نصرت فتح علی خان اگر آج زندہ ہوتے تو 65 برس کے ہوچکے ہوتے

نصرت فتح علی خان تو 1997 میں اس دنیا سے منہ گئے لیکن ان کا گایا ہوا کلام آج بھی ان کی یادیں تازہ کردیتا ہے

استاد نصرت فتح ولی خان نے اپنے فن سے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو اپنی طرف راغب کیا۔ فوٹو: وکیپیڈیا

موسیقی کی دنیا میں قوالی کی صنف کو نئی جہتوں سے ہمکنار کرانے والے عالمی شہرت یافتہ موسیقار استاد نصرت فتح علی خان کی آج 65ویں سالگرہ ہے۔

13 اکتوبر کو فیصل آباد میں معروف قوال فتح علی خان کے گھر پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان کا اصل نام تو پرویز تھا لیکن نصرت کے نام سے انہوں نے گائیکی کی دنیا میں جو نصرت پائی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے،والدین تو انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے تاکہ وہ لوگوں کی مسیحائی کرے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول عام بنانے میں صرف کر دی۔ گائیکی کی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی تاہم ان کے انتقال کے بعد وہ اپنے چچا مبارک علی خان کی شاگردی میں چلے گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جن کے فیض سے وہ خود بھی شہرت کے آسمان پر چمکتے ایسے ستارے بن گئے جن سے ہزاروں افراد نے رہنمائی حاصل کی۔


پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی 'علی مولا علی' انہیں دنوں کی یادگار ہے۔ بعد میں انہوں نے لوک ساعری اور اپنے ہم عصر شعراء کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے تاہم 1985 میں انہوں نے لندن میں منعقدہ ورلڈ آف میوزک ، آرٹس اینڈ ڈانس نامی فیسٹیول میں شرکت کی جس نے بین الاقوامی موسیقاروں کے سامنے ان کے فن کو آشکار کیا اسی برس انہوں نے معروف موسیقار پیٹر گیبرئیل کی ٹیم کا حصہ بن کر''دی لاسٹ ٹیمٹیشن آف کرائسٹ '' میں اپنی آواز لا جادو جگایا۔ 1990 میں انہوں نے کینیڈین موسیقار مائیکل بروک کے ساتھ البم ''مسست مست'' ریلیز کی جو ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافے کا باعث بنی۔ بین الاقومی سطح پر ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم 'ڈیڈ مین واکنگ ' کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی اور مشرقی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے اپنے فن سے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو اپنی طرف راغب کیا۔

نصرت فتح علی خان تو 1997 میں اس دنیا سے منہ موڑ گئے لیکن ان کا گایا ہوا کلام آج بھی ان کی یادیں تازہ کردیتا ہے۔
Load Next Story