چلی میں احتجاجی مظاہرین کا صدر سے ملاقات سے انکار
چلی میں ہونے والے ہنگاموں میں کم از کم 15افراد ہلاک ہو چکے ہیں
TAIPEI:
لاطینی امریکا کے ملک چلی میں ہونے والے ہنگاموں میں کم از کم 15افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز نے ڈھائی ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے جب کہ چلی کی اپوزیشن نے چلی کے صدر سبطین پنیرا کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مظاہرین نے دارالحکومت سان تیاگو اور دیگر شہروں کے مرکزی چوک میں جمع ہو کر احتجاج شروع کر دیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور ہجوم پر آنسو گیس اور پانی کے گولے پھینکے۔ حکومت نے ملک کے دس شہروں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی اور رات بھر کا کرفیو لگانے کے ساتھ وہاں خصوصی فورسز کو طلب کر لیا گیا۔
چلی کا شمار لاطینی امریکا کے سب سے زیادہ مستحکم ممالک میں ہوتا ہے لیکن مظاہرین کا تقاضا تھا کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں ان کی بساط سے باہر ہو چکی ہیں اس کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی بہت اضافہ کر دیا گیا۔ مظاہرین ٹیکسوں میں کمی لانے کا بھی مطالبہ کر رہے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے۔
صدر سبطین پنیرا نے مظاہرین کے لیڈروں کو ملاقات کی دعوت دیدی مگر مظاہرین نے مذاکرات کی دعوت مسترد کر دی۔ صدر کی ترجمان سسیلیا پیریز نے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرنے کو افسوسناک قرار دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صدر پنیرا کے نام کھلا خط بھیجا ہے جس میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی مذمت کی گئی ہے۔ مظاہرین نے سان تیاگو کو لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
سیکیورٹی انچارج جنرل جاویئر ایتوریگا نے بتایا کہ ہنگاموں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تحقیقات کی جا رہی ہے اور اگر سرکاری اہلکاروں کی زیادتی کی کوئی شکایت درست ثابت ہوتی ہے تو حکومت ان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ چلی میں انسانی حقوق کے انچارج مائیکل بیش لیٹ نے جو ملک کے سابق صدر بھی ہیں مظاہرین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے خلاف زیادتیوں کے مرتکب سرکاری عمال کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
لاطینی امریکا کے ملک چلی میں ہونے والے ہنگاموں میں کم از کم 15افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز نے ڈھائی ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے جب کہ چلی کی اپوزیشن نے چلی کے صدر سبطین پنیرا کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مظاہرین نے دارالحکومت سان تیاگو اور دیگر شہروں کے مرکزی چوک میں جمع ہو کر احتجاج شروع کر دیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور ہجوم پر آنسو گیس اور پانی کے گولے پھینکے۔ حکومت نے ملک کے دس شہروں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی اور رات بھر کا کرفیو لگانے کے ساتھ وہاں خصوصی فورسز کو طلب کر لیا گیا۔
چلی کا شمار لاطینی امریکا کے سب سے زیادہ مستحکم ممالک میں ہوتا ہے لیکن مظاہرین کا تقاضا تھا کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں ان کی بساط سے باہر ہو چکی ہیں اس کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی بہت اضافہ کر دیا گیا۔ مظاہرین ٹیکسوں میں کمی لانے کا بھی مطالبہ کر رہے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے۔
صدر سبطین پنیرا نے مظاہرین کے لیڈروں کو ملاقات کی دعوت دیدی مگر مظاہرین نے مذاکرات کی دعوت مسترد کر دی۔ صدر کی ترجمان سسیلیا پیریز نے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرنے کو افسوسناک قرار دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صدر پنیرا کے نام کھلا خط بھیجا ہے جس میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی مذمت کی گئی ہے۔ مظاہرین نے سان تیاگو کو لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
سیکیورٹی انچارج جنرل جاویئر ایتوریگا نے بتایا کہ ہنگاموں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تحقیقات کی جا رہی ہے اور اگر سرکاری اہلکاروں کی زیادتی کی کوئی شکایت درست ثابت ہوتی ہے تو حکومت ان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ چلی میں انسانی حقوق کے انچارج مائیکل بیش لیٹ نے جو ملک کے سابق صدر بھی ہیں مظاہرین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے خلاف زیادتیوں کے مرتکب سرکاری عمال کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔