موسم سرما اور ’رضائی‘
اہل وطن کا ایک بہت بڑا طبقہ اس حسین سے فریب میں مبتلا ہے کہ رضائی کے بغیر انسانی جسم، منجمد کردینے والی سردی سے...
اہل وطن کا ایک بہت بڑا طبقہ اس حسین سے فریب میں مبتلا ہے کہ رضائی کے بغیر انسانی جسم، منجمد کردینے والی سردی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ میرے نزدیک یہ محض ایک خوش فہمی ہے جو شدت اختیار کرکے غلط فہمی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اول تو یہی دیکھیے کہ جو لوگ رضائی استعمال نہیں کرتے، کیا وہ سردی کے ہاتھوں اس جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں؟ قطب شمالی میں رین ڈیئر کی کھال اور دوسرے ممالک میں اون کے کمبل اور بجلی کے ہیٹر وہی کام دیتے ہیں جو ہمارے ملک میں کمبل سر انجام دیتا ہے۔ پھر رضائی نفاست اور لطافت سے ناآشنا بھی تو ہے! رین ڈیئر کی کھال کو لیجیے۔ کیسی نرم اور خوبصورت ہے (کم سے کم کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے) یا اونی کمبل کا تصور کیجیے جس کا حسن نگاہوں کو خیرہ کردیتا ہے۔ لیکن رضائی کو دیکھیے کہ یہ کس قدر موٹی، بھدی اور بدنما شے ہے۔ جسے نفاست، فن اور حسن نے چھوا تک نہیں! ممکن ہے اس مقام پر آپ قومی توہین کو برداشت نہ کرتے ہوئے رضائی کے بعض خوبصورت نمونوں کا ذکر چھیڑیں اور رضائی کو کمبل اور رین ڈیئر دونوں سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن چونکہ آپ کی اس سعی کے مشکور ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہیں، اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ غصہ پی لیں یا قومی روایات کے احترام میں اسے تھوک دیں اور بڑے تحمل سے میری تلخ گوئی کو برداشت کرتے چلے جائیں۔
رضائی کی بدصورتی کی بات چھڑ گئی ہے تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے آپ کے حسن ذوق یا حسن عمل پر بھی شبہ ہے بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ یہ آپ کے حسن ذوق اور حسن عمل ہی کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے کہ رضائی پر کبھی کبھی بیل بوٹے اور پھل پھول بھی نظر آجاتے ہیں، پھر اس کی سطح پر بپھرے ہوئے سمندر اور لق و دق صحرا کے نقوش اجاگر کرنے کی کوشش بھی صاف دکھائی دیتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اس '' جنس'' کو خوبصورت بنانے کے عزم سے سرشار ہیں۔ رضائی کو حسن عطا کرنے کے بعد اس حسن کو محفوظ رکھنے کی سعی بھی کہیں کہیں نظر آجاتی ہے۔ مثلاً کچھ عرصے کی بات ہے مجھے اپنے ایک دوست کے ہاں رات بسر کرنے کا موقع ملا تھا اور میں نے وہاں رضائی کی عظمت، حسن اور نکھار کو امتداد زمانہ اور گردش لیل و نہار سے محفوظ رکھنے کا ایک ایسا منظر دیکھا تھا جو آج تک میرے لوح دل پر کندہ ہے۔
وہ رضائی کسی اعلیٰ قسم کے مخمل کی تھی اور اس کی سطح پر ایک چمن بے خزاں کھلا ہوا تھا لیکن میرے دوست کے اہل خانہ نے اس مخمل کی حفاظت کے لیے رضائی پر ایک نہایت غلیظ، کھردرے اور بدبودار کور سے کھدر کا غلاف چڑھا رکھا تھا۔ شکر ہے کہ بات یہیں ختم ہوگئی تھی، ورنہ اگر وہ کھدر کے اس غلاف کی حفاظت کا اہتمام بھی کرتے تو غلاف در غلاف کا سلسلہ اتنا طول کھینچتا کہ اصل رضائی کسی شعر کے معنی کی طرح لفظوں اور غلافوں کے انبار ہی میں دب کر رہ جاتی۔خیر یہ تو رضائی کے ظاہری حسن یا اس کی افادیت کا مسئلہ تھا اور یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اس معاملے میں مجھے رضائی کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ تاہم اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ رضائی ہمارا قومی نشان ہے۔ اور اگرچہ اردو کے بعض افسانہ نگاروں نے اس کے ساتھ کچھ باتیں بھی منسوب کی ہیں مگر اس سے رضائی کا وہ روشن پہلو کسی طور پر بھی ماند نہیں پڑتا جس کا ذکر میں اب کرنے لگا ہوں۔
مجھے اپنی زندگی میں جو چند ادنیٰ مسرتیں حاصل ہوئی ہیں۔ ان میں رضائی کی معیت میں گزارے ہوئے لمحے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زندگی بقول شاعر ایک ایسی پیرزن حسن فروش ہے جو آلائشوں اور حادثوں سے لیس ہوکر نکلتی اور دل والوں کا پیچھا کرتی ہے اور دل والے ہیں کہ اس سے بھاگ کر کبھی تو رقص گاہ کے راگ و رنگ میں کھو جاتے ہیں، کبھی وہ لفظوں، لکیروں اور مجسموں کی خوبصورت دنیا میں اپنے نقوش پا کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی زندگی سے فرار حاصل کرکے کسی گھنے، گہرے جنگل کے آشرم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ لیکن دل والے آخر دل والے ہیں! وہ جو طریق بھی اختیار کریں مستحسن اور جائز ہے۔ دوسری طرف میں ایک دنیا دار آدمی اور میرے پاس وقت بھی کم ہے۔ اس لیے جب زندگی میرا پیچھا کرتی ہے اور مجھے فرار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تو میں بھاگتا ہوں اور بھاگ کر سیدھا اپنی رضائی میں گھس جاتا ہوں۔رضائی میرے لیے ایک آشرم ہے۔ ایک ایسی جائے پناہ جہاں ''پیرزن حسن فروش'' کی ٹھنڈی سانس پہنچ ہی نہیں سکتی۔
رضائی کی موٹی موٹی دیواریں مجھے پناہ دینے کے بعد ''زندگی'' کے راستے میں سینہ تان کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور اسے اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ کسی چور دروازے سے داخل ہوکر رضائی کے اندر کی پرسکون، تاریک اور خاموش دنیا میں ہلچل پیدا کرسکے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں رضائی کو رین ڈیئر اور کمبل، دونوں پر سبقت حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ لہو کو گرم رکھنے کا اہتمام کرتی ہیں، محفوظ پناہ گاہ مہیا نہیں کرتیں۔ لیکن رضائی کی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے گویا آپ اپنی گم شدہ جنت میں واپس آگئے ہیں۔ مجھے ہمیشہ رضائی میں داخل ہوتے ہی بے پناہ مسرت کا احساس ہوا ہے۔ ایک ایسا احساس جس میں ''میں اب محفوظ ہوں'' کا احساس بھی شامل ہے۔گویا رضائی ایک قلعہ ہے جس میں داخل ہوکر اور جس کے دروازے بند کرکے میں غنیم سے محفوظ ہوجاتا اور اپنی کھوئی ہوئی خوشیوں اور صلاحیتوں کو دوبارہ حاصل کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب چند گھنٹوں کی خاموشی، تاریکی اور سکون کے بعد تازہ دم ہوجاتا ہوں تو زندگی سے متصادم ہونے کے لیے رضائی سے باہر نکل آتا ہوں۔
شاید رضائی میں داخل ہوتے ہی خوشی کا ایک بے پایاں احساس ان ایام کی یاد بھی ہے جب میرے آباء و اجداد جنگلوں میں رہتے تھے اور بارش، طوفان اور عناصر کی یورشوں سے بھاگ کر غاروں میں پناہ لیتے تھے اور تب انھیں ''میں اب محفوظ ہوں'' کا احساس ہوتا ہوگا۔ جو آج رضائی میں گھس کر مجھے حاصل ہوتا ہے۔ یوں بھی رضائی اور غار میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ وہی خاموشی، سکون اور تاریکی جو غار میں ہے، رضائی میں بھی موجود ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ انسانی تہذیب کا ارتقاء بھی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ انسان غار سے نکل کر رضائی میں داخل ہوگیا ہے۔رضائی سے مجھے رغبت شاید اس لیے بھی ہے کہ میں دبے پاؤں اپنی ذات کے کنج خلوت میں داخل ہونے کا متمنی ہوں۔اور رضائی مجھے باہر کی دنیا سے اپنا دامن چھڑانے میں مدد دیتی ہے۔ یا شاید صحیح بات یہ ہے کہ رضائی کا حجرہ دراصل میری ذات کا حجرہ ہے۔ چنانچہ جب بھی میں اس میں داخل ہوتا ہوں تو ایک پراسرار طریق سے اپنی ذات کی اس تاریک، اتھاہ اور بے کنار دنیا میں داخل ہوجاتا ہوں جہاں سوچ کی روپہلی کرن پھوٹتی ہے۔ اور جہاں میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں اور ان کے خزائن، زمانے کی دستبرد سے محفوظ ہزاروں سال سے میری آمد کے منتظر ہیں۔
رضائی کی بدصورتی کی بات چھڑ گئی ہے تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے آپ کے حسن ذوق یا حسن عمل پر بھی شبہ ہے بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ یہ آپ کے حسن ذوق اور حسن عمل ہی کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے کہ رضائی پر کبھی کبھی بیل بوٹے اور پھل پھول بھی نظر آجاتے ہیں، پھر اس کی سطح پر بپھرے ہوئے سمندر اور لق و دق صحرا کے نقوش اجاگر کرنے کی کوشش بھی صاف دکھائی دیتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اس '' جنس'' کو خوبصورت بنانے کے عزم سے سرشار ہیں۔ رضائی کو حسن عطا کرنے کے بعد اس حسن کو محفوظ رکھنے کی سعی بھی کہیں کہیں نظر آجاتی ہے۔ مثلاً کچھ عرصے کی بات ہے مجھے اپنے ایک دوست کے ہاں رات بسر کرنے کا موقع ملا تھا اور میں نے وہاں رضائی کی عظمت، حسن اور نکھار کو امتداد زمانہ اور گردش لیل و نہار سے محفوظ رکھنے کا ایک ایسا منظر دیکھا تھا جو آج تک میرے لوح دل پر کندہ ہے۔
وہ رضائی کسی اعلیٰ قسم کے مخمل کی تھی اور اس کی سطح پر ایک چمن بے خزاں کھلا ہوا تھا لیکن میرے دوست کے اہل خانہ نے اس مخمل کی حفاظت کے لیے رضائی پر ایک نہایت غلیظ، کھردرے اور بدبودار کور سے کھدر کا غلاف چڑھا رکھا تھا۔ شکر ہے کہ بات یہیں ختم ہوگئی تھی، ورنہ اگر وہ کھدر کے اس غلاف کی حفاظت کا اہتمام بھی کرتے تو غلاف در غلاف کا سلسلہ اتنا طول کھینچتا کہ اصل رضائی کسی شعر کے معنی کی طرح لفظوں اور غلافوں کے انبار ہی میں دب کر رہ جاتی۔خیر یہ تو رضائی کے ظاہری حسن یا اس کی افادیت کا مسئلہ تھا اور یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اس معاملے میں مجھے رضائی کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ تاہم اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ رضائی ہمارا قومی نشان ہے۔ اور اگرچہ اردو کے بعض افسانہ نگاروں نے اس کے ساتھ کچھ باتیں بھی منسوب کی ہیں مگر اس سے رضائی کا وہ روشن پہلو کسی طور پر بھی ماند نہیں پڑتا جس کا ذکر میں اب کرنے لگا ہوں۔
مجھے اپنی زندگی میں جو چند ادنیٰ مسرتیں حاصل ہوئی ہیں۔ ان میں رضائی کی معیت میں گزارے ہوئے لمحے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زندگی بقول شاعر ایک ایسی پیرزن حسن فروش ہے جو آلائشوں اور حادثوں سے لیس ہوکر نکلتی اور دل والوں کا پیچھا کرتی ہے اور دل والے ہیں کہ اس سے بھاگ کر کبھی تو رقص گاہ کے راگ و رنگ میں کھو جاتے ہیں، کبھی وہ لفظوں، لکیروں اور مجسموں کی خوبصورت دنیا میں اپنے نقوش پا کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی زندگی سے فرار حاصل کرکے کسی گھنے، گہرے جنگل کے آشرم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ لیکن دل والے آخر دل والے ہیں! وہ جو طریق بھی اختیار کریں مستحسن اور جائز ہے۔ دوسری طرف میں ایک دنیا دار آدمی اور میرے پاس وقت بھی کم ہے۔ اس لیے جب زندگی میرا پیچھا کرتی ہے اور مجھے فرار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تو میں بھاگتا ہوں اور بھاگ کر سیدھا اپنی رضائی میں گھس جاتا ہوں۔رضائی میرے لیے ایک آشرم ہے۔ ایک ایسی جائے پناہ جہاں ''پیرزن حسن فروش'' کی ٹھنڈی سانس پہنچ ہی نہیں سکتی۔
رضائی کی موٹی موٹی دیواریں مجھے پناہ دینے کے بعد ''زندگی'' کے راستے میں سینہ تان کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور اسے اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ کسی چور دروازے سے داخل ہوکر رضائی کے اندر کی پرسکون، تاریک اور خاموش دنیا میں ہلچل پیدا کرسکے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں رضائی کو رین ڈیئر اور کمبل، دونوں پر سبقت حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ لہو کو گرم رکھنے کا اہتمام کرتی ہیں، محفوظ پناہ گاہ مہیا نہیں کرتیں۔ لیکن رضائی کی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے گویا آپ اپنی گم شدہ جنت میں واپس آگئے ہیں۔ مجھے ہمیشہ رضائی میں داخل ہوتے ہی بے پناہ مسرت کا احساس ہوا ہے۔ ایک ایسا احساس جس میں ''میں اب محفوظ ہوں'' کا احساس بھی شامل ہے۔گویا رضائی ایک قلعہ ہے جس میں داخل ہوکر اور جس کے دروازے بند کرکے میں غنیم سے محفوظ ہوجاتا اور اپنی کھوئی ہوئی خوشیوں اور صلاحیتوں کو دوبارہ حاصل کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب چند گھنٹوں کی خاموشی، تاریکی اور سکون کے بعد تازہ دم ہوجاتا ہوں تو زندگی سے متصادم ہونے کے لیے رضائی سے باہر نکل آتا ہوں۔
شاید رضائی میں داخل ہوتے ہی خوشی کا ایک بے پایاں احساس ان ایام کی یاد بھی ہے جب میرے آباء و اجداد جنگلوں میں رہتے تھے اور بارش، طوفان اور عناصر کی یورشوں سے بھاگ کر غاروں میں پناہ لیتے تھے اور تب انھیں ''میں اب محفوظ ہوں'' کا احساس ہوتا ہوگا۔ جو آج رضائی میں گھس کر مجھے حاصل ہوتا ہے۔ یوں بھی رضائی اور غار میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ وہی خاموشی، سکون اور تاریکی جو غار میں ہے، رضائی میں بھی موجود ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ انسانی تہذیب کا ارتقاء بھی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ انسان غار سے نکل کر رضائی میں داخل ہوگیا ہے۔رضائی سے مجھے رغبت شاید اس لیے بھی ہے کہ میں دبے پاؤں اپنی ذات کے کنج خلوت میں داخل ہونے کا متمنی ہوں۔اور رضائی مجھے باہر کی دنیا سے اپنا دامن چھڑانے میں مدد دیتی ہے۔ یا شاید صحیح بات یہ ہے کہ رضائی کا حجرہ دراصل میری ذات کا حجرہ ہے۔ چنانچہ جب بھی میں اس میں داخل ہوتا ہوں تو ایک پراسرار طریق سے اپنی ذات کی اس تاریک، اتھاہ اور بے کنار دنیا میں داخل ہوجاتا ہوں جہاں سوچ کی روپہلی کرن پھوٹتی ہے۔ اور جہاں میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں اور ان کے خزائن، زمانے کی دستبرد سے محفوظ ہزاروں سال سے میری آمد کے منتظر ہیں۔