قربانی کے جانوروں اور بچوں میں قربت

عید الاضحی کے تین روز میں پاکستانی معیشت میں اندازاً 2 کھرب روپے گردش کرتے ہیں جس سے لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے

والدین احتیاط کے تقاضوں کو ہرگز نظرانداز نہ کریں۔ فوٹو: فائل

اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانی جان، مال، جذبات کی ہو یا جانور کی، بلاشبہ انسان کی دنیاوی و اخروی تسکین کا باعث بنتی ہے۔

اور مسلمانوں کے پاس اس تسکین کے حصول کا بہت بڑا موقع عیدالاضحی ہے، جب ہر مسلمان اپنی استعداد کے مطابق بڑے شوق اور جذبے سے قربانی کے لئے جانور خریدتا ہے۔ سنت ابراہیمی ؑ کی اطاعت میں اخلاص کے ساتھ کی گئی قربانی سے نہ صرف جذبہ ایمانی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معیشت اور معاشرے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر 10 کروڑ سے زائد جانور قربان کئے جاتے ہیں، جن میں سے تقریباً 55 لاکھ جانور (مینڈھے، بکرے، بیل، گائے اور اونٹ وغیرہ) پاکستان میں ذبح کیے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کی خریداری پر شہری لگ بھگ ڈیڑھ کھرب روپے خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 ارب روپے قربانی سے جڑے لازمی ذیلی اخراجات، محصولات ، خریداری اور دیگر متفرقات کی مد میں جمع کر لئے جائیں تو یوں صرف عید الاضحی کے تین روز میں پاکستانی معیشت میں اندازاً 2 کھرب روپے گردش کرتے ہیں، جس سے لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے اور سال میں ایک بار کروڑوں افراد کو صحت بخش گوشت بھی نصیب ہوتا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج کل عید الاضحی کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ان دنوں ہر کسی کو کچھ نہ کچھ ضرور مل رہا ہے، جانوروں کی خرید و فروخت میں کوئی مال کما رہا ہے تو کوئی خوشیوں کا لطف اٹھا رہا ہے۔ مویشی منڈیوں میں جانوروں کی سجاوٹ پر خوب دھیان دیا جاتا ہے کیونکہ جانور جتنا خوبصورت ہو گا اس کا دام بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا، لیکن قربانی کے جانوروں کی منڈیاں اب روایتی منڈیوں سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ پہلے دیہات سے لوگ اور گلہ بان اپنے جانور شہر میں لا کر بیچتے تھے، اب ان کے ساتھ پیشہ ور سرمایہ کار اور مارکیٹنگ کے لوگ بھی اس منڈی میں داخل ہو رہے ہیں، یہ سرمایہ کار عام بیوپاریوں سے جانوروں کی بڑی تعداد سستی خریدکر عید الاضحی کے قریب آنے پر مہنگے داموں فروخت کرنے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ کے شعبے کے لوگ رقم کمانے کے لئے قربانی کے جانوروں کے فیشن شو کا انعقاد اور میڈیا پر تشہیر کروا رہے ہیں۔ جانوروں کے نام مشہور فلموں اور اداکاروں کے نام پر رکھے جا رہے ہیں تاکہ گاہگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کو متوجہ کیا جا سکے۔ پہلے بکرا صرف بکرا کہلواتا تھا لیکن آج یہ ڈان، بادشاہ، گجنی، دبنگ اور راون کے نام سے جانا جا رہا ہے۔ منڈی میں جانوروں کے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ قربانی کے جانوروں پر قربان ہو ہو جائیں لیکن یہ ساری ٹھاٹھ باٹھ اس وقت نیچے سے سیڑھی کھسکنے کی طرح زمین پر آن پڑتی ہے جب جانور فروخت ہو کر گھر پہنچ جاتا ہے، کیوں کہ وہاں کوئی ایسا اس کا منتظر ہے جو اب اسے چین نہیں لینے دے گا۔

بچے۔۔۔جی ہاں بچے جن کی قربانی کے جانور کے لئے بے پناہ محبت نہ صرف مویشی بلکہ خود ان کے لئے بھی کبھی کبھار مصیبت کا باعث بن جاتی ہے۔ جانور کے گھر پہنچتے ہی اس کی خدمت شروع کر دی جاتی ہے، اسے سجانے کے لئے جھانجر، گانی، سرخ کپڑے اور پھولوں کی لڑیاں استعمال کی جاتی ہیں، بکروں اور چھتروں کو مہندی بھی لگائی جاتی ہے، اس سجاوٹ میں بچوں کے ساتھ بڑے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گھر میں مویشی کی رہائش کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، اگر فلیٹس اور گنجان آبادی والے علاقوں میں گھروں کے اندر جگہ نہ ہو تو قناتیں لگا کر گلیوں کو بھی بند کردیا جاتا ہے۔ جانوروں کے آرام کے لئے پکی سڑک پر جہاں انھیں باندھا گیا ہے، وہاں ان کے بیٹھنے کے لئے مٹی ڈالی جاتی ہے، جو بچے بڑے شوق سے دور دراز سے خود اٹھا کر لاتے ہیں جبکہ روشنی کا بھی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ جانور کی محبت میں گرفتار بچے اور نوجوان اس کے کھانے کا باقاعدہ شیڈول تیار کرتے ہیں جس میں کولڈ ڈرنکس تک کو شامل کیا جاتا ہے ...اور یہیں سے بگاڑ کی ابتدا ہوتی ہے، یعنی بکرے یا دیگر جانور کا زبردستی منہ کھول کر اس میں کولڈ ڈرنک انڈیلنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بعض اوقات معدے میں جانے کے بجائے پھیپڑوں میں چلی جاتی ہے، جس سے جانور کی زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں اور جانور قربانی کے لائق نہیں رہتا۔ ہر وقت خدمت کے جذبہ سے سرشار بچے جانور کو اس قدر کھلاتے ہیں کہ اسے اسہال جیسے پیٹ کے مختلف امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ چنوں کے بعد پانی پلانے سے بھی جانور کے بیمار ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں بچے اکثر ایسا کرتے ہیں۔

کھانے پینے کے علاوہ بچوں کی جانوروں سے اٹھکیلیاں بھی بعض اوقات مہنگا سودا بن جاتا ہے۔ گلی، محلوں میں موجود جانور بچوں کی وجہ سے خاصے پریشان دکھائی دیتے جبکہ بچے ہیں کہ ان مہمانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ عید قریب ہے اور بکرے پریشان۔ پریشان کیوں نہ ہوں ایک طرف تو انھیں قربانی دینی ہے، تو دوسری طرف بچوں نے ان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔کوئی اِدھر سے کھینچ رہا ہے تو کوئی اُدھر سے۔ عید پر کوئی ان کی بوٹیاں کرکے کھائے گا، توکوئی بارہ مصالحوں میں بھونے گا اور تو اور کوئی ان کے کباب بنا ڈالے گا۔ لیکن یہ سب ہوگا بقرا عید کے بعد، مگر عید سے قبل بھی بکروں کی خیر نہیں۔ شام ہوئی نہیں کہ بچے اور نوجوان اپنے اپنے بکرے، بیل اور گائے لے کر گلی، محلوں میں انھیں گھمانے نکل پڑتے ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے ڈھیر سارے بچوں کا شور اورجانور کے گلے میں بندھے ہوئے گھنگھروں اور گھنٹیوں کی آوازیں جانور کو خوف زدہ کر دیتی ہیں۔ بچے شور مچا رہے ہوتے ہیں اور جانور ان کے ڈر سے بھاگتے چلے جاتے ہیں اور اس بھاگ دوڑ میں خوفزدہ جانور کبھی خود اپنا اور کبھی بچوں کا نقصان کر بیٹھتا ہے۔ گلے میں رسی ڈال کر جانور کو اس کی مرضی کے خلاف زور سے کھینچنا اور زبردستی اسے سیڑھیاں چڑھانا تکلیف دہ امر ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کی لڑائیاں کروا کر لطف اندوز ہونے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے اور اس لڑائی میں جانوروں کا بعض اوقات زیادہ نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ بچوں کی قربانی کے جانوروں سے محبت پر کسی کو شبہ نہیں لیکن مویشی کو ایذا پہنچانے والی حرکتوں سے پرہیز ضرور کیا جانا چاہیے۔



جانور کے گھر پہنچتے ہی اس کی خدمت شروع کر دی جاتی ہے، اسے سجانے کے لئے جھانجر، گانی، سرخ کپڑے اور پھولوں کی لڑیاں استعمال کی جاتی ہیں، بکروں اور چھتروں کو مہندی بھی لگائی جاتی ہے، اس سجاوٹ میں بچوں کے ساتھ بڑے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں


بچوں کی معمولی شرارتوں سے قربانی ضایع نہیں ہوتی لیکن جانور سے شفقت اس کا حق ہے: مفتی محمد یونس

معروف عالم دین مفتی محمد یونس نے قربانی کے جانور سے بچوں کی شرارتوں کے حوالے سے ''ایکسپریس'' کو شریعت کے احکامات کی روشنی میں بتایا کہ عمومی طور پر بچوں کی معمولی شرارتوں سے قربانی کے جانوروں میں ایسا کوئی نقص یا عیب پیدا نہیں ہوتا جس کے باعث وہ جانور قربانی کے لائق نہ رہے۔ قربانی کا جانور ایک مقدس مقصد کے لئے خریدا جاتا ہے، جس سے بھرپور شفقت برتی جائے کیوں کہ یہ اس کا حق ہے۔ والدین کا یہ فرض ہے کہ بچوں کی رہنمائی کریں کہ وہ جانوروں سے ایسا سلوک نہ کریں جس سے انھیں ایذا پہنچے۔ بعض اوقات ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ کبھی جانور تو کبھی بچے کو زیادہ نقصان پہنچ جائے لیکن اس کو عذر بنا کر قربانی کے جانور کی خریداری میں تاخیر درست نہیں، کیوں کہ قربانی کے جانور کو جلد خرید کر خود پالنا تاکہ اس سے انسیت پیدا ہو جائے تو ایسی قربانی کو شریعت میں زیادہ پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

مفتی محمد یونس کا کہنا ہے کہ جانور کے اہم اعضاء اور قویٰ کا بالکل ختم ہو جانا یا انھیں کافی نقصان پہنچنے کی صورت میں ہی قربانی ضایع ہوتی ہے، مثال کے طور پر مکمل یا ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی، کان کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹ گیا یا ٹانگ کا اتنا نقصان ہو گیا کہ جانور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا، اس طرح کے عیوب کی صورت میں مذکورہ جانور کی قربانی نہیں ہوگی۔ اور ہمارا نہیں خیال کے بچوںکی شرارتوں سے قربانی کے جانور کو اس حد تک نقصان پہنچتا ہے۔ بچے کی معمولی شرارتوں میں قربانی کے جانور کے لئے بے حد پیار چھپا ہوتا ہے اور یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے وہ انھیں اپنے ساتھ بھی سلاتے ہیں، ان کی خدمت کرتے ہیں، گرمی میں ان کے لئے ہوا اور سردیوں میں گرمائش کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جانور کو کان سے پکڑ کر چلانے سے اس کا کان نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی سیر کو لے جاتے ہوئے دوڑانے سے اس کی ٹانگ کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ مفتی محمد یونس نے مزید بتایا کہ سینگ کے بیرونی حصے ٹوٹنے، معمولی پیٹ کی بیماری، جسم کے کسی حصے پر معمولی زخم یا ٹانگ پر ایسی چوٹ، جس سے چال میں تھوڑا فرق آئے لیکن جانور چل پھر سکے، تو ایسی صورت میں قربانی ضایع نہیں ہوگی۔

ہم قربانی کے جانوروں کو تنگ نہیں کرتے یہ ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں: بچے

قربانی کے جانوروں کی پریشانی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بچوں نے بتایا کہ ہم ان کو تنگ نہیں بلکہ پیار کرتے ہیں، یہ ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں۔ حسن، محمد ابوبکر، ایمان فاطمہ، عبدالرحمن اور عبداللہ نے کہا کہ ہمارے بکرے بہت اچھے ہیں، ہم ان کا خیال رکھتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر ہم بکروں، گائے اور دنبوں کو بڑے چائو سے سجاتے ہیں اور سجائیں بھی کیوں نہ، سال میں ایک بار تو ہمیں یہ موقع ملتا ہے۔ عائشہ، محمد انس، ذوالنون، فصیح بخاری، ریحان حسن اور ثبات مہدی نے کہا کہ قربانی کا جانور ہمارے لئے بہت بڑی تفریح ہے، ہم انھیں کھلاتے، پلاتے اور نہلاتے ہیں تاکہ وہ ہشاش بشاش نظر آئیں۔ جانوروں کی ریس لگوانے سے ہمیں بڑا مزا آتا ہے لیکن انھیں کسی قسم کی تکلیف پہنچا کر ہم خوشی محسوس نہیں کرتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جب ہم ان کا اتنا خیال رکھتے ہیں وہ بھی ہماری بات مانیں، وہ ہمارے ساتھ کھیلیں اور سیر کو جائیں، جب وہ ہمارے ہاتھ سے کچھ کھاتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے اور نہ کھانے پر کبھی کبھار غصہ بھی آ جاتا ہے۔

بچے کو ہر وقت قربانی کے جانور کیساتھ رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے: ویٹرنری ڈاکٹر سید جمشید طاہر

صدر پاکستان پیٹس پریکٹیشنر ایسوسی ایشن ویٹرنری ڈاکٹر سید جمشید طاہر نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر معاملے میں میانہ روی ہی بہترین طرز عمل ہے، یہی کچھ بچوں اور قربانی کے جانور میں ہونا چاہیے، یعنی بچے کو ہر وقت جانور کے ساتھ رہنے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی ایسا ہو کہ جانور بالکل اکیلا کھڑا رہے کیوں کہ تنہائی سے جانور میں خوف پیدا ہو سکتا ہے، جو اس کو کسی بھی بیماری میں مبتلا کر سکتا ہے اور ہر وقت جانور کے ساتھ رہنے سے بچہ بیمار ہو سکتا ہے یا اسے چوٹ پہنچ سکتی ہے۔ اسپتالوں میں ایسے جانوروں کی تعداد تو اتنی زیادہ نہیں جو کسی چوٹ لگنے کی وجہ سے آئے ہوں لیکن بچوں کی طرف سے زیادہ کھلا دینے اور دھوپ میں نہلا دینے کے باعث جانور کو ڈائریا اور بخار ہونے کے کیسز کی تعداد اچھی خاصی ہے، صرف میرے ایک اسپتال میں آنے والے قربانی کے بیمار جانوروں کی تعداد ایک دن میں 50 سے 70 ہے۔ بچوں اور قربانی کے جانوروں کی صحت کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ کے سوال پر ڈاکٹر سید جمشید طاہر کا کہنا تھا کہ عید الاضحیٰ کی آمد کے باعث آج کل جانوروں سے انسیت رکھنے والے بچوں کی صحت کا دارومدار بکروں، چھتروں اور بھیڑوں وغیرہ کی صحت پر ہی ہوتا ہے۔

بچوں کو صحت مند و تندرست رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ قربانی کیلئے جو جانور آپ خرید کر گھر لائے ہیں وہ مکمل طور پر صحتمند ہو۔ قربانی کے جانور کو رات کے وقت کھلے آسمان تلے ہرگز نہ باندھیں، سبزہ چارہ دیں، دانے یعنی دال وغیرہ دینے سے پرہیز کریں، اگر ایسا کرنا بھی ہو تو دانوں کو چارے میں شامل کرکے جانوروں کو دیں اور اس کے فوری بعد پانی نہ پلائیں بلکہ کچھ توقف کیا جائے۔ جانوروں سے انسان کو لگنے والی خطرناک بیماری کانگو وائرس ہے، جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، لیکن اس کی شرح نہایت کم ہے۔ کانگو وائرس جانور پر لگے چیچڑ سے پھیلتا ہے۔ جانور خریدنے والے افراد کو چاہئے کہ وہ پہلے چیک کریں کہ جانور پر چیچڑ تو نہیں ہے، اگر وہ خر ید بھی لیں تو چیچڑ کو ختم کرنے والے پائوڈر کا استعمال ضرورکریں۔ والدین کو چاہئے کہ بچوں کے ساتھ کھیلنے سے قبل جانور کو اچھی طرح چیک کریں کہ جانورپر چیچڑ تو نہیں ہیں۔ چیچڑ عموماً جانور کے کان کے اندر،کان کے پیچھے،گردن کے نیچے، ٹانگوں کے نیچے اور جسم کے دیگر حصوں پر چھپ کر رہتا ہے اور جانور کا خون پیتا رہتا ہے۔
Load Next Story