سارا کھیل مفادات کا ہے
کونسی انسانیت کہاں کی انسانیت سب فضول ، لچر باتیں ، ٹہرائی جاچکی ہیں کسی کوکسی کی کوئی پروا اور فکر نہیں۔
سارا ہی کھیل مفادات کا ہے، اسی کے ہاتھوں سب ناچ رہے ہیں ، اس کھیل میں کوئی ہارنے کے لیے تیار نہیں ہے ہر چیزجی ہر چیز دائو پر لگا کر بس جیتنا چاہتے ہیں احساس، شرم ، حیا قابل نفرت قرار پاچکی ہیں ، رشتے، تعلق سے انھیں گھن آرہی ہے۔
کونسی انسانیت کہاں کی انسانیت سب فضول ، لچر باتیں ، ٹہرائی جاچکی ہیں کسی کوکسی کی کوئی پروا اور فکر نہیں ۔ بس سب ناچ رہے ہیں مفادات کی تال پر سب رقصاں ہیں۔ ایک کم عمر لڑکا بھاگتا ہوا قدیم ایران کے ایک مفکر شیوانا کے پاس آیا اورکہنے لگا '' میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ کاہن کے کہنے پر عظیم بت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کردے آپ مہربانی کرکے اس کی جان بچا دیں۔
شیوانا لڑکے کے سا تھ فوراً معبد میں پہنچا اورکیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پائوں رسیوں سے جکڑ دیے ہیں اور چھری ہاتھ میں پکڑ ے آنکھ بندکیے کچھ پڑھ رہی ہے بہت سے لوگ اس عورت کے گرد جمع تھے اور بت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بت کے قریب ایک بڑے پتھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہاتھا۔ شیوانا عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ باربار اس کوگلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے مگر اس کے باوجود معبدکدے کے بت کی خوشنودی کے لیے اس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔
شیوانا نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے عورت نے جواب دیا ''کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بت کی خوشنودی کے لیے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کردوں تاکہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔شیوانا نے مسکرا کرکہا ، مگر یہ بچی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟
اسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا ہے تمہاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچی کی جان لینے پر تل گئی ہو یہ بت احمق نہیں ہے وہ تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے تم نے اگرکاہن کے بجائے غلطی سے اپنی بیٹی کی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بت تم سے مزید خفا ہوجائے اور تمہاری زندگی کو جنہم بنا دے۔ عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچی کے ہاتھ پائوں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں لے کرکاہن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جاچکا تھا اس دن کے بعد وہ کاہن اس علاقے میں پھرکبھی نظر نہ آیا۔
ایک منٹ ٹہرکر ذراہم بھی سوچیں کہ ہمارے ملک کے کاہنوں اور صدیوں پرانے کاہنوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، بس آج صدیوں پرانے کاہنوں کے نام بدلے ہوئے ہیں۔ لباس ، حلیہ اور زبان ان سے مختلف ہیں لیکن بہکاوے وہ ہی کے وہ ہی ہیں اور ہمارے پچھتائوے بھی وہ ہی کے وہ ہی ہیں۔ ہم مسلسل اپنے کاہنوں (اشرافیہ)کے کہنے پر قربانیوں پہ قربانیاںدیے چلے آرہے ہیں۔
اپنی ہر عزیز سے عزیز ترین چیزکی قربانی دیے چلے جارہے ہیں لیکن ہماری مشکلات اور پریشانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی ہیں ، الٹا جتنی ہم قربانی دیتے ہیں اتنی ہماری پریشانیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے ، نہ ہی ہم سے بت خوش ہو رہے ہیں اور نہ ہی کاہنوںکو ہم پر ترس آ رہا ہے ، بس مسلسل ایک بات پر بضد ہیں کہ اپنی باقی اپنی عزیز ترین چیزکو بھی قربان کر دو۔ ہم ہیں کہ مسلسل قربانیوں پہ قربانیاں دیے چلے جا رہے ہیں اور دوسری طرف کاہنوں کے خزانے بھرے چلے جا رہے ہیں۔
اذیت ناک بات یہ ہے کہ ہمارے کاہن ہماری قربانیوں پہ عیاشیوں پہ عیاشیاں کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا اور معصوم سا سوال کرنے کی جرأت پیدا ہو رہی ہے کہ 73سالوں کے دوران ہمارے کسی کاہن (اشرافیہ) کی اولاد نے غربت سے تنگ آکر خود کشی کی ہے یاکبھی فاقے ان کا مقدر بنے ہیں ؟کیا کبھی انھوں نے روزگار کے لیے دھکے کھائے ہیں؟ کیا کبھی علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں میں ذلیل و رسوا ہوئے ہیں؟ کیا جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بہنیں یا بیٹیاں بوڑھی ہوگئی ہیں؟
کیا کبھی آپ نے انھیں پیوند لگے کپڑوں اور ٹوٹی چپل پہنے دیکھا ہے۔کیا کبھی دوائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے خون تھوک تھوک کر جان دیتے ہوئے سنا ہے؟ کیا کبھی ان کی اولادوں کو سرکاری پیلے اسکولوں میں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ کیا کبھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پوری پوری رات جاگتے سنا ہے کیاکبھی پانی کے لیے بالٹی اٹھائے مارے مارے پھرتے دیکھا ہے ؟کیا کبھی سر کاری آفسوں میں ذلیل و خوار اور دھکے کھاتے ہوئے سنا ہے؟ کیا کبھی پینشن کے لیے لائن میں کھڑے دیکھا ہے؟ کیا کبھی بل نہ بھرنے کی وجہ سے ان کی بجلی کٹتے دیکھی ہے؟ کیا
کبھی بااختیاروں کو ان کوگالیاں دیتے سنا ہے۔ آپ کا جواب اگر نہیں ہے تو پھر سوچو آپ نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی کیا درگت کر رکھی ہے۔کیوں قربانیوں پہ قربانیاں دیے جارہے ہو۔ اٹھو ! اب تمہاری قربانیوں کا وقت نہیں، ان کاہنوں کی قربانی کا وقت آچکا ہے جنھوں نے اپنے مفادات کی خاطر تمہاری زندگیاں جہنم بنا رکھی ہیں ، جن کے بہکائوے میں آکر تم اپنی ہر عزیز ترین چیزکو قربان کرتے چلے آرہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات تو طے ہے کہ مفادات کا کھیل وہ واحد کھیل ہے جس میں کھیلنے والے آخر میں سب کے سب ہارتے ہیں اور ان کی ہار بھی ہمیشہ عبرت ناک ہوتی ہے۔
آپ اورکچھ نہ کریں بس مفادات کے کھیل کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں ، اس میں آپ کو بیٹے، باپ ، بہنیں، بیٹیاں، دوست اور مشیر سب کے سب روتے ہوئے ملیں گے اور رونا بھی ایسا کہ دیکھ کر رونا آجائے۔
کونسی انسانیت کہاں کی انسانیت سب فضول ، لچر باتیں ، ٹہرائی جاچکی ہیں کسی کوکسی کی کوئی پروا اور فکر نہیں ۔ بس سب ناچ رہے ہیں مفادات کی تال پر سب رقصاں ہیں۔ ایک کم عمر لڑکا بھاگتا ہوا قدیم ایران کے ایک مفکر شیوانا کے پاس آیا اورکہنے لگا '' میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ کاہن کے کہنے پر عظیم بت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کردے آپ مہربانی کرکے اس کی جان بچا دیں۔
شیوانا لڑکے کے سا تھ فوراً معبد میں پہنچا اورکیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پائوں رسیوں سے جکڑ دیے ہیں اور چھری ہاتھ میں پکڑ ے آنکھ بندکیے کچھ پڑھ رہی ہے بہت سے لوگ اس عورت کے گرد جمع تھے اور بت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بت کے قریب ایک بڑے پتھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہاتھا۔ شیوانا عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ باربار اس کوگلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے مگر اس کے باوجود معبدکدے کے بت کی خوشنودی کے لیے اس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔
شیوانا نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے عورت نے جواب دیا ''کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بت کی خوشنودی کے لیے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کردوں تاکہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔شیوانا نے مسکرا کرکہا ، مگر یہ بچی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟
اسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا ہے تمہاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچی کی جان لینے پر تل گئی ہو یہ بت احمق نہیں ہے وہ تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے تم نے اگرکاہن کے بجائے غلطی سے اپنی بیٹی کی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بت تم سے مزید خفا ہوجائے اور تمہاری زندگی کو جنہم بنا دے۔ عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچی کے ہاتھ پائوں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں لے کرکاہن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جاچکا تھا اس دن کے بعد وہ کاہن اس علاقے میں پھرکبھی نظر نہ آیا۔
ایک منٹ ٹہرکر ذراہم بھی سوچیں کہ ہمارے ملک کے کاہنوں اور صدیوں پرانے کاہنوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، بس آج صدیوں پرانے کاہنوں کے نام بدلے ہوئے ہیں۔ لباس ، حلیہ اور زبان ان سے مختلف ہیں لیکن بہکاوے وہ ہی کے وہ ہی ہیں اور ہمارے پچھتائوے بھی وہ ہی کے وہ ہی ہیں۔ ہم مسلسل اپنے کاہنوں (اشرافیہ)کے کہنے پر قربانیوں پہ قربانیاںدیے چلے آرہے ہیں۔
اپنی ہر عزیز سے عزیز ترین چیزکی قربانی دیے چلے جارہے ہیں لیکن ہماری مشکلات اور پریشانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی ہیں ، الٹا جتنی ہم قربانی دیتے ہیں اتنی ہماری پریشانیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے ، نہ ہی ہم سے بت خوش ہو رہے ہیں اور نہ ہی کاہنوںکو ہم پر ترس آ رہا ہے ، بس مسلسل ایک بات پر بضد ہیں کہ اپنی باقی اپنی عزیز ترین چیزکو بھی قربان کر دو۔ ہم ہیں کہ مسلسل قربانیوں پہ قربانیاں دیے چلے جا رہے ہیں اور دوسری طرف کاہنوں کے خزانے بھرے چلے جا رہے ہیں۔
اذیت ناک بات یہ ہے کہ ہمارے کاہن ہماری قربانیوں پہ عیاشیوں پہ عیاشیاں کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا اور معصوم سا سوال کرنے کی جرأت پیدا ہو رہی ہے کہ 73سالوں کے دوران ہمارے کسی کاہن (اشرافیہ) کی اولاد نے غربت سے تنگ آکر خود کشی کی ہے یاکبھی فاقے ان کا مقدر بنے ہیں ؟کیا کبھی انھوں نے روزگار کے لیے دھکے کھائے ہیں؟ کیا کبھی علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں میں ذلیل و رسوا ہوئے ہیں؟ کیا جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بہنیں یا بیٹیاں بوڑھی ہوگئی ہیں؟
کیا کبھی آپ نے انھیں پیوند لگے کپڑوں اور ٹوٹی چپل پہنے دیکھا ہے۔کیا کبھی دوائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے خون تھوک تھوک کر جان دیتے ہوئے سنا ہے؟ کیا کبھی ان کی اولادوں کو سرکاری پیلے اسکولوں میں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ کیا کبھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پوری پوری رات جاگتے سنا ہے کیاکبھی پانی کے لیے بالٹی اٹھائے مارے مارے پھرتے دیکھا ہے ؟کیا کبھی سر کاری آفسوں میں ذلیل و خوار اور دھکے کھاتے ہوئے سنا ہے؟ کیا کبھی پینشن کے لیے لائن میں کھڑے دیکھا ہے؟ کیا کبھی بل نہ بھرنے کی وجہ سے ان کی بجلی کٹتے دیکھی ہے؟ کیا
کبھی بااختیاروں کو ان کوگالیاں دیتے سنا ہے۔ آپ کا جواب اگر نہیں ہے تو پھر سوچو آپ نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی کیا درگت کر رکھی ہے۔کیوں قربانیوں پہ قربانیاں دیے جارہے ہو۔ اٹھو ! اب تمہاری قربانیوں کا وقت نہیں، ان کاہنوں کی قربانی کا وقت آچکا ہے جنھوں نے اپنے مفادات کی خاطر تمہاری زندگیاں جہنم بنا رکھی ہیں ، جن کے بہکائوے میں آکر تم اپنی ہر عزیز ترین چیزکو قربان کرتے چلے آرہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات تو طے ہے کہ مفادات کا کھیل وہ واحد کھیل ہے جس میں کھیلنے والے آخر میں سب کے سب ہارتے ہیں اور ان کی ہار بھی ہمیشہ عبرت ناک ہوتی ہے۔
آپ اورکچھ نہ کریں بس مفادات کے کھیل کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں ، اس میں آپ کو بیٹے، باپ ، بہنیں، بیٹیاں، دوست اور مشیر سب کے سب روتے ہوئے ملیں گے اور رونا بھی ایسا کہ دیکھ کر رونا آجائے۔