بلدیاتی اداروں کی تباہی

روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق سندھ کے ایک چھوٹے مگر مشہور شہر سیہون شریف میں جو شہباز قلندرکی نگری کے ...

روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق سندھ کے ایک چھوٹے مگر مشہور شہر سیہون شریف میں جو شہباز قلندرکی نگری کے نام سے جانا جاتاہے گزشتہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت میں وہاں کی بلدیہ کے ٹرانزیشن افسر نے 443ملازم بھرتی کیے تھے جو ایک سے 10گریڈ میں بھرتی کیے گئے تھے جنھیں بھرتی کرنے والا خود 16گریڈ کا افسر تھا جسے سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹایاگیا، بلدیہ سیہون میں اس سے قبل مقررہ تعداد میں ملازمین موجود تھے مگر غیر ضروری طورپر 443ملازمین بھرتی کیے گئے، یہ بھرتیاں صرف سیہون میں نہیں بلکہ پورے سندھ میں ہوئیں جس کا مقصد مال کمانا اور جیالوں کو نوازنا تھا۔

بلدیاتی ادارے فلاحی ادارے ہیں جو عوام سے ٹیکس وصول کرکے اپنے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ پہلے بلدیاتی اداروں کے پاس آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ محصول چنگی ہوتاتھا جو میاں نواز شریف کی سابقہ حکومت میں ختم کردیا گیاتھا اور (او ۔زیڈ۔ ٹی) آکٹر ضلع ٹیکس کے نام پر وفاقی حکومت بلدیاتی اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کی مد میں ہر ماہ یہ رقم فراہم کرتی تھی۔ محصول چنگی میونسپل اور ٹائون کمیٹیاں وصول کرتی تھیں اور ضلع ٹیکس مذکورہ ضلع کی ڈسٹرکٹ کونسل ضلع سے باہر لے جائے جانے والے مال پر وصول کرتی تھیں اور اس طرح کراچی کی بلدیہ عظمیٰ کو سب سے زیادہ آمدنی ہوتی تھی۔

شہر میں آنے اور ضلع سے باہر جانے والے مال پر ٹیکس کی وصولی سے ضلع کونسلیں اور بلدیاتی ادارے بجٹ بناتے تھے جس میں ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے اور ترقیاتی کاموں کے لیے الگ رقم مختص کی جاتی تھی۔ سابق فوجی صدر جنرل ایوب خان کے بی ڈی سسٹم کے خاتمے کے بعد پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی جس نے اپنے 6سالوں میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور 1979میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں اپنا بلدیاتی نظام متعارف کرایا جو اگرچہ کمشنری نظام کے ماتحت تھا مگر اس میں منتخب چیئرمین ایسے بھی تھے جو آمر کی حکومت میں صدر اور گورنر کے اپنے شہر میں آنے پر ان کی تقریبات کا بائیکاٹ کردیتے تھے۔ جس کی ایک مثال بلدیہ شکار پور کے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک چیئرمین کی تھی جس کی شکایت راقم نے خود جنرل ضیاء الحق سے کی تھی مگر جنرل ضیاء نے اس پر حیرت کا اظہار ضرورکیا تھا مگر ایسے چیئرمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی اور بلدیاتی سربراہ با اختیار تھے۔

سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام میں تو بلدیاتی اداروں کے ناظمین اتنے مالی اور انتظامی طورپر با اختیار تھے کہ جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور اسی وجہ سے ناظمین کے دو اور جنرل ضیاء کے چیئرمینوں کی تین ادوار میں زبردست ترقیاتی کام ہوئے اور بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں کا کوئی مسئلہ ہوا نہ ترقیاتی وتعمیری کام کبھی متاثر ہوئے۔


2008ء میں جمہوری کہلانے والی حکومتیں قائم ہوئیں جنھوںنے آتے ہی کمشنری نظام بحال کردیا اور بلدیاتی ناظمین پر کرپشن کے الزامات لگانے شروع کیے اور ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا مگر آئینی تحفظ حاصل ہونے کے باعث کچھ نہ کرسکیں اور دسمبر 2009میں آئینی تحفظ ختم ہونے کے بعد چاروں صوبوں میں بلدیاتی اداروں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط کردیے گئے اور جان بوجھ کر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور اس ٹرانزیشن پیریڈ سے بلدیاتی اداروں کی تباہی کا آغاز ہوا جو اب عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کی سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی جہاں ایک مکمل اور با اختیار وزیر بلدیات تھے جنھوںنے بلدیاتی اداروں کی بد حالی، مالی تباہی پر توجہ نہیں دی۔

ملک بھر میں بلدیاتی ادارے صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں آنے کے بعد وہاں کی حکمران جماعتوں نے ان بلدیاتی اداروں میں دھڑا دھڑ اپنے لوگ بھرتی کیے، ٹرانزیشن افسروں اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے غیر قانونی بھرتیاں کیں، بلدیاتی اداروں میں جگہیں نہ ہونے کے باوجود یہ بھرتیاں ہوئیں، صفائی کرنے والے خاکروبوں کی جگہ مسلمان بھرتی کیے گئے مالی چپراسی اور کلرکوں کی اندھا دھند بھرتیاں مقامی طورپر ہوئیں تو وزارت بلدیات میں لاکھوں روپے رشوت لے کر افسروں کی بھرتی اور انجینئروں کے تقرر و تبادلے اور ایڈمنسٹریٹروں کی تعیناتیاں کی گئیں اور سندھ میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔

ملک بھر میں بلدیاتی فنڈز صوبائی حکومتوں نے غیر قانونی اور من پسند طورپر استعمال کیے جو فنڈ جس علاقے کا حق تھا وہاں کم اور دیگر جگہوں پر زیادہ استعمال ہوا، وزرائے اعلیٰ اور وزرائے بلدیات نے فنڈ اپنی مرضی سے منتقل کرائے تو وفاقی حکومت (او۔ زیڈ۔ ٹی) فنڈز میں کٹوتی بڑھاتی رہی، جنرل پرویز کے دور میں بھی کٹوتی کی جاتی تھی مگر جمہوری وفاقی حکومت نے بلدیاتی ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے ساتھ کٹوتی کا بھی ریکارڈ قائم کیا، غیر ضروری بھرتیوں اور تنخواہوں میں اضافے سے بلدیاتی ادارے شدید مالی بحران میں مبتلا ہوگئے، تعمیری و ترقیاتی کام تو کیا ہوتے ملازمین کو تنخواہوں کے لیے لالے پڑ گئے اور مذہبی تہواروں پر بھی ملازمین تنخواہوں سے محروم کردیے گئے۔ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے اوپر کے اشاروں پر بجٹ بنائے جن میں دکھاوے کے لیے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ مختص ہوئے اور یہ بجٹ بھی رشوت ملنے کے بعد بلدیاتی اداروں کو کنٹرول کرنے والے بلدیاتی محکموں کے اعلیٰ افسروں نے پاس کیے مگر تین سالوں سے بجٹ پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔

جو سرکاری ایڈمنسٹریٹر کوششوں کے بعد کمائی والے عہدوں پر آئے تھے انھوںنے غیر ضروری عملہ رشوت لے کر بھرتی کیا، کاغذی سطح کے تعمیری کاموں کے جھوٹے ٹینڈر وصول کیے گئے ، جعلی کوٹیشنوں پر چیک جاری ہوئے، بلدیاتی محکموں میں لاکھوں کی رشوت پر تعیناتیاں ہوئیں اور دیگر محکموں کے لوگوں کو محکمہ بلدیات میں شامل کیا گیا اور بدعنوانیوں کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔

اب بلدیاتی اداروں کے پاس تنخواہیں دینے کی بھی سکت باقی نہیں رہیں، سڑکیں راستے تباہ حال، پارک اجڑے ہوئے، کھیل کے میدان تاریک اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار، فراہمی و نکاسی آب کے مسائل تشویشناک، اسٹریٹ لائٹس برائے نام روشن، تعلیم و ترقی کے کام بند، عوام بنیادی سہولتوں سے سالوں سے محروم جمہوری دور میں ہوئے ہیں اور بلدیاتی ادارے اپنے عملے کو وقت پر تنخواہیں دینے سے بھی قاصر ہوچکے ہیں اگر بلدیاتی انتخابات ہو بھی گئے تو نو منتخب بلدیاتی عہدیدار خالی خزانے پر کیا کرسکیںگے، وہ صرف نام کے عہدیدار ہوںگے اور خالی ہاتھوں مچھر بھی نہیں مارسکیںگے۔
Load Next Story