جبر کی مذمّت و ممانعت

اسلام نے غیر مسلم کو بھی انسانی حقوق عطا فرمائے ہیں وہ معاشرے میں رہ سکتا ہےاس کی جان، مال، آبرو کی حفاظت کی جائے گی

a ﷲ کی ساری مخلوق اس کی دی ہوئی فطرت اور جبلّی عادتوں کے مطابق اپنا وقت بسر کرتی ہے

ISLAMABAD:
دین میں زبردستی نہیں ہے۔ ﷲ کریم نے مخلوق کو امور عادیہ کا قیدی بنا دیا ہے اور ہر مخلوق اپنی فطری اور طبعی عادت کے مطابق عمر بسر کرتی ہے۔ ان کو اسباب ہی ایسے دیے گئے ہیں' مزاج ایسے دیے گئے ہیں' فطرت ایسی بنا دی گئی ہے۔ اگر درندے کو گھا س کھانا پڑے تو اس کا معدہ گھاس کو ہضم ہی نہیں کرتا۔ اگر گھاس چرنے والے جانور کو آپ گوشت کھلائیں تو اس کے معدے میں گوشت ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

اسی طرح سے ﷲ کی ساری مخلوق اس کی دی ہوئی فطرت اور جبلّی عادتوں کے مطابق اپنا وقت بسر کرتی ہے۔ انسان بھی بڑی حد تک اپنی فطری پسند میں دخل نہیں دے سکتا۔ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہو سکتا اور صحت و بیماری' زندگی اور موت پہ اختیار نہیں رکھتا۔ فطرت کے قانون کے مطابق یہ بھی چلتا رہتا ہے لیکن باقی مخلوق کی نسبت اسے جو ایک اضافی وصف دیا ہے' وہ ہے اﷲ کی پہچان کرنا۔ ساری مخلوق صرف حاکم کے حکم کی تابع ہے لیکن انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی نگاہ حاکم کی طرف اٹھتی ہے۔ یہ جاننا چاہتا ہے کہ حکم دینے والا کون ہے۔ مجھے کس نے پیدا کیا' کون ہے میرا خالق' کون ہے جو اس جہان کو چلا رہا ہے' کون ہے اتنا بڑا صانع جس نے یہ ساری تخلیق بنا دی اور اتنی بڑی کارگہہ حیات قائم کر دی اور کون ہے ایسا قادر جو اسے ایک نظم سے چلا رہا ہے؟ یہ سوال انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا' اسے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی استعداد عطا کی گئی۔

اب اس کے بعد اسے مجبور نہیں کیا گیا کہ یہ ضرور مانے اور یہی امتحان ہے' یہی انسان کا اختیار بھی ہے۔ ایک طرف انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے' ہدایت کی کتابیں نازل فرمائیں' ہدایت کے پیغام کو جاری و ساری رکھا اور انشاء اﷲ العزیز قیام قیامت تک اﷲ کے بندے اﷲ کا پیغام پہنچاتے رہیں گے' یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

اب انسانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ اﷲ کے اس پیغام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ اس میں زبردستی نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ زبردستی چاہتا تو خود ساری مخلوق سے اپنے آپ کو منوا لیتا۔ اس کی دی ہوئی قدرت سے ہم سانس لیتے ہیں' اگر وہ روک دے تو دوسری سانس نہیں آتی۔ اگر وہ فطرتاً اور حکماً منوانا چاہتا تو کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی لیکن جب انسان کو اس سوال کا شعور بخشا کہ میرا خالق کون ہے اور صحیح جواب پانے کے ذرائع بھی مہیا کر دیے تو اسے یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے' اﷲ کے پیغام کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔

دین میں جبر نہیں ہے کا یہ معنی نہیں لیا جائے گا کہ جو اس کا جی چاہے وہ کرے اسے روکا نہ جائے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی اسلام قبول نہیں کرنا چاہتا تو زبردستی قبول نہیں کرایا جائے گا، لیکن جب وہ معاشرے میں رہتا ہے تو جو اصول و ضوابط ہیں وہ اس کو بھی ماننے پڑیں گے۔ قرآن کریم نے اسلامی ریاست اور معاشرے کے خدوخال واضح کر دیے ہیں۔ اس میں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کا فرق بتلا دیا ہے۔ بعض ایسی حقیقتیں ہیں جو بین الاقوامی ہیں مثلاً دنیا کا کوئی شخص' مومن یا کافر' یہ نہیں کہتا کہ جھوٹ بولا جائے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ بات سچی کی جائے۔ یہ بھی بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ کسی دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ لیا جائے۔


کسی دوسرے کی عزت و آبرو خراب نہ کی جائے۔اسلام کے بیشتر اصول تو وہ ہیں جو بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہیں۔ کوئی مسلمان ہے یا نہیں لیکن وہ ان سب کو ضروری اور اچھا سمجھتا ہے۔ جو ایمان نہیں لائے گا' اسے بھی معاشرے کے قوانین و ضوابط کی پاس داری کرنا پڑے گی اور جو ایمان لاتا ہے اسے کماحقہٗ دین کا اتباع کرنا پڑے گا۔ اگر وہ دین کے اتباع سے جی چراتا ہے تو معاشرے کو چلانے کے ذمے دار حکم رانوں کی ذمے داری ہے کہ کلمہ پڑھنے کے بعد جو شخص دین پر عمل نہیں کرتا اس کی باز پرس کی جائے اور اسلام نے جو سزائیں مقرر کردی ہیں' ان کے مطابق اسے سزا دی جائے۔

ہمارے عہد میں دین میں جبر نہیں، سے یہ معنی لے لیا گیا ہے کہ دین ذاتی معاملہ ہے اور حکومت کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ کوئی نماز پڑھتا ہے پڑھے' نہیں پڑھتا نہ پڑھے' کوئی روزہ رکھتا ہے رکھے نہیں رکھتا نہ رکھے۔ ایسا نہیں ہے۔ حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور جو دین قبول کرتا ہے' و ہ جب دین میں کوتاہی کرے گا تو سزا کا مستحق بھی ہے۔ تاکیداً اسے دین پر عمل کرانا حکومت کی ذمے داری ہوگی۔ دین میں جبر نہیں کا مفہوم یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمان ہونے پر زبردستی نہ کی جائے۔ اسلام نے انسانی حقوق غیر مسلم کو بھی عطا فرمائے ہیں۔ وہ معاشرے میں رہ سکتا ہے۔ اس کی جان' مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے گی۔ اس کی حدود متعین ہیں کہ کہاں تک اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا' بیمار ہوگا تو اس کا علاج کیا جائے گا' اس کے بچوں کو تعلیم کی سہولت دی جائے گی باقی سارے انسانی حقوق پورے کئے جائیں گے لیکن جو حقوق محض مسلمان ہونے کے ہیں مثلاً اسلامی اعزاز و اکرام ہے' اسلامی عبادات گاہوں میں جاکر عبادت کرنے کا حق ہے' حج ہے یا زکوٰۃ ہے تو اس طرح کے حقوق صرف مسلمان کے ہیں۔ دین میں جبر نہیں کا مفہوم یہ ہے کہ دین کو قبول کرنے میں کسی پر زبردستی نہیں کی جائے گی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے زبردستی فوج میں بھرتی نہیں کیا جائے لیکن جو فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے تو اس کی مجبوری ہے کہ ان قواعد پر عمل کرے اور اگر خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا پاتا ہے۔ یہی حال یہاں بھی ہے کہ دین قبول کرانے میں زبردستی نہیں کی جائے گی لیکن جو کلمہ گو دین میں سستی کرتے ہیں اور دین پر عمل نہیں کرتے' وہ شرعی سزاؤں کے مستحق ہیں۔ حکم ران جو معاشرے کو چلانے کے ذمے دار ہیں' اﷲ کے حضور وہ اس کے ذمے دار ہیں۔

دین قبول کرنے میں اس لیے زبردستی نہیں کی جائے گی کہ انسان کو اﷲ نے شعور دیا۔ پھر انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام اور کتابیں بھیج کر سامان ہدایت مکمل کر دیے۔ بغاوت اور کفر سے اطاعت اور دین کا راستہ بالکل روشن اور واضح ہو کر الگ ہو گیا اور دونوں راستے صاف ہوگئے کہ اﷲ کو ماننے کا' اطاعت کا یہ راستہ ہے اور بغاوت کا وہ راستہ ہے۔ اب انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس راستے پہ چلتا ہے۔ باتیں دو ہی ہیں' اﷲ کی رحمن کی بات ہے یا اس کے مقابلے میں شیطان کی بات ہے۔ آدمی دو میں سے ایک طریقے پہ ضرور چلتا ہے' اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کے دین کی پیروی کرتا ہے اور جہاں سے بھی دین کو چھوڑتا ہے وہاں وہ شیطان کی پیروی کرتا ہے۔

ارشاد ہوا کہ جس نے شیطان کا انکار کیا اور اﷲ پر ایمان لایا اس نے بہت مضبوط حلقے کو تھام لیا' اسے بہت مضبوط آسرا مل گیا۔ وہ ایک بہت مضبوط حصار میں آ گیا جہاں اسے اﷲ کا تحفظ حاصل ہے اور وہ ایسا حصار ہے جس کی شکستگی کا کوئی امکان' کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اﷲ کریم خود جاننے والے بھی ہیں' سننے والے بھی ہیں۔ اگر کوئی قولاً کہتا ہے کہ میں ایمان لایا تو وہ خود سنتے ہیں اور اس کے دل میں کیا کیفیت ہے' اسے اﷲ جاننے والے ہیں۔ اﷲ جانتا ہے کہ یہ خلوص سے ایمان لایا یا منافقت کر رہا ہے۔ اس کے دل نے بھی مانا یا صرف زبان مان رہی ہے۔ اﷲ سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔
Load Next Story