پلیئرز کو ذاتی پسند نا پسند پر منتخب کیا جانے لگا معین کا الزام
مصباح نے جن پلیئرزکو منتخب کیا اب چاہے سیریز کا جو بھی نتیجہ نکلے ان پر اعتماد برقرار رکھنا ہوگا، معین خان
سابق پاکستانی کپتان معین خان نے بھی مصباح الحق کے 'مضحکہ خیز' فیصلوں کو سمجھ سے بالاتر قرار دے دیا انھوں نے کہا کہ سلیکشن میں کوئی مستقل مزاجی نہیں کھلاڑیوں کو ذاتی پسند نا پسند پر منتخب کیا جارہا ہے۔
مصباح کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی دہری ذمہ داری دینا ہی درست نہیں تھا، بابر اعظم اور اظہر علی کو قیادت سونپ کر انھوں نے خود ہی اپنی پالیسی کی خلاف ورزی کردی، اب انھیں مشکل دورئہ کیلیے منتخب شدہ نوجوانوں کو ناکامی کے باوجود برقرار رکھنا ہوگا، پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ''کرکٹ کارنر'' میں میزبان سلیم خالق سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وکٹ کیپر بیٹسمین نے کہاکہ مصباح الحق کی سلیکشن میں کوئی مستقل مزاجی نہیں ہے۔
وہ پلیئرز کو ذاتی پسند ناپسند پر منتخب کررہے ہیں، پلیئرز کو مناسب مواقع دینے کے بجائے انھوں نے احمد شہزاد اور عمر اکمل کو صرف 2 میچز بعد ہی ڈراپ کردیا، اسی طرح عمران خان سینئر اور عثمان قادر کو ڈومیسٹک کرکٹ میں کسی نمایاں پرفارمنس کے بغیر ہی منتخب کرلیا گیا۔
معین خان نے مزید کہا کہ مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی دہری ذمہ داری دینا ہی غلط فیصلہ ہے کیونکہ وہ دونوں پوزیشنز سے انصاف نہیں کرسکتے، جب انھیں کسی کو بھی ٹیم سے ڈراپ کرنے کا اختیار ہو تو وہ کیسے کسی پلیئر کو اچھے کھیل پر اکسا سکتے ہیں۔
ورلڈ کپ 1992 کی فاتح پاکستان ٹیم کا حصہ معین خان وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو خاص طور پر ٹوئنٹی 20 ٹیم کی قیادت سے ہٹانے پر بھی مایوس ہیں، انھوں نے کہا کہ سرفرازسے خاص طور پر ٹوئنٹی 20 ٹیم کی کپتانی چھین لینا مضحکہ خیز فیصلہ ہے، پاکستان ان کی قیادت میں نمبر ون سائیڈ بنی، ایک سال کے دوران کھیل کے مختصر ترین فارمیٹ میں ٹیم کی پرفارمنس انتہائی شاندار رہی۔
نئے کپتانوں کے حوالے سے معین خان نے کہاکہ بابر اور اظہر کو بالترتیب ٹوئنٹی 20 اور ٹیسٹ ٹیم کی قیادت دینے پر بھی سوال اٹھتا ہے، یہ اس پالیسی کیخلاف ہے جس کا مصباح نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ بابر کو سری لنکا سے سیریز کیلیے نائب کپتان مقرر کرکے مستقبل کیلیے گروم کرنا چاہتے ہیں، مگر اب صرف ایک ہی سیریز کے بعد انھیں مکمل کپتان بنادیا گیا۔
اسی طرح انھوں نے مستقبل کیلیے نئی ٹیم بنانے کی بات کہی مگر ٹیسٹ کرکٹ میں قیادت اظہر علی کو سونپ دی جو چند سال پہلے اس ذمہ داری کو ازخود چھوڑ چکے تھے۔
معین نے مزید کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینا ایک اچھا فیصلہ ہے مگر آسٹریلیا کا دورہ آسان نہیں ہوگا، مصباح نے جن پلیئرزکو منتخب کیا اب چاہے سیریز کا جو بھی نتیجہ نکلے ان پر اعتماد برقرار رکھنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ آنے والے مشکل ٹور میں تو نوجوانوں کو آزمایا جائے اور اگر وہ ناکام رہیں تو پھر سینئرزکو واپس ٹیم میں لایا جائے۔
مصباح کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی دہری ذمہ داری دینا ہی درست نہیں تھا، بابر اعظم اور اظہر علی کو قیادت سونپ کر انھوں نے خود ہی اپنی پالیسی کی خلاف ورزی کردی، اب انھیں مشکل دورئہ کیلیے منتخب شدہ نوجوانوں کو ناکامی کے باوجود برقرار رکھنا ہوگا، پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ''کرکٹ کارنر'' میں میزبان سلیم خالق سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وکٹ کیپر بیٹسمین نے کہاکہ مصباح الحق کی سلیکشن میں کوئی مستقل مزاجی نہیں ہے۔
وہ پلیئرز کو ذاتی پسند ناپسند پر منتخب کررہے ہیں، پلیئرز کو مناسب مواقع دینے کے بجائے انھوں نے احمد شہزاد اور عمر اکمل کو صرف 2 میچز بعد ہی ڈراپ کردیا، اسی طرح عمران خان سینئر اور عثمان قادر کو ڈومیسٹک کرکٹ میں کسی نمایاں پرفارمنس کے بغیر ہی منتخب کرلیا گیا۔
معین خان نے مزید کہا کہ مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی دہری ذمہ داری دینا ہی غلط فیصلہ ہے کیونکہ وہ دونوں پوزیشنز سے انصاف نہیں کرسکتے، جب انھیں کسی کو بھی ٹیم سے ڈراپ کرنے کا اختیار ہو تو وہ کیسے کسی پلیئر کو اچھے کھیل پر اکسا سکتے ہیں۔
ورلڈ کپ 1992 کی فاتح پاکستان ٹیم کا حصہ معین خان وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو خاص طور پر ٹوئنٹی 20 ٹیم کی قیادت سے ہٹانے پر بھی مایوس ہیں، انھوں نے کہا کہ سرفرازسے خاص طور پر ٹوئنٹی 20 ٹیم کی کپتانی چھین لینا مضحکہ خیز فیصلہ ہے، پاکستان ان کی قیادت میں نمبر ون سائیڈ بنی، ایک سال کے دوران کھیل کے مختصر ترین فارمیٹ میں ٹیم کی پرفارمنس انتہائی شاندار رہی۔
نئے کپتانوں کے حوالے سے معین خان نے کہاکہ بابر اور اظہر کو بالترتیب ٹوئنٹی 20 اور ٹیسٹ ٹیم کی قیادت دینے پر بھی سوال اٹھتا ہے، یہ اس پالیسی کیخلاف ہے جس کا مصباح نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ بابر کو سری لنکا سے سیریز کیلیے نائب کپتان مقرر کرکے مستقبل کیلیے گروم کرنا چاہتے ہیں، مگر اب صرف ایک ہی سیریز کے بعد انھیں مکمل کپتان بنادیا گیا۔
اسی طرح انھوں نے مستقبل کیلیے نئی ٹیم بنانے کی بات کہی مگر ٹیسٹ کرکٹ میں قیادت اظہر علی کو سونپ دی جو چند سال پہلے اس ذمہ داری کو ازخود چھوڑ چکے تھے۔
معین نے مزید کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینا ایک اچھا فیصلہ ہے مگر آسٹریلیا کا دورہ آسان نہیں ہوگا، مصباح نے جن پلیئرزکو منتخب کیا اب چاہے سیریز کا جو بھی نتیجہ نکلے ان پر اعتماد برقرار رکھنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ آنے والے مشکل ٹور میں تو نوجوانوں کو آزمایا جائے اور اگر وہ ناکام رہیں تو پھر سینئرزکو واپس ٹیم میں لایا جائے۔