اسلام میں بیوی کے حقوق
بیوی قدرت کا انمول تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، بیوی سُکونِ جسم و جان اور راحت و آرام کا بے مثال شاہ کار ہے
دین اسلام نے ہر رشتے کے حقوق و فرائض کو بیان فرمایا ہے۔
حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اسلامی اور معاشرتی تعلیمات کا بنیادی عنصر عورتوں کا ادب و احترام ہے۔ عورت خواہ وہ ماں ہو، بہن ہو، بیٹی یا بیوی ہو یا کہ معاشرے میں کسی کی بہن بیٹی ہو۔ ایک شوہر پر بیوی کے حقوق کے بارے میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں یوم عرفہ کے خطبے میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے یہ ہدایت بھی دی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو، تم نے انہیں اﷲ کی امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے، اور اسی اﷲ کے کلمے اور حکم سے وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں۔
تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جن کا گھر میں آنا اور تمہارے بستروں پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو تنبیہ تادیب کے طور پر تم سزا دے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو، اور تمہارے ذمے مناسب طریقے پر ان کے کھانے، کپڑے سمیت ضروریات کا بندوبست کرنا ہے۔
اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو بیوی کے بااختیار اور صاحب حکم سربراہ ہیں، وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذے اور محاسبے سے بے پر وا ہوکر اپنی بیویوں پر استعمال نہ کریں، وہ ان کے معاملے میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان خدا ہے، اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کیے ہوئے ضابطۂ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لیے حلال ہوئی ہیں اور وہ اﷲ کی امان میں ان کی ماتحت بنائی گئی ہیں۔ یعنی ا ن کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اﷲ کی امان اور پناہ حاصل ہے۔
اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اﷲ کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے۔ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس جملے نے بتایا کہ جب کوئی عورت اﷲ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کرکے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اﷲ کی ایک خاص امان حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ عورتوں کے لیے کتنا بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کی کتنی سخت آزمائش ہے کہ ان کی بیویاں اﷲ کی امان میں ہیں۔
اس لیے شوہر اپنی بیویوں پر ظلم و جبر کرتے وقت اس بات کو یاد رکھیں اور محتاط رہیں اور حد سے تجاوز ہرگز نہ کریں ورنہ وہ گناہ گار ہوں گے۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کا بیویوں پر یہ حق ہے کہ جن مردوں یا عورتوں کا گھر میں آنا اور بیویوں سے بات چیت کرنا انہیں پسند نہ ہو بیویاں ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں، آگے فرمایا گیا کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو مردوں کو ان کے سربراہ کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کی اصلاح اور تنبیہ کے لیے مناسب اقدام کریں یعنی جتنی شریعت نے اجازت دی ہے اس سے ہرگز تجاوز نہ کریں۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ ان کی تمام ضروریات زندگی اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں، اس معاملے میں بخل و کنجوسی سے ہرگز کام نہ لیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان عظیم کا مفہوم ہے کہ لوگو! اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو، یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نرمی اور مدارات کا برتاؤ رکھو، ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہوتی ہے اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو زبردستی بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اسے یوں ہی اپنے حال پر چھوڑ دو گے اور درست کرنے کی کوئی کوشش نہ کرو گے تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی، اس لیے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔
اس حدیث میں عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے ان کی تخلیق اور بناوٹ پسلی سے ہوئی ہے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ عورتوں کی فطرت میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے جیسا کہ آدمی کے پہلو کی پسلی میں قدرتی کجی ہوتی ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے، یہ غالباً اس طرف اشارہ ہے کہ عورت میں کجی کا زیادہ تر ظہور اوپر کے حصے میں ہوتا ہے۔
جس میں سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ٹیڑھی پسلی کو زور و قوت سے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی زبردستی اور تشدد سے عورت کی مزاج سے کجی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ کام یاب نہیں ہوسکے گا، بل کہ ہوسکتا ہے کہ افتراق اور علیحدگی کی نوبت آجائے اور اگر اصلاح کی بالکل فکر نہ کرے گا تو وہ کجی ہمیشہ رہے گی اور کبھی قلبی سکون اور زندگی کی خُوش گواری کی وہ دولت حاصل نہ ہو سکے گی جو رشتۂ ازدواج کا خاص مقصد ہے۔ اس لیے شوہروں کو چاہیے کہ وہ عورتوں کی معمولی غلطیوں اور کم زوریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دل داری کا برتاؤ کریں۔ اس طریقے سے ان کی اصلاح بھی ہو سکے گی۔
یہ یا د رکھیں کہ بیوی قدرت کا انمول تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، بیوی سکون جسم و جان ہے، بیوی راحت اور آرام کا بے مثال شاہ کار ہے ، بیوی سے مرد نہ صرف سکون حاصل کرسکتا ہے، بل کہ دن بھر کی تھکن کا بھی احساس نہیں رہتا اور اس کے ساتھ بیوی کی قربت سے بھی بڑے سے بڑے مسئلے بھی حل ہوجاتے ہیں۔ اﷲ پاک ہمیں اپنی ازدواج کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض اور حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھرانوں میں مثالی محبت قائم فرمائے۔ آمین
حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اسلامی اور معاشرتی تعلیمات کا بنیادی عنصر عورتوں کا ادب و احترام ہے۔ عورت خواہ وہ ماں ہو، بہن ہو، بیٹی یا بیوی ہو یا کہ معاشرے میں کسی کی بہن بیٹی ہو۔ ایک شوہر پر بیوی کے حقوق کے بارے میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں یوم عرفہ کے خطبے میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے یہ ہدایت بھی دی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو، تم نے انہیں اﷲ کی امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے، اور اسی اﷲ کے کلمے اور حکم سے وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں۔
تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جن کا گھر میں آنا اور تمہارے بستروں پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو تنبیہ تادیب کے طور پر تم سزا دے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو، اور تمہارے ذمے مناسب طریقے پر ان کے کھانے، کپڑے سمیت ضروریات کا بندوبست کرنا ہے۔
اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو بیوی کے بااختیار اور صاحب حکم سربراہ ہیں، وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذے اور محاسبے سے بے پر وا ہوکر اپنی بیویوں پر استعمال نہ کریں، وہ ان کے معاملے میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان خدا ہے، اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کیے ہوئے ضابطۂ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لیے حلال ہوئی ہیں اور وہ اﷲ کی امان میں ان کی ماتحت بنائی گئی ہیں۔ یعنی ا ن کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اﷲ کی امان اور پناہ حاصل ہے۔
اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اﷲ کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے۔ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس جملے نے بتایا کہ جب کوئی عورت اﷲ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کرکے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اﷲ کی ایک خاص امان حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ عورتوں کے لیے کتنا بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کی کتنی سخت آزمائش ہے کہ ان کی بیویاں اﷲ کی امان میں ہیں۔
اس لیے شوہر اپنی بیویوں پر ظلم و جبر کرتے وقت اس بات کو یاد رکھیں اور محتاط رہیں اور حد سے تجاوز ہرگز نہ کریں ورنہ وہ گناہ گار ہوں گے۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کا بیویوں پر یہ حق ہے کہ جن مردوں یا عورتوں کا گھر میں آنا اور بیویوں سے بات چیت کرنا انہیں پسند نہ ہو بیویاں ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں، آگے فرمایا گیا کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو مردوں کو ان کے سربراہ کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کی اصلاح اور تنبیہ کے لیے مناسب اقدام کریں یعنی جتنی شریعت نے اجازت دی ہے اس سے ہرگز تجاوز نہ کریں۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ ان کی تمام ضروریات زندگی اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں، اس معاملے میں بخل و کنجوسی سے ہرگز کام نہ لیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان عظیم کا مفہوم ہے کہ لوگو! اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو، یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نرمی اور مدارات کا برتاؤ رکھو، ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہوتی ہے اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو زبردستی بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اسے یوں ہی اپنے حال پر چھوڑ دو گے اور درست کرنے کی کوئی کوشش نہ کرو گے تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی، اس لیے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔
اس حدیث میں عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے ان کی تخلیق اور بناوٹ پسلی سے ہوئی ہے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ عورتوں کی فطرت میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے جیسا کہ آدمی کے پہلو کی پسلی میں قدرتی کجی ہوتی ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے، یہ غالباً اس طرف اشارہ ہے کہ عورت میں کجی کا زیادہ تر ظہور اوپر کے حصے میں ہوتا ہے۔
جس میں سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ٹیڑھی پسلی کو زور و قوت سے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی زبردستی اور تشدد سے عورت کی مزاج سے کجی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ کام یاب نہیں ہوسکے گا، بل کہ ہوسکتا ہے کہ افتراق اور علیحدگی کی نوبت آجائے اور اگر اصلاح کی بالکل فکر نہ کرے گا تو وہ کجی ہمیشہ رہے گی اور کبھی قلبی سکون اور زندگی کی خُوش گواری کی وہ دولت حاصل نہ ہو سکے گی جو رشتۂ ازدواج کا خاص مقصد ہے۔ اس لیے شوہروں کو چاہیے کہ وہ عورتوں کی معمولی غلطیوں اور کم زوریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دل داری کا برتاؤ کریں۔ اس طریقے سے ان کی اصلاح بھی ہو سکے گی۔
یہ یا د رکھیں کہ بیوی قدرت کا انمول تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، بیوی سکون جسم و جان ہے، بیوی راحت اور آرام کا بے مثال شاہ کار ہے ، بیوی سے مرد نہ صرف سکون حاصل کرسکتا ہے، بل کہ دن بھر کی تھکن کا بھی احساس نہیں رہتا اور اس کے ساتھ بیوی کی قربت سے بھی بڑے سے بڑے مسئلے بھی حل ہوجاتے ہیں۔ اﷲ پاک ہمیں اپنی ازدواج کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض اور حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھرانوں میں مثالی محبت قائم فرمائے۔ آمین