حمزہ اور شادمان چوک
دنیا کی سب سے اہم تعلیم انسان اور انسانی رویّوں کو جاننا اور سمجھنا ہے۔ میرے نزدیک یہ دنیا کا مشکل ترین علم ہے۔
دنیا کی سب سے اہم تعلیم انسان اور انسانی رویّوں کو جاننا اور سمجھنا ہے۔ میرے نزدیک یہ دنیا کا مشکل ترین علم ہے۔ اِس پر عبور حاصل کرنا تقریباََ ناممکن ہے۔ کیونکہ کسی نہ کسی مقام پر آپ کو ایک بہت نزدیکی انسان کا رویہ یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آپ اس کو بالکل نہیں جانتے۔ ہمارے ملک میں باہمی سماجی رویے ایک خاص دبائو کا شکار ہیں۔گزشتہ پندرہ سال میں یہ تنائو تکلیف دہ حد تک بڑھ چکا ہے۔ اِس پندرہ سال میں ہمارے ملک میں حیرت انگیز جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ کیبل، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیس بک اور کمپیوٹر نے دنیا کو آپ کے سامنے لامحدود سے محدود کر دیا ہے۔ مگر اس صورت حال کے کئی منفی پہلو بھی ہیں۔ آج نوجوان بچے اور بچیاں جس ذہنی صورت حال سے متصادم ہیں وہ کچھ سال پہلے سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔ مغربی چینلز خیبر سے لے کر کوہ سفید، خنجراب سے لے کر گوادر تک ہر جگہ دیکھے جاتے ہیں۔ ترکی ڈراموں کی خواتین کے نیم برہنہ ملبوسات ہمارے لیے عام سی بات بن چکے ہیں جسے ہم گھر میں اہل خانہ کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ کیا پندرہ سال پہلے یہ ممکن تھا؟ شاید نہیں۔
مجھے اکثر ای میلز آتی ہیں کہ میں سیاست پر لکھوں مگر میں قصداً نہیں لکھتا۔ کیونکہ میرے نزدیک عام لوگوں کے مسائل اپنی سنجیدگی میں بڑے سے بڑے عہدہ پر مقیم شخص پر تبصرہ کرنے سے زیادہ اہم ہیں۔ اہل اختیار کوئی بھی ہو عام بندے کے مسائل تقریباً جوں کے توں رہتے ہیں۔ یا کبھی کبھی اور بھی بگڑ جاتے ہیں۔ افسر شاہی کا ایک خاص طبقہ آج بھی لوگوں سے غلامانہ رویہ رکھتا ہے۔ عوام آج بھی صرف اور صرف شناختی کارڈ ہیں جن کی اہمیت صرف چند دنوں کی ہوتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں میں سازش عام ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش اب ایک بیماری کی کیفیت بن چکی ہے۔ قابل افسر آج بھی میرٹ پر کوئی اہم عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
سماجی رویہ کی مشکلات کا سب سے پہلا شکار بچے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ کے لگ بھگ بچے مختلف شعبوں میں مزدوری کر رہے ہیں۔ ان بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ سترہ لاکھ بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد بچوں کے ساتھ ہر طرح کا تشدد اور زیادتی کی جاتی ہے۔ بچوں کی خرید و فروخت، جی ہاں، خرید و فروخت بالکل عام ہے۔ اور یہ بچے کرایہ پر بھی مل جاتے ہیں۔ میں اس سے آگے لکھ نہیں سکتا کیونکہ میری سوچ اور قلم بالکل جواب دے چکے ہیں۔
انسانی رشتوں میں ماں خدا کا ایک روپ ہوتی ہے۔ زندگی کے قریب ترین بندھن بھی ہاتھ جوڑ کر اس خدائی رشتے کے سامنے بے بس کھڑے ہوتے ہیں۔ ماں کا منصب سب سے بلند اور ارفعٰ ترین ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ رشتہ بھی کانچ کے شیشہ کی طرح چُور چُور ہو جاتا ہے۔
برطانیہ میں ایمنڈا ہٹن نام کی ایک خاتون بریڈ فورڈ میں عرصہ سے رہ رہی ہے۔ 1986ء میں اس کی شادی آفتاب خان سے ہو جاتی ہے۔ یہ شادی پسند کی شادی تھی۔ آفتاب بریڈفورڈ میں ایک موٹر میکنک تھا۔ مختلف معاشرتی ترجیحات میں فرق کی بدولت میاں بیوی اکثر لڑتے رہتے تھے۔ کئی بار ان کے معاملات لوکل پولیس تک گئے مگر اکثر وہ لڑنے کے باوجود پھر اکھٹا رہنا شروع کر دیتے تھے۔ سرکاری شعبہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ان کے گھر آتے رہتے تھے کہ ان کے گھر میں بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر ہٹن اکثر دروازہ بندر کھتی تھی اور کسی کو اپنے گھر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ سماجی کارکن اکثر دروازے کی گھنٹیاں بجا بجا کر واپس چلے جاتے تھے۔ اِن کے آٹھ بچے تھے۔
2005ء میں حمزہ پیدا ہوا۔ وہ ایک جیتا جاگتا گول مٹول بہت ہی خوبصورت بچہ تھا۔ پیدا ہوتے ہی اس بچہ کو ڈاکٹر نے دیکھا اور ہٹن کو بتایا کہ وہ ایک صحت مند اور تندرست بچہ ہے۔ 2005ء پہلا اور آخری سال تھا کہ حمزہ کا کسی ڈاکٹر نے طبی معائنہ کیا۔ اُس کی والدہ نے 2005ء کے بعد کسی ڈاکٹر کو اپنا بچہ نہیں دکھایا۔ وہ کسی بھی طبی ملاحظہ کی مقررہ کردہ تاریخ اور وقت پر نہیں پہنچتی تھی۔ برطانیہ میں بچوں کو رجسٹر کرنے کا لازمی قانون ہے۔ جب حمزہ کو رجسٹر کرنے کے لیے سرکاری اہلکار اُس کے گھر پہنچا تو اس وقت ہٹن کی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں اور وہ نشہ کی وجہ سے تقریباً بے ہوش تھی۔ اس معصوم بچہ کی رجسٹریش پندرہ ماہ کے بعد ہوئی ۔
میاں بیوی کی لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ نوبت عدالت تک پہنچ گئی۔ 2008ء میں عدالت کے حکم کے مطابق آفتاب خان کو منع کر دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی سے دور رہے۔ ہٹن نے اپنا گھر بھی بدل لیا اور ایک تین منزلہ گھر میں شفٹ ہو گئی۔ آفتاب کے ذہن میں سب سے چھوٹے بچے کی حفاظت کے متعلق سنگین تحفظات تھے۔ اس نے پولیس کو بھی شکایت کی کہ وہ حمزہ سمیت اس کے تمام بچوں کا خیال رکھے۔ ہٹن اپنے بچوں کو باہر کھیلنے سے روکتی تھی اور اس کے گھر کی کھڑکیوں پر ہمیشہ پردے پڑے رہتے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا طارق جو 24 سال کا تھا ماں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا۔ صحت اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہلکار کبھی کبھی آتے تھے۔ ہٹن اکثر اپنے گھر کا دروازہ نہیں کھولتی تھی۔ اگر کوئی اندر آ بھی جائے تو وہ اس کو پورا گھر نہیں دیکھنے دیتی تھی۔
ڈنز مور ایک نوجوان اور ناتجرنہ کار پولیس کانسٹیبل تھی۔ اس کی تقرری کے دوسرے دن اسے کہا گیا کہ وہ ہٹن کے گھر جائے اور تسلی کرے کہ ہر چیز خریت سے ہے۔ اصل میں ہمسایہ سے کسی نے پولیس کو فون پر شکایت کی تھی کہ ہٹن کے گھر سے بچوں کے رونے کی اونچی اونچی آوازیں آتی ہیں اور بچے کبھی گھر سے باہر نہیں آتے۔ ڈنز مور کے اپنے تین بچے تھے۔ جب وہ اِس گھر کی بیل بجا رہی تھی تو اسے ایک ماں کی حیثیت سے ایک وجدان سا ہو رہا تھا کہ اِس گھر میں ہر چیز ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے بار بار گھنٹی بجانے پر ہٹن باہر نکلی تو اُس کے کپڑے بہت میلے تھے اور اس کے لباس پر بہت سی مکھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ گھر میں ایک ناگوار بدبو تھی۔ ڈنز مور فوراً اپنے پولیس اسٹیشن گئی اور پولیس نے اس گھر کو مکمل چھاننے کا عمل شروع کیا۔ پولیس نے جو حالات دیکھے وہ بھیانک تھے۔
پانچ بیڈ روم کا یہ گھر دراصل غلاظت کا ایک ڈھیر بن چکا تھا۔ ہر کمرے میں کچرے کے انبار لگے ہوئے تھے۔ اس کچرے میں لفافے، بوتلیں، خالی ڈبے اور ہر طرح کی چیزیں تھیں۔کچرے کے یہ انبار سیڑھیوں اور اندرونی گزر گاہوں میں بھی تھے۔ تمام بچے ایک کمرے میں رہتے تھے۔ اس کمرے کے آخر میں چھوٹے بچوں کا ایک پالنا تھا۔ اس میں گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر تھا۔ اس ڈھیر کے نیچے ننھے حمزہ کی لاش تھی۔ وہ دو سال پہلے مر چکا تھا۔ دو سال سے بے جان حمزہ اس جگہ پر موجود تھا۔ اس کو مسلسل بھوکا رکھ کر اس کی ماں نے مار دیا تھا۔ حمزہ دراصل چار سال کا تھا مگر مرتے وقت اس کا جسم صرف دس سے گیارہ مہینے کے بچہ کے برابر تھا۔ حمزہ کو کئی ماہ سے کھانا نہیں دیا گیا تھا۔ حمزہ 2009ء میں مر چکا تھا۔ اور پولیس اس گھر میں 2011ء میں گئی تھی۔ جس دن وہ بچہ اس دنیا سے رخصت ہوا اُسی شام کو ہٹن نے Pizza منگوایا اور اُس رات کو ایک مقامی ہوٹل سے تیز مسالے والا کھانا بھی منگوایا۔ وہ تھک چکی تھی کیونکہ وہ سارا دن سُوپر مارکیٹ میں شاپنگ کرتی رہی تھی۔ مقامی عدالت نے ہٹن کو پندرہ سال قید کی سزا سنائی اور عدالتی کارروائی صرف تین ہفتہ میں مکمل ہو گئی۔
اب میں اپنے ملک کی بات کرتا ہوں۔ لاہور میں شادمان چوک پر ٹریفک رکتے ہی کئی بھکاری خواتین گاڑی کے شیشے کھٹکھٹا کر بھیک مانگتی ہیں۔ اکثر کی گود میں ایک بچہ ہوتا ہے۔ یہ بچہ ہمیشہ گہری نیند سویا ہوتا ہے کیونکہ جیسے ہی وہ اٹھتا ہے اسے افیم چٹا دی جاتی ہے اور وہ پھر سو جاتا ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں ہمارے عظیم ملک کے یہ بے بس بچے ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے بچے آ جاتے ہیں، وہ نئے معصوم فرشتے بھی سوئے رہتے ہیں۔ بچوں کی اکثریت کرائے پر ملتی ہے۔گداگروں کے ٹھیکے داروں کے پاس اس طرح کے بہت سے بچے ہوتے ہیں۔ یہ بچے دنوں اور گھنٹوں کے لیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
ہم بچوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک بھی کرتے ہیں، شاید آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ تمام پھول شدید مفلس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک میں ایمنڈا ہٹن جیسی کوئی شقی القلب ماں نہیں ہے۔ لیکن جب بھی میں کسی شہر کے بڑے چوک پر گاڑی روکتا ہوں اور عورتوں کو بھیگ مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں جن کی گودوں میں کسی نہ کسی کا حمزہ گہری نیند سو رہا ہوتا ہے تو آنکھیں بھیگ سی جاتیں ہیں۔ وہ بچے میرے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ایک انجانا شک ذہن کو جکڑ لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط سوچ رہا ہوں؟ لیکن کیا آپ سوچ رہے ہیں؟ یا آپ کا ذہن بھی کسی مشکل سوال سے گھبرا سا گیا ہے؟
مجھے اکثر ای میلز آتی ہیں کہ میں سیاست پر لکھوں مگر میں قصداً نہیں لکھتا۔ کیونکہ میرے نزدیک عام لوگوں کے مسائل اپنی سنجیدگی میں بڑے سے بڑے عہدہ پر مقیم شخص پر تبصرہ کرنے سے زیادہ اہم ہیں۔ اہل اختیار کوئی بھی ہو عام بندے کے مسائل تقریباً جوں کے توں رہتے ہیں۔ یا کبھی کبھی اور بھی بگڑ جاتے ہیں۔ افسر شاہی کا ایک خاص طبقہ آج بھی لوگوں سے غلامانہ رویہ رکھتا ہے۔ عوام آج بھی صرف اور صرف شناختی کارڈ ہیں جن کی اہمیت صرف چند دنوں کی ہوتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں میں سازش عام ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش اب ایک بیماری کی کیفیت بن چکی ہے۔ قابل افسر آج بھی میرٹ پر کوئی اہم عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
سماجی رویہ کی مشکلات کا سب سے پہلا شکار بچے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ کے لگ بھگ بچے مختلف شعبوں میں مزدوری کر رہے ہیں۔ ان بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ سترہ لاکھ بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد بچوں کے ساتھ ہر طرح کا تشدد اور زیادتی کی جاتی ہے۔ بچوں کی خرید و فروخت، جی ہاں، خرید و فروخت بالکل عام ہے۔ اور یہ بچے کرایہ پر بھی مل جاتے ہیں۔ میں اس سے آگے لکھ نہیں سکتا کیونکہ میری سوچ اور قلم بالکل جواب دے چکے ہیں۔
انسانی رشتوں میں ماں خدا کا ایک روپ ہوتی ہے۔ زندگی کے قریب ترین بندھن بھی ہاتھ جوڑ کر اس خدائی رشتے کے سامنے بے بس کھڑے ہوتے ہیں۔ ماں کا منصب سب سے بلند اور ارفعٰ ترین ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ رشتہ بھی کانچ کے شیشہ کی طرح چُور چُور ہو جاتا ہے۔
برطانیہ میں ایمنڈا ہٹن نام کی ایک خاتون بریڈ فورڈ میں عرصہ سے رہ رہی ہے۔ 1986ء میں اس کی شادی آفتاب خان سے ہو جاتی ہے۔ یہ شادی پسند کی شادی تھی۔ آفتاب بریڈفورڈ میں ایک موٹر میکنک تھا۔ مختلف معاشرتی ترجیحات میں فرق کی بدولت میاں بیوی اکثر لڑتے رہتے تھے۔ کئی بار ان کے معاملات لوکل پولیس تک گئے مگر اکثر وہ لڑنے کے باوجود پھر اکھٹا رہنا شروع کر دیتے تھے۔ سرکاری شعبہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ان کے گھر آتے رہتے تھے کہ ان کے گھر میں بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر ہٹن اکثر دروازہ بندر کھتی تھی اور کسی کو اپنے گھر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ سماجی کارکن اکثر دروازے کی گھنٹیاں بجا بجا کر واپس چلے جاتے تھے۔ اِن کے آٹھ بچے تھے۔
2005ء میں حمزہ پیدا ہوا۔ وہ ایک جیتا جاگتا گول مٹول بہت ہی خوبصورت بچہ تھا۔ پیدا ہوتے ہی اس بچہ کو ڈاکٹر نے دیکھا اور ہٹن کو بتایا کہ وہ ایک صحت مند اور تندرست بچہ ہے۔ 2005ء پہلا اور آخری سال تھا کہ حمزہ کا کسی ڈاکٹر نے طبی معائنہ کیا۔ اُس کی والدہ نے 2005ء کے بعد کسی ڈاکٹر کو اپنا بچہ نہیں دکھایا۔ وہ کسی بھی طبی ملاحظہ کی مقررہ کردہ تاریخ اور وقت پر نہیں پہنچتی تھی۔ برطانیہ میں بچوں کو رجسٹر کرنے کا لازمی قانون ہے۔ جب حمزہ کو رجسٹر کرنے کے لیے سرکاری اہلکار اُس کے گھر پہنچا تو اس وقت ہٹن کی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں اور وہ نشہ کی وجہ سے تقریباً بے ہوش تھی۔ اس معصوم بچہ کی رجسٹریش پندرہ ماہ کے بعد ہوئی ۔
میاں بیوی کی لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ نوبت عدالت تک پہنچ گئی۔ 2008ء میں عدالت کے حکم کے مطابق آفتاب خان کو منع کر دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی سے دور رہے۔ ہٹن نے اپنا گھر بھی بدل لیا اور ایک تین منزلہ گھر میں شفٹ ہو گئی۔ آفتاب کے ذہن میں سب سے چھوٹے بچے کی حفاظت کے متعلق سنگین تحفظات تھے۔ اس نے پولیس کو بھی شکایت کی کہ وہ حمزہ سمیت اس کے تمام بچوں کا خیال رکھے۔ ہٹن اپنے بچوں کو باہر کھیلنے سے روکتی تھی اور اس کے گھر کی کھڑکیوں پر ہمیشہ پردے پڑے رہتے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا طارق جو 24 سال کا تھا ماں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا۔ صحت اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہلکار کبھی کبھی آتے تھے۔ ہٹن اکثر اپنے گھر کا دروازہ نہیں کھولتی تھی۔ اگر کوئی اندر آ بھی جائے تو وہ اس کو پورا گھر نہیں دیکھنے دیتی تھی۔
ڈنز مور ایک نوجوان اور ناتجرنہ کار پولیس کانسٹیبل تھی۔ اس کی تقرری کے دوسرے دن اسے کہا گیا کہ وہ ہٹن کے گھر جائے اور تسلی کرے کہ ہر چیز خریت سے ہے۔ اصل میں ہمسایہ سے کسی نے پولیس کو فون پر شکایت کی تھی کہ ہٹن کے گھر سے بچوں کے رونے کی اونچی اونچی آوازیں آتی ہیں اور بچے کبھی گھر سے باہر نہیں آتے۔ ڈنز مور کے اپنے تین بچے تھے۔ جب وہ اِس گھر کی بیل بجا رہی تھی تو اسے ایک ماں کی حیثیت سے ایک وجدان سا ہو رہا تھا کہ اِس گھر میں ہر چیز ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے بار بار گھنٹی بجانے پر ہٹن باہر نکلی تو اُس کے کپڑے بہت میلے تھے اور اس کے لباس پر بہت سی مکھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ گھر میں ایک ناگوار بدبو تھی۔ ڈنز مور فوراً اپنے پولیس اسٹیشن گئی اور پولیس نے اس گھر کو مکمل چھاننے کا عمل شروع کیا۔ پولیس نے جو حالات دیکھے وہ بھیانک تھے۔
پانچ بیڈ روم کا یہ گھر دراصل غلاظت کا ایک ڈھیر بن چکا تھا۔ ہر کمرے میں کچرے کے انبار لگے ہوئے تھے۔ اس کچرے میں لفافے، بوتلیں، خالی ڈبے اور ہر طرح کی چیزیں تھیں۔کچرے کے یہ انبار سیڑھیوں اور اندرونی گزر گاہوں میں بھی تھے۔ تمام بچے ایک کمرے میں رہتے تھے۔ اس کمرے کے آخر میں چھوٹے بچوں کا ایک پالنا تھا۔ اس میں گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر تھا۔ اس ڈھیر کے نیچے ننھے حمزہ کی لاش تھی۔ وہ دو سال پہلے مر چکا تھا۔ دو سال سے بے جان حمزہ اس جگہ پر موجود تھا۔ اس کو مسلسل بھوکا رکھ کر اس کی ماں نے مار دیا تھا۔ حمزہ دراصل چار سال کا تھا مگر مرتے وقت اس کا جسم صرف دس سے گیارہ مہینے کے بچہ کے برابر تھا۔ حمزہ کو کئی ماہ سے کھانا نہیں دیا گیا تھا۔ حمزہ 2009ء میں مر چکا تھا۔ اور پولیس اس گھر میں 2011ء میں گئی تھی۔ جس دن وہ بچہ اس دنیا سے رخصت ہوا اُسی شام کو ہٹن نے Pizza منگوایا اور اُس رات کو ایک مقامی ہوٹل سے تیز مسالے والا کھانا بھی منگوایا۔ وہ تھک چکی تھی کیونکہ وہ سارا دن سُوپر مارکیٹ میں شاپنگ کرتی رہی تھی۔ مقامی عدالت نے ہٹن کو پندرہ سال قید کی سزا سنائی اور عدالتی کارروائی صرف تین ہفتہ میں مکمل ہو گئی۔
اب میں اپنے ملک کی بات کرتا ہوں۔ لاہور میں شادمان چوک پر ٹریفک رکتے ہی کئی بھکاری خواتین گاڑی کے شیشے کھٹکھٹا کر بھیک مانگتی ہیں۔ اکثر کی گود میں ایک بچہ ہوتا ہے۔ یہ بچہ ہمیشہ گہری نیند سویا ہوتا ہے کیونکہ جیسے ہی وہ اٹھتا ہے اسے افیم چٹا دی جاتی ہے اور وہ پھر سو جاتا ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں ہمارے عظیم ملک کے یہ بے بس بچے ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے بچے آ جاتے ہیں، وہ نئے معصوم فرشتے بھی سوئے رہتے ہیں۔ بچوں کی اکثریت کرائے پر ملتی ہے۔گداگروں کے ٹھیکے داروں کے پاس اس طرح کے بہت سے بچے ہوتے ہیں۔ یہ بچے دنوں اور گھنٹوں کے لیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
ہم بچوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک بھی کرتے ہیں، شاید آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ تمام پھول شدید مفلس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک میں ایمنڈا ہٹن جیسی کوئی شقی القلب ماں نہیں ہے۔ لیکن جب بھی میں کسی شہر کے بڑے چوک پر گاڑی روکتا ہوں اور عورتوں کو بھیگ مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں جن کی گودوں میں کسی نہ کسی کا حمزہ گہری نیند سو رہا ہوتا ہے تو آنکھیں بھیگ سی جاتیں ہیں۔ وہ بچے میرے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ایک انجانا شک ذہن کو جکڑ لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط سوچ رہا ہوں؟ لیکن کیا آپ سوچ رہے ہیں؟ یا آپ کا ذہن بھی کسی مشکل سوال سے گھبرا سا گیا ہے؟