برمنگھم بریڈفورڈ نیلسن
13 اکتوبر کا یہ مشاعرہ باقاعدہ پروگرام کا آخری حصہ تھا کہ اس کے بعد UKIM والوں نے اپنا کوئی پروگرام نہیں رکھا
ہالی ڈے اِن ایکسپریس میں مسلسل سات دن ایک جیسا ناشتہ کرنے کے بعد اب صورتِ حال یہ تھی کہ انور مسعود اپنے پسندیدہ کروساں سے بیزار ہوچکے تھے لیکن اس تسلسل کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اب وہاں کی نگران ویٹریس نے ہمیں پہچان لیا تھا اور یوں ہمارے بیٹھتے ہی گرم دُودھ کے مگ ہماری میز پر آجاتے تھے کہ وہ لوگ کافی اورچائے میں بھی ٹھنڈا دودھ استعمال کرتے ہیں۔
ہماری عمر میں جونیئر اور نوجوان ساتھیوں رحمن فارس اور عمران پرتاب گڑھی نے نہ صرف ماحول کو خوشگوار بنائے رکھا بلکہ ہمارے حصے کے کام بھی خود ہی کرتے رہے۔ عمران انور مسعود کے لیے شہد اور رحمن فارس میرے لیے کافی بنانے میں ہمہ دم تیار رہتے تھے۔
اس سے میرے ذہن میں تقریباً تیس برس پہلے کا وہ منظر گھوم گیا جب اسی شہر میں عطاء الحق قاسمی اور میں بڑے قاسمی صاحب (احمد ندیم قاسمی) کے لیے چائے بنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ سینئرز کے احترام کی یہ روایت بہت خوبصورت بھی ہے اور قابل تقلید و حفاظت بھی ۔ان دونوں نوجوانوں نے محبت کے اس تسلسل کو بہت خوبصورتی سے قائم رکھا ، دعا ہے کہ ربِ کریم ان کے اس جذبے کو سلامت رکھے اور انھیں ہر طرح کی کامیابیاں عطا فرمائے ۔
برمنگھم کا ذکر آتے ہی کئی چہرے نظروں میں گھوم جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ نمایاں چہرہ مرحوم انور مغل کا ہے جن کی محبت کا نقش آج بھی میرے دل پر قائم و دائم ہے ۔مختلف وقتوں میں میرے ساتھ ساتھ میری بیگم اور بیٹا بھی اُن کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوچکے ہیں۔
وہ صحیح معنوں میں ایک عمدہ راست فکر اور بھرپور محبتی انسان تھے اُن کا منجھلا بیٹاعرفان میرے بیٹے علی ذی شان کا دوست بن گیا تھا مگر انور مغل کی وفات سے یہ سلسلہ ایسا منقطع ہوا کہ دوبارہ رابطے کی کوئی صورت ہی نہ بن سکی سو میں نے وہاں پہنچتے ہی کچھ مقامی دوستوں سے فرمائش کی کہ وہ کسی طرح اُس بچے کا فون نمبر معلوم کریں تاکہ میں اور علی دونوں اس سے بات کرسکیں۔پرانے دوستوں اور ملنے والوں میں ڈاکٹر صفی حسن اورآدم چغتائی سے تو بوجوہ ملاقات نہ ہو سکی مگر دس بارہ برسوں بعد یاسمین حبیب سے ملاقات کا موقع مل گیا۔
یاسمین میرے خیال میں اپنے فنی کمال کے حوالے سے انگلینڈ کی شاعرات میں پہلے نمبر پر آتی ہیں اُن سے اولین رابطہ اُن کی چھوٹی بہن نیلوفر سیّد حال مقیم امریکا کی معرفت ہوا جب کہ بعد میں منصور آفاق سے شادی کی وجہ سے ایک نیا رشتہ بھی بن گیا اس کے گھر پر منصور آفاق کے دونوں بیٹوں سے بھی ملاقات ہوئی اور سوتیلے ماں بیٹوں کی بے مثال محبت دیکھ کر بے حدخوشی ہوئی کہ تینوں ایک دوسرے پر واری جارہے تھے۔
عزیزی ڈاکٹر احمد بلال اور عائشہ بلال کے ساتھ بھی چند برس قبل اس شہر میں کچھ بہت اچھے دن گزرے تھے ۔ میرے فون کی ایک اچانک تکنیکی خرابی کی وجہ سے ان کے آرٹسٹ دوست عزیزی جمال مصطفی سے رابطے کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی جس نے گزشتہ ملاقات میں میرا ایک بہت عمدہ تصویری خاکہ بھی بنا کر مجھے پیش کیا تھا یہاں ہمارا اہتمام ibis ہوٹل میں تھا جسے اگر جنتر منتر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دو دن قیام کے باوجود ہم میں سے کوئی بھی اس کے تنگ کاریڈورز میں بھٹکے بغیر لفٹ تک نہ پہنچ سکا، یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ اس سفر میں UKIM کی طرف سے ہمارے میزبان اور کیئرٹیکر عزیزی شعیب تابانی تھے۔
جن کی محبت اور خدمت گزاری کے جذبے کی خوبصورتی گویا لندنی میزبان سہیل ضرار ہی کی ایک ایکسٹینشن تھی۔ سارے سفر میں ہم بہت رُوح پرور موسیقی سے لطف اندوز ہوئے جس کے انتخاب کا بیشتر سہرا عزیزی عمران پرتاب گڑھی کے سر تھا کہ اُس نوجوان کا موسیقی کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا شعیب بھی راجہ قیوم اور سہیل ضرار کی طرح UKIMکے ساتھ بطور والنٹیئرکام کرتا ہے اور یہ سب لوگ بلا معاوضہ مہمانوں کی دیکھ بھال اور سفر وغیرہ کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جو ایک بہت ہی احسن فکر اور عمل ہے۔
بریڈ فورڈ ایک زمانے میں لٹل پاکستان کہلاتا تھا کہ ساٹھ کی دہائی کے اولین مہاجروں میں زیادہ تر نے اس علاقے میں ڈیرے ڈالے تھے یہاں کے پرانے احباب میں جاوید اقبال ستار بک ہاؤس کے مالک قریشی صاحب اوربہت محبتی اور سیلف میڈ انسان صوفی اسماعیل سے مختلف وجوہات کی بناء پر ملاقات نہ ہوسکی کہ اوپر تلے کے مشاعروں کے باعث وہاں مقابلہ سخت تھا اور وقت کم۔
یہاں کا مشاعرہ ایک شادی ہال نما جگہ پر تھا اور سامعین بہت پُرجوش اور ادب نواز تھے یہاں مقبوضہ کشمیر سے پڑھنے کے لیے آئی ہوئی ایک بچی سے بھی ملاقات ہوئی جو سائنس کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ شعروادب سے بھی گہرا لگاؤ رکھتی تھی اور اُسے ہم سب کا کلام پہلے سے یاد تھا، اُس کے ساتھ ایک پاکستانی نوجوان خاتون تھی جو دو برس قبل وہاں بیاہ کر آئی تھی اور ادب و صحافت سے بہت گہرے تعلق کی حامل تھی۔ مقبوضہ کشمیر والی لڑکی نے بتایا کہ اُس کی اپنے والدین سے بھارتی کرفیو کے 55 دن بعد بات ہوسکی جب کہ پاکستانی عزیزہ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ روز نیلسن میں ہونے والے مشاعرے میں اس لیے شریک نہ ہوسکے گی کہ وہاں کی کمیونٹی عورتوں کی ایسی تقریبات میں شمولیت کو پسند نہیں کرتی۔
دونوں باتیں اپنی جگہ پر تکلیف دہ بھی تھیں اور فکر انگیز بھی۔ بریڈ فورڈ شہر کی اونچی نیچی سڑکوں سے گزرتے وقت کئی پرانی باتیں ، چہرے اور واقعات یاد آئے مگر بڑھتی ہوئی عمر کے فطری تقاضوں کے باعث اب بہت سی چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہوجاتی ہیں البتہ صوفی اسماعیل کا مرحوم مظفر وارثی سے کہا ہوا ایک جملہ جس نے مظفر بھائی کو بہت ناراض کیا تھا مگر جس کی بنیاد اصل میں کہنے والے کی معصومیت اور ناتجربہ کاری تھی یعنی صوفی اسماعیل اپنی طرف سے مظفر وارثی کی خوش گلوئی کی تعریف کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے لیے جو جملہ انھوں نے ترتیب دیا وہ کچھ اس طرح تھا۔
مظفر صاحب آپ کو سنتے ہیں تو رُوح تازہ ہوجاتی ہے ہماری خوش بختی کہ آج آپ سے ملاقات بھی ہوگئی ۔ رب کریم نے آپ کو ایسی خوبصورت آواز بلکہ لحنِ داؤدی عطا کیا ہے، آپ ہیر کیوں نہیں پڑھتے؟
نیلسن، بریڈفورڈ سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قصبہ سا ہے یہاں اپنے لوگوں کی آبادی نہ صرف یہ کہ زیادہ نہیں بلکہ ان میں سے بھی بیشتر کم پڑھے لکھے اور مزدوری پیشہ لوگ ہیں۔ انور مسعود یہاں پہلے بھی ایک مشاعرہ پڑھ چکے تھے اور اُن کا تاثر کچھ بہت زیادہ مثبت نہیں تھا مگر اس بار مشاعرے کی حد تک معاملہ ٹھیک تھا کہ سامعین تو اب بھی کم تھے مگر اُن کا ذوق و شوق بھرپور اور تروتازہ تھا۔
13 اکتوبر کا یہ مشاعرہ باقاعدہ پروگرام کا آخری حصہ تھا کہ اس کے بعد UKIM والوں نے اپنا کوئی پروگرام نہیں رکھا تھا، یوں میرے اور انور مسعود کے پاس سات ''آزاد'' دن تھے جن کی روداد انشاء اللہ اگلے اور اس سلسلے کے آخری کالم میں بیان ہوگی۔
ہماری عمر میں جونیئر اور نوجوان ساتھیوں رحمن فارس اور عمران پرتاب گڑھی نے نہ صرف ماحول کو خوشگوار بنائے رکھا بلکہ ہمارے حصے کے کام بھی خود ہی کرتے رہے۔ عمران انور مسعود کے لیے شہد اور رحمن فارس میرے لیے کافی بنانے میں ہمہ دم تیار رہتے تھے۔
اس سے میرے ذہن میں تقریباً تیس برس پہلے کا وہ منظر گھوم گیا جب اسی شہر میں عطاء الحق قاسمی اور میں بڑے قاسمی صاحب (احمد ندیم قاسمی) کے لیے چائے بنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ سینئرز کے احترام کی یہ روایت بہت خوبصورت بھی ہے اور قابل تقلید و حفاظت بھی ۔ان دونوں نوجوانوں نے محبت کے اس تسلسل کو بہت خوبصورتی سے قائم رکھا ، دعا ہے کہ ربِ کریم ان کے اس جذبے کو سلامت رکھے اور انھیں ہر طرح کی کامیابیاں عطا فرمائے ۔
برمنگھم کا ذکر آتے ہی کئی چہرے نظروں میں گھوم جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ نمایاں چہرہ مرحوم انور مغل کا ہے جن کی محبت کا نقش آج بھی میرے دل پر قائم و دائم ہے ۔مختلف وقتوں میں میرے ساتھ ساتھ میری بیگم اور بیٹا بھی اُن کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوچکے ہیں۔
وہ صحیح معنوں میں ایک عمدہ راست فکر اور بھرپور محبتی انسان تھے اُن کا منجھلا بیٹاعرفان میرے بیٹے علی ذی شان کا دوست بن گیا تھا مگر انور مغل کی وفات سے یہ سلسلہ ایسا منقطع ہوا کہ دوبارہ رابطے کی کوئی صورت ہی نہ بن سکی سو میں نے وہاں پہنچتے ہی کچھ مقامی دوستوں سے فرمائش کی کہ وہ کسی طرح اُس بچے کا فون نمبر معلوم کریں تاکہ میں اور علی دونوں اس سے بات کرسکیں۔پرانے دوستوں اور ملنے والوں میں ڈاکٹر صفی حسن اورآدم چغتائی سے تو بوجوہ ملاقات نہ ہو سکی مگر دس بارہ برسوں بعد یاسمین حبیب سے ملاقات کا موقع مل گیا۔
یاسمین میرے خیال میں اپنے فنی کمال کے حوالے سے انگلینڈ کی شاعرات میں پہلے نمبر پر آتی ہیں اُن سے اولین رابطہ اُن کی چھوٹی بہن نیلوفر سیّد حال مقیم امریکا کی معرفت ہوا جب کہ بعد میں منصور آفاق سے شادی کی وجہ سے ایک نیا رشتہ بھی بن گیا اس کے گھر پر منصور آفاق کے دونوں بیٹوں سے بھی ملاقات ہوئی اور سوتیلے ماں بیٹوں کی بے مثال محبت دیکھ کر بے حدخوشی ہوئی کہ تینوں ایک دوسرے پر واری جارہے تھے۔
عزیزی ڈاکٹر احمد بلال اور عائشہ بلال کے ساتھ بھی چند برس قبل اس شہر میں کچھ بہت اچھے دن گزرے تھے ۔ میرے فون کی ایک اچانک تکنیکی خرابی کی وجہ سے ان کے آرٹسٹ دوست عزیزی جمال مصطفی سے رابطے کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی جس نے گزشتہ ملاقات میں میرا ایک بہت عمدہ تصویری خاکہ بھی بنا کر مجھے پیش کیا تھا یہاں ہمارا اہتمام ibis ہوٹل میں تھا جسے اگر جنتر منتر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دو دن قیام کے باوجود ہم میں سے کوئی بھی اس کے تنگ کاریڈورز میں بھٹکے بغیر لفٹ تک نہ پہنچ سکا، یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ اس سفر میں UKIM کی طرف سے ہمارے میزبان اور کیئرٹیکر عزیزی شعیب تابانی تھے۔
جن کی محبت اور خدمت گزاری کے جذبے کی خوبصورتی گویا لندنی میزبان سہیل ضرار ہی کی ایک ایکسٹینشن تھی۔ سارے سفر میں ہم بہت رُوح پرور موسیقی سے لطف اندوز ہوئے جس کے انتخاب کا بیشتر سہرا عزیزی عمران پرتاب گڑھی کے سر تھا کہ اُس نوجوان کا موسیقی کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا شعیب بھی راجہ قیوم اور سہیل ضرار کی طرح UKIMکے ساتھ بطور والنٹیئرکام کرتا ہے اور یہ سب لوگ بلا معاوضہ مہمانوں کی دیکھ بھال اور سفر وغیرہ کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جو ایک بہت ہی احسن فکر اور عمل ہے۔
بریڈ فورڈ ایک زمانے میں لٹل پاکستان کہلاتا تھا کہ ساٹھ کی دہائی کے اولین مہاجروں میں زیادہ تر نے اس علاقے میں ڈیرے ڈالے تھے یہاں کے پرانے احباب میں جاوید اقبال ستار بک ہاؤس کے مالک قریشی صاحب اوربہت محبتی اور سیلف میڈ انسان صوفی اسماعیل سے مختلف وجوہات کی بناء پر ملاقات نہ ہوسکی کہ اوپر تلے کے مشاعروں کے باعث وہاں مقابلہ سخت تھا اور وقت کم۔
یہاں کا مشاعرہ ایک شادی ہال نما جگہ پر تھا اور سامعین بہت پُرجوش اور ادب نواز تھے یہاں مقبوضہ کشمیر سے پڑھنے کے لیے آئی ہوئی ایک بچی سے بھی ملاقات ہوئی جو سائنس کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ شعروادب سے بھی گہرا لگاؤ رکھتی تھی اور اُسے ہم سب کا کلام پہلے سے یاد تھا، اُس کے ساتھ ایک پاکستانی نوجوان خاتون تھی جو دو برس قبل وہاں بیاہ کر آئی تھی اور ادب و صحافت سے بہت گہرے تعلق کی حامل تھی۔ مقبوضہ کشمیر والی لڑکی نے بتایا کہ اُس کی اپنے والدین سے بھارتی کرفیو کے 55 دن بعد بات ہوسکی جب کہ پاکستانی عزیزہ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ روز نیلسن میں ہونے والے مشاعرے میں اس لیے شریک نہ ہوسکے گی کہ وہاں کی کمیونٹی عورتوں کی ایسی تقریبات میں شمولیت کو پسند نہیں کرتی۔
دونوں باتیں اپنی جگہ پر تکلیف دہ بھی تھیں اور فکر انگیز بھی۔ بریڈ فورڈ شہر کی اونچی نیچی سڑکوں سے گزرتے وقت کئی پرانی باتیں ، چہرے اور واقعات یاد آئے مگر بڑھتی ہوئی عمر کے فطری تقاضوں کے باعث اب بہت سی چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہوجاتی ہیں البتہ صوفی اسماعیل کا مرحوم مظفر وارثی سے کہا ہوا ایک جملہ جس نے مظفر بھائی کو بہت ناراض کیا تھا مگر جس کی بنیاد اصل میں کہنے والے کی معصومیت اور ناتجربہ کاری تھی یعنی صوفی اسماعیل اپنی طرف سے مظفر وارثی کی خوش گلوئی کی تعریف کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے لیے جو جملہ انھوں نے ترتیب دیا وہ کچھ اس طرح تھا۔
مظفر صاحب آپ کو سنتے ہیں تو رُوح تازہ ہوجاتی ہے ہماری خوش بختی کہ آج آپ سے ملاقات بھی ہوگئی ۔ رب کریم نے آپ کو ایسی خوبصورت آواز بلکہ لحنِ داؤدی عطا کیا ہے، آپ ہیر کیوں نہیں پڑھتے؟
نیلسن، بریڈفورڈ سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قصبہ سا ہے یہاں اپنے لوگوں کی آبادی نہ صرف یہ کہ زیادہ نہیں بلکہ ان میں سے بھی بیشتر کم پڑھے لکھے اور مزدوری پیشہ لوگ ہیں۔ انور مسعود یہاں پہلے بھی ایک مشاعرہ پڑھ چکے تھے اور اُن کا تاثر کچھ بہت زیادہ مثبت نہیں تھا مگر اس بار مشاعرے کی حد تک معاملہ ٹھیک تھا کہ سامعین تو اب بھی کم تھے مگر اُن کا ذوق و شوق بھرپور اور تروتازہ تھا۔
13 اکتوبر کا یہ مشاعرہ باقاعدہ پروگرام کا آخری حصہ تھا کہ اس کے بعد UKIM والوں نے اپنا کوئی پروگرام نہیں رکھا تھا، یوں میرے اور انور مسعود کے پاس سات ''آزاد'' دن تھے جن کی روداد انشاء اللہ اگلے اور اس سلسلے کے آخری کالم میں بیان ہوگی۔