آزادی مارچ کا غبارہ
آزادی مارچ کے غبارے میں ہوا بھرنے کے بجائے مولانا سے پوچھئے کہ شفاف انتخابات کی کوئی گیدڑ سنگھی ہے تو پیش کیجئے
ہماری یہ خواہش بھی دم توڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہے کہ نئے پاکستان میں نئے ڈھنگ کا آزادی مارچ ہی دیکھ پائیں۔ پہلا سال تو کچھ نیا ڈھونڈنے میں ہی اکارت گیا۔ مایوسی گناہ ہے اور دلی دعا بھی ہے کہ ہم موروثی سیاست کے نقش کہن سے نجات پالیں۔ اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ آخری سال کچھ نہ کچھ نیا ہمیں دیکھنے کو ضرور ملے گا، ورنہ سال تو نیا ہوتا ہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ پٹ گیا تو موروثی سیاست ڈسنے کےلیے تاک میں نہیں رہے گی، پھن پھیلا کر ڈسے گی۔ ویسے بھی زخمی سانپ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس کا سارا بوجھ ہم تبدیلی کی تبلیغ کرنے والوں کی گردنوں پر ہوگا۔ مانا کہ تبدیلی بٹن دبانے سے نہیں آتی، خدارا رویے کی تبدیلی تو دکھلا دیں۔ یہ تو باور کرا دیں کہ وہ تبدیلی جس کا انتظار ہے وہ آپ ہی کے مرہون منت ہوگی۔ یہ تو آپ ہی کہتے ہیں ناں کہ تبدیلی پہلے ذہنوں میں آتی ہے پھر زمین پر دکھائی دیتی ہے۔ کہاں ہے وہ ذہنوں میں آئی ہوئی تبدیلی، جس پر اعتماد کرتے ہوئے ہم زمینی تبدیلی کے سواگت کی تیاری کریں۔
دو مسلمان ملکوں میں آپ مصالحت کرانے کےلیے چنے جاتے ہیں مگر اپنے ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ مدارس کے طلبا و طالبات کو آپ قومی دھارے میں لانے کا مستحسن فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ کیا مدارس کے ان طلبا کی جیبوں میں پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں، جو آزادی مارچ کی تیاری کررہے ہیں۔ کیا مدارس کے طلبا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا اقدام قومی فریضہ سمجھ کر کیا جارہا ہے یا محض جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ووٹ بینک ختم کرنے کی حکمت عملی ہے؟
کیا اب آپ تمام پاکستانیوں کے وزیراعظم نہیں ہیں، جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا یا نہ دیا۔ کیا اس منصب کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد آپ ووٹوں کی سیاست سے ذرا بلند نہیں ہوگئے؟ کم از کم پانچ سال کےلیے تو اس بلندی پر رہا جاسکتا ہے۔ پانچ سال بعد یہ بلندی آپ کو نیچے نہیں آنے دے گی۔ اس بلندی پر رہ کر شاید آپ آسانی سے سمجھ پائیں کہ اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں کامیاب نوجوان پروگرام کی تقریب میں سامعین و ناظرین کو محظوظ کرنے کے بجائے آپ متانت سے فرماتے کہ ڈیزل کا وقت بیت گیا، اب آپ سے عمران خان نہیں پاکستان کا وزیراعظم مخاطب ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمارے قومی منظرنامہ کا اہم کردار ہیں، انہیں ہم سے کوئی شکایت ہے تو ہم سننے کےلیے ہمہ تن گوش ہیں، ہمارے دروازے ان کےلیے ہر وقت کھلے ہیں۔ وہ نہیں آنا چاہتے تو ہمیں حکم کریں جہاں کہیں گے وہاں ان کی بات سننے کےلیے تیار ہیں۔
خدا لگتی کہیے، اس کے بعد مجوزہ دھرنے کے غبارے میں ہوا باقی رہتی؟ کیا ہمیں کچھ نیا نیا محسوس نہ ہوتا۔ لیکن افسوس ہو کیا رہا ہے؟ وہی جو ہوتا آیا ہے۔ کیا کرداروں کے ردوبدل سے یہ وہی چال بے ڈھنگی نہیں جو 2014 میں بھی تھی۔
اگر سیکیورٹی ترجیحات اور آپ کی مقبولیت ہم آہنگ ہیں تو خوبصورتی سے کھیلئے، برا کھیل پیش کرکے ترجیحات کو ہدف نہ بننے دیں۔ ان ترجیحات کو ہدف بنانے کےلیے وہ مایا جال ابھی ٹوٹا نہیں جس کی لپیٹ میں ہمارے شیر بھی آگئے تھے۔ چوہدری نثار نے محض انتباہی سیٹی بجانے پر اکتفا کرتے ہوئے باوقار خاموشی اختیار کرلی اور گھر میں چلہ کشی کو ترجیح دی۔ اس مایا جال کی ایک ڈوری آئی ایم ایف ہے، جس سے آپ بھی بندھ چکے ہیں۔
شوکت خانم اسپتال کی تعمیر میں پنہاں جذبہ نئے پاکستان کی تعمیر میں عیاں نہ ہوا۔ حالانکہ آپ کو اس کےلیے اکسایا بھی گیا۔ آپ نے سہل راستہ چنا۔ اب مہنگائی کا جن آپ کے قابو سے باہر ہے۔ آپ کا کاروباری مراکز میں داخلہ بند ہے۔ قیمتوں اور روپے کی قدر طے کرنے کا اختیار مردم بیزار آئی ایم ایف کے جن کے پاس ہے۔ اگر آپ کی کرشمہ ساز شخصیت نے ہمیں ان کڑی شرائط کے شکنجے میں ہی پھنسانا تھا تو ہم کسی گاؤں کا نام نیا پاکستان رکھ لیتے، جیسے سرگودھا جھنگ روڈ پر 'نیا لاہور' نامی ایک گاؤں پایا جاتا ہے۔ گویا اس سیریز کے نام مستعمل ہیں اور شریفوں اور بھٹوز کو بھی ان پر اعتراض نہ ہوتا اور ہم انہی سے دل بہلاتے رہتے۔
دونوں گھرانوں نے خاصی رونق لگا رکھی تھی۔ ہم سیاسی بت پرستوں کو ان کی عادت سی ہوگئی تھی۔ آپ بھی شاید اب غصے میں لگتے ہیں اور ہمیں اسی بت پرستی کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں، اسی لیے تو مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے غبارے میں ہوا بھر رہے ہیں۔ ہوا بھرنے کے بجائے مولانا سے تحمل سے پوچھئے کہ شفاف انتخابات کی کوئی گیدڑ سنگھی آپ کے پاس ہے تو پیش کیجئے، محض مطالبہ تو ہم بھی 126 دن مسلسل کرتے رہے۔ جنرل قمر باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی جانشینی کا حق ادا کردیا۔ آپ براہ کرم اس معتبر ادارے کو ایکسٹینشن کی بدعت سے بچائیں اور جنرل راحیل نے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کی جو قابل تقلید روایت قائم کی تھی، پاک فوج کو اسے برقرار رکھنے دیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ پٹ گیا تو موروثی سیاست ڈسنے کےلیے تاک میں نہیں رہے گی، پھن پھیلا کر ڈسے گی۔ ویسے بھی زخمی سانپ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس کا سارا بوجھ ہم تبدیلی کی تبلیغ کرنے والوں کی گردنوں پر ہوگا۔ مانا کہ تبدیلی بٹن دبانے سے نہیں آتی، خدارا رویے کی تبدیلی تو دکھلا دیں۔ یہ تو باور کرا دیں کہ وہ تبدیلی جس کا انتظار ہے وہ آپ ہی کے مرہون منت ہوگی۔ یہ تو آپ ہی کہتے ہیں ناں کہ تبدیلی پہلے ذہنوں میں آتی ہے پھر زمین پر دکھائی دیتی ہے۔ کہاں ہے وہ ذہنوں میں آئی ہوئی تبدیلی، جس پر اعتماد کرتے ہوئے ہم زمینی تبدیلی کے سواگت کی تیاری کریں۔
دو مسلمان ملکوں میں آپ مصالحت کرانے کےلیے چنے جاتے ہیں مگر اپنے ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ مدارس کے طلبا و طالبات کو آپ قومی دھارے میں لانے کا مستحسن فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ کیا مدارس کے ان طلبا کی جیبوں میں پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں، جو آزادی مارچ کی تیاری کررہے ہیں۔ کیا مدارس کے طلبا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا اقدام قومی فریضہ سمجھ کر کیا جارہا ہے یا محض جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ووٹ بینک ختم کرنے کی حکمت عملی ہے؟
کیا اب آپ تمام پاکستانیوں کے وزیراعظم نہیں ہیں، جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا یا نہ دیا۔ کیا اس منصب کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد آپ ووٹوں کی سیاست سے ذرا بلند نہیں ہوگئے؟ کم از کم پانچ سال کےلیے تو اس بلندی پر رہا جاسکتا ہے۔ پانچ سال بعد یہ بلندی آپ کو نیچے نہیں آنے دے گی۔ اس بلندی پر رہ کر شاید آپ آسانی سے سمجھ پائیں کہ اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں کامیاب نوجوان پروگرام کی تقریب میں سامعین و ناظرین کو محظوظ کرنے کے بجائے آپ متانت سے فرماتے کہ ڈیزل کا وقت بیت گیا، اب آپ سے عمران خان نہیں پاکستان کا وزیراعظم مخاطب ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمارے قومی منظرنامہ کا اہم کردار ہیں، انہیں ہم سے کوئی شکایت ہے تو ہم سننے کےلیے ہمہ تن گوش ہیں، ہمارے دروازے ان کےلیے ہر وقت کھلے ہیں۔ وہ نہیں آنا چاہتے تو ہمیں حکم کریں جہاں کہیں گے وہاں ان کی بات سننے کےلیے تیار ہیں۔
خدا لگتی کہیے، اس کے بعد مجوزہ دھرنے کے غبارے میں ہوا باقی رہتی؟ کیا ہمیں کچھ نیا نیا محسوس نہ ہوتا۔ لیکن افسوس ہو کیا رہا ہے؟ وہی جو ہوتا آیا ہے۔ کیا کرداروں کے ردوبدل سے یہ وہی چال بے ڈھنگی نہیں جو 2014 میں بھی تھی۔
اگر سیکیورٹی ترجیحات اور آپ کی مقبولیت ہم آہنگ ہیں تو خوبصورتی سے کھیلئے، برا کھیل پیش کرکے ترجیحات کو ہدف نہ بننے دیں۔ ان ترجیحات کو ہدف بنانے کےلیے وہ مایا جال ابھی ٹوٹا نہیں جس کی لپیٹ میں ہمارے شیر بھی آگئے تھے۔ چوہدری نثار نے محض انتباہی سیٹی بجانے پر اکتفا کرتے ہوئے باوقار خاموشی اختیار کرلی اور گھر میں چلہ کشی کو ترجیح دی۔ اس مایا جال کی ایک ڈوری آئی ایم ایف ہے، جس سے آپ بھی بندھ چکے ہیں۔
شوکت خانم اسپتال کی تعمیر میں پنہاں جذبہ نئے پاکستان کی تعمیر میں عیاں نہ ہوا۔ حالانکہ آپ کو اس کےلیے اکسایا بھی گیا۔ آپ نے سہل راستہ چنا۔ اب مہنگائی کا جن آپ کے قابو سے باہر ہے۔ آپ کا کاروباری مراکز میں داخلہ بند ہے۔ قیمتوں اور روپے کی قدر طے کرنے کا اختیار مردم بیزار آئی ایم ایف کے جن کے پاس ہے۔ اگر آپ کی کرشمہ ساز شخصیت نے ہمیں ان کڑی شرائط کے شکنجے میں ہی پھنسانا تھا تو ہم کسی گاؤں کا نام نیا پاکستان رکھ لیتے، جیسے سرگودھا جھنگ روڈ پر 'نیا لاہور' نامی ایک گاؤں پایا جاتا ہے۔ گویا اس سیریز کے نام مستعمل ہیں اور شریفوں اور بھٹوز کو بھی ان پر اعتراض نہ ہوتا اور ہم انہی سے دل بہلاتے رہتے۔
دونوں گھرانوں نے خاصی رونق لگا رکھی تھی۔ ہم سیاسی بت پرستوں کو ان کی عادت سی ہوگئی تھی۔ آپ بھی شاید اب غصے میں لگتے ہیں اور ہمیں اسی بت پرستی کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں، اسی لیے تو مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے غبارے میں ہوا بھر رہے ہیں۔ ہوا بھرنے کے بجائے مولانا سے تحمل سے پوچھئے کہ شفاف انتخابات کی کوئی گیدڑ سنگھی آپ کے پاس ہے تو پیش کیجئے، محض مطالبہ تو ہم بھی 126 دن مسلسل کرتے رہے۔ جنرل قمر باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی جانشینی کا حق ادا کردیا۔ آپ براہ کرم اس معتبر ادارے کو ایکسٹینشن کی بدعت سے بچائیں اور جنرل راحیل نے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کی جو قابل تقلید روایت قائم کی تھی، پاک فوج کو اسے برقرار رکھنے دیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔