دونوں بڑی طاقتوں نے پاکستان توڑنے میں بھارت کا ساتھ دیا
1962ء میں چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست نے عالمی طاقتوںکا بھارت کو خطے پر مسلط کرنے کا خواب چکناچور کر دیا
(قسط نمبر5)
جنگ 1965 ء میں پاکستان نے اپنے سے تین گنا زیادہ فوجی قوت اسلحہ اور ہتھیار رکھنے والے ملک بھارت کو حقیقت میں شکست دی تھی اور یہ واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان کی فوج عسکری صلاحیت و مہارت کے ساتھ جذبہء ایمانی اور حب الوطنی سے بھی سر شار ہے اسی لئے اتنی بہادری سے لڑی کہ دنیا حیران رہ گئی ۔ یہ جنگ مغربی پاکستا ن کی بھارت سے ملنے والی سرحدوں اور بحیرہ عرب کے ساحل پر اور انہی فضاؤں میں لڑئی گئی۔
یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی دوسری جنگ تھی جو پہلی پاک بھارت جنگ کے 17 سال بعد لڑی گئی تھی۔ پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان نے بغیر کسی بڑی طاقت کی امداد اور پاکستان کے انگریز آرمی چیف اور بھارت پاکستان کے مشترکہ انگریز کمانڈر انچیف کی مرضی کے خلاف اپنے مسلمان فوجی کمانڈروں، کشمیری مجاہدین اور پاکستان کے قبائلی لشکر کے ساتھ جیتی تھی، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے تھے۔
یہ بھارت کی عسکری قوت، مہارت کی ساکھ اور ایک بڑے ملک ہو نے کے ناطے دنیا میں ایک بڑا چیلنج ہی نہیں بلکہ ندامت کا مقام تھا، بھارت نہ صرف پاکستان سے دو جنگوںمیں شکست کھا چکا تھا بلکہ 1962ء میں چین سے ہونے والی جنگ میں بھی بھارت کو عبرتناک شکست ہوئی تھی، جس میں بھارت کے ہزاروں فوجی ہلاک زخمی اور لا پتہ ہوئے جبکہ بہت سے جنگی قید ی بھی بنائے گئے تھے اور بھارت سے چین نے لداخ میں ساڑھے گیارہ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ چھین لیا تھا۔ واضح رہے کہ اُ س وقت چین اقوام متحدہ کا رکن نہیں تھا اور اس کی جگہ تائیوان کو نمائندگی دی گئی تھی۔ چین اُس وقت تک ایٹمی قوت بھی نہیں تھا۔
یوں جن قوتوں نے کو شش کی تھی کہ بھارت کو چین اور پاکستان سے لڑ وا کرعلاقے میں اپنے نائب کے طور پر چین اور پاکستان پر مسلط کر دیں، اُن قوتوں کو منہ کی کھانا پڑی اور اس خطے میں دنیا نے یہ تسلیم کر لیا کہ بھارت پاکستان اور چین دونوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یوں معاہدہ تاشقند امریکہ اور سابق سوویت یونین کی عالمی سیاسی اسٹرٹیجی کی بنیاد پر مشترکہ فیصلہ تھا۔
امریکہ نے 1965 کی جنگ کے دوران ہی دنوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روک دی تھی، اور اس کا واضح دباؤ پاکستان پر تھا،کیونکہ بھارت جو سوویت یونین فرانس و برطانیہ سے بھی اسلحہ حاصل کرتا تھا، اُس کے لیے مسائل کم تھے مگر پاکستان کی دفاعی، عسکری ، صنعتی اور اقتصادی ضروریات کا مکمل انحصار امریکہ پر تھا۔ غالباً صدر ایوب خان کو یہی دکھ تھا کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام ''فرینڈز ناٹ ماسٹر'' رکھا، اگرچہ اس کا اردو لفظی ترجمہ یوں ہے کہ ''دوست آقا نہیں'' لیکن جب اِس کا اردو ترجمہ سامنے آیا تو علامہ اقبال کے مصرع ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی '' کو کتاب کے نام کے طور پر استعمال کیا گیا تھا جس سے اُس پوری صورتحال کو سمجھنے میں قومی فکر واحساس کے ساتھ بڑی وسعت آگئی تھی۔
ایوب خان اور شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کو تو اُس وقت دنیا میں ''فرینڈ آف امریکا '' کا خطاب دیا گیا تھا مگرجنگ کے عین موقع پر جب پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ اگر اُسے اسلحہ طیاروں اور دیگر جنگی مشینری کے پرزہ جات کی سپلائی جاری رہتی تو پاکستان جنگ میںبھارت کو شکست دے کر مقبوضہ کشمیر آزاد کرا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور پاکستان کو مجبوراً نہ صرف 17 روز میں جنگ بند کرنا پڑی بلکہ تین مہینے بعد ہی جنوری 1966 میں سابق سوویت یونین کی ریاست ازبکستان کے مشہور شہر تاشقند میں معاہدے پر د ستخط کرنے پڑ ے جس میںطے پایا کہ 25 فروری 1966 سے پہلے پہلے دونوں ملکوں کی فوجیں کشمیر کی جنگ بندی لائن سمیت بھارت اور پاکستان کی سرحدوں پر زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آجائیں گی۔
یہ معاہدہ سرد جنگ کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز صورتحال لے کر سامنے آیا۔ 1960 سے1965 تک کیوبا میزائل بحران، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل، ویتنام کی شدید جنگ، پاکستان میں واقع امریکہ اڈے سے پرواز کرنے والے جاسوسی طیارے کا روس میں گرا کر پائلٹ کو گرفتار کرنے کا واقعہ، 1962 میں بھارت اور چین کی جنگ اور 1964 چین کا کامیاب ایٹمی تجربہ کر کے دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بننے کا اعلان اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں روس امریکی مفادات کا شدید ٹکراؤ اور بحران اپنے عروج پر پہنچ رہا تھا مگر امریکہ اور سابق سوویت یونین دونوں جو سرد جنگ کے اس دور میں ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھے۔
آخر کیوں بھارت کے حق میں پاکستان پر دباؤ ڈال کر صلح کر وانا چاہتے تھے؟ کیا جموں و کشمیر لداخ اور گلگت و بلتستان پر جو علاقے 1947-48 میں پاکستان نے اور 1962 میں چین نے بھارت سے جنگ کے ذریعے حاصل کر لیے تھے وہ تزویراتی طور پرکسی فیصلہ کن مرحلہ کے لیے کا فی نہیں تھے یا اس ریجن میں دنیا کے سب سے بلند اور بڑ ے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کے جو سب سے بڑے وسائل مو جود ہیں اِن پر جمہوریت ، انسانی حقوق کے اعتبار سے سیاست میں اُس وقت امریکہ اور روس کے درمیان مشترکہ مفاد تھا کہ بھارت کو اُس مشکل سے نکال لیا گیا۔
اس اندیشے کو یوں تقویت ملتی ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی پُر اسرار انداز میں موت واقع ہوئی اور بھارتی میڈیا نے یہ کہا کہ شاستری کو زہر دیا گیا مگر بھارتی حکومت نے اس پر یہ موقف اختیا رکیا کہ اس طرح خارجی سطح پر بھارت کے تعلقات د نیا کی بڑی قوتوں سے خراب ہوں گے اور پھر اِن کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم بنایا گیا، اس دوران ایک جانب تو امریکہ نے پاکستان کی امداد کم کردی اور پہلے1953 سے 1964 تک جو امداد تھی وہ بھی بہت کم ہو گئی بلکہ PL480 کے تحت دی جانے والی مفت خوراک کی امداد جو بھارت کو پاکستان سے زیادہ ہی دی جاتی تھی وہ بھی بہت کم کردی گئی۔
ایوب خان جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں تیز رفتاری سے کام کیا تھا ایک تو وہ عوام سے دور رہے، دوئم اُنہوں نے جو صدارتی نظام متعا رف کروایا تھا اس میں واقعی جمہوریت آٹے میں نمک کے برابر تھی اور آمر یت کہیں زیادہ تھی، پریس پر مکمل کنٹرول تھا، اُنہوں نے 1958 سے 1963-64 تک تیز رفتار ترقی کی مگر اس ترقی کے ثمرات زیادہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو ملے کیونکہ اس دور میں دنیا بھر میں صنعتی ترقی ہی کو مستحکم تسلیم کیا جاتا تھا۔ اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔
یوں ایوب خان کے دور کے پہلے حصے میں انہوں نے صرف اور صرف صنعتی ترقی پر زور دیا۔ سرمایہ کاروں صنعتکاروں کو ضرورت سے زیادہ مراعات دیں، ٹیکس اور ڈیوٹیاں معاف کیں یا بہت زیادہ چھوٹ دی۔ دوسری جانب مزدوروں کو حقوق نہ دئیے گئے تھے، یوں ارتکاز ِ دولت کی وجہ سے ملک کی دولت کا بڑا حصہ مشہور 22 خاندانوں کے پاس جمع ہو گیا ، پھر دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے مقابلے میں کراچی میں صنعتی ترقی کہیں زیادہ ہوئی مشرقی پاکستان میں متوسط طبقے کا سائز مغربی پاکستان کے مقابلے میں بڑا تھا اور غربت کہیں زیادہ تھی اور جاگیردارانہ نظام بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، مغربی پاکستان میں بڑے جاگیردار بھی تھے جو ایوب خان کے ساتھ تھے مگر اِن کے سامنے صنعتکار اور سرمایہ دار مزے کر رہے تھے۔
1958 سے 1965 تک سات برسوں میں حقیقی سیاست اور سیاستدان آمرانہ فضا میں تھے مگر پانی کے نیچے لہروں کی ہلچل جاری تھی جو سطح پر خاموشی کے ساتھ کسی طوفان کی پرورش کر رہی تھی، پریس کی پابندی کی وجہ سے جہاں حقیقی صورتحال سے عام لوگ بے خبر تھے تو ا قتدار کے آخری برسوں میں بیوروکریسی نے صدر ایوب خان کو بھی حقیقی صورتحال سے بہت حد تک بے خبر رکھا تھا۔ معاشی گراف ایک خاص نکتے پر آکر رک گیا تھا۔
جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تو قوت خرید میں کمی کے سبب غریب عوام کی برداشت ختم ہونے لگی اور مزدوروں کی ہڑتالیں اور احتجاج بھی ہو نے لگے۔ جنوری 1965 میں عام انتخابات میں متحرمہ فاطمہ جناح کے مقابلے اگرچہ ایوب خان کامیاب ہو ئے تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی انتخابات اُن کی ناکامی کی بنیاد ثابت ہوئے ، اِ س کا ردعمل مشرقی پاکستان اور کراچی میں سامنے آیا مگر اس کو اُس وقت انتظامیہ نے قوت سے دبا دیا، اور پھر 1965 کی 17 روزہ جنگ جس میں عالمی میڈیا نے بھی تسلیم کیا کہ پاکستان نے یہ جنگ جیتی اور اُن اخبارات اور رسائل کے ریکارڈ آج بھی نیٹ پر دستیاب ہیں، اس جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند میں ہم نے اُس جنگ کی فتح کو ضائع کردیا اور مجبوراً امریکہ اور روس کے دباؤ کو قبول کیا، یوں جہاں ایوب خان رخصت ہوئے وہاں بڑی قوتوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ بھارت کے کھو ئی ہوئی عالمی ساکھ کو بہتر انداز میں بھرپور قوت کے ساتھ سامنے لائیں گے۔
اور لال بہادر شاستری کی تاشقند میں پُراسرا موت کے بعد اندارگاندھی کے بطور بھارتی وزیر اعظم بر سراقتدار آنے کے بعد کے حالات اور واقعات یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ امریکہ اور روس کی جانب سے بھارت کی مدد میں اضافہ ہوا۔ بھارت کو Pl480 کے تحت مفت خوراک کی امداد زیادہ مقدار میں دی جانے لگی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ 11 تا 15 اکتوبر 1949 میں امریکہ کا کیا تھا، اُن کی بیٹی اندرا گاندھی آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بعد جیسے ہی وزیر اعظم بنیں اُنہوں نے بھی پہلا دورہ 28-29 مارچ1966 میں امریکہ ہی کا کیا اور امریکی صدر لنڈن بی جانسن سے اہم ملاقاتیں کیں اور یہ بھی اہم ہے کہ اندراگاندھی نے 3 تا 16 دسمبر1971 تیسری پاک بھارت جنگ سے صرف ایک ماہ پہلے 3 نومبر تا 6 نومبر1971 امریکہ کا دورہ کیا تھا، جب امریکی صدر رچرڈ نکسن کو اقتدار میں آئے ہوئے دس ماہ ہو ئے تھے، اور یہ وہی صدر رچرڈ نکسن تھے جنہوں نے 1971 کی جنگ کے بعد یہ کہا تھا کہ اندار گاندھی نے اُن کو تین دسمبر سے قبل یہ یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
اب اُس زمانے کے حالات و واقعات کے تناظر میں کیا کہا جا سکتا ہے کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ اگر اندراگاندھی نے امریکی صدر کو دھوکہ دے کر پاکستان پر حملہ کیا تو اس کے ردعمل میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ کیا کیا؟ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ بھارت پر امریکہ کی جانب سے مہربانیاں اس کے بعد کچھ زیادہ بڑھ گئیں، 16 دسمبر1971 کو پاکستان نے مشرقی محاذ پر ہتھیار ڈال دئیے اور17 دسمبر 1971 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اور 20 دسمبر 1971کو پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے سپرد کر دیا گیا۔
سرد جنگ کے اُس دور میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی شکست اگرچہ ایک عالمی سازش تھی، اور امریکہ اور روس کے رویوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِ ن دونوں قوتوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا، سوویت یونین نے تو پاکستان میں قائم امریکی اڈے سے فضائی جاسوسی کا بدلہ بھی لیا تھا اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کا بھرپور ساتھ دے کر پاکستان سمیت خطے میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی حمایت اور مدد کرنے والے ممالک کو اس جنگ سے انتباہ بھی کر دیا تھا۔ پھر جہاں تک تعلق امریکہ کا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید امریکہ یہ چاہتا ہوکہ اسٹر ٹیجک پوزیشن کے اعتبار سے وہ صرف مغربی پاکستان ہی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے، اور مشرقی پاکستان کا بوجھ نہ اٹھائے، دسمبر 1971 میں جنگ کے بعد پاکستانی عوام کی حالت انتہائی مایوس کن تھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایران، افغانستان دونوںنے اس موقع سے کوئی فائد ہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوامی سطح پر ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان، مشرقی پاکستان کا 147570 مربع کلو میٹر رقبے سے ہاتھ دھو چکا تھا تو مغربی پاکستان میں بھی تقریباً 15010مربع کلو میٹر رقبے پر بھارت کا قبضہ تھا،واضح رہے کہ جنگ سے پہلے یا جنگ کے بعد مذاکرات کے لیے خصوصاً آج کے زمانے میں خارجی اور داخلی سطحوں پر مضبوط پوزیشن کی بنیاد پر ہی میز پر کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، جب کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جو 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ میں جیتا بھی تھا اور بہتر پوزیشن میں بھی تھا کیونکہ یہ پہلی پاک بھارت جنگ اُس وقت پاکستان انگریز آرمی چیف کی مرضی کے خلاف اور اپنے مسلمان فوجی افسران ، کشمیری مجاہدین اور پا کستان کے قبائلی لشکر کی بنیاد پر لڑا تھا اور یہ جنگ ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی۔ پاکستان کو اُس وقت اسلحہ اور ہتھیاروں کے لیے کسی پر انحصار کی ضرورت نہیں تھی یوں پا کستان کی یہ انتہائی غلطی تھی کہ پاکستان نے یہ جنگ اقوام متحدہ کے کہنے پر بند کی۔
نہرو اقوام متحدہ پہنچے تھے اور جنگ بندی کے لیے قائداعظم تیار نہیں تھے، اور پھر نہرو اپنے وعدے ہی سے نہیں، بلکہ عملی طور پر اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں سے مکر گئے جن پر انہوں نے اقوام متحدہ اور پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا، 1965 کی جنگ کے بعد 1966 میں نہ صرف بھارت کی شکست کے بدنما داغوں کو عالمی طاقتوں نے دھو دیا بلکہ اُس کی تباہ شدہ عسکری ساکھ کو بھی بحال کیا، مگر اب صورتحال بھارت کے حق میں تھی، 20ستمبر1971 کو جب بھٹو اقتدار میں آئے توسرکاری خزانے میں حکومت کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی صرف تین ماہ کی رقم تھی۔ بھٹو نے آتے ہی پچاس ، سو اور پانچ سوروپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کر دی اور عوام کو چند روز کا وقت دیا کہ وہ اپنے کرنسی نوٹ جمع کر وا دیں واضح رہے کہ ایوبی دور میں بھی منی ٹریل بتانا ضروری ہوتا تھا، اُس وقت بھی یہ قانون نافذالعمل تھا یوں کروڑوں اربوں روپے کے کرنسی نوٹ جو بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستا ن کے علاوہ پاکستان میں بھی ناجائز طور پر موجود تھے وہ ضائع ہوئے اور ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ زیادہ نہ ہوا۔
اُس وقت امریکہ سمیت مغربی دنیا نے یہ سوچا تھا کہ شائد پیپلز پارٹی ایسے حالات میںاپنے سوشلسٹ پروگرام کوترک کر کے امریکہ اور یورپی ممالک سے قرضے لے گی اور مکمل انحصار اِن پر کرے گی مگر اسی دور میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو مشرق وسطیٰ میں عرب امارات سمیت دیگر ملک آزاد ہو کر اقوام متحدہ کے رکن بنے، لیبیا میں قدافی کا انقلاب بھی نیا تھا اور صدر کرنل قدافی مصر کے جمال ناصر کے بعد لیبیا ہی کے نہیں بلکہ عرب دنیاکے مقبول لیڈر تھے، سعودی عرب میں شاہ فیصل بھی پاکستان کے پُرخلوص دوست تھے، بھٹو نے پہلے چند دنوں عرب ملکوں کے طوفانی دورے کئے جن کی مدد سے مالی بحران فوراً قابو میں آگیا اور ملک میں عوام کو احساس ہی نہیں ہوا کہ پاکستان ایک بڑی جنگ ہارا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کی وہ اشیا جن میں ماچس، چائے، پٹ سن وغیرہ شامل تھیں وہ بھی دنیا کے دیگر ملکوں سے وافر مقدار اور تعداد میں منگوا کر مارکیٹ کو متوازن رکھا گیا۔
اس کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو حکومت کا پہلا بجٹ مالی سال 1972-73 خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا۔اب بھٹو نے بڑی جرات اور ہمت سے کام لیتے ہوئے پاکستان کو دولت مشترکہ سے نکالنے کا اعلان کر دیا، اُن نازک حالات میں بھی یہ طے کر لیا کہ پاکستا ن اب اپنی خارجہ پالیسی کے تحت غیر جانبدار رہے گا۔ بھٹو اُس وقت کی سرد جنگ کا ٹھیک سے اندازہ کر چکے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں تو خاموش تماشائی تھا کہ اُسے اس سے کوئی نقصان نہیں تھا مگر اس سے آگے یعنی بھارت کے پاکستان کی جانب بڑھنے کی صورت میں امریکی مفادات کو خطرہ تھا۔ دوسری جانب چین پاکستان کے ساتھ تھا کہ جب تک معاملات طے نہ ہو جاتے اُس وقت تک بنگلہ دیش کو سوویت یونین اور امریکہ سمیت کتنے ہی ملک تسلیم کر لیتے وہ اقوام متحدہ کا رکن نہیں بن سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بھٹو نے ملک کے اندر 1972 کے عبوری آئین کے لیے کام کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دیں، آئین سازی کے عمل میں دائیں اور بائیں بازوکی جماعتوں کو شریک کیا اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کی اور ساتھ ہی انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ کر چند مہینوں میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ملک کو ایک نئی خارجہ پالیسی کے ساتھ ملک کو مضبوط کیا، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایسے اقدامات کئے کہ خود بھارت یہ محسوس کرنے لگا کہ اگر پاکستان سے جلد مذاکرات نہ کئے تو بھارت پر عالمی اور اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا۔
یوں پاکستان کا دفترخارجہ جو براہ راست اُن کی اپنی نگرانی میں کام کر رہا تھا، بھارتی دفترِخارجہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہو ئے شملہ مذاکرات کے لیے کام کرتا رہا۔ اُس وقت بڑی عجیب صورتحال تھی وہی بھارتی وزیرِ خارجہ سردار سورن سنگھ تھے جو معاہدہ تاشقند کے وقت آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ تھے اور پر یشان تھے کہ کہیں پاکستان فوجوں کو زمانہ امن پر لے جانے پر اور خصوصاً کشمیر میں سیزفار لائن پر لے جانے پر اڑ نہ جائے، یہاں وہ اندراگاندھی کے ساتھ فاتحانہ انداز اختیار کئے ہو ئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کا ڈرافٹ 28 جون 1972 کو تیار کیا گیا تھا اور شائد اس میں 3 جولائی تک کئی تبدیلیاں کی گئی ہوں مگر یہ ضرور تھا کہ شملہ معاہدہ میں بھٹو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے تھے حالانکہ بھارت کی جانب سے کو ششیں تھیں کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ طے ہوا کہ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر کے درمیان لائن کو سرحد تسلیم کر لیا گیا ہے۔ بھارتی فارن آفس کے اعلیٰ عہد یدار معاہدے کے ڈرافٹ میں اس کو شامل کر چکے تھے، مگر بھٹو نے اس کو تسلیم نہیں کیا، بھٹو شملہ جانے والے وفد میں اپنی بیٹی بینظیربھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں اور سنیئر صحافیوں کو لے گئے تھے کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کے مختلف دور میں تین چار مرتبہ ایسا ہوا کہ بھٹو جھنجھلا کر اٹھ گئے اور وفد میں شامل لو گوں سے کہا کہ سامان باندھ لیں اور واپس پاکستان جائیں، آخر مذاکرات اس پر طے ہوئے کہ سیز فارلائن 1971 کی جنگ بندی کے مقامات کے مطابق ہو گی، یہی موقف بھٹو کا تاشقند کے معاہدے کے وقت تھا جس کو اُس وقت امریکہ اور روس کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان اپنا نہیں سکا تھا، مگر اب پاکستان بہت کمزور پوزیشن پر تھا اس لیے اس کو مانا گیا اور سیز فارلائن کو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔
شملہ معاہدے میںیہ بھی طے پایا کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم کی بجائے دونوں ملک آپس میں مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کریں گے۔ اس معاہدے پر 3 جولائی 1972 کو پاکستان کی جانب سے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کئے اور اس کے بعد انہی دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ نے شملہ معاہدے کی توثیق کر دی۔ یوں اس معاہدے کی اہمیت اس اعتبار سے کہیں زیادہ ہے کہ اس معاہدے کو بھارت اور پاکستان کے تمام عوام نے جمہوریت کی بنیاد پر اپنے منتخب نمائندوں کی وساطت سے منظور کیا تھا۔
جنگ 1971 کی فتح کے بعد بھارتی وزیراعظم نے طنزیہ کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریے کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جولائی 1971 میں سوویت یونین اور بھارت کے درمیان جو معاہد ہ تعاون کے لیے ہوا تھا اس میں بنگلہ دیش کو بھی اس کی علیحدگی کے فوراً بعد شامل کر لیا اور شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو آئینی طور پر سیکولر اسٹیٹ بنا دیا لیکن بنگلہ دیش کو بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر یک جا نہیں کیا۔
یہ وہی بنگال تھا جس کو 1905 میں جب انگریز سرکار نے مشرقی اور مغربی بنگال کے دوصوبوں کے طور پر تقسیم کیا تھا تو اس سے مسلم اکثریت کے مشرقی بنگال کو فائدہ تھا اور کانگریس نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس کے ردعمل کے نتیجے میں 1906 میں ڈھاکہ میں آل نڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا، اور پھر 1911 میں کانگریس کے دباؤ کے نتیجے میں انگریز نے تنسیخ بنگال کرکے پھر ایک صوبہ بنگال بنایا تھا، لیکن پھر جب1941 کی مردم شماری میں مشترکہ بنگال کی آبادی کا 54.73 فیصد مسلمان تھا اور 1937 سے 1947 تک مشترکہ بنگال کے وزراء اعظم مسلمان تھے تو اس لیے کانگریس نے یہی بہتر جانا کہ بنگال پُر امن طور پر تقسیم ہو جائے۔
یہاں تقسیم کے وقت امن اس لیے ضروری تھا کہ مشرقی پاکستان میں جو 23 سے 24 فیصد ہند و بنگالی آبادی تھی وہ مغربی اور مشرقی پنجاب جیسی خونریزی اور قتل وغارت گری سے نہ صرف بچ جائے بلکہ مشرقی پاکستان میں کل آبادی کی یہ چوتھائی بنگالی آبادی مغربی بنگال میں مذہبی نفرت کے ساتھ اِس طرح منتقل نہ ہو جیسے پنجاب میں سکھ اور مسلمان آبادی کو ایک نہایت سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت کیا گیا تاکہ اِن میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر قیامت تک نفرت رہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سکھ اور مسلمان پنجابی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کے بعد بھی محبت کے کسی رشتے سے جڑے رہیں، اور ایسا ہی ہوا۔
مگر 16دسمبر1971 کی فتح کے بعد نہ تو بھارت نے چاہا کہ بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی بنگال ایک ہو جائیں اور باوجود بھارت کی فوجی امداد اور مکتی باہنی کی ٹریننگ کے نہ ہی شیخ مجیب الرحمن یہ حوصلہ کر سکے کہ بنگلہ دیش کے 77% مسلمان عوام کو یہ کہہ دیں کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہونے والے بنگال کو بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر دوبارہ ایک کر دیا جائے، بلکہ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان میں جو بنگالی رہ گئے اور آج اُن کی تعداد 30 لاکھ ہے جس میں سے تقریباً پچیس لاکھ بنگالی صرف کراچی میں رہتے ہیں اِن بنگالیوں کو بھی بنگلہ دیش قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اِن بنگالیوں میں سے کوئی اگر بنگلہ دیش میں اپنے عزیز رشتہ داروں سے بنگلہ دیش جا کر ملنا چاہے تو اُسے نہ صرف پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرنا پڑتا ہے بلکہ جب تک بنگلہ دیش کا سفارت خانہ ویزا نہ دے تب تک وہ بنگالی بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہو سکتا۔
سرد جنگ کے آغاز پر جب تک سابق سوویت یونین ایٹمی قوت نہیں بنا تھا تواُس وقت شائد امریکہ،کینیڈا،آسٹریلیا، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی یورپی ممالک کے عزائم کچھ اور نظر آتے تھے، مگر روس کی جانب سے کامیاب ایٹمی تجربہ کرنے کے ساتھ روس جب اسپیس ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتا آگے نکل گیا تو اشتراکی نظریات کی بنیادوں پر انقلابات کے ذریعے حکومتوں کے تختے الٹ کر وہاں کیمو نزم یا نیم اشتراکیت اور نیشنل ازم کی بنیاد پر اپنی حامی حکومتوں کے قیام کا سلسلہ شروع کیا۔
دوسری جانب امریکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھنے والی عموماً قبائلی ، مضبوط شخصیات، بادشاہوں ، فوجی جنرلوں، بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ اِن ملکوں میں عوام کے مذہبی عقائد کو جذباتیت کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا تھا، البتہ امریکہ اور مغر بی ممالک مختلف ملکوں میں نیشنل ازم اور شخصی حکومتوں کے لبادے میں نام نہاد جمہوریت کے بھی حامی تھے، یوں ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں دائیں اور بائیں بازو کے نام پر ان قوتوں کے درمیان پنجہ آزمائی ہوتی رہی جس سے پوری دنیا کے معاشروں میں فطرتی انداز کا تہذیبی ارتقا ابہام کا شکار ہوا اور یوں نظریات اور عقائد کی بنیادوں پر سرد جنگ کا ایندھن غریب اور پسماندہ ملکوں کے عوام بنتے رہے۔
جنوبی ایشیائی ملکوں سمیت دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں پھر وہ قیادتیں بھی قتل ہوتی رہیں جو بڑی قوتوں کے مفادات کے لیے اپنی لیڈرشپ کو استعمال کرتی تھیں، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل 300 جنرل نشستوں میں سے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے160 پر کامیابی حاصل کر کے واضح اکثریت حاصل کی تھی اور مغربی پاکستان میں 138 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے81 نشستیں حاصل کی تھیں، مذہبی جماعتیں تقریباً 18 سے 20 نشستیں حاصل کر سکی تھیں اگر شیخ مجیب الرحمن قید سے رہائی کے بعد بنگلہ دیش کے اعلان کی بجائے ڈھاکہ میں پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس بلواتے تو یقیناً مغربی پاکستان سے لبرل جماعتوں کے منتخب اراکینِ قومی اسمبلی ضرور شرکت کے لیے ڈھاکہ جاتے، چاہے پاکستان پیپلز پارٹی اس سے انکار ہی کیوں نہ کر تی، شیخ مجیب الرحمن مشترکہ پاکستان کے وزیراعظم ہوتے، وہ دو تہائی اکثریت سے نیا پارلیمانی آئین تشکیل دیتے مگر بڑی قوتیں ڈرامے میں کردار کے مطابق اسکرپٹ میں جتنا کردار دیتی ہیں اس سے زیادہ یا کم کرنا پھر ایکٹر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایکٹر کا انجام اُسے معلو م نہیں ہوتا، شیخ مجیب الرحمن نے بھی کردار ادا کیا مگر معاشرے میں مذ ہبی اور قوم پرستی کے رجحانات تاریخی پس منظر کے اعتبار سے فطری ارتقا چاہتے تھے اور پھر یہی وجوہات تھیں کہ 1975 میں فوجی بغاوت کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن کو قتل کر دیا گیا، اس کے بعد پھر دوسرے فوجی جنرل ضیاء الرحمن نے 16سال تک حکومت کی اور اُن کا انجام بھی ایسا ہی ہوا اور اب جب سے بنگلہ دیش میںشیخ مجیب الر حمن کی بیٹی حسینہ واجد برسر اقتدار آئی ہیں انہوں نے 1971 کی بنیاد پر خصوصاً جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی ستر، ستر، اسی، اسی سالہ بزرگ شخصیات کو سزائے موت دی اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے اقدامات کا ردعمل بھی شدید انداز سے آتا ہے۔ یہی صورت اندرا گاندھی اور اُن کے بیٹے راجیو گاندھی کی تھی جن کو سکھ اور تامل ہندو انتہا پسندوں نے قتل کیا۔ یہاں بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادتوں کا حوالہ مختلف ہے کہ اُن کے قتل اور پھانسی میں بھی اگر چہ بڑی قوتوں کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں شخصیات نے مذہبی تضادات اور قومی تضادات کو متصادم ہو نے سے روکا، اس کی بہترین مثال بھٹو کا 1973 کا آئین تھا جس میں مذہبی جماعتوں سمیت نیشنلسٹ جماعتوں نے بھی دستخط کئے تھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ بھٹو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت تیز رفتاری سے قومی اور بین الاقومی سطح پر مکمل آزادی اور خود مختاری سے ایسا کردار ادا کیا جو حیرت انگیز تھا ۔
بھٹو نے اقتدر میں آتے ہی نہ صرف پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے باہر نکال لیا بلکہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی بھرپور فوجی امداد کی، یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ ایم ایم عالم جیسے پائلٹ کو بھی اسرائیل کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے نہیں روکا اور پھر 1974 تک لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کر وا کر مسلم دنیا کے اکثر ملکوں کو باوجود اُن کے بہت سے اختلافات کے مختصر سے عرصے میں ایک دوسرے سے قریب کر دیا۔
مورخین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بڑے لیڈر یا قد آور لیڈر پہلی عالمی جنگ 1914-18 سے دوسری عالمی جنگ 1939-45 کے درمیان پید ا ہوئے جس میں برصغیر میں اصول پرست اور دو قومی نظریے پر ایک نیا ملک بنانے والے قائد اعظم محمدعلی جناح اور عدم تشدد کے فلسفے کے پر چارک موہن داس گاندھی تھے، اگر چہ پنڈت جواہر لال نہرو بھی اسی دور کی پیداوار تھے اور انہوں نے بھی آزادی کے فوراً بعد غیر جانبدارا ملکوں کی تنظیم کے حوالے سے عالمی سطح پر کردار ادا کیا تھا مگر بعد میں وقت نے ثابت کر دیا کہ انہیں جمہوریت اور تیسری دنیا کے مفادات کے مقابلے میں اپنا خاندان اور اس کے بعد ہند و مفادات عزیز تھے، اور وہ جس عہد میں تھے اُس دور میں نو آبادیاتی نظام ٹوٹ رہا تھا اور جس ملک میں بھی پہلا لیڈر سربراہ آیا آج بھی اُسی کی تصویر اُس ملک کے کرنسی نوٹ پر نظر آتی ہے ، اب جہاں تک بھٹو کی شخصیت کی بات ہے تو وہ دوسری عالمی جنگ کے26 سال بعد اقتدار میں آئے اور صرٖ ف پانچ سال کے عرصے میں پوری دنیا میں بڑی قوتوں کے مقابلے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کئے، یہی بھٹو تھے جنہوں نے باوجود بہت کمزور پوزیشن کے مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہد ے میں زندہ رکھا اور ٹیبل پر مذاکرات میں کھویا کم اور حاصل کہیں زیادہ کیا۔
(جاری ہے)
جنگ 1965 ء میں پاکستان نے اپنے سے تین گنا زیادہ فوجی قوت اسلحہ اور ہتھیار رکھنے والے ملک بھارت کو حقیقت میں شکست دی تھی اور یہ واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان کی فوج عسکری صلاحیت و مہارت کے ساتھ جذبہء ایمانی اور حب الوطنی سے بھی سر شار ہے اسی لئے اتنی بہادری سے لڑی کہ دنیا حیران رہ گئی ۔ یہ جنگ مغربی پاکستا ن کی بھارت سے ملنے والی سرحدوں اور بحیرہ عرب کے ساحل پر اور انہی فضاؤں میں لڑئی گئی۔
یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی دوسری جنگ تھی جو پہلی پاک بھارت جنگ کے 17 سال بعد لڑی گئی تھی۔ پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان نے بغیر کسی بڑی طاقت کی امداد اور پاکستان کے انگریز آرمی چیف اور بھارت پاکستان کے مشترکہ انگریز کمانڈر انچیف کی مرضی کے خلاف اپنے مسلمان فوجی کمانڈروں، کشمیری مجاہدین اور پاکستان کے قبائلی لشکر کے ساتھ جیتی تھی، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے تھے۔
یہ بھارت کی عسکری قوت، مہارت کی ساکھ اور ایک بڑے ملک ہو نے کے ناطے دنیا میں ایک بڑا چیلنج ہی نہیں بلکہ ندامت کا مقام تھا، بھارت نہ صرف پاکستان سے دو جنگوںمیں شکست کھا چکا تھا بلکہ 1962ء میں چین سے ہونے والی جنگ میں بھی بھارت کو عبرتناک شکست ہوئی تھی، جس میں بھارت کے ہزاروں فوجی ہلاک زخمی اور لا پتہ ہوئے جبکہ بہت سے جنگی قید ی بھی بنائے گئے تھے اور بھارت سے چین نے لداخ میں ساڑھے گیارہ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ چھین لیا تھا۔ واضح رہے کہ اُ س وقت چین اقوام متحدہ کا رکن نہیں تھا اور اس کی جگہ تائیوان کو نمائندگی دی گئی تھی۔ چین اُس وقت تک ایٹمی قوت بھی نہیں تھا۔
یوں جن قوتوں نے کو شش کی تھی کہ بھارت کو چین اور پاکستان سے لڑ وا کرعلاقے میں اپنے نائب کے طور پر چین اور پاکستان پر مسلط کر دیں، اُن قوتوں کو منہ کی کھانا پڑی اور اس خطے میں دنیا نے یہ تسلیم کر لیا کہ بھارت پاکستان اور چین دونوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یوں معاہدہ تاشقند امریکہ اور سابق سوویت یونین کی عالمی سیاسی اسٹرٹیجی کی بنیاد پر مشترکہ فیصلہ تھا۔
امریکہ نے 1965 کی جنگ کے دوران ہی دنوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روک دی تھی، اور اس کا واضح دباؤ پاکستان پر تھا،کیونکہ بھارت جو سوویت یونین فرانس و برطانیہ سے بھی اسلحہ حاصل کرتا تھا، اُس کے لیے مسائل کم تھے مگر پاکستان کی دفاعی، عسکری ، صنعتی اور اقتصادی ضروریات کا مکمل انحصار امریکہ پر تھا۔ غالباً صدر ایوب خان کو یہی دکھ تھا کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام ''فرینڈز ناٹ ماسٹر'' رکھا، اگرچہ اس کا اردو لفظی ترجمہ یوں ہے کہ ''دوست آقا نہیں'' لیکن جب اِس کا اردو ترجمہ سامنے آیا تو علامہ اقبال کے مصرع ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی '' کو کتاب کے نام کے طور پر استعمال کیا گیا تھا جس سے اُس پوری صورتحال کو سمجھنے میں قومی فکر واحساس کے ساتھ بڑی وسعت آگئی تھی۔
ایوب خان اور شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کو تو اُس وقت دنیا میں ''فرینڈ آف امریکا '' کا خطاب دیا گیا تھا مگرجنگ کے عین موقع پر جب پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ اگر اُسے اسلحہ طیاروں اور دیگر جنگی مشینری کے پرزہ جات کی سپلائی جاری رہتی تو پاکستان جنگ میںبھارت کو شکست دے کر مقبوضہ کشمیر آزاد کرا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور پاکستان کو مجبوراً نہ صرف 17 روز میں جنگ بند کرنا پڑی بلکہ تین مہینے بعد ہی جنوری 1966 میں سابق سوویت یونین کی ریاست ازبکستان کے مشہور شہر تاشقند میں معاہدے پر د ستخط کرنے پڑ ے جس میںطے پایا کہ 25 فروری 1966 سے پہلے پہلے دونوں ملکوں کی فوجیں کشمیر کی جنگ بندی لائن سمیت بھارت اور پاکستان کی سرحدوں پر زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آجائیں گی۔
یہ معاہدہ سرد جنگ کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز صورتحال لے کر سامنے آیا۔ 1960 سے1965 تک کیوبا میزائل بحران، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل، ویتنام کی شدید جنگ، پاکستان میں واقع امریکہ اڈے سے پرواز کرنے والے جاسوسی طیارے کا روس میں گرا کر پائلٹ کو گرفتار کرنے کا واقعہ، 1962 میں بھارت اور چین کی جنگ اور 1964 چین کا کامیاب ایٹمی تجربہ کر کے دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بننے کا اعلان اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں روس امریکی مفادات کا شدید ٹکراؤ اور بحران اپنے عروج پر پہنچ رہا تھا مگر امریکہ اور سابق سوویت یونین دونوں جو سرد جنگ کے اس دور میں ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھے۔
آخر کیوں بھارت کے حق میں پاکستان پر دباؤ ڈال کر صلح کر وانا چاہتے تھے؟ کیا جموں و کشمیر لداخ اور گلگت و بلتستان پر جو علاقے 1947-48 میں پاکستان نے اور 1962 میں چین نے بھارت سے جنگ کے ذریعے حاصل کر لیے تھے وہ تزویراتی طور پرکسی فیصلہ کن مرحلہ کے لیے کا فی نہیں تھے یا اس ریجن میں دنیا کے سب سے بلند اور بڑ ے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کے جو سب سے بڑے وسائل مو جود ہیں اِن پر جمہوریت ، انسانی حقوق کے اعتبار سے سیاست میں اُس وقت امریکہ اور روس کے درمیان مشترکہ مفاد تھا کہ بھارت کو اُس مشکل سے نکال لیا گیا۔
اس اندیشے کو یوں تقویت ملتی ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی پُر اسرار انداز میں موت واقع ہوئی اور بھارتی میڈیا نے یہ کہا کہ شاستری کو زہر دیا گیا مگر بھارتی حکومت نے اس پر یہ موقف اختیا رکیا کہ اس طرح خارجی سطح پر بھارت کے تعلقات د نیا کی بڑی قوتوں سے خراب ہوں گے اور پھر اِن کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم بنایا گیا، اس دوران ایک جانب تو امریکہ نے پاکستان کی امداد کم کردی اور پہلے1953 سے 1964 تک جو امداد تھی وہ بھی بہت کم ہو گئی بلکہ PL480 کے تحت دی جانے والی مفت خوراک کی امداد جو بھارت کو پاکستان سے زیادہ ہی دی جاتی تھی وہ بھی بہت کم کردی گئی۔
ایوب خان جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں تیز رفتاری سے کام کیا تھا ایک تو وہ عوام سے دور رہے، دوئم اُنہوں نے جو صدارتی نظام متعا رف کروایا تھا اس میں واقعی جمہوریت آٹے میں نمک کے برابر تھی اور آمر یت کہیں زیادہ تھی، پریس پر مکمل کنٹرول تھا، اُنہوں نے 1958 سے 1963-64 تک تیز رفتار ترقی کی مگر اس ترقی کے ثمرات زیادہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو ملے کیونکہ اس دور میں دنیا بھر میں صنعتی ترقی ہی کو مستحکم تسلیم کیا جاتا تھا۔ اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔
یوں ایوب خان کے دور کے پہلے حصے میں انہوں نے صرف اور صرف صنعتی ترقی پر زور دیا۔ سرمایہ کاروں صنعتکاروں کو ضرورت سے زیادہ مراعات دیں، ٹیکس اور ڈیوٹیاں معاف کیں یا بہت زیادہ چھوٹ دی۔ دوسری جانب مزدوروں کو حقوق نہ دئیے گئے تھے، یوں ارتکاز ِ دولت کی وجہ سے ملک کی دولت کا بڑا حصہ مشہور 22 خاندانوں کے پاس جمع ہو گیا ، پھر دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے مقابلے میں کراچی میں صنعتی ترقی کہیں زیادہ ہوئی مشرقی پاکستان میں متوسط طبقے کا سائز مغربی پاکستان کے مقابلے میں بڑا تھا اور غربت کہیں زیادہ تھی اور جاگیردارانہ نظام بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، مغربی پاکستان میں بڑے جاگیردار بھی تھے جو ایوب خان کے ساتھ تھے مگر اِن کے سامنے صنعتکار اور سرمایہ دار مزے کر رہے تھے۔
1958 سے 1965 تک سات برسوں میں حقیقی سیاست اور سیاستدان آمرانہ فضا میں تھے مگر پانی کے نیچے لہروں کی ہلچل جاری تھی جو سطح پر خاموشی کے ساتھ کسی طوفان کی پرورش کر رہی تھی، پریس کی پابندی کی وجہ سے جہاں حقیقی صورتحال سے عام لوگ بے خبر تھے تو ا قتدار کے آخری برسوں میں بیوروکریسی نے صدر ایوب خان کو بھی حقیقی صورتحال سے بہت حد تک بے خبر رکھا تھا۔ معاشی گراف ایک خاص نکتے پر آکر رک گیا تھا۔
جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تو قوت خرید میں کمی کے سبب غریب عوام کی برداشت ختم ہونے لگی اور مزدوروں کی ہڑتالیں اور احتجاج بھی ہو نے لگے۔ جنوری 1965 میں عام انتخابات میں متحرمہ فاطمہ جناح کے مقابلے اگرچہ ایوب خان کامیاب ہو ئے تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی انتخابات اُن کی ناکامی کی بنیاد ثابت ہوئے ، اِ س کا ردعمل مشرقی پاکستان اور کراچی میں سامنے آیا مگر اس کو اُس وقت انتظامیہ نے قوت سے دبا دیا، اور پھر 1965 کی 17 روزہ جنگ جس میں عالمی میڈیا نے بھی تسلیم کیا کہ پاکستان نے یہ جنگ جیتی اور اُن اخبارات اور رسائل کے ریکارڈ آج بھی نیٹ پر دستیاب ہیں، اس جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند میں ہم نے اُس جنگ کی فتح کو ضائع کردیا اور مجبوراً امریکہ اور روس کے دباؤ کو قبول کیا، یوں جہاں ایوب خان رخصت ہوئے وہاں بڑی قوتوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ بھارت کے کھو ئی ہوئی عالمی ساکھ کو بہتر انداز میں بھرپور قوت کے ساتھ سامنے لائیں گے۔
اور لال بہادر شاستری کی تاشقند میں پُراسرا موت کے بعد اندارگاندھی کے بطور بھارتی وزیر اعظم بر سراقتدار آنے کے بعد کے حالات اور واقعات یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ امریکہ اور روس کی جانب سے بھارت کی مدد میں اضافہ ہوا۔ بھارت کو Pl480 کے تحت مفت خوراک کی امداد زیادہ مقدار میں دی جانے لگی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ 11 تا 15 اکتوبر 1949 میں امریکہ کا کیا تھا، اُن کی بیٹی اندرا گاندھی آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بعد جیسے ہی وزیر اعظم بنیں اُنہوں نے بھی پہلا دورہ 28-29 مارچ1966 میں امریکہ ہی کا کیا اور امریکی صدر لنڈن بی جانسن سے اہم ملاقاتیں کیں اور یہ بھی اہم ہے کہ اندراگاندھی نے 3 تا 16 دسمبر1971 تیسری پاک بھارت جنگ سے صرف ایک ماہ پہلے 3 نومبر تا 6 نومبر1971 امریکہ کا دورہ کیا تھا، جب امریکی صدر رچرڈ نکسن کو اقتدار میں آئے ہوئے دس ماہ ہو ئے تھے، اور یہ وہی صدر رچرڈ نکسن تھے جنہوں نے 1971 کی جنگ کے بعد یہ کہا تھا کہ اندار گاندھی نے اُن کو تین دسمبر سے قبل یہ یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
اب اُس زمانے کے حالات و واقعات کے تناظر میں کیا کہا جا سکتا ہے کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ اگر اندراگاندھی نے امریکی صدر کو دھوکہ دے کر پاکستان پر حملہ کیا تو اس کے ردعمل میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ کیا کیا؟ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ بھارت پر امریکہ کی جانب سے مہربانیاں اس کے بعد کچھ زیادہ بڑھ گئیں، 16 دسمبر1971 کو پاکستان نے مشرقی محاذ پر ہتھیار ڈال دئیے اور17 دسمبر 1971 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اور 20 دسمبر 1971کو پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے سپرد کر دیا گیا۔
سرد جنگ کے اُس دور میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی شکست اگرچہ ایک عالمی سازش تھی، اور امریکہ اور روس کے رویوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِ ن دونوں قوتوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا، سوویت یونین نے تو پاکستان میں قائم امریکی اڈے سے فضائی جاسوسی کا بدلہ بھی لیا تھا اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کا بھرپور ساتھ دے کر پاکستان سمیت خطے میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی حمایت اور مدد کرنے والے ممالک کو اس جنگ سے انتباہ بھی کر دیا تھا۔ پھر جہاں تک تعلق امریکہ کا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید امریکہ یہ چاہتا ہوکہ اسٹر ٹیجک پوزیشن کے اعتبار سے وہ صرف مغربی پاکستان ہی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے، اور مشرقی پاکستان کا بوجھ نہ اٹھائے، دسمبر 1971 میں جنگ کے بعد پاکستانی عوام کی حالت انتہائی مایوس کن تھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایران، افغانستان دونوںنے اس موقع سے کوئی فائد ہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوامی سطح پر ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان، مشرقی پاکستان کا 147570 مربع کلو میٹر رقبے سے ہاتھ دھو چکا تھا تو مغربی پاکستان میں بھی تقریباً 15010مربع کلو میٹر رقبے پر بھارت کا قبضہ تھا،واضح رہے کہ جنگ سے پہلے یا جنگ کے بعد مذاکرات کے لیے خصوصاً آج کے زمانے میں خارجی اور داخلی سطحوں پر مضبوط پوزیشن کی بنیاد پر ہی میز پر کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، جب کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جو 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ میں جیتا بھی تھا اور بہتر پوزیشن میں بھی تھا کیونکہ یہ پہلی پاک بھارت جنگ اُس وقت پاکستان انگریز آرمی چیف کی مرضی کے خلاف اور اپنے مسلمان فوجی افسران ، کشمیری مجاہدین اور پا کستان کے قبائلی لشکر کی بنیاد پر لڑا تھا اور یہ جنگ ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی۔ پاکستان کو اُس وقت اسلحہ اور ہتھیاروں کے لیے کسی پر انحصار کی ضرورت نہیں تھی یوں پا کستان کی یہ انتہائی غلطی تھی کہ پاکستان نے یہ جنگ اقوام متحدہ کے کہنے پر بند کی۔
نہرو اقوام متحدہ پہنچے تھے اور جنگ بندی کے لیے قائداعظم تیار نہیں تھے، اور پھر نہرو اپنے وعدے ہی سے نہیں، بلکہ عملی طور پر اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں سے مکر گئے جن پر انہوں نے اقوام متحدہ اور پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا، 1965 کی جنگ کے بعد 1966 میں نہ صرف بھارت کی شکست کے بدنما داغوں کو عالمی طاقتوں نے دھو دیا بلکہ اُس کی تباہ شدہ عسکری ساکھ کو بھی بحال کیا، مگر اب صورتحال بھارت کے حق میں تھی، 20ستمبر1971 کو جب بھٹو اقتدار میں آئے توسرکاری خزانے میں حکومت کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی صرف تین ماہ کی رقم تھی۔ بھٹو نے آتے ہی پچاس ، سو اور پانچ سوروپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کر دی اور عوام کو چند روز کا وقت دیا کہ وہ اپنے کرنسی نوٹ جمع کر وا دیں واضح رہے کہ ایوبی دور میں بھی منی ٹریل بتانا ضروری ہوتا تھا، اُس وقت بھی یہ قانون نافذالعمل تھا یوں کروڑوں اربوں روپے کے کرنسی نوٹ جو بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستا ن کے علاوہ پاکستان میں بھی ناجائز طور پر موجود تھے وہ ضائع ہوئے اور ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ زیادہ نہ ہوا۔
اُس وقت امریکہ سمیت مغربی دنیا نے یہ سوچا تھا کہ شائد پیپلز پارٹی ایسے حالات میںاپنے سوشلسٹ پروگرام کوترک کر کے امریکہ اور یورپی ممالک سے قرضے لے گی اور مکمل انحصار اِن پر کرے گی مگر اسی دور میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو مشرق وسطیٰ میں عرب امارات سمیت دیگر ملک آزاد ہو کر اقوام متحدہ کے رکن بنے، لیبیا میں قدافی کا انقلاب بھی نیا تھا اور صدر کرنل قدافی مصر کے جمال ناصر کے بعد لیبیا ہی کے نہیں بلکہ عرب دنیاکے مقبول لیڈر تھے، سعودی عرب میں شاہ فیصل بھی پاکستان کے پُرخلوص دوست تھے، بھٹو نے پہلے چند دنوں عرب ملکوں کے طوفانی دورے کئے جن کی مدد سے مالی بحران فوراً قابو میں آگیا اور ملک میں عوام کو احساس ہی نہیں ہوا کہ پاکستان ایک بڑی جنگ ہارا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کی وہ اشیا جن میں ماچس، چائے، پٹ سن وغیرہ شامل تھیں وہ بھی دنیا کے دیگر ملکوں سے وافر مقدار اور تعداد میں منگوا کر مارکیٹ کو متوازن رکھا گیا۔
اس کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو حکومت کا پہلا بجٹ مالی سال 1972-73 خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا۔اب بھٹو نے بڑی جرات اور ہمت سے کام لیتے ہوئے پاکستان کو دولت مشترکہ سے نکالنے کا اعلان کر دیا، اُن نازک حالات میں بھی یہ طے کر لیا کہ پاکستا ن اب اپنی خارجہ پالیسی کے تحت غیر جانبدار رہے گا۔ بھٹو اُس وقت کی سرد جنگ کا ٹھیک سے اندازہ کر چکے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں تو خاموش تماشائی تھا کہ اُسے اس سے کوئی نقصان نہیں تھا مگر اس سے آگے یعنی بھارت کے پاکستان کی جانب بڑھنے کی صورت میں امریکی مفادات کو خطرہ تھا۔ دوسری جانب چین پاکستان کے ساتھ تھا کہ جب تک معاملات طے نہ ہو جاتے اُس وقت تک بنگلہ دیش کو سوویت یونین اور امریکہ سمیت کتنے ہی ملک تسلیم کر لیتے وہ اقوام متحدہ کا رکن نہیں بن سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بھٹو نے ملک کے اندر 1972 کے عبوری آئین کے لیے کام کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دیں، آئین سازی کے عمل میں دائیں اور بائیں بازوکی جماعتوں کو شریک کیا اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کی اور ساتھ ہی انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ کر چند مہینوں میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ملک کو ایک نئی خارجہ پالیسی کے ساتھ ملک کو مضبوط کیا، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایسے اقدامات کئے کہ خود بھارت یہ محسوس کرنے لگا کہ اگر پاکستان سے جلد مذاکرات نہ کئے تو بھارت پر عالمی اور اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا۔
یوں پاکستان کا دفترخارجہ جو براہ راست اُن کی اپنی نگرانی میں کام کر رہا تھا، بھارتی دفترِخارجہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہو ئے شملہ مذاکرات کے لیے کام کرتا رہا۔ اُس وقت بڑی عجیب صورتحال تھی وہی بھارتی وزیرِ خارجہ سردار سورن سنگھ تھے جو معاہدہ تاشقند کے وقت آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ تھے اور پر یشان تھے کہ کہیں پاکستان فوجوں کو زمانہ امن پر لے جانے پر اور خصوصاً کشمیر میں سیزفار لائن پر لے جانے پر اڑ نہ جائے، یہاں وہ اندراگاندھی کے ساتھ فاتحانہ انداز اختیار کئے ہو ئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کا ڈرافٹ 28 جون 1972 کو تیار کیا گیا تھا اور شائد اس میں 3 جولائی تک کئی تبدیلیاں کی گئی ہوں مگر یہ ضرور تھا کہ شملہ معاہدہ میں بھٹو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے تھے حالانکہ بھارت کی جانب سے کو ششیں تھیں کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ طے ہوا کہ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر کے درمیان لائن کو سرحد تسلیم کر لیا گیا ہے۔ بھارتی فارن آفس کے اعلیٰ عہد یدار معاہدے کے ڈرافٹ میں اس کو شامل کر چکے تھے، مگر بھٹو نے اس کو تسلیم نہیں کیا، بھٹو شملہ جانے والے وفد میں اپنی بیٹی بینظیربھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں اور سنیئر صحافیوں کو لے گئے تھے کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کے مختلف دور میں تین چار مرتبہ ایسا ہوا کہ بھٹو جھنجھلا کر اٹھ گئے اور وفد میں شامل لو گوں سے کہا کہ سامان باندھ لیں اور واپس پاکستان جائیں، آخر مذاکرات اس پر طے ہوئے کہ سیز فارلائن 1971 کی جنگ بندی کے مقامات کے مطابق ہو گی، یہی موقف بھٹو کا تاشقند کے معاہدے کے وقت تھا جس کو اُس وقت امریکہ اور روس کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان اپنا نہیں سکا تھا، مگر اب پاکستان بہت کمزور پوزیشن پر تھا اس لیے اس کو مانا گیا اور سیز فارلائن کو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔
شملہ معاہدے میںیہ بھی طے پایا کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم کی بجائے دونوں ملک آپس میں مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کریں گے۔ اس معاہدے پر 3 جولائی 1972 کو پاکستان کی جانب سے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کئے اور اس کے بعد انہی دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ نے شملہ معاہدے کی توثیق کر دی۔ یوں اس معاہدے کی اہمیت اس اعتبار سے کہیں زیادہ ہے کہ اس معاہدے کو بھارت اور پاکستان کے تمام عوام نے جمہوریت کی بنیاد پر اپنے منتخب نمائندوں کی وساطت سے منظور کیا تھا۔
جنگ 1971 کی فتح کے بعد بھارتی وزیراعظم نے طنزیہ کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریے کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جولائی 1971 میں سوویت یونین اور بھارت کے درمیان جو معاہد ہ تعاون کے لیے ہوا تھا اس میں بنگلہ دیش کو بھی اس کی علیحدگی کے فوراً بعد شامل کر لیا اور شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو آئینی طور پر سیکولر اسٹیٹ بنا دیا لیکن بنگلہ دیش کو بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر یک جا نہیں کیا۔
یہ وہی بنگال تھا جس کو 1905 میں جب انگریز سرکار نے مشرقی اور مغربی بنگال کے دوصوبوں کے طور پر تقسیم کیا تھا تو اس سے مسلم اکثریت کے مشرقی بنگال کو فائدہ تھا اور کانگریس نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس کے ردعمل کے نتیجے میں 1906 میں ڈھاکہ میں آل نڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا، اور پھر 1911 میں کانگریس کے دباؤ کے نتیجے میں انگریز نے تنسیخ بنگال کرکے پھر ایک صوبہ بنگال بنایا تھا، لیکن پھر جب1941 کی مردم شماری میں مشترکہ بنگال کی آبادی کا 54.73 فیصد مسلمان تھا اور 1937 سے 1947 تک مشترکہ بنگال کے وزراء اعظم مسلمان تھے تو اس لیے کانگریس نے یہی بہتر جانا کہ بنگال پُر امن طور پر تقسیم ہو جائے۔
یہاں تقسیم کے وقت امن اس لیے ضروری تھا کہ مشرقی پاکستان میں جو 23 سے 24 فیصد ہند و بنگالی آبادی تھی وہ مغربی اور مشرقی پنجاب جیسی خونریزی اور قتل وغارت گری سے نہ صرف بچ جائے بلکہ مشرقی پاکستان میں کل آبادی کی یہ چوتھائی بنگالی آبادی مغربی بنگال میں مذہبی نفرت کے ساتھ اِس طرح منتقل نہ ہو جیسے پنجاب میں سکھ اور مسلمان آبادی کو ایک نہایت سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت کیا گیا تاکہ اِن میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر قیامت تک نفرت رہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سکھ اور مسلمان پنجابی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کے بعد بھی محبت کے کسی رشتے سے جڑے رہیں، اور ایسا ہی ہوا۔
مگر 16دسمبر1971 کی فتح کے بعد نہ تو بھارت نے چاہا کہ بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی بنگال ایک ہو جائیں اور باوجود بھارت کی فوجی امداد اور مکتی باہنی کی ٹریننگ کے نہ ہی شیخ مجیب الرحمن یہ حوصلہ کر سکے کہ بنگلہ دیش کے 77% مسلمان عوام کو یہ کہہ دیں کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہونے والے بنگال کو بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر دوبارہ ایک کر دیا جائے، بلکہ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان میں جو بنگالی رہ گئے اور آج اُن کی تعداد 30 لاکھ ہے جس میں سے تقریباً پچیس لاکھ بنگالی صرف کراچی میں رہتے ہیں اِن بنگالیوں کو بھی بنگلہ دیش قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اِن بنگالیوں میں سے کوئی اگر بنگلہ دیش میں اپنے عزیز رشتہ داروں سے بنگلہ دیش جا کر ملنا چاہے تو اُسے نہ صرف پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرنا پڑتا ہے بلکہ جب تک بنگلہ دیش کا سفارت خانہ ویزا نہ دے تب تک وہ بنگالی بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہو سکتا۔
سرد جنگ کے آغاز پر جب تک سابق سوویت یونین ایٹمی قوت نہیں بنا تھا تواُس وقت شائد امریکہ،کینیڈا،آسٹریلیا، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی یورپی ممالک کے عزائم کچھ اور نظر آتے تھے، مگر روس کی جانب سے کامیاب ایٹمی تجربہ کرنے کے ساتھ روس جب اسپیس ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتا آگے نکل گیا تو اشتراکی نظریات کی بنیادوں پر انقلابات کے ذریعے حکومتوں کے تختے الٹ کر وہاں کیمو نزم یا نیم اشتراکیت اور نیشنل ازم کی بنیاد پر اپنی حامی حکومتوں کے قیام کا سلسلہ شروع کیا۔
دوسری جانب امریکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھنے والی عموماً قبائلی ، مضبوط شخصیات، بادشاہوں ، فوجی جنرلوں، بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ اِن ملکوں میں عوام کے مذہبی عقائد کو جذباتیت کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا تھا، البتہ امریکہ اور مغر بی ممالک مختلف ملکوں میں نیشنل ازم اور شخصی حکومتوں کے لبادے میں نام نہاد جمہوریت کے بھی حامی تھے، یوں ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں دائیں اور بائیں بازو کے نام پر ان قوتوں کے درمیان پنجہ آزمائی ہوتی رہی جس سے پوری دنیا کے معاشروں میں فطرتی انداز کا تہذیبی ارتقا ابہام کا شکار ہوا اور یوں نظریات اور عقائد کی بنیادوں پر سرد جنگ کا ایندھن غریب اور پسماندہ ملکوں کے عوام بنتے رہے۔
جنوبی ایشیائی ملکوں سمیت دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں پھر وہ قیادتیں بھی قتل ہوتی رہیں جو بڑی قوتوں کے مفادات کے لیے اپنی لیڈرشپ کو استعمال کرتی تھیں، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل 300 جنرل نشستوں میں سے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے160 پر کامیابی حاصل کر کے واضح اکثریت حاصل کی تھی اور مغربی پاکستان میں 138 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے81 نشستیں حاصل کی تھیں، مذہبی جماعتیں تقریباً 18 سے 20 نشستیں حاصل کر سکی تھیں اگر شیخ مجیب الرحمن قید سے رہائی کے بعد بنگلہ دیش کے اعلان کی بجائے ڈھاکہ میں پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس بلواتے تو یقیناً مغربی پاکستان سے لبرل جماعتوں کے منتخب اراکینِ قومی اسمبلی ضرور شرکت کے لیے ڈھاکہ جاتے، چاہے پاکستان پیپلز پارٹی اس سے انکار ہی کیوں نہ کر تی، شیخ مجیب الرحمن مشترکہ پاکستان کے وزیراعظم ہوتے، وہ دو تہائی اکثریت سے نیا پارلیمانی آئین تشکیل دیتے مگر بڑی قوتیں ڈرامے میں کردار کے مطابق اسکرپٹ میں جتنا کردار دیتی ہیں اس سے زیادہ یا کم کرنا پھر ایکٹر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایکٹر کا انجام اُسے معلو م نہیں ہوتا، شیخ مجیب الرحمن نے بھی کردار ادا کیا مگر معاشرے میں مذ ہبی اور قوم پرستی کے رجحانات تاریخی پس منظر کے اعتبار سے فطری ارتقا چاہتے تھے اور پھر یہی وجوہات تھیں کہ 1975 میں فوجی بغاوت کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن کو قتل کر دیا گیا، اس کے بعد پھر دوسرے فوجی جنرل ضیاء الرحمن نے 16سال تک حکومت کی اور اُن کا انجام بھی ایسا ہی ہوا اور اب جب سے بنگلہ دیش میںشیخ مجیب الر حمن کی بیٹی حسینہ واجد برسر اقتدار آئی ہیں انہوں نے 1971 کی بنیاد پر خصوصاً جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی ستر، ستر، اسی، اسی سالہ بزرگ شخصیات کو سزائے موت دی اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے اقدامات کا ردعمل بھی شدید انداز سے آتا ہے۔ یہی صورت اندرا گاندھی اور اُن کے بیٹے راجیو گاندھی کی تھی جن کو سکھ اور تامل ہندو انتہا پسندوں نے قتل کیا۔ یہاں بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادتوں کا حوالہ مختلف ہے کہ اُن کے قتل اور پھانسی میں بھی اگر چہ بڑی قوتوں کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں شخصیات نے مذہبی تضادات اور قومی تضادات کو متصادم ہو نے سے روکا، اس کی بہترین مثال بھٹو کا 1973 کا آئین تھا جس میں مذہبی جماعتوں سمیت نیشنلسٹ جماعتوں نے بھی دستخط کئے تھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ بھٹو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت تیز رفتاری سے قومی اور بین الاقومی سطح پر مکمل آزادی اور خود مختاری سے ایسا کردار ادا کیا جو حیرت انگیز تھا ۔
بھٹو نے اقتدر میں آتے ہی نہ صرف پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے باہر نکال لیا بلکہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی بھرپور فوجی امداد کی، یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ ایم ایم عالم جیسے پائلٹ کو بھی اسرائیل کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے نہیں روکا اور پھر 1974 تک لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کر وا کر مسلم دنیا کے اکثر ملکوں کو باوجود اُن کے بہت سے اختلافات کے مختصر سے عرصے میں ایک دوسرے سے قریب کر دیا۔
مورخین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بڑے لیڈر یا قد آور لیڈر پہلی عالمی جنگ 1914-18 سے دوسری عالمی جنگ 1939-45 کے درمیان پید ا ہوئے جس میں برصغیر میں اصول پرست اور دو قومی نظریے پر ایک نیا ملک بنانے والے قائد اعظم محمدعلی جناح اور عدم تشدد کے فلسفے کے پر چارک موہن داس گاندھی تھے، اگر چہ پنڈت جواہر لال نہرو بھی اسی دور کی پیداوار تھے اور انہوں نے بھی آزادی کے فوراً بعد غیر جانبدارا ملکوں کی تنظیم کے حوالے سے عالمی سطح پر کردار ادا کیا تھا مگر بعد میں وقت نے ثابت کر دیا کہ انہیں جمہوریت اور تیسری دنیا کے مفادات کے مقابلے میں اپنا خاندان اور اس کے بعد ہند و مفادات عزیز تھے، اور وہ جس عہد میں تھے اُس دور میں نو آبادیاتی نظام ٹوٹ رہا تھا اور جس ملک میں بھی پہلا لیڈر سربراہ آیا آج بھی اُسی کی تصویر اُس ملک کے کرنسی نوٹ پر نظر آتی ہے ، اب جہاں تک بھٹو کی شخصیت کی بات ہے تو وہ دوسری عالمی جنگ کے26 سال بعد اقتدار میں آئے اور صرٖ ف پانچ سال کے عرصے میں پوری دنیا میں بڑی قوتوں کے مقابلے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کئے، یہی بھٹو تھے جنہوں نے باوجود بہت کمزور پوزیشن کے مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہد ے میں زندہ رکھا اور ٹیبل پر مذاکرات میں کھویا کم اور حاصل کہیں زیادہ کیا۔
(جاری ہے)