زبیدہ خانم آواز کا جادو
زبیدہ خانم نے 147 فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور 244 نغمے گائے
جب قیام پاکستان عمل میں آیا تو لاہور اگرچہ فلم سازی کے حوالے سے ایک اہم مرکز ضرور تھا مگر 1947ء میں جو اسٹوڈیوز تھے، وہ اس حالت میں نہ تھے کہ ان اسٹوڈیوز میں فلم سازی کا عمل شروع کیا جاتا۔ البتہ چند باہمت فنکار و فن دوست تھے، جو اس عزم کے ساتھ میدان عمل میں داخل ہوئے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے، چنانچہ تمام تر بے سروسامانی کے باوجود لاہور میں فلم سازی کا آغاز کر دیا گیا۔
البتہ 1947ء میں قیام پاکستان کے برس تو فلم سازی کا تصور بھی محال تھا چنانچہ اس برس کوئی فلم منظر عام پر نہ آ سکی مگر 1948ء وہ برس تھا جب پاکستان کی اولین فلم ''تیری یاد'' سینما کی زینت بنی۔ اس فلم میں آشا بھوسلے نے ناصر خان کے مد مقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ 1949ء میں تین فلمیں منظر عام پر آئیں یوں پاکستانی فلم انڈسٹری نے قدم جمانے شروع کر دیے۔
اداکاروں میں آغا طالش، الیاس کشمیری، شاہ زمان المعروف سدھیر، موسیٰ رضا المعروف سنتوش کمار، علاؤ الدین، اجمل خان، ایم اسماعیل وغیرہ اپنے اپنے جوہر دکھانے کو بے تاب تھے۔ میڈم نور جہاں ان کے شوہر شوکت حسین رضوی نامور اداکار نذیر ان کی شریک حیات سورن لتا بھی بمبئی سے لاہور آ چکے تھے۔ خواتین میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، شمی و دیگر فلم انڈسٹری میں داخل ہو چکی تھیں۔ گلوکاری کے شعبے میں میڈم نور جہاں کے ساتھ نسیم بیگم، کوثر پروین، آئرن پروین و مرد گلوکاروں میں ظہور حسین، فضل حسین، عنایت حسین بھٹی بھی انٹری دے چکے تھے۔ البتہ ایک خوبصورت و سریلی آواز کی مالک گلوکارہ محترمہ زبیدہ خانم بھی اپنے فن کا جوہر دکھانے تشریف لاچکی تھیں اور یہی ہماری آج کی نشست کی گفتگو کا محور ہیں۔
زبیدہ خانم جنھوں نے 1935ء میں امرتسر میں ایک غیر فنکار گھرانے میں جنم لیا اگرچہ ان کے گھرانے میں گانا وغیرہ پسند نہیں کیا جاتا تھا، اس کے باوجود زبیدہ خانم کی عمر فقط 9 برس تھی جب ان کے اندر گلوکاری کا شوق پیدا ہوا۔ جب ایک بھائی جو کہ ان سے تین برس بڑے تھے وہ بھی گلوکاری کا شوق رکھتے تھے۔
زبیدہ خانم نے اپنے شوق کا اظہار جب اپنے بھائی سے کیا تو انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کی کافی حوصلہ افزائی کی اور خود ہی اپنی بہن کی فن گلوکاری کی تربیت کا آغاز کر دیا۔ یہ ذکر ہے 1944ء کا تین برس بعد پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تو زبیدہ خانم کا خاندان امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آ گیا تو لاہور میں ان کی ملاقات عظیم موسیقار رشید عطرے صاحب جو کہ ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشن سے موسیقی کا ایک پروگرام کرتے تھے سے ہوئی۔ انھوں نے زبیدہ خانم کو اپنے موسیقی کے نشر ہونے والے پروگرام میں گانے کا موقعہ دیا۔
یوں زبیدہ خانم نے فن گلوکاری میں قدم رکھا البتہ 1953 میں اداکار نذیر اور ان کی شریک حیات سورن لتا نے جب ریڈیو پر زبیدہ خانم کوگاتے ہوئے سنا تو انھوں نے موسیقار رشید عطرے سے زبیدہ خانم کے گھر کا ایڈریس لیا اور زبیدہ خانم کے گھر جا کر انھیں اپنی پنجابی فلم ''شہری بابو'' میں گانے کی آفر کی۔ یہ آفر زبیدہ خانم نے قبول کر لی۔ یوں انھوں نے ''شہری بابو'' فلم میں اپنا اولین گانا گایا، اس گانے کی تین ماہ تک ریاضت ہوتی رہی، اس گانے کے بول تھے ''گلاں سن کے ماہی دے نال میریاں دوپٹہ بے ایمان ہو گیا' مینوں ماہی وانگوں گھٹ گھٹ ملدا اے چندرا شیطان ہو گیا'' زبیدہ خانم کے اس نغمے کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور آج بھی فرمائشی پروگراموں میں یہ نغمہ فرمائش کر کے خصوصیت سے سنا جاتا ہے جب کہ یہ 66 برس قبل ریکارڈ ہوا تھا۔ اس نغمے کے بعد گویا فلم نگری کے دروازے زبیدہ خانم کے لیے کھل گئے اور انھوں نے 147 فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور 244 نغمے گائے۔ ان نغمات میں 98 پنجابی زبان کے تھے جب کہ 146 اردو زبان کے نغمات تھے۔
زبیدہ خانم نے جن فلموں کے لیے نغمات گائے ان میں ''شہری بابو'' کے علاوہ ''ناجی'' فلم میں ''میرا جیوے ڈھولا نی میرا جیوے ڈھولا''، فلم ''دلا بھٹی'' میں ''واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا' چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا''، فلم ''مکھڑا'' میں ''دِلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے' کوئی جاندی واری سجناں نوں گل کہن دے'' فلم ''پتن'' میں ''بیڑی دتی ٹھیل وے مقدراں دے کھیل وے' رب نے کرایا ساڈا پتناں تے میل وے''، فلم ''شیخ'' میں ''سیوں نی میرا دل دھڑکے' دل دھڑکے نالے اکھ پھڑکے''، فلم ''چھو منتر میں ''برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا ' نظر چرا کے کوئی لے گیا قرار میرا''، فلم ''سات لاکھ'' میں ''آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے' تو چُھٹی لے کے آ جا بالما''، فلم ''کوئل'' میں ''دل جلا نا دل والے' آنکھ ملا کے مجھے اپنا بنا لے''، فلم ''یکے والی'' میں ''کلی سواری بھئی بھائی لوہاری بھئی''، فلم ''کرتار سنگھ'' میں نسیم بیگم کے ساتھ ''ماہی نے تینوں لے جانا'' و دیگر نغمات میں ''اساں جان کے میچ لئی اکھ وے' جُوٹھی موٹی دا پا لیا ای ککھ وے''، ''میری چُنی دیاں ریشمی تنداں' نی میں گھٹ گھٹ دینی آں گڈاں'' جب کہ ''رات کے راہی'' فلم میں ان کا گایا ہوا گانا ان کا پسندیدہ ترین گانا تھا، جس کے خوب صورت بول تھے ''کیا ہوا دل پہ ستم' تم نہ سمجھو گے بلم''۔
زبیدہ خانم نے نعتیہ کلام بھی گائے اور پوری عقیدت و احترام کے ساتھ گائے۔ پہلا کلام فلم ''حاتم'' کے لیے گایا جس کے بول تھے ''سنو عرض میری کملی والے'' جب کہ فلم ''داتا'' کے لیے ''سرکار مدینے والے '' گایا فقط سات برس اپنا فنی سفر جاری رکھنے والی عظیم گلوکارہ نے آخری نغمہ یہ گایا ''گاڑی کو چلانا ذرا ہولے ہولے' کہیں دل کا جام نہ چھلکے''۔
زبیدہ خانم نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ فلموں میں اداکاری بھی کی۔ وہ فلمیں تھیں بلو مورنی، پاٹے خان اور خوب اداکاری کی اور داد و تحسین حاصل کی۔ فقط سات برس فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے والی زبیدہ خانم نے 1960ء میں کیمرہ مین ریاض بخاری کے ساتھ شادی کر لی اور پوری توجہ گھریلو زندگی پر مرکوز کر دی۔
زبیدہ خانم نے فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ خداوند کریم نے انھیں دو بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان کا ایک بیٹا فیصل بخاری شوبز کی دنیا میں آیا اور اداکاری کے ساتھ ساتھ دو فلمیں ''بھائی لوگ'' اور ''نو پیسہ نو ٹینشن'' بطور ہدایت کار تخلیق کیں ۔ زبیدہ خانم کا ایک پوتا بھی بطور کیمرہ مین شوبز سے منسلک ہے۔ بہرکیف 19 اکتوبر 2013ء وہ دن تھا جب زبیدہ خانم نے اس فانی دنیا سے کوچ کیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 78 برس تھی۔ 19 اکتوبر 2019ء کو زبیدہ خانم کی چھٹی برسی عقیدت و احترام سے پورے ملک میں منائی گئی۔ اس موقعے پر ہم انھیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان نیک خواہشات کے ساتھ کہ خداوند کریم انھیں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین۔)
البتہ 1947ء میں قیام پاکستان کے برس تو فلم سازی کا تصور بھی محال تھا چنانچہ اس برس کوئی فلم منظر عام پر نہ آ سکی مگر 1948ء وہ برس تھا جب پاکستان کی اولین فلم ''تیری یاد'' سینما کی زینت بنی۔ اس فلم میں آشا بھوسلے نے ناصر خان کے مد مقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ 1949ء میں تین فلمیں منظر عام پر آئیں یوں پاکستانی فلم انڈسٹری نے قدم جمانے شروع کر دیے۔
اداکاروں میں آغا طالش، الیاس کشمیری، شاہ زمان المعروف سدھیر، موسیٰ رضا المعروف سنتوش کمار، علاؤ الدین، اجمل خان، ایم اسماعیل وغیرہ اپنے اپنے جوہر دکھانے کو بے تاب تھے۔ میڈم نور جہاں ان کے شوہر شوکت حسین رضوی نامور اداکار نذیر ان کی شریک حیات سورن لتا بھی بمبئی سے لاہور آ چکے تھے۔ خواتین میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، شمی و دیگر فلم انڈسٹری میں داخل ہو چکی تھیں۔ گلوکاری کے شعبے میں میڈم نور جہاں کے ساتھ نسیم بیگم، کوثر پروین، آئرن پروین و مرد گلوکاروں میں ظہور حسین، فضل حسین، عنایت حسین بھٹی بھی انٹری دے چکے تھے۔ البتہ ایک خوبصورت و سریلی آواز کی مالک گلوکارہ محترمہ زبیدہ خانم بھی اپنے فن کا جوہر دکھانے تشریف لاچکی تھیں اور یہی ہماری آج کی نشست کی گفتگو کا محور ہیں۔
زبیدہ خانم جنھوں نے 1935ء میں امرتسر میں ایک غیر فنکار گھرانے میں جنم لیا اگرچہ ان کے گھرانے میں گانا وغیرہ پسند نہیں کیا جاتا تھا، اس کے باوجود زبیدہ خانم کی عمر فقط 9 برس تھی جب ان کے اندر گلوکاری کا شوق پیدا ہوا۔ جب ایک بھائی جو کہ ان سے تین برس بڑے تھے وہ بھی گلوکاری کا شوق رکھتے تھے۔
زبیدہ خانم نے اپنے شوق کا اظہار جب اپنے بھائی سے کیا تو انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کی کافی حوصلہ افزائی کی اور خود ہی اپنی بہن کی فن گلوکاری کی تربیت کا آغاز کر دیا۔ یہ ذکر ہے 1944ء کا تین برس بعد پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تو زبیدہ خانم کا خاندان امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آ گیا تو لاہور میں ان کی ملاقات عظیم موسیقار رشید عطرے صاحب جو کہ ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشن سے موسیقی کا ایک پروگرام کرتے تھے سے ہوئی۔ انھوں نے زبیدہ خانم کو اپنے موسیقی کے نشر ہونے والے پروگرام میں گانے کا موقعہ دیا۔
یوں زبیدہ خانم نے فن گلوکاری میں قدم رکھا البتہ 1953 میں اداکار نذیر اور ان کی شریک حیات سورن لتا نے جب ریڈیو پر زبیدہ خانم کوگاتے ہوئے سنا تو انھوں نے موسیقار رشید عطرے سے زبیدہ خانم کے گھر کا ایڈریس لیا اور زبیدہ خانم کے گھر جا کر انھیں اپنی پنجابی فلم ''شہری بابو'' میں گانے کی آفر کی۔ یہ آفر زبیدہ خانم نے قبول کر لی۔ یوں انھوں نے ''شہری بابو'' فلم میں اپنا اولین گانا گایا، اس گانے کی تین ماہ تک ریاضت ہوتی رہی، اس گانے کے بول تھے ''گلاں سن کے ماہی دے نال میریاں دوپٹہ بے ایمان ہو گیا' مینوں ماہی وانگوں گھٹ گھٹ ملدا اے چندرا شیطان ہو گیا'' زبیدہ خانم کے اس نغمے کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور آج بھی فرمائشی پروگراموں میں یہ نغمہ فرمائش کر کے خصوصیت سے سنا جاتا ہے جب کہ یہ 66 برس قبل ریکارڈ ہوا تھا۔ اس نغمے کے بعد گویا فلم نگری کے دروازے زبیدہ خانم کے لیے کھل گئے اور انھوں نے 147 فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور 244 نغمے گائے۔ ان نغمات میں 98 پنجابی زبان کے تھے جب کہ 146 اردو زبان کے نغمات تھے۔
زبیدہ خانم نے جن فلموں کے لیے نغمات گائے ان میں ''شہری بابو'' کے علاوہ ''ناجی'' فلم میں ''میرا جیوے ڈھولا نی میرا جیوے ڈھولا''، فلم ''دلا بھٹی'' میں ''واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا' چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا''، فلم ''مکھڑا'' میں ''دِلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے' کوئی جاندی واری سجناں نوں گل کہن دے'' فلم ''پتن'' میں ''بیڑی دتی ٹھیل وے مقدراں دے کھیل وے' رب نے کرایا ساڈا پتناں تے میل وے''، فلم ''شیخ'' میں ''سیوں نی میرا دل دھڑکے' دل دھڑکے نالے اکھ پھڑکے''، فلم ''چھو منتر میں ''برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا ' نظر چرا کے کوئی لے گیا قرار میرا''، فلم ''سات لاکھ'' میں ''آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے' تو چُھٹی لے کے آ جا بالما''، فلم ''کوئل'' میں ''دل جلا نا دل والے' آنکھ ملا کے مجھے اپنا بنا لے''، فلم ''یکے والی'' میں ''کلی سواری بھئی بھائی لوہاری بھئی''، فلم ''کرتار سنگھ'' میں نسیم بیگم کے ساتھ ''ماہی نے تینوں لے جانا'' و دیگر نغمات میں ''اساں جان کے میچ لئی اکھ وے' جُوٹھی موٹی دا پا لیا ای ککھ وے''، ''میری چُنی دیاں ریشمی تنداں' نی میں گھٹ گھٹ دینی آں گڈاں'' جب کہ ''رات کے راہی'' فلم میں ان کا گایا ہوا گانا ان کا پسندیدہ ترین گانا تھا، جس کے خوب صورت بول تھے ''کیا ہوا دل پہ ستم' تم نہ سمجھو گے بلم''۔
زبیدہ خانم نے نعتیہ کلام بھی گائے اور پوری عقیدت و احترام کے ساتھ گائے۔ پہلا کلام فلم ''حاتم'' کے لیے گایا جس کے بول تھے ''سنو عرض میری کملی والے'' جب کہ فلم ''داتا'' کے لیے ''سرکار مدینے والے '' گایا فقط سات برس اپنا فنی سفر جاری رکھنے والی عظیم گلوکارہ نے آخری نغمہ یہ گایا ''گاڑی کو چلانا ذرا ہولے ہولے' کہیں دل کا جام نہ چھلکے''۔
زبیدہ خانم نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ فلموں میں اداکاری بھی کی۔ وہ فلمیں تھیں بلو مورنی، پاٹے خان اور خوب اداکاری کی اور داد و تحسین حاصل کی۔ فقط سات برس فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے والی زبیدہ خانم نے 1960ء میں کیمرہ مین ریاض بخاری کے ساتھ شادی کر لی اور پوری توجہ گھریلو زندگی پر مرکوز کر دی۔
زبیدہ خانم نے فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ خداوند کریم نے انھیں دو بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان کا ایک بیٹا فیصل بخاری شوبز کی دنیا میں آیا اور اداکاری کے ساتھ ساتھ دو فلمیں ''بھائی لوگ'' اور ''نو پیسہ نو ٹینشن'' بطور ہدایت کار تخلیق کیں ۔ زبیدہ خانم کا ایک پوتا بھی بطور کیمرہ مین شوبز سے منسلک ہے۔ بہرکیف 19 اکتوبر 2013ء وہ دن تھا جب زبیدہ خانم نے اس فانی دنیا سے کوچ کیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 78 برس تھی۔ 19 اکتوبر 2019ء کو زبیدہ خانم کی چھٹی برسی عقیدت و احترام سے پورے ملک میں منائی گئی۔ اس موقعے پر ہم انھیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان نیک خواہشات کے ساتھ کہ خداوند کریم انھیں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین۔)