پی ٹی آئی کی نئی تنظیم سازی حکومت کیلئے معاون ہو سکتی ہے
پاکستان تحریک انصاف کے آئین میں ترامیم کے بعد نئی تنظیم سازی کے نوٹیفیکیشن جاری ہونا شروع ہو چکے ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے آئین میں ترامیم کے بعد نئی تنظیم سازی کے نوٹیفیکیشن جاری ہونا شروع ہو چکے ہیں اور آئندہ ماہ کے وسط تک ضلعی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آجائے گا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ متعدد اہم رہنماوں کی تنظیمی عہدوں کے حصول کیلئے عدم دلچسپی دکھائی دی ہے اور بہت زیادہ جوڑ توڑ یا لابنگ دکھائی نہیں دی ہے۔ تنظیم سازی میں غیر معمولی جوش و خروش نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد جب تنظیمیں بنائی گئی تھیں تو ماسوائے صوبائی صدور اور جنرل سیکرٹریز کے دیگر عہدیداروں کو حکومتی وزراء اور عہدیداروں کی جانب سے ''نو لفٹ'' کا سامنا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی جماعت کی تنظیم سازی کے حوالے سے متعدد مرتبہ کوشش کر چکے ہیں اور ہر مرتبہ انہیں اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول میں زیادہ تر ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ مینار پاکستان جلسے کے بعد جب تحریک انصاف نے ''ٹیک آف'' کیا اور پارٹی میں نئے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہونے لگے تب پارٹی میں تنظیمی عہدوں کی جنگ چھڑ گئی۔ نئے لوگوں نے ''یونیٹی'' اور پرانے والوں نے''نظریاتی'' گروپ کے نام سے کام شروع کردیا۔
عمران خان نے پہلی مرتبہ پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی کوشش کی تو ملک بھر میں پارٹی میں لڑائیاں، ناراضگیاں پیدا ہو گئیں۔ ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچی جانے لگیں اور پارٹی متحد ہونے کی بجائے زیادہ تقسیم ہو گئی اور جب چند برس کے بعد کپتان نے ایک مرتبہ پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانا چاہا تو وہی سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور مرکزی رہنماوں کی جنگ زیادہ شدت اختیار کر گئی۔
جس کے بعد کپتان نے الیکشن ہی منسوخ کر دیا۔کبھی صوبائی تنظیم نامزد کی جاتی رہی اور کبھی ریجن بنائے جاتے رہے اورکبھی آرگنائزر لگائے جاتے رہے۔ حکومت قائم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے نئے آئین کے تحت صوبائی تنظیمیں بنا دی گئی اور ان پر عہدیداروں کی تقرری بھی کردی گئی لیکن پھر اندورنی اختلافات کی وجہ سے صوبائی تنظیمیں تحلیل کردی گئیں اور اب پارٹی آئین میں ترمیم کے بعد ایک مرتبہ پھر سے ریجنل تنظیمیں تشکیل دے دی گئیں۔ پنجاب میں ریجنز کی تعداد 4 سے کم کر کے 3 کردی گئی ہے اور اعجاز چوہدری بعض حلقوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود سنٹرل پنجاب ریجن کے صدر کا عہدہ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
گزشتہ روز تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق چوہدری محمد اشفاق کو مرکزی نائب صدر، رکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب کو مرکزی ایڈشنل سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے جبکہ اعجاز احمد چوہدری مرکزی پنجاب ریجن میں بطور صدر قیادت کریں گے۔ شمالی پنجاب ریجن کے صدر کی ذمہ داریاں رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی جبکہ جنوبی پنجاب ریجن کی صدارت نور بھابھا کے سپرد کی گئی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اہم ترین اور نہایت فعال رہنما محمد شعیب صدیقی مرکزی پنجاب کے جنرل سیکرٹری تعینات ہو گئے ہیں جو کہ ان کی خدمات کا پارٹی قیادت کی جانب سے خوبصورت اعتراف ہے۔ شمالی پنجاب میں جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں ڈاکٹر حسن مسعود ملک کے سپرد کی گئی ہیں۔عثمان سعید بسرا مرکزی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات جبکہ انجینئر افتخار احمد چوہدری شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔
علی امتیاز وڑائچ سینئر نائب صدر مرکزی پنجاب کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ شمالی پنجاب میں سینئر نائب صدر کا عہدہ انجینئر عطا ء اللہ خان شادی خیل سنبھالیں گے۔ میجر غلام سرور اور شبیر سیال مرکزی پنجاب کی گورننگ باڈی میں بطور نائب صدور نامزد ہوئے ہیں جبکہ بریگیڈئیر ممتاز کاہلوں اور یاسر بلوچ شمالی پنجاب کے لئے بطور نائب صدور نامزد کئے گئے ہیں۔
ندیم افضل بنٹی شمالی پنجاب جبکہ ندیم قادر بھنڈر مرکزی پنجاب میں ایڈیشنل جنرل سیکرٹری کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔ رانا ندیم احمد، ڈاکٹر طاہر علی جاوید اور شکیل احمد خان نیازی مرکزی پنجاب میں بالترتیب ڈپٹی جنرل سیکرٹری لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ ڈویژن اور ساہیوال ڈویژن ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
شمالی پنجاب کے لئے محمد عارف عباسی، جاوید نیاز منجھ اور چوہدری ممتاز کاہلوں بالترتیب راولپنڈی، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے لئے ڈپٹی جنرل سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں جبکہ رفعت زیدی شمالی پنجاب جبکہ حافظ عبیداللہ مرکزی پنجاب کے سیکرٹری مالیات کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔
اعجاز چوہدری اور نور بھابھا کی پارٹی کیلئے خدمات کے سب معترف ہیں، اسی طرح صداقت عباسی نے بھی پارٹی کیلئے بہت محنت کی ہے۔ تنظیم سازی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنا مفید ہوگا کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ ابھی تو ضلع کی سطح پر تنظیم سازی میں کافی مشکلات کا خدشہ ہے کیونکہ ایک ایک ضلع میں کئی کئی دھڑے بنے ہوئے ہیں۔
تنظیم سازی کا عملی فائدہ تحریک انصاف کو اسی وقت ہوگا جب پارٹی عہدیداروں کو حکومت عزت اور توجہ دے گی۔ پارٹی عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز کو صوبائی وزراء کی جانب سے مکمل تعاون فراہم ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت عوامی سطح پر جس شدت کے ساتھ تحریک انصاف کو تنقید اور احتجاج کا سامنا ہے۔
اس کا سامنا کرنا اور عوامی رائے کو تبدیل کرنا انہی گراس روٹ لیول تک موجود رہنماوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بلدیاتی الیکشن مستقل قریب میں تو ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں لیکن بلدیاتی الیکشن کی تیاری کیلئے تحریک انصاف کی تنظیمیں کلیدی کردار نبھا سکتی ہیں کیونکہ جب پرائمری سطح کی تنظیم فعال ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گلی محلہ کی سطح پر تحریک انصاف کی نمائندگی ووٹرز کی رائے سازی میں معاون ثابت ہو گی۔ سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی کو اب خواتین ونگ کی تشکیل کا مشکل مرحلہ بھی مکمل کر لینا چاہئے کیونکہ خواتین رہنماوں میں کافی تحفظات اور خدشات پھیل رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ متعدد اہم رہنماوں کی تنظیمی عہدوں کے حصول کیلئے عدم دلچسپی دکھائی دی ہے اور بہت زیادہ جوڑ توڑ یا لابنگ دکھائی نہیں دی ہے۔ تنظیم سازی میں غیر معمولی جوش و خروش نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد جب تنظیمیں بنائی گئی تھیں تو ماسوائے صوبائی صدور اور جنرل سیکرٹریز کے دیگر عہدیداروں کو حکومتی وزراء اور عہدیداروں کی جانب سے ''نو لفٹ'' کا سامنا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی جماعت کی تنظیم سازی کے حوالے سے متعدد مرتبہ کوشش کر چکے ہیں اور ہر مرتبہ انہیں اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول میں زیادہ تر ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ مینار پاکستان جلسے کے بعد جب تحریک انصاف نے ''ٹیک آف'' کیا اور پارٹی میں نئے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہونے لگے تب پارٹی میں تنظیمی عہدوں کی جنگ چھڑ گئی۔ نئے لوگوں نے ''یونیٹی'' اور پرانے والوں نے''نظریاتی'' گروپ کے نام سے کام شروع کردیا۔
عمران خان نے پہلی مرتبہ پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی کوشش کی تو ملک بھر میں پارٹی میں لڑائیاں، ناراضگیاں پیدا ہو گئیں۔ ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچی جانے لگیں اور پارٹی متحد ہونے کی بجائے زیادہ تقسیم ہو گئی اور جب چند برس کے بعد کپتان نے ایک مرتبہ پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانا چاہا تو وہی سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور مرکزی رہنماوں کی جنگ زیادہ شدت اختیار کر گئی۔
جس کے بعد کپتان نے الیکشن ہی منسوخ کر دیا۔کبھی صوبائی تنظیم نامزد کی جاتی رہی اور کبھی ریجن بنائے جاتے رہے اورکبھی آرگنائزر لگائے جاتے رہے۔ حکومت قائم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے نئے آئین کے تحت صوبائی تنظیمیں بنا دی گئی اور ان پر عہدیداروں کی تقرری بھی کردی گئی لیکن پھر اندورنی اختلافات کی وجہ سے صوبائی تنظیمیں تحلیل کردی گئیں اور اب پارٹی آئین میں ترمیم کے بعد ایک مرتبہ پھر سے ریجنل تنظیمیں تشکیل دے دی گئیں۔ پنجاب میں ریجنز کی تعداد 4 سے کم کر کے 3 کردی گئی ہے اور اعجاز چوہدری بعض حلقوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود سنٹرل پنجاب ریجن کے صدر کا عہدہ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
گزشتہ روز تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق چوہدری محمد اشفاق کو مرکزی نائب صدر، رکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب کو مرکزی ایڈشنل سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے جبکہ اعجاز احمد چوہدری مرکزی پنجاب ریجن میں بطور صدر قیادت کریں گے۔ شمالی پنجاب ریجن کے صدر کی ذمہ داریاں رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی جبکہ جنوبی پنجاب ریجن کی صدارت نور بھابھا کے سپرد کی گئی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اہم ترین اور نہایت فعال رہنما محمد شعیب صدیقی مرکزی پنجاب کے جنرل سیکرٹری تعینات ہو گئے ہیں جو کہ ان کی خدمات کا پارٹی قیادت کی جانب سے خوبصورت اعتراف ہے۔ شمالی پنجاب میں جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں ڈاکٹر حسن مسعود ملک کے سپرد کی گئی ہیں۔عثمان سعید بسرا مرکزی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات جبکہ انجینئر افتخار احمد چوہدری شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔
علی امتیاز وڑائچ سینئر نائب صدر مرکزی پنجاب کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ شمالی پنجاب میں سینئر نائب صدر کا عہدہ انجینئر عطا ء اللہ خان شادی خیل سنبھالیں گے۔ میجر غلام سرور اور شبیر سیال مرکزی پنجاب کی گورننگ باڈی میں بطور نائب صدور نامزد ہوئے ہیں جبکہ بریگیڈئیر ممتاز کاہلوں اور یاسر بلوچ شمالی پنجاب کے لئے بطور نائب صدور نامزد کئے گئے ہیں۔
ندیم افضل بنٹی شمالی پنجاب جبکہ ندیم قادر بھنڈر مرکزی پنجاب میں ایڈیشنل جنرل سیکرٹری کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔ رانا ندیم احمد، ڈاکٹر طاہر علی جاوید اور شکیل احمد خان نیازی مرکزی پنجاب میں بالترتیب ڈپٹی جنرل سیکرٹری لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ ڈویژن اور ساہیوال ڈویژن ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
شمالی پنجاب کے لئے محمد عارف عباسی، جاوید نیاز منجھ اور چوہدری ممتاز کاہلوں بالترتیب راولپنڈی، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے لئے ڈپٹی جنرل سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں جبکہ رفعت زیدی شمالی پنجاب جبکہ حافظ عبیداللہ مرکزی پنجاب کے سیکرٹری مالیات کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔
اعجاز چوہدری اور نور بھابھا کی پارٹی کیلئے خدمات کے سب معترف ہیں، اسی طرح صداقت عباسی نے بھی پارٹی کیلئے بہت محنت کی ہے۔ تنظیم سازی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنا مفید ہوگا کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ ابھی تو ضلع کی سطح پر تنظیم سازی میں کافی مشکلات کا خدشہ ہے کیونکہ ایک ایک ضلع میں کئی کئی دھڑے بنے ہوئے ہیں۔
تنظیم سازی کا عملی فائدہ تحریک انصاف کو اسی وقت ہوگا جب پارٹی عہدیداروں کو حکومت عزت اور توجہ دے گی۔ پارٹی عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز کو صوبائی وزراء کی جانب سے مکمل تعاون فراہم ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت عوامی سطح پر جس شدت کے ساتھ تحریک انصاف کو تنقید اور احتجاج کا سامنا ہے۔
اس کا سامنا کرنا اور عوامی رائے کو تبدیل کرنا انہی گراس روٹ لیول تک موجود رہنماوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بلدیاتی الیکشن مستقل قریب میں تو ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں لیکن بلدیاتی الیکشن کی تیاری کیلئے تحریک انصاف کی تنظیمیں کلیدی کردار نبھا سکتی ہیں کیونکہ جب پرائمری سطح کی تنظیم فعال ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گلی محلہ کی سطح پر تحریک انصاف کی نمائندگی ووٹرز کی رائے سازی میں معاون ثابت ہو گی۔ سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی کو اب خواتین ونگ کی تشکیل کا مشکل مرحلہ بھی مکمل کر لینا چاہئے کیونکہ خواتین رہنماوں میں کافی تحفظات اور خدشات پھیل رہے ہیں۔