اسلام کی حقیقی روح
خلیل جبران لکھتا ہے سردیوں کی طویل راتوں کے دوران وہ اس وقت تک اپنے والدین کے پاس بیٹھا رہتا حتیٰ کہ وہ نیند...
خلیل جبران لکھتا ہے سردیوں کی طویل راتوں کے دوران وہ اس وقت تک اپنے والدین کے پاس بیٹھا رہتا حتیٰ کہ وہ نیند کی آغو ش میں جاپہنچتے اس کے بعد وہ اپنی لکڑی کی الماری کھولتا بائبل کی نئی کتاب نکالتا اور بڑی راز داری کے ساتھ لیمپ کی ناکافی روشنی میں اس کا مطالعہ سر انجام دیتا۔ کیونکہ پادری اس کتاب کے پڑھنے پر اعتراض کرتے تھے اورسیدھے سادہ لوگوں کو یہ دھمکی دیتے تھے کہ اگر کسی کے قبضے سے یہ کتاب برآمد ہوئی تو چر چ اس کا حقہ پانی بند کر دیگا اس کے ساتھ قطع تعلق کر لے گا۔ جان جب بھی چرچ جاتا اس کی روح کو ایک دھچکا لگتا اوروہ زخمی روح کے ساتھ واپس آتا کیونکہ پادریوں کی تعلیمات بائبل کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہ تھیں بلکہ اس کے بالکل مختلف پائی جاتی تھیں۔
ایک روز جان بڑے پادری کے غلط فیصلے کے خلاف غصے سے لال پیلا ہوگیا اس نے اپنی جیب سے بائبل نکالی اور چلا کر کہا یہ دیکھو تم نے کس طرح سچ کی تعلیمات کو مسخ کیا ہے تم گناہوں اور برائیوں کو پھیلانے میں پیش پیش ہو لعنت ہو تم پر لالچ کے بتوں کے بچاریو تم اپنے سیاہ لباس کے اندر نفرتیں چھپائے پھرتے ہو تمہارے ہونٹ عبادت کے لیے ہل رہے ہوتے ہیں اور تمہارے دل خواہشات نفسانی سے لبریز ہوتے ہیں۔ تمہارے جسم عبادت کے لیے جھکتے ہیں جب کہ تمہاری روحیں خدا کے خلاف آمادہ بغاوت ہوتی ہیں اپنے پیرو کاروں کو دیکھو جو بھوک کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں اور تم عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہو۔ جان نے ایک گہر ی سانس لی اور پر سکون آواز میں دوبارہ مخاطب ہوا تم تعداد میں لاتعداد ہو جب کہ میں اکیلا ہوں تم جو چاہو میرے ساتھ سلوک کر سکتے ہو بھیڑیا رات کے اندھیرے میں بھیڑ کے بچے کو اپنا لقمہ بناتا ہے مگر بھیڑ کے بچے کا خون دن چڑھنے تک وادی کے پتھروں پر موجود رہتا ہے اور سورج بھیڑیا کے جرم کو لوگوں کی نظروں میں عیاں کر دیتاہے ۔
جان کی گفتگو سن کر بڑے پادری نے راہبو ںکو حکم دیتے ہو ئے کہا اس مجر م کو باندھ دو ، اس سے کتاب چھین لو اور اسے اندھیری کوٹھری میں پھینک دو کیونکہ جو خدا کے نمائندوں پر الزام تراشی کرتا ہے خدا اس کو اس روئے زمین پر کبھی معا ف نہیں کرتا اور نہ ہی اگلی دنیا میں معاف کرتاہے جان کے والدین کو اس کے قید کی اطلاع فراہم کر دی گئی۔ جان کی عمر رسیدہ والدہ اپنی چھڑی کے سہارے گرتی پڑتی خانقاہ جا پہنچی اور بڑے پادری کے سامنے سجدہ ریز ہوگئی اس کے پائوں چھوتے ہوئے اس نے التجا کی کہ اس کے اکلوتے بیٹے پر رحم کھایاجائے اور اپنے گلے سے چاندی کا گلو بند اتارا اور یہ کہتے ہوئے بڑے پادری کے حوالے کر دیا کہ یہ میری سب سے قیمتی متاع ہے یہ گلو بند میری ماں نے مجھے میری شادی کے تحفے کے طور پر دیاتھا کیا تم میرے بیٹے کے گناہ کی تلافی میں اسے قبول کروگے ۔ بڑے پادری نے وہ گلو بند لے لیا اور کہا لعنت ہو اس پر جو کتاب کے احکامات توڑ موڑکر پیش کرتا ہے اب جائو اور خدا سے دعا کرو کہ وہ تمہارے پا گل بیٹے کو نیکی کی ہدایت دے اور اس کی ذہنی صحت بحال کر ے جان کو قید خانے سے رہائی مل گئی ۔
چند لمحوں بعد اس نے اپنے والد کی سنی جو اس کی والدہ سے سر گو شی کررہا تھا کہ میں نے تمہیں کئی مرتبہ بتایاتھا کہ جان پاگل ہے اب تو تمہیں میری بات کا یقین ہوگیا ہوگا جو کچھ بڑے پادری نے تمہیں آج بتایا ہے وہی کچھ میں تمہیں گزشتہ کئی سالوں سے بتارہا تھا۔ کچھ عرصے بعد ایسٹر کا تہوار آن پہنچا اور شہر میں نئے چرچ کی تعمیر کاکام مکمل ہو چکا تھا لوگ چرچ کی اس معتبر ہستی بڑے پادری کے انتظار میں تھے جس نے اس عبادت گاہ کا افتتاح کرنا تھا بالآخر چرچ کی وہ معتبر ہستی آن پہنچی جو بہترین گھوڑے پر سوارتھی اس نے دیدہ زیب لباس زیب تن کیا ہوا تھا جو سونے کے تاروں کا حامل تھا اور جس پر ہیرے جواہرات ٹانکے گئے تھے۔ امیر لوگ جنھوں نے اپنے سینوں پر تمغے سجا رکھے تھے وہ علیحدہ کھڑے باآواز بلند عبادت میں مصروف تھے جب کہ غریب اور مصیبتوں کے مارے ہوئے لوگ ان سے الگ تھلگ کھڑے عبادت میں مصروف تھے ۔
جب تقریب اپنے اختتام کو جاپہنچی تو جان نے یہ محسوس کیا کہ کوئی ان دیکھی قوت اسے مجبور کررہی ہے کہ وہ مظلوم غریبوں کی جانب سے بولے وہ ہال کے ایک کنارے پر جاپہنچا۔ اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے جب مجمع اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے اپنے لب کھولے اے مسیح علیہ السلام توجہ فر مائو زمین کی جانب توجہ فرمائو دیکھو زمین پر کیسے کیسے ظلم ڈھائے جارہے ہیں زمین دشمنوں سے بھر چکی ہے ظالم مظلوم کو کچل رہے ہیں لوگوں نے بائبل میں من مرضی کی تبدیلیاں کرلی ہیں ۔ اس میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے کی بجائے اب خوف و ہراس کے چشمے پھوٹتے ہیں ہمیں ان لٹیروں سے بچالو یا پھر ہم پر موت نازل کر دو اور ہمیں قبروں کے حوالے کر دو تاکہ ہم وہاں امن و سکون کے ساتھ آرام کرسکیں ۔یہ زندگی غلامی کی ایک کال کوٹھری کے سوا کچھ بھی نہیں یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں خوفناک بھوت اپنا کھیل پیش کررہے ہیں ۔
کچھ لوگ جان کی باتیں سن کر کہنے لگے وہ سچ بول رہا ہے اور ہماری حمایت میں بول رہاہے کچھ کہنے لگے وہ ایک جادوگر ہے کیونکہ وہ ایک بد روح کے نام پر بو لتاہے کچھ لوگ کہنے لگے ہم نے ایسی باتیں پہلے کبھی نہ سنی تھیں۔ حتیٰ کہ اپنے آبائو اجداد سے بھی نہ سنی تھیں ہمیں اسے ختم کر دینا چاہیے کچھ لو گ کہنے لگے ہم نے اپنے اندر ایک نئی روح محسوس کی ہے جب ہم نے اس کی بات سنی ہے۔ جان آخر میں آہ بھرتے ہوئے دہراتاہے کہ تم لا تعداد ہو اورمیں اکیلا ہوں ۔ ماضی میں ہندوستان کے رشی چین کے جہاں گرد راہب ، اسرائیلی نبی اور یونانی فلسفی دنیاکو ایک ہی پیغام دیتے سنائی دئیے'' انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہائیوں میں کھو کر ہی کائنات کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نور باطن اور فکرو وجدان ہی وہ مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر وہ اس مسرت لا زوال کو پاسکتاہے۔ جس کی جستجو وہ ازل سے کرتا آیا ہے سقراط کی بھی یہ ہی تعلیم تھی کہ خو د کو پہچان ۔
پاکستانی قوم صرف اور صرف اسی لیے مشکلات و مصائب کا شکار ہے کہ اسے اسلام کے صراط مستقیم کی بجائے ملوکیت ، ملائیت اور خانقاہیت کی ٹیڑھی میڑھی راہوں پر ڈال دیاگیا ہے جس کی وجہ سے اسلام کی حقیقی روح گم ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہم شدید فکری اور نظریاتی انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک طرف مذہبی انتہاپسنداسلام کے نام پر بد ترین وحشت ، بربریت اور جنونیت کا مظاہرہ کررہے ہیں دوسری طرف مسلمانوں میں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے۔ ہم نے اپنے دین کے بار ے میں خود غور و فکر کرنے اور اسے سمجھنے کی بجائے اسلام کا ساراکاسارا ٹھیکہ ملا ئوں کو دے دیا ہے جب کہ قرآن بھی بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ہولناک جرائم مذہب، ثقافت ، اور ضعیف الاعتمادی کے غلط تصورات کے زیر اثر کیے جارہے ہیں معاشرے انسان بناتے ہیں اور بگاڑتے ہیں ہم دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک سماج میں رہ رہے ہیں جہاں مذہب کے نام پر لوگ اپنی خواہشات نفسانی پورا کر رہے ہیں ۔ فکر و وجدان ہی وہ واحد مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر ہم اپنے آپ کو اذیت سے نجات دلاسکتے ہیں اور اسلام کی حقیقی روح کو بھی پا سکتے ہیں۔
ایک روز جان بڑے پادری کے غلط فیصلے کے خلاف غصے سے لال پیلا ہوگیا اس نے اپنی جیب سے بائبل نکالی اور چلا کر کہا یہ دیکھو تم نے کس طرح سچ کی تعلیمات کو مسخ کیا ہے تم گناہوں اور برائیوں کو پھیلانے میں پیش پیش ہو لعنت ہو تم پر لالچ کے بتوں کے بچاریو تم اپنے سیاہ لباس کے اندر نفرتیں چھپائے پھرتے ہو تمہارے ہونٹ عبادت کے لیے ہل رہے ہوتے ہیں اور تمہارے دل خواہشات نفسانی سے لبریز ہوتے ہیں۔ تمہارے جسم عبادت کے لیے جھکتے ہیں جب کہ تمہاری روحیں خدا کے خلاف آمادہ بغاوت ہوتی ہیں اپنے پیرو کاروں کو دیکھو جو بھوک کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں اور تم عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہو۔ جان نے ایک گہر ی سانس لی اور پر سکون آواز میں دوبارہ مخاطب ہوا تم تعداد میں لاتعداد ہو جب کہ میں اکیلا ہوں تم جو چاہو میرے ساتھ سلوک کر سکتے ہو بھیڑیا رات کے اندھیرے میں بھیڑ کے بچے کو اپنا لقمہ بناتا ہے مگر بھیڑ کے بچے کا خون دن چڑھنے تک وادی کے پتھروں پر موجود رہتا ہے اور سورج بھیڑیا کے جرم کو لوگوں کی نظروں میں عیاں کر دیتاہے ۔
جان کی گفتگو سن کر بڑے پادری نے راہبو ںکو حکم دیتے ہو ئے کہا اس مجر م کو باندھ دو ، اس سے کتاب چھین لو اور اسے اندھیری کوٹھری میں پھینک دو کیونکہ جو خدا کے نمائندوں پر الزام تراشی کرتا ہے خدا اس کو اس روئے زمین پر کبھی معا ف نہیں کرتا اور نہ ہی اگلی دنیا میں معاف کرتاہے جان کے والدین کو اس کے قید کی اطلاع فراہم کر دی گئی۔ جان کی عمر رسیدہ والدہ اپنی چھڑی کے سہارے گرتی پڑتی خانقاہ جا پہنچی اور بڑے پادری کے سامنے سجدہ ریز ہوگئی اس کے پائوں چھوتے ہوئے اس نے التجا کی کہ اس کے اکلوتے بیٹے پر رحم کھایاجائے اور اپنے گلے سے چاندی کا گلو بند اتارا اور یہ کہتے ہوئے بڑے پادری کے حوالے کر دیا کہ یہ میری سب سے قیمتی متاع ہے یہ گلو بند میری ماں نے مجھے میری شادی کے تحفے کے طور پر دیاتھا کیا تم میرے بیٹے کے گناہ کی تلافی میں اسے قبول کروگے ۔ بڑے پادری نے وہ گلو بند لے لیا اور کہا لعنت ہو اس پر جو کتاب کے احکامات توڑ موڑکر پیش کرتا ہے اب جائو اور خدا سے دعا کرو کہ وہ تمہارے پا گل بیٹے کو نیکی کی ہدایت دے اور اس کی ذہنی صحت بحال کر ے جان کو قید خانے سے رہائی مل گئی ۔
چند لمحوں بعد اس نے اپنے والد کی سنی جو اس کی والدہ سے سر گو شی کررہا تھا کہ میں نے تمہیں کئی مرتبہ بتایاتھا کہ جان پاگل ہے اب تو تمہیں میری بات کا یقین ہوگیا ہوگا جو کچھ بڑے پادری نے تمہیں آج بتایا ہے وہی کچھ میں تمہیں گزشتہ کئی سالوں سے بتارہا تھا۔ کچھ عرصے بعد ایسٹر کا تہوار آن پہنچا اور شہر میں نئے چرچ کی تعمیر کاکام مکمل ہو چکا تھا لوگ چرچ کی اس معتبر ہستی بڑے پادری کے انتظار میں تھے جس نے اس عبادت گاہ کا افتتاح کرنا تھا بالآخر چرچ کی وہ معتبر ہستی آن پہنچی جو بہترین گھوڑے پر سوارتھی اس نے دیدہ زیب لباس زیب تن کیا ہوا تھا جو سونے کے تاروں کا حامل تھا اور جس پر ہیرے جواہرات ٹانکے گئے تھے۔ امیر لوگ جنھوں نے اپنے سینوں پر تمغے سجا رکھے تھے وہ علیحدہ کھڑے باآواز بلند عبادت میں مصروف تھے جب کہ غریب اور مصیبتوں کے مارے ہوئے لوگ ان سے الگ تھلگ کھڑے عبادت میں مصروف تھے ۔
جب تقریب اپنے اختتام کو جاپہنچی تو جان نے یہ محسوس کیا کہ کوئی ان دیکھی قوت اسے مجبور کررہی ہے کہ وہ مظلوم غریبوں کی جانب سے بولے وہ ہال کے ایک کنارے پر جاپہنچا۔ اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے جب مجمع اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے اپنے لب کھولے اے مسیح علیہ السلام توجہ فر مائو زمین کی جانب توجہ فرمائو دیکھو زمین پر کیسے کیسے ظلم ڈھائے جارہے ہیں زمین دشمنوں سے بھر چکی ہے ظالم مظلوم کو کچل رہے ہیں لوگوں نے بائبل میں من مرضی کی تبدیلیاں کرلی ہیں ۔ اس میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے کی بجائے اب خوف و ہراس کے چشمے پھوٹتے ہیں ہمیں ان لٹیروں سے بچالو یا پھر ہم پر موت نازل کر دو اور ہمیں قبروں کے حوالے کر دو تاکہ ہم وہاں امن و سکون کے ساتھ آرام کرسکیں ۔یہ زندگی غلامی کی ایک کال کوٹھری کے سوا کچھ بھی نہیں یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں خوفناک بھوت اپنا کھیل پیش کررہے ہیں ۔
کچھ لوگ جان کی باتیں سن کر کہنے لگے وہ سچ بول رہا ہے اور ہماری حمایت میں بول رہاہے کچھ کہنے لگے وہ ایک جادوگر ہے کیونکہ وہ ایک بد روح کے نام پر بو لتاہے کچھ لوگ کہنے لگے ہم نے ایسی باتیں پہلے کبھی نہ سنی تھیں۔ حتیٰ کہ اپنے آبائو اجداد سے بھی نہ سنی تھیں ہمیں اسے ختم کر دینا چاہیے کچھ لو گ کہنے لگے ہم نے اپنے اندر ایک نئی روح محسوس کی ہے جب ہم نے اس کی بات سنی ہے۔ جان آخر میں آہ بھرتے ہوئے دہراتاہے کہ تم لا تعداد ہو اورمیں اکیلا ہوں ۔ ماضی میں ہندوستان کے رشی چین کے جہاں گرد راہب ، اسرائیلی نبی اور یونانی فلسفی دنیاکو ایک ہی پیغام دیتے سنائی دئیے'' انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہائیوں میں کھو کر ہی کائنات کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نور باطن اور فکرو وجدان ہی وہ مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر وہ اس مسرت لا زوال کو پاسکتاہے۔ جس کی جستجو وہ ازل سے کرتا آیا ہے سقراط کی بھی یہ ہی تعلیم تھی کہ خو د کو پہچان ۔
پاکستانی قوم صرف اور صرف اسی لیے مشکلات و مصائب کا شکار ہے کہ اسے اسلام کے صراط مستقیم کی بجائے ملوکیت ، ملائیت اور خانقاہیت کی ٹیڑھی میڑھی راہوں پر ڈال دیاگیا ہے جس کی وجہ سے اسلام کی حقیقی روح گم ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہم شدید فکری اور نظریاتی انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک طرف مذہبی انتہاپسنداسلام کے نام پر بد ترین وحشت ، بربریت اور جنونیت کا مظاہرہ کررہے ہیں دوسری طرف مسلمانوں میں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے۔ ہم نے اپنے دین کے بار ے میں خود غور و فکر کرنے اور اسے سمجھنے کی بجائے اسلام کا ساراکاسارا ٹھیکہ ملا ئوں کو دے دیا ہے جب کہ قرآن بھی بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ہولناک جرائم مذہب، ثقافت ، اور ضعیف الاعتمادی کے غلط تصورات کے زیر اثر کیے جارہے ہیں معاشرے انسان بناتے ہیں اور بگاڑتے ہیں ہم دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک سماج میں رہ رہے ہیں جہاں مذہب کے نام پر لوگ اپنی خواہشات نفسانی پورا کر رہے ہیں ۔ فکر و وجدان ہی وہ واحد مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر ہم اپنے آپ کو اذیت سے نجات دلاسکتے ہیں اور اسلام کی حقیقی روح کو بھی پا سکتے ہیں۔