غذائی قلت تھرپارکرکی صورتحال مزید ابترکم عمر بچوں کی شرح اموات میں اضافہ
نومولود اور کم عمر بچوں کی شرح اموات گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنی ہو گئی، اسپتالوں کی صورتحال بھی خراب
ISLAMABAD:
سندھ میں جو ایک مسئلہ کافی عرصے سے چلا آریا ہے وہ بڑھتی ہوئی غذائی قلت ہے اور اس حوالے سے سندھ کی صوبائی حکومت کو متعدد بار تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس کے جواب میں سندھ حکومت نے عالمی ڈونرز اداروں کی مدد سے اربوں روپے مالیت کے کئی منصوبے شروع کیے تاکہ غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پایا جاسکے، گو ان منصوبوں کی وجہ سے صوبے بھر میں کچھ بہتری تو آئی ہے اور کم عمر بچوں میں غذائی قلت کی کمی کو کافی حد تک دور کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
تاہم اس کے باوجود کچھ دیہی علاقوں میں خاص طور پر تھرپارکر میں صورتحال مزید بگڑی ہے۔ اس حوالے سے تھرپارکر کے ایک مقامی صحافی کھٹاو جانی نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس وقت میں تھرپارکر میں نومولود اور کم عمر بچوں کی شرح اموات گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریبا دگنی ہوگئی ہے، سال 2018 میں 300 سے 350 بچے غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھے تاہم اس سال یعنی 2019 میں اب تک 692 بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
کھٹاؤ جانی نے مزید بتایا کہ سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت کے حوالے سے اسپیشل وارڈ کے قیام کے باوجود بچوں کی زیادہ تر اموات اسپتال میں ہی واقع ہورہی ہیں، اور مٹھی کے ذیلی اضلاع میں واقع اسپتالوں میں صورت حال اس سے بھی خراب ہے، حالانکہ حکومت نے ہر ذیلی اضلاع اسپیشل وارڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اب تک ایسا نہ ہوسکا۔اس سارے معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر جے پال چھابڑیہ نے اس کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا اور کہا کہ نااہل سیاست دانوں اور سینئر سرکاری اہلکار صورت حال میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ڈاکٹر جے پال کا کہنا تھا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اضلاع کے اسپتالوں میں بہتری نظر نہیں آتی اور کم عمر اور نومولود بچوں کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی وجہ بے انتظامی اور صحت کے اہم عہدوں پر نا اہل افسران کی تعیناتی ہے جنھیں میرٹ کے برخلاف یہ عہدے دیے گئے ہیں۔
جب اس حوالے سے سندھ نیوٹریشن سپورٹ پروگرام کے منیجر ڈاکٹر وقار میمن سے رابطہ کیا گیا تو انھیں اس مسئلے پر کچھ کہنے سے گریز کیا اور کہا کہ وہ اعلی افسران کی اجازت کے بغیر اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے۔محکمہ صحت سندھ کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ بھر میں مجموعی طور پر خون کی کمی کا شکار مریضوں یا افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
گزشتہ سال خون کی کمی کا شکار بچوں کی شرح 47 فیصد تھی جبکہ 2011 میں یہ 61 فیصد تھی لیکن غذائی کمی کے باعث قد کے مقابلے میں کم وزن کا شکار بچوں کی شرح گزشتہ برس 23 فیصد تھی جبکہ 2011 میں یہ 17 فیصد تھی۔دوسری جانب محکمہ صحت کا دعوی ہے کہ حکومتی اقدامات کی بدولت صوبے میں بچوں میں غذائی کمی کی قلت کو کافی حد تک دور کرلیا گیا ہے اور بچوں کی نشو و نما میں کافی بہتری آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں نشو و نما کی کمی کا شکار بچوں کی شرح 49 فیصد تھی جو گزشتہ برس کم ہوکر 45 اعشاریہ 5 فیصد رہ گء ہے، تاہم یہ شرح اب بھی بہت بلند ہے۔
سندھ میں جو ایک مسئلہ کافی عرصے سے چلا آریا ہے وہ بڑھتی ہوئی غذائی قلت ہے اور اس حوالے سے سندھ کی صوبائی حکومت کو متعدد بار تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس کے جواب میں سندھ حکومت نے عالمی ڈونرز اداروں کی مدد سے اربوں روپے مالیت کے کئی منصوبے شروع کیے تاکہ غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پایا جاسکے، گو ان منصوبوں کی وجہ سے صوبے بھر میں کچھ بہتری تو آئی ہے اور کم عمر بچوں میں غذائی قلت کی کمی کو کافی حد تک دور کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
تاہم اس کے باوجود کچھ دیہی علاقوں میں خاص طور پر تھرپارکر میں صورتحال مزید بگڑی ہے۔ اس حوالے سے تھرپارکر کے ایک مقامی صحافی کھٹاو جانی نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس وقت میں تھرپارکر میں نومولود اور کم عمر بچوں کی شرح اموات گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریبا دگنی ہوگئی ہے، سال 2018 میں 300 سے 350 بچے غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھے تاہم اس سال یعنی 2019 میں اب تک 692 بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
کھٹاؤ جانی نے مزید بتایا کہ سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت کے حوالے سے اسپیشل وارڈ کے قیام کے باوجود بچوں کی زیادہ تر اموات اسپتال میں ہی واقع ہورہی ہیں، اور مٹھی کے ذیلی اضلاع میں واقع اسپتالوں میں صورت حال اس سے بھی خراب ہے، حالانکہ حکومت نے ہر ذیلی اضلاع اسپیشل وارڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اب تک ایسا نہ ہوسکا۔اس سارے معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر جے پال چھابڑیہ نے اس کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا اور کہا کہ نااہل سیاست دانوں اور سینئر سرکاری اہلکار صورت حال میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ڈاکٹر جے پال کا کہنا تھا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اضلاع کے اسپتالوں میں بہتری نظر نہیں آتی اور کم عمر اور نومولود بچوں کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی وجہ بے انتظامی اور صحت کے اہم عہدوں پر نا اہل افسران کی تعیناتی ہے جنھیں میرٹ کے برخلاف یہ عہدے دیے گئے ہیں۔
جب اس حوالے سے سندھ نیوٹریشن سپورٹ پروگرام کے منیجر ڈاکٹر وقار میمن سے رابطہ کیا گیا تو انھیں اس مسئلے پر کچھ کہنے سے گریز کیا اور کہا کہ وہ اعلی افسران کی اجازت کے بغیر اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے۔محکمہ صحت سندھ کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ بھر میں مجموعی طور پر خون کی کمی کا شکار مریضوں یا افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
گزشتہ سال خون کی کمی کا شکار بچوں کی شرح 47 فیصد تھی جبکہ 2011 میں یہ 61 فیصد تھی لیکن غذائی کمی کے باعث قد کے مقابلے میں کم وزن کا شکار بچوں کی شرح گزشتہ برس 23 فیصد تھی جبکہ 2011 میں یہ 17 فیصد تھی۔دوسری جانب محکمہ صحت کا دعوی ہے کہ حکومتی اقدامات کی بدولت صوبے میں بچوں میں غذائی کمی کی قلت کو کافی حد تک دور کرلیا گیا ہے اور بچوں کی نشو و نما میں کافی بہتری آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں نشو و نما کی کمی کا شکار بچوں کی شرح 49 فیصد تھی جو گزشتہ برس کم ہوکر 45 اعشاریہ 5 فیصد رہ گء ہے، تاہم یہ شرح اب بھی بہت بلند ہے۔