت میں پیش ہوئے اور سماعت عدالتی کارروائی کیے بغیر نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔

11 ستمبر کو 259 مزدوں کے ایصال ثواب کیلیے پہلی برسی جائے حادثہ علی انٹرپرائزز منائی گئی تھی جس میں مختلف سیاسی ، مذہبی جماعتوں، مزدور تنظیموں کے رہنماؤں ، سول سوسائٹی ، جاں بحق افراد کے اہل خانہ نے شرکت کی تھی۔ مرکزی اجتماع میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ جاں بحق افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کے غم میں رو رہے تھے۔ اس موقع پر شمعیں روشن کی گئیں اور پھول رکھے گئے۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈیشن پاکستان کے تحت سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں جاں بحق ہونیوالے افراد سے اظہار یکجہتی کیلیے ایک ریلی پریس کلب سے ریگل چوک تک نکالی تھی اور متاثرہ خاندانوں کی کفالت کے لیے طویل المدتی منصوبے کا آغاز کرنے اور سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لانے اور ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
Load Next Story