8 اکتوبر 2005 کا تباہ کن زلزلہ مارگلہ ٹاور گرنے سے 73 ہلاکتیں ہوئیں مالک ملزم بری ہوگیا
مارگلہ ٹاورکے انہدام کامقدمہ تھانہ شالیمار میں درج ہوا جس کی تفتیش انسپکٹر عبدالستاربیگ نے کی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں 8 اکتوبر2005 کو8 بج کر52 منٹ پر تباہ کن زلزلہ آیا جہاں پرزلزلہ نے ملک کے دیگر بالائی علاقوں میں بے پناہ جانی اورمالی نقصان کیا۔
اس زلزلہ میں وفاقی دارالحکومت کے ایف ٹین مرکزمیں واقع مارگلہ ٹاوربھی منہدم ہوگیا تھا۔زلزلہ کے وقت یہاں 157افراد موجود تھے۔زلزلہ کے وقت اسسٹنٹ کمشنر اسلام آبادکیپٹن ریٹائرڈ ظفرجوان دنوں ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب تعینات ہیں بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ فلیٹ میں موجود تھے۔ مارگلہ ٹاورکے انہدام سے خواتین اور بچوں سمیت مجموعی طور پر73افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 5یوم کی مسلسل کوششوں کے بعد84 افرادجن میں کیپٹن (ر) ظفراور انکی اہلیہ بھی شامل تھے کو زندہ نکال لیاگیا تاہم ان کی اہلیہ کا بازوکٹ گیا تھا۔مارگلہ ٹاورکے انہدام کامقدمہ تھانہ شالیمار میں درج ہوا جس کی تفتیش انسپکٹر عبدالستاربیگ نے کی تھی۔
ٹاورکے مالک سی ڈی اے کے سابق ڈرافٹ مین اور ان کی اہلیہ کواس واقعہ کا مرکزی ملزم بنایاگیا۔ملزم رمضان کھوکھر حادثہ کے وقت برطانیہ میں تھا، ملزم کی بیرون ملک سے گرفتاری میں ناکامی پرانٹرپول سے رابطہ کیاگیا۔بعد میں ملزم رمضان کھوکھر چند ماہ بعد پاکستان واپس آیا اور وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ عبدالحمیدڈوگرنے اس کی ضمانت لے لی ۔ضمانت کے بعد ملزم نے نہایت تیزی دکھائی اور اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت میں فریق بن گئے، مذکورہ عدالت کے جج شوکت جنھوں نے چند یوم بعد ریٹائرہونا تھا انہوں نے رمضان کھوکھر کو مقدمہ سے بری کردیا۔
مقدمہ سے بری ہوتے ہی ملزم رمضان کھوکھر پھر اپنے اہلیہ کے ساتھ برطانیہ واپس چلا گیا۔ سی ڈی اے کے سابق ڈرافٹ مین رمضان کھوکھر نے اربوں روپے کیسے کمائے،مارگلہ ٹاورکی تعمیر میں غیرمعیاری تعمیراتی سامان لگاکراتنی جانوں سے کیوں کھیلااور سزا سے بھی بچ گیا یہ آج تک کسی نے دوبارہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سوال یہ ہے کیا مستقبل میں ایسے واقع سے بچنے کے لیے کوئی سبق حاصل کیاگیا، متعلقہ اداروں نے نئی عمارات کی تعمیر میں زلزلہ برداشت کرنے کے پہلوکے حوالے سے کوئی تعمیراتی معیار اورنظام قائم کیاہے ،اس کاجواب متعلقہ حکام ہی دے سکتے ہیں۔
اس زلزلہ میں وفاقی دارالحکومت کے ایف ٹین مرکزمیں واقع مارگلہ ٹاوربھی منہدم ہوگیا تھا۔زلزلہ کے وقت یہاں 157افراد موجود تھے۔زلزلہ کے وقت اسسٹنٹ کمشنر اسلام آبادکیپٹن ریٹائرڈ ظفرجوان دنوں ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب تعینات ہیں بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ فلیٹ میں موجود تھے۔ مارگلہ ٹاورکے انہدام سے خواتین اور بچوں سمیت مجموعی طور پر73افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 5یوم کی مسلسل کوششوں کے بعد84 افرادجن میں کیپٹن (ر) ظفراور انکی اہلیہ بھی شامل تھے کو زندہ نکال لیاگیا تاہم ان کی اہلیہ کا بازوکٹ گیا تھا۔مارگلہ ٹاورکے انہدام کامقدمہ تھانہ شالیمار میں درج ہوا جس کی تفتیش انسپکٹر عبدالستاربیگ نے کی تھی۔
ٹاورکے مالک سی ڈی اے کے سابق ڈرافٹ مین اور ان کی اہلیہ کواس واقعہ کا مرکزی ملزم بنایاگیا۔ملزم رمضان کھوکھر حادثہ کے وقت برطانیہ میں تھا، ملزم کی بیرون ملک سے گرفتاری میں ناکامی پرانٹرپول سے رابطہ کیاگیا۔بعد میں ملزم رمضان کھوکھر چند ماہ بعد پاکستان واپس آیا اور وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ عبدالحمیدڈوگرنے اس کی ضمانت لے لی ۔ضمانت کے بعد ملزم نے نہایت تیزی دکھائی اور اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت میں فریق بن گئے، مذکورہ عدالت کے جج شوکت جنھوں نے چند یوم بعد ریٹائرہونا تھا انہوں نے رمضان کھوکھر کو مقدمہ سے بری کردیا۔
مقدمہ سے بری ہوتے ہی ملزم رمضان کھوکھر پھر اپنے اہلیہ کے ساتھ برطانیہ واپس چلا گیا۔ سی ڈی اے کے سابق ڈرافٹ مین رمضان کھوکھر نے اربوں روپے کیسے کمائے،مارگلہ ٹاورکی تعمیر میں غیرمعیاری تعمیراتی سامان لگاکراتنی جانوں سے کیوں کھیلااور سزا سے بھی بچ گیا یہ آج تک کسی نے دوبارہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سوال یہ ہے کیا مستقبل میں ایسے واقع سے بچنے کے لیے کوئی سبق حاصل کیاگیا، متعلقہ اداروں نے نئی عمارات کی تعمیر میں زلزلہ برداشت کرنے کے پہلوکے حوالے سے کوئی تعمیراتی معیار اورنظام قائم کیاہے ،اس کاجواب متعلقہ حکام ہی دے سکتے ہیں۔