کراچی میں پلاسٹک سے بنے انڈوں کی فروخت کا ڈراپ سین
ڈیفنس کے اسٹور پر نقلی انڈوں کے معاملے کا ڈراپ سین ہوگیا، انڈے نقلی نہیں بلکہ نامناسب درجہ حرارت میں ڈھائی ماہ تک رکھنے کے بعد اپنی غذائیت اور اصل شکل کھو بیٹھے تھے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق دو روز قبل کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پلاسٹک کے انڈوں کی فروخت کی شکایت سامنے آنے پر سندھ فوڈ اتھارٹی نے پولیس کے ہمراہ ایک دکان پر کارروائی کرتے ہوئے اسٹور کے مالک کو گرفتار کرکے دکان سیل کردی تھی تاہم اب اس معاملے کا ڈراپ سین سامنے آیا ہے کہ انڈے پلاسٹک کے نہیں تھے بلکہ ڈھائی ماہ تک پرانے تھے۔
اطلاعات کے مطابق منافع خور سپلائرز نے دو ماہ قبل 2000 سے 2200 روپے فی پیٹی خریدے گئے انڈے 3400 روپے فی پیٹی کے نرخ پر فروخت کرنے کے لیے نئے انڈوں کے ساتھ ملا کر دکانوں کو سپلائی کیے تھے تاہم انہیں یہ منافع خوری مہنگی پڑگئی اور ہول سیلر، سپلائر اور دکاندار کو بھی تھانہ کچہری کا سامنا کرنا پڑگیا۔
یہ پڑھیں: کراچی میں پلاسٹک کے انڈوں کی فروخت کا انکشاف، سپلائر گرفتار
ورلڈ پولٹری سائنس ایسوسی ایشن سندھ زون کے جوائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر منور حسین نے انکشاف کیا کہ انویسٹر اس موقع پر انڈے خرید کر اسٹاک کرلیتے ہیں جو موسم سرما کی آمد پر اچھے منافع پر فروخت کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ڈیفنس میں اسٹور پر نقلی انڈوں کی فروخت کا معاملہ بھی منافع خوری کا نتیجہ ہے جس میں انڈوں کو اسٹاک رکھنے کے لیے مطلوبہ درجہ حرارت اور ماحول کا خیال نہیں رکھا گیا جس کے نتیجے میں انڈوں کی غذائیت اور اندرونی ہیت میں بھی تبدیلی آگئی۔
ڈاکٹر منور کے مطابق 7 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر صاف ستھرے ماحول میں انڈے دو ماہ تک اسٹور کیے جاسکتے ہیں لیکن درجہ حرارت زیادہ ہونے یا غیرموافق ماحول میں اسٹور کیے گئے انڈے زائد المیعاد ہونے کے بعد ایسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے ڈیفنس کے اسٹور سے برآمد ہونے والے انڈے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیمیکل والے انڈے فروخت کرنے پر 3 افراد شامل تفتیش
انہوں نے بتایا کہ دو ماہ قبل انڈوں کا ریٹ کافی کم تھا، 30 درجن انڈوں کی پیٹی کا فارم ریٹ 2100 سے 2200 روپے کی سطح پر آگیا تھا اور فروخت بھی کم تھی اس لیے یہ انڈے اسٹور کرلیے گئے تاکہ موسم سرما کی آمد پر فروخت کیے جائیں، اس رجحان کے تدارک کے لیے سندھ فوڈ اتھارٹی کو فعال ہونا پڑے گا کیوں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے پنجاب میں دو ماہ سے زائد مدت کے لیے انڈے اسٹور کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اسٹوریج کے درجہ حرارت اور ماحول کی بھی سخت نگرانی کی جاتی ہے خلاف ورزی پر ایکشن لیا جاتا ہے تاہم سندھ میں ایسی کوئی مثال نہیں۔
ڈاکٹر کے مطابق سندھ میں انڈوں کی کوئی ایکسپائری مدت نہیں اور نہ ہی عام دکانوں پر فروخت ہونے والے انڈوں پر میعاد درج ہوتی ہے، موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی انڈوں کی پیٹی کا نرخ 3400 سے تجاوز کرگیا ہے جس کی وجہ سے منافع خور عناصر نے اسٹور کیے گئے انڈے سپلائی کرنے شروع کردیے ہیں۔
ڈاکٹر منور حسین نے بتایا کہ موزوں درجہ حرارت پر اسٹور نہ کیے گئے انڈوں میں غذائیت متاثر ہوتی ہے پروٹین کی مقدار کم ہوجاتی ہے اور زیادہ برے حالات میں اسٹور کیے گئے انڈوں میں بیکٹریا پیدا ہوجاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ڈاکٹر منور حسین نے پلاسٹک کے انڈوں کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی میٹریل سے تیار کیے گئے نقلی انڈے اصلی انڈوں سے کافی مہنگے ہوں گے اس لیے انڈوں کی تجارتی قیمت کے لحاظ سے نقلی انڈے تیار کرنا احمقانہ اقدام ہوگا۔