بجلی مزید مہنگی عوام ریلیف سے محروم
نیپرا نے بجلی کی قیمتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر واپس لیا گیا حکومتی نوٹیفکیشن بحال کرتے ہوئے بجلی ...
نیپرا نے بجلی کی قیمتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر واپس لیا گیا حکومتی نوٹیفکیشن بحال کرتے ہوئے بجلی مہنگی کرنے کا حکومتی فارمولا منظور کر لیا ہے۔ جمعہ کو جاری ہونیوالے نوٹیفکیشن کے مطابق 50 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالوں کے لیے فی یونٹ قیمت 2 روپے، 51 سے 100 یونٹ تک 5 روپے 79 پیسے اور 101 سے 200 یونٹ تک قیمت 8 روپے 11 پیسے یونٹ ہو گی ۔201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کے لیے 12 روپے 9 پیسے فی یونٹ ٹیرف مقرر کیا گیا ہے جب کہ 301 سے 700 یونٹ تک بجلی کی قیمت 16 روپے اور 700 سے زائد یونٹ بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کو 18 روپے فی یونٹ ادا کرنا ہوں گے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بجلی نہ استعمال کرنے کی صورت میں بھی صارفین کو 75 روپے بل ادا کرنا ہوگا، نئی قیمتوں کا اطلاق بھی یکم اکتوبر سے ہو گا۔
ملک میں توانائی کا بحران ایک سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ دور حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بیش قیمت ایجادات میں بجلی کی اہمیت اور اس کے غیر معمولی کردار کو کوئی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا تاہم پاکستان کی اشرافیہ، ریاستی و حکومتی اداروں اور خاص طور پر وزارت پانی و بجلی کے کرتا دھرتائوں نے اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کیا کہ بڑے نہ سہی چھوٹے ڈیم بھی تعمیر نہ ہوئے تو ملک توانائی کے ایک ہولناک اور عوام اعصاب شکن بحران سے دوچار ہو جائیں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ادراک و مستقبل بینی در حقیقت مدبرانہ انداز نظر، دور اندیشی، درد آشنا اور ویژن رکھنے والی عوام دوست قیادت کا بنیادی امتحان ہوا کرتا ہے اور جمہوری حکومت کی اولین ذمے داری عوام کی فلاح و بہبود اور اس کو ہر ممکن بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ لیکن بجلی، گیس اور سی این جی کی قلت و پیداوار کے ہمہ جہتی مسائل نے ایک گرداب کی شکل اختیار کر کے پورے ملک کو اندھیروں کی نذر کر دیا ہے، اور ملک بھی وہ جو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال ہے مگر وہاں عوام روشنی کو ترس رہے ہیں۔
شب و روز کا یہ منظر نامہ بجلی کے ایک انتہائی نازک اور حساس نظام سے وابستہ اور اس کی نگراں افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت سے عبارت ہے۔ بلاشبہ بجلی یوٹیلیٹی سروس ہے، ہر گروپ کے صارفین کا فرض ہے کہ وہ بجلی استعمال کرتے ہوئے اس کا ماہانہ بل ضرور جمع کریں مگر بلنگ بھی اعتدال کی حد میں ہو، ظالمانہ بلنگ نے تو غریب صارفین کو کنگال بنا دیا جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھتہ خوری کے ناسور کے بعد دوسرا درد سر بجلی کے بل ثابت ہوئے، اگر بجلی محکمے کنڈا سسٹم ختم نہیں کر سکے تو قانون پسند صارفین کو اس کی سزا کیوں ملے۔ واضح رہے اٹارنی جنرل منیر ملک نے سپریم کورٹ کے روبرو4 اکتوبر 2013ء کو کہا تھا کہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے تاہم حکومتی ذرائع نے اسی وقت یہ عندیہ دیا کہ عوام کو ریلیف دینے کا معاملہ زیر غور ہے مگر نیپرا سے نئے نرخوں کی منظوری حاصل کی جائے گی، یوں عوام کو بجلی کے نئے ہوش ربا اور ناقابل برداشت بلنگ سسٹم کے آگے بے بس کر کے پھینک دیا گیا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین سے لے کر ایک عام محنت کش گھرانے کا سب سے بڑا مسئلہ آجکل بجلی کی آنکھ مچولی، طویل لوڈ شیڈنگ اور اضافی بلنگ ہے۔ اس لیے پہلے سے بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی سے معذور صارفین مالی اعتبار سے کتنے مزید نڈھال ہونگے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اب 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کو نومبر کے مہینے میں ملنے والا بل 579 روپے علاوہ ٹیکس، 200 یونٹ تک 1390 روپے علاوہ ٹیکس اور 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کا بل 2599 روپے سے زائد ہو گا۔ دراصل نیپرا نے اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بجلی کی قیمتوں کا وہی فارمولا پیش کیا جس کا اطلاق وفاقی حکومت نے یکم اکتوبر سے کیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اسے معطل کرتے ہوئے معاملہ نیپرا کو بھجواتے ہوئے قیمتوں پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بجلی کی نئی شرحوں کا اطلاق خیبر پختونخوا پر نہیں ہو گا کیونکہ پشاور ہائیکورٹ نے صوبہ میں بجلی کی شرح میں اضافے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس میں چیئرمین نیپرا خواجہ نعیم نے بتایا کہ نیپرا نے حکومت کی درخواست پر قیمتیں وہی رکھی ہیں جس کا حکومت نے فیصلہ کیا تھا۔ ادھر وزیر مملکت پانی و بجلی کے ریمارکس پر شدید رد عمل سامنے آیا۔ سینیٹر زاہد نے کہا کہ پورے ملک کو1 روپیہ 39 پیسے کی سستی بجلی فراہم کرنیوالے خیبر پختونخوا میں اندھیرے ہیں اور مالا کنڈ ڈویژن میں پورا سال 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، حکومت جہاں بھی بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرے گی پارلیمنٹ پشت پر ہو گی لیکن ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے، اجلاس میں پیپکو کے چیف نے آگاہ کیا کہ پختونخوا میں بجلی کے بلوں میں 85 فیصد ادائیگیاں ہو رہی ہیں لیکن صوبہ میں پرانے سسٹم کی بحالی کے لیے بھاری مالی امداد درکار ہے۔
اس امر سے ہر محب وطن پاکستانی اتفاق کرے گا کہ بجلی کے اداروں کو بجلی کے بل پابندی سے ملنے چاہئیں تا کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو اور بجلی کی فراہمی میں ملک گیر باقاعدگی لائی جا سکے تاہم اس کے لیے بجلی کی پیداوار، تقسیم، بلنگ کے فرسودہ اور استحصالی طریق کار اور کنڈا سسٹم کے حوالے سے تنظیم نو کی ضرورت ہے، وزرا اپنے حلقہ انتخاب میں صارفین کو قائل کرنے کی مہم چلائیں کہ وہ کنڈا سسٹم کے بجائے قانون کے مطابق بجلی کے میٹر لگوائیں جب کہ بجلی کے محکمے بھی عوام کے جیب کی خستہ حالی کا احساس کریں، آئی ایم ایف کا ہر حکم ماننا ایمان کی شرط تو نہیں۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے عوام کو بجلی کے بلوں کے ذریعہ مزید صدمات سے دوچار کرنے کی بجائے انھیں فوری ریلیف ملنا چاہیے۔
ملک میں توانائی کا بحران ایک سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ دور حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بیش قیمت ایجادات میں بجلی کی اہمیت اور اس کے غیر معمولی کردار کو کوئی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا تاہم پاکستان کی اشرافیہ، ریاستی و حکومتی اداروں اور خاص طور پر وزارت پانی و بجلی کے کرتا دھرتائوں نے اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کیا کہ بڑے نہ سہی چھوٹے ڈیم بھی تعمیر نہ ہوئے تو ملک توانائی کے ایک ہولناک اور عوام اعصاب شکن بحران سے دوچار ہو جائیں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ادراک و مستقبل بینی در حقیقت مدبرانہ انداز نظر، دور اندیشی، درد آشنا اور ویژن رکھنے والی عوام دوست قیادت کا بنیادی امتحان ہوا کرتا ہے اور جمہوری حکومت کی اولین ذمے داری عوام کی فلاح و بہبود اور اس کو ہر ممکن بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ لیکن بجلی، گیس اور سی این جی کی قلت و پیداوار کے ہمہ جہتی مسائل نے ایک گرداب کی شکل اختیار کر کے پورے ملک کو اندھیروں کی نذر کر دیا ہے، اور ملک بھی وہ جو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال ہے مگر وہاں عوام روشنی کو ترس رہے ہیں۔
شب و روز کا یہ منظر نامہ بجلی کے ایک انتہائی نازک اور حساس نظام سے وابستہ اور اس کی نگراں افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت سے عبارت ہے۔ بلاشبہ بجلی یوٹیلیٹی سروس ہے، ہر گروپ کے صارفین کا فرض ہے کہ وہ بجلی استعمال کرتے ہوئے اس کا ماہانہ بل ضرور جمع کریں مگر بلنگ بھی اعتدال کی حد میں ہو، ظالمانہ بلنگ نے تو غریب صارفین کو کنگال بنا دیا جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھتہ خوری کے ناسور کے بعد دوسرا درد سر بجلی کے بل ثابت ہوئے، اگر بجلی محکمے کنڈا سسٹم ختم نہیں کر سکے تو قانون پسند صارفین کو اس کی سزا کیوں ملے۔ واضح رہے اٹارنی جنرل منیر ملک نے سپریم کورٹ کے روبرو4 اکتوبر 2013ء کو کہا تھا کہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے تاہم حکومتی ذرائع نے اسی وقت یہ عندیہ دیا کہ عوام کو ریلیف دینے کا معاملہ زیر غور ہے مگر نیپرا سے نئے نرخوں کی منظوری حاصل کی جائے گی، یوں عوام کو بجلی کے نئے ہوش ربا اور ناقابل برداشت بلنگ سسٹم کے آگے بے بس کر کے پھینک دیا گیا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین سے لے کر ایک عام محنت کش گھرانے کا سب سے بڑا مسئلہ آجکل بجلی کی آنکھ مچولی، طویل لوڈ شیڈنگ اور اضافی بلنگ ہے۔ اس لیے پہلے سے بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی سے معذور صارفین مالی اعتبار سے کتنے مزید نڈھال ہونگے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اب 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کو نومبر کے مہینے میں ملنے والا بل 579 روپے علاوہ ٹیکس، 200 یونٹ تک 1390 روپے علاوہ ٹیکس اور 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کا بل 2599 روپے سے زائد ہو گا۔ دراصل نیپرا نے اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بجلی کی قیمتوں کا وہی فارمولا پیش کیا جس کا اطلاق وفاقی حکومت نے یکم اکتوبر سے کیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اسے معطل کرتے ہوئے معاملہ نیپرا کو بھجواتے ہوئے قیمتوں پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بجلی کی نئی شرحوں کا اطلاق خیبر پختونخوا پر نہیں ہو گا کیونکہ پشاور ہائیکورٹ نے صوبہ میں بجلی کی شرح میں اضافے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس میں چیئرمین نیپرا خواجہ نعیم نے بتایا کہ نیپرا نے حکومت کی درخواست پر قیمتیں وہی رکھی ہیں جس کا حکومت نے فیصلہ کیا تھا۔ ادھر وزیر مملکت پانی و بجلی کے ریمارکس پر شدید رد عمل سامنے آیا۔ سینیٹر زاہد نے کہا کہ پورے ملک کو1 روپیہ 39 پیسے کی سستی بجلی فراہم کرنیوالے خیبر پختونخوا میں اندھیرے ہیں اور مالا کنڈ ڈویژن میں پورا سال 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، حکومت جہاں بھی بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرے گی پارلیمنٹ پشت پر ہو گی لیکن ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے، اجلاس میں پیپکو کے چیف نے آگاہ کیا کہ پختونخوا میں بجلی کے بلوں میں 85 فیصد ادائیگیاں ہو رہی ہیں لیکن صوبہ میں پرانے سسٹم کی بحالی کے لیے بھاری مالی امداد درکار ہے۔
اس امر سے ہر محب وطن پاکستانی اتفاق کرے گا کہ بجلی کے اداروں کو بجلی کے بل پابندی سے ملنے چاہئیں تا کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو اور بجلی کی فراہمی میں ملک گیر باقاعدگی لائی جا سکے تاہم اس کے لیے بجلی کی پیداوار، تقسیم، بلنگ کے فرسودہ اور استحصالی طریق کار اور کنڈا سسٹم کے حوالے سے تنظیم نو کی ضرورت ہے، وزرا اپنے حلقہ انتخاب میں صارفین کو قائل کرنے کی مہم چلائیں کہ وہ کنڈا سسٹم کے بجائے قانون کے مطابق بجلی کے میٹر لگوائیں جب کہ بجلی کے محکمے بھی عوام کے جیب کی خستہ حالی کا احساس کریں، آئی ایم ایف کا ہر حکم ماننا ایمان کی شرط تو نہیں۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے عوام کو بجلی کے بلوں کے ذریعہ مزید صدمات سے دوچار کرنے کی بجائے انھیں فوری ریلیف ملنا چاہیے۔