کرکٹ بلاگ بال پیکر سے قومی کپتان تک کا سفر بابراعظم
بابر اعظم ایسے ورلڈ کلاس بیٹسمین ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں
KABUL:
کہتے ہیں کہ اگر جذبے سچے ہوں اور کچھ کر دکھانے کا عزم ہو تو زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی ان تھک محنت اور ہمت کے بل بوتے پر ایسے کارنامے سر انجام دیئے کہ دنیا اَش اَش کر اٹھی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان ٹوئنٹی 20 کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ہی کو دیکھ لیجیے۔ ٹاپ آرڈر بیٹسمین نے بارہ سال قبل اپنے کیریئر کا آغاز بال پیکر کی حیثیت سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ کے عالمی افق پر چھا گئے۔
قومی کپتان کے بارے میں آسٹریلوی اسپنر نیتھن لیون کہتے ہیں کہ بابر اعظم ایسے ورلڈ کلاس بیٹسمین ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران بابر اعظم نے دوسرے کرکٹرز کی طرح بڑی بڑی بڑھکیں مارنے کے بجائے اپنی توجہ صرف اور صرف بیٹنگ کو بہتر سے بہتر بنانے کی جانب مرکوز رکھی اور اپنے کھیل کے دلکش اور انوکھے انداز کی بدولت نہ صرف لاکھوں پرستاروں کے دلوں میں اتر گئے بلکہ آئی سی سی کی ٹوئنٹی 20 رینکنگ کی ٹاپ بیٹسمینوں کی کیٹگری میں پوزیشن پر بھی قبضہ جما لیا۔
ان کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا کے خلاف شروع ہونے والی ٹوئنٹی 20 سیریز میں انہیں قومی ٹیم کے کپتان کی اہم ذمے داری بھی سونپی ہے۔ 25 سالہ بابر اعظم کا تعلق زندہ دلوں کے شہر لاہور سے ہے اور یہ اکمل برادران کے نام سے مشہور کامران اکمل، عمر اکمل اور عدنان اکمل کے کزن ہیں۔
بابر اعظم کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کے والد محمد اعظم کی کوششوں اور کاوشوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کی گراﺅنڈ کے اندر اور باہر حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔
کرکٹرز کے بارے میں مشہور ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ان کی گردن میں سریا آ جاتا ہے، دنیا کی چکا چوند، روشنی، گلیمر اور بے تحاشا دولت ان کا دماغ خراب کر دیتی ہے اور پھر یہ اپنے محسنوں سے نظریں پھیرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ بابر اعظم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ عالمی کرکٹ میں بے تحاشا کامیابیوں اور کامرانیوں نے بھی ان کا دماغ خراب نہیں کیا۔
اکثر اپنے پرستاروں کے ساتھ مصافحہ کرنے، تصاویر اور سیلفیاں بناتے نظر آتے ہیں۔ ان کے عجز و انکساری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جمعے کو قومی کپتان کی حیثیت سے جب وہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پریس کانفرنس کےلیے آئے توانہوں نے آغاز ہی اس بات سے کیا کہ ٹھیک بارہ برس پہلے کیریئر کا آغاز بال پیکر کی حیثیت سے کیا اور اللہ تعالیٰ کی خاص مدد، والدین کی دعاﺅں اور کوچز کی محنت کی بدولت 12 برس بعد قومی ٹیم کا کپتان بننے میں کامیاب رہا ہوں۔ ''اس دوران مسائل اور مشکلات نے میرا قدم قدم پر استقبال کیا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور قومی کپتان کی حیثیت سے آپ کے سامنے ہوں۔ بلاشبہ گرین شرٹس کی قیادت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ کپتان کا منصب سنبھالنے کے بعد کوئی دباﺅ یا پریشر محسوس نہیں کررہا بلکہ آسٹریلیا میں مثبت ذہن کے ساتھ جائیں گے اور سیریز اپنے نام کرنے کی کوشش کریں گے۔''
بابراعظم آسٹریلیا میں کینگروز کے خلاف کپتان کی حیثیت سے کتنے کامیاب رہتے ہیں؟ اس کا اندازہ تو ٹوئنٹی 20 سیریز کے بعد ہی ہوسکے گا لیکن لاکھوں، کروڑوں پرستار ان کی مزید کامیابیوں کےلیے دعاگو ہیں اور منجھے ہوئے بیٹسمین کی طرح ایک کامیاب کپتان کی حیثیت سے بھی بابر اعظم کو کرکٹ کے عالمی افق پر چھائے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کہتے ہیں کہ اگر جذبے سچے ہوں اور کچھ کر دکھانے کا عزم ہو تو زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی ان تھک محنت اور ہمت کے بل بوتے پر ایسے کارنامے سر انجام دیئے کہ دنیا اَش اَش کر اٹھی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان ٹوئنٹی 20 کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ہی کو دیکھ لیجیے۔ ٹاپ آرڈر بیٹسمین نے بارہ سال قبل اپنے کیریئر کا آغاز بال پیکر کی حیثیت سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ کے عالمی افق پر چھا گئے۔
قومی کپتان کے بارے میں آسٹریلوی اسپنر نیتھن لیون کہتے ہیں کہ بابر اعظم ایسے ورلڈ کلاس بیٹسمین ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران بابر اعظم نے دوسرے کرکٹرز کی طرح بڑی بڑی بڑھکیں مارنے کے بجائے اپنی توجہ صرف اور صرف بیٹنگ کو بہتر سے بہتر بنانے کی جانب مرکوز رکھی اور اپنے کھیل کے دلکش اور انوکھے انداز کی بدولت نہ صرف لاکھوں پرستاروں کے دلوں میں اتر گئے بلکہ آئی سی سی کی ٹوئنٹی 20 رینکنگ کی ٹاپ بیٹسمینوں کی کیٹگری میں پوزیشن پر بھی قبضہ جما لیا۔
ان کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا کے خلاف شروع ہونے والی ٹوئنٹی 20 سیریز میں انہیں قومی ٹیم کے کپتان کی اہم ذمے داری بھی سونپی ہے۔ 25 سالہ بابر اعظم کا تعلق زندہ دلوں کے شہر لاہور سے ہے اور یہ اکمل برادران کے نام سے مشہور کامران اکمل، عمر اکمل اور عدنان اکمل کے کزن ہیں۔
بابر اعظم کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کے والد محمد اعظم کی کوششوں اور کاوشوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کی گراﺅنڈ کے اندر اور باہر حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔
کرکٹرز کے بارے میں مشہور ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ان کی گردن میں سریا آ جاتا ہے، دنیا کی چکا چوند، روشنی، گلیمر اور بے تحاشا دولت ان کا دماغ خراب کر دیتی ہے اور پھر یہ اپنے محسنوں سے نظریں پھیرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ بابر اعظم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ عالمی کرکٹ میں بے تحاشا کامیابیوں اور کامرانیوں نے بھی ان کا دماغ خراب نہیں کیا۔
اکثر اپنے پرستاروں کے ساتھ مصافحہ کرنے، تصاویر اور سیلفیاں بناتے نظر آتے ہیں۔ ان کے عجز و انکساری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جمعے کو قومی کپتان کی حیثیت سے جب وہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پریس کانفرنس کےلیے آئے توانہوں نے آغاز ہی اس بات سے کیا کہ ٹھیک بارہ برس پہلے کیریئر کا آغاز بال پیکر کی حیثیت سے کیا اور اللہ تعالیٰ کی خاص مدد، والدین کی دعاﺅں اور کوچز کی محنت کی بدولت 12 برس بعد قومی ٹیم کا کپتان بننے میں کامیاب رہا ہوں۔ ''اس دوران مسائل اور مشکلات نے میرا قدم قدم پر استقبال کیا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور قومی کپتان کی حیثیت سے آپ کے سامنے ہوں۔ بلاشبہ گرین شرٹس کی قیادت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ کپتان کا منصب سنبھالنے کے بعد کوئی دباﺅ یا پریشر محسوس نہیں کررہا بلکہ آسٹریلیا میں مثبت ذہن کے ساتھ جائیں گے اور سیریز اپنے نام کرنے کی کوشش کریں گے۔''
بابراعظم آسٹریلیا میں کینگروز کے خلاف کپتان کی حیثیت سے کتنے کامیاب رہتے ہیں؟ اس کا اندازہ تو ٹوئنٹی 20 سیریز کے بعد ہی ہوسکے گا لیکن لاکھوں، کروڑوں پرستار ان کی مزید کامیابیوں کےلیے دعاگو ہیں اور منجھے ہوئے بیٹسمین کی طرح ایک کامیاب کپتان کی حیثیت سے بھی بابر اعظم کو کرکٹ کے عالمی افق پر چھائے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔