پی پی کا سیاسی جلسہ بلاول کی وفاقی حکومت پر شدید تنقید
شہر قائد کے مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے
وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے دورہ کراچی میں شہریوں کو مسائل کے حل کی نوید سنائی ہے۔
وزیراعظم سے جہاں ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی نے ملاقات کی وہیں وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے وفود بھی ملاقات کے لیے آئے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہر قائد کے مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
کراچی کے مسائل کو حل کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن عوامی فلاح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاق اپنے وسائل کے مطابق شہرکے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیان پر تحفظات وزیراعظم کے سامنے رکھے اور پارٹی دفاترکی واپسی، لاپتہ کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا ہے۔
اس ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر اس حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی ان مسائل پر وزیراعظم سے بات ہوئی ہے ۔ ہم نے وزیراعظم سے حیدرآباد یونیورسٹی کے افتتاح اور کیسز ختم کروانے کی بات کی ہے۔
جن مسائل کی نشاندہی کی تھی ان کے حل کی رفتار کم ہے۔ جی ڈی اے کے وفد نے بھی اپنے حلقوں میں درپیش مسائل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے۔ ادھر سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وزیراعظم عمران خان کے دورے کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ماضی میں جب کبھی وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا وہ گئے مگر اب وزیراعظم اپنے سندھ کے دوروں اور اجلاس میں وزیراعلی سندھ کو مدعو نہیں کرتے ہیں۔ جب بھی وزیراعظم بلائیں گے وزیراعلیٰ سندھ ضرور جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے اس شکوے پر تحریک انصاف کی جانب سے عجیب منطق سامنے آئی ہے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ اگر مراد علی شاہ کو بلایا اور وہ نہیں آئے تواس سے وزیراعظم کی بے عزتی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ کو اگر وزیراعظم سے ملنا ہے تواس کے لیے خط لکھیں۔ سیاسی مبصرین نے فردوس شمیم نقوی کے اس بیان کو انتہائی غیر سنجیدہ قرار دیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کا شکوہ بجا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو مدعو کرنا چاہیے تھا ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نہیں چاہتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے کم ہوں۔ سیاسی اختلافات کو ایک جانب سے رکھ کر بات کی جائے تو وفاق کی مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وزیراعظم کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو نظر انداز نہ کریں ۔ بہر حال مجموعی طور پر وزیراعظم نے اپنے اس دورے میں بھی وہی باتیں کی ہیں، جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نظر نہیںآتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وفاق کے جاری منصوبوں کے حوالے سے حکومت سندھ کو بھی اعتماد میں لیں اور ان کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔
سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں 18اکتوبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے مزار قائد اعظم کے سامنے ایک بڑا جلسہ عام منعقدکیا گیا، جس سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت پارٹی کے مرکزی قائدین نے خطاب کیا۔ حاضری کے لحاظ سے ا س جلسے کو پیپلزپارٹی کا کامیاب شو قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ سانحہ 18 اکتوبر کی تلخ یادیںآج بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ سانحہ 18 اکتوبر کے شہدا کو ہم بھولے ہیں نہ بھول سکتے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگوں نے خان کو گھر بھیجنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی خان کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ عمران خان کو اپنے ظلم کا حساب دینا ہو گا۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں ۔ کراچی کا حصہ وفاق سے چھین کر رہوں گا۔ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی نے اس جلسے میں حکومت کے خلا ف طبل جنگ بجا دیا ہے۔
انہیں بخوبی علم ہے کہ ان کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی اور مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک میں پیپلزپارٹی کا کیا کردار ہوگا۔غالب امکان ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی جلسے میں خود شریک نہیں ہوں گے بلکہ ان کی نمائندگی دیگر پارٹی رہنما کریں گے۔کراچی کی سیاست کے حوالے سے بھی اس جلسے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے جس انداز میں بلاول بھٹو زرداری نے خود کو کراچی کا بیٹا قرار دیتے ہوئے اس کا حق چھین کر لینے کی بات کی ہے اسے شہریوں کی جانب سے ستائش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اب یہ پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت کا کام ہے کہ وہ پارٹی چیئرمین کے وژن پر عمل کرتے ہوئے کراچی میں اپنی جڑیں مضبوط کریں اور آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل عوامی رابطہ مہم میں تیزی لائیں۔
وزیراعظم سے جہاں ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی نے ملاقات کی وہیں وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے وفود بھی ملاقات کے لیے آئے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہر قائد کے مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
کراچی کے مسائل کو حل کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن عوامی فلاح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاق اپنے وسائل کے مطابق شہرکے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیان پر تحفظات وزیراعظم کے سامنے رکھے اور پارٹی دفاترکی واپسی، لاپتہ کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا ہے۔
اس ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر اس حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی ان مسائل پر وزیراعظم سے بات ہوئی ہے ۔ ہم نے وزیراعظم سے حیدرآباد یونیورسٹی کے افتتاح اور کیسز ختم کروانے کی بات کی ہے۔
جن مسائل کی نشاندہی کی تھی ان کے حل کی رفتار کم ہے۔ جی ڈی اے کے وفد نے بھی اپنے حلقوں میں درپیش مسائل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے۔ ادھر سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وزیراعظم عمران خان کے دورے کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ماضی میں جب کبھی وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا وہ گئے مگر اب وزیراعظم اپنے سندھ کے دوروں اور اجلاس میں وزیراعلی سندھ کو مدعو نہیں کرتے ہیں۔ جب بھی وزیراعظم بلائیں گے وزیراعلیٰ سندھ ضرور جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے اس شکوے پر تحریک انصاف کی جانب سے عجیب منطق سامنے آئی ہے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ اگر مراد علی شاہ کو بلایا اور وہ نہیں آئے تواس سے وزیراعظم کی بے عزتی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ کو اگر وزیراعظم سے ملنا ہے تواس کے لیے خط لکھیں۔ سیاسی مبصرین نے فردوس شمیم نقوی کے اس بیان کو انتہائی غیر سنجیدہ قرار دیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کا شکوہ بجا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو مدعو کرنا چاہیے تھا ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نہیں چاہتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے کم ہوں۔ سیاسی اختلافات کو ایک جانب سے رکھ کر بات کی جائے تو وفاق کی مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وزیراعظم کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو نظر انداز نہ کریں ۔ بہر حال مجموعی طور پر وزیراعظم نے اپنے اس دورے میں بھی وہی باتیں کی ہیں، جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نظر نہیںآتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وفاق کے جاری منصوبوں کے حوالے سے حکومت سندھ کو بھی اعتماد میں لیں اور ان کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔
سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں 18اکتوبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے مزار قائد اعظم کے سامنے ایک بڑا جلسہ عام منعقدکیا گیا، جس سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت پارٹی کے مرکزی قائدین نے خطاب کیا۔ حاضری کے لحاظ سے ا س جلسے کو پیپلزپارٹی کا کامیاب شو قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ سانحہ 18 اکتوبر کی تلخ یادیںآج بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ سانحہ 18 اکتوبر کے شہدا کو ہم بھولے ہیں نہ بھول سکتے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگوں نے خان کو گھر بھیجنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی خان کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ عمران خان کو اپنے ظلم کا حساب دینا ہو گا۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں ۔ کراچی کا حصہ وفاق سے چھین کر رہوں گا۔ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی نے اس جلسے میں حکومت کے خلا ف طبل جنگ بجا دیا ہے۔
انہیں بخوبی علم ہے کہ ان کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی اور مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک میں پیپلزپارٹی کا کیا کردار ہوگا۔غالب امکان ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی جلسے میں خود شریک نہیں ہوں گے بلکہ ان کی نمائندگی دیگر پارٹی رہنما کریں گے۔کراچی کی سیاست کے حوالے سے بھی اس جلسے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے جس انداز میں بلاول بھٹو زرداری نے خود کو کراچی کا بیٹا قرار دیتے ہوئے اس کا حق چھین کر لینے کی بات کی ہے اسے شہریوں کی جانب سے ستائش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اب یہ پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت کا کام ہے کہ وہ پارٹی چیئرمین کے وژن پر عمل کرتے ہوئے کراچی میں اپنی جڑیں مضبوط کریں اور آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل عوامی رابطہ مہم میں تیزی لائیں۔