سی جے کینال فیصلہ اور سندھ کے اعتراضات
جمہوری رویوں کی بدولت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق ایک مضبوط ثالث کے طور پر نظر آیا۔
گذشتہ ہفتے ملک میں پانی اُمور کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے ارسا نے پنجاب کے ایک غیر فعال اور سیلاب کے دنوں میں بہائے جانے والے چشمہ جہلم لنک کینال پر پاور پلانٹ لگانے کے لیے NOC جاری کرتے ہوئے اس کے لیے دریائے سندھ سے پانی روزانہ کی بنیاد پر دینے اور اسے سال بھر بہانے کا فیصلہ کیا ۔یہ فیصلہ سندھ کے لیے کتنا حساس ہے ۔
یہ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ اسمبلی نے اس کے خلاف متفقہ طور پر قرار داد پاس کی ۔ جس میں پی پی پی کی حکومتی جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے ، یہاں تک کہ وفاق اور تینوں صوبوں (بشمول پنجاب) میں حکومت رکھنے والی خود پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس قرارداد میں سندھ حکومت کا ساتھ دیا ہے ۔ سندھ اسمبلی نے یک رائے قرار داد منظور کرتے ہوئے سی جے فلڈ کینال کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ لیکن سندھ کے عوام اورتجزیہ کار ان اقدامات سے مطمئن ہوتے نظر نہیں آتے۔
حالانکہ NOCکی وجہ بجلی بنانا بتایا گیا ہے ۔ لیکن سندھ کے عوام اور ملک کے غیر جانبدار حلقے یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ یہ محض بہانا ہے ، دراصل اس کے پیچھے سیلاب کی صورت میں عارضی طور پر چلنے والے اس سیلابی کینال کو سال بھر بہانے کی تیاری ہی کار فرما ہے ۔ کیونکہ اگر صرف بجلی بنانے کی بات ہے تو اس کے لیے متبادل توانائی کے بے پناہ مواقع اور وسائل ملک میں موجود ہیں ۔
جیسے ونڈانرجی ، سولر انرجی اور کول انرجی وغیرہ ، جن سے سندھ میں کئی جگہ سے بجلی کی پیداوار شروع بھی ہوگئی ہے اور نیشنل گرڈ میں شامل کردی گئی ہے ، جنھیں توسیع دیکر بجلی کی پیداوار آیندہ سو سال تک کی ضروریات کے مساوی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہری نظام میں آنیوالے پانی کوملکی معیشت کی ریڑھ سمجھے جانے والے شعبہ زراعت کی بہتری اور توسیع کے لیے استعمال کرکے ہم ملک میں غذائی قلت کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں تو دریاؤں کے بہاؤ کو جاری رکھ کرانڈس ڈیلٹا اور ملک بھر میںقدرتی جنگلات کا عروج پھر سے واپس لاسکتے ہیں۔ لیکن وفاق اس طرف جانا نہیں چاہتا ۔
چشمہ جہلم لنک کینال کی تعمیر اور بہاؤ در اصل وہ تنازعہ ہے جوسندھ اور پنجاب کے مابین قیام ِ پاکستان سے قبل سے چل رہا ہے ۔ یہ ایک لنک اور فلڈ کینال ہے جو صرف اضافی پانی (یعنی جب دریاؤں میں چڑھاؤ ہو اور صوبوں کی ضرورت پوری ہورہی ہوں )کی صورت میں جہلم اور چناب دریاؤں کے زیریں علاقوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، حالانکہ اُن کی تعمیر پر ہی سندھ نے اعتراض کیا تھا لیکن دیگر اعتراضات کی طرح یہاں بھی یہ کینال تعمیر کیے گئے۔ پھرماضی میں سندھ اور پنجاب میں ایسے دو معاہدے ہوچکے ہیں جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چشمہ جہلم لنک کو حکومت ِ سندھ سے پیشگی اجازت کے بغیر نہیں چلایا جائے گا اور جیسے ہی حکومت ِ سندھ مطالبہ کرے گی اس لنک کو فوری طور پر بند کردیا جائے گا۔
لیکن کئی برس سے جشمہ جہلم لنک کو سارا سال آپریٹ کیا جاتا رہا ہے ۔ پھر مسلسل انھیں اضافی پانی کی عدم دستیابی میں بھی چلا کر سندھ کے حصے سے پانی کٹوتی کی جاتی رہی ہے ۔ حال میں ہی ایک مرتبہ پھر چشمہ جہلم لنک کینال کو کھول دیا گیا ہے ۔جب تک دونوں فریقین کے درمیان متوازن و سخت قانونی و اُصولی بنیادوں پر قائم جہاندیدہ اور انگریز سرکار جیسا ثالث موجود تھا تو اُس نے کسی ایک فریق کی جانبداری کرنے والی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے ہمیشہ انصاف اور اُصولوں کی راہ اختیار کی اور غیر جانبداری سے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کیے جس سے خطے میں کبھی فریقین کے مابین نفرتیں نہیں بڑھیں بلکہ کئی فیصلے تو ایسی مثال بنے کہ اُس کے اثرات آج تک خطے پر نظر آتے ہیں ۔
انھیں میں سے ایک فیصلہ 1941میں کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج اور دوچیف انجینئروں پر مشتمل راؤ کمیشن کا ہے۔ جس نے پنجاب کو سندھ کو ہرجانہ ادا کرنے اور دریائے سندھ پر گڈو اور کوٹری کے مقام پر دو بیراج بنانے کے لیے پنجاب کوسندھ کی مدد کا پابند کیا۔یہ ایسی مثال ہے کہ جب ایک فریق پنجاب پر دریائے ستلج پر بھاکڑ بند اور تھل کینال کی تعمیر کے خلاف جرمانہ اور سزا لاگو ہوئی تو اس کی بجاآوری بھی نہایت فرمانبرداری سے کی گئی لیکن ان بیراج منصوبوں پر شروع کام کیا ۔لیکن جب انگریز چلا گیا تو اس کے بعد ان دونوں فریقین کے مابین کوئی متوازن قانونی ثالث نہیں رہا ،جس کے باعث دونوں ہمسایہ فریقین کے مابین یہ اور اس جیسے دیگر تنازعے خیر اسلوبی سے نمٹ نہ سکے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد سندھ و پنجاب صوبوں کے مابین وفاق ایک بہترین و غیر جانبدار ثالث بن سکتا تھا لیکن یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ ملک جو صوبائی خودمختاری اور ترقی کے برابر مواقع کی فراہمی کے نام پر قائم ہوا تھا وہ اکثریتی و اقلیتی اور آبادی کے نام پر ایک نئے طبقاتی استحصال کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔ پھر یہ ملک قانونی ، پارلیمانی و جمہوری طریقہ سے طویل ڈائیلاگ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا ۔ اس میں قانون ، پارلیمنٹ اور جمہوریت و ڈائیلاگ جیسی تمام چیزوں کو عاق کرکے باہر پھینک دیا گیا اور وہاں گروہی مفادات کی حامل قوتیں طبقاتی و آبادیاتی استحصال کے ذریعے قابض ہوگئیں اور یہ استحصال فردوں اور طبقوں سے ہوتا ہوا قومی استحصال کی شکل اختیار کر گیا۔ جس میں عددی اکثریت کو سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا ۔
چونکہ عددی اکثریت کے لحاظ سے پہلے مغربی پاکستان یعنی موجودہ بنگلا دیش پاکستان کا بڑا صوبہ تھا لیکن یہ ملک پر قابض گروہی مفاد پرست طبقے سے وابستہ بیورو کریسی سے ہضم نہ ہوا اور اُس نے ایسا ماحول پیدا کیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی ایک اکثریتی آبادی اپنی اقلیتی آبادی سے علیحدہ ہوگئی ۔ حیرت انگیز طور پر چھوٹے صوبوں کے مفادات ملک کے نام نہاد مفاد کے خلاف شمار کیے جانے لگے ۔ پھر برابری اور سراسری یہاں سے کوچ کر گئی اور ملک میںغیر مساوی ماحول کی بنیادیں مضبوط ہوئیں ۔ اسی پس منظر میں سندھ و پنجاب کے مابین چشمہ جہلم کینال کا یہ دیرینہ تنازعہ بھی one sidedپالیسی کا شکار ہوگیا ۔
دیکھا جائے تو ارسا ایک مانیٹرنگ ادارہ ہے ۔ وہ اپنے تئیں ایسے فیصلوں کا مجاز نہیں ہے ۔ ایسے فیصلوں کے لیے مشترکہ مفادات کونسل یعنی سی سی آئی ( Council of Common Interest) ہی واحد ادارہ ہے جو کہ ملکی آئین و قانون اور 1991ء کے واحد آبی معاہدے کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز پلیٹ فارم ہے ۔ ماضی میں بھی ارساایسے متنازع فیصلے کرتا رہا ہے جن کا ہمیشہ نقصان سندھ کو ہوا ہے اور سندھ نے ہر بار ایسے فیصلوں کو بے نقاب کیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ان فیصلوں کو ختم نہیں کیا جاتا ، اور سندھ کو پانی کے مسائل سے پے در پے شکار کیا جاتا رہا ہے۔
2010کے جولائی میں بھی ارسا کے اُس وقت کے پنجاب کے رکن اورقائم مقام چیئرمین شفقت مسعود نے سی سی آئی کے اختیارات کو بائی پاس کرتے ہوئے ایسا ہی فیصلہ کرتے ہوئے سیلاب کے دوران کھولے جانے والے چشمہ جہلم سیلابی لنک کینال کو سال بھر کے لیے کھولنے اور اس کے لیے 10,000کیوسک پانی مختص کرنے کی منظوری دی تھی ، جس پر سندھ نے شدید احتجاج کیا اور اس فیصلے کو سی سی آئی میں چیلنج کیا ۔ اُس وقت مرکز اور سندھ میں پی پی پی کی حکومت تھی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی ، لیکن باوجود مخالفت کے دونوں کی جانب سے جمہوری طرز عمل اختیار کیا گیا ۔
جمہوری رویوں کی بدولت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق ایک مضبوط ثالث کے طور پر نظر آیا ۔ وفاقی ثالثی میں سندھ اور پنجاب کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اُس میں پنجاب و سندھ کے وزرائے اعلیٰ ، آبپاشی وزراء ، سیکریٹریز ، آبی ماہرین کے ساتھ ساتھ واپڈا ور وفاقی حکومت کے وزراء و اراکین نے حصہ لیا ۔ اس مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر ارسا کے اُس فیصلے کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیا گیا اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کو سفارشات پیش کیں ۔
وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے اُن سفارشات اور منٹس آف میٹنگ (Minutes of Meeting) کے جائزے کے بعد نہ صرف ارسا کے اُس فیصلے کو معطل کردیا بلکہ اختیارات کے ناجائز استعمال پر نگران چیئرمین ارسا شفقت مسعود کو بھی معزول کردیا اور اُس کی جگہ ارسا میں کے پی کے کے رکن عبدالرقیب کو قائم مقام چیئرمین مقرر کردیا ۔ سندھ کی جانب سے مراد علی شاہ (موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ)، نادر مگسی ، شجاع جونیجو اورملک کے مایہ ناز آبی ماہر ادریس راجپوت نے تاریخی و قانونی حقائق اور دونوں صوبوں کے مابین اس تنازعے پر ماضی میں ہوئے فیصلوں کی روشنی میں جو دلائل و نکات پیش کیے وہ نہ صرف سندھ کےPoint of View کی حمایت کرتے تھے بلکہ ملک کے مجموعی مفاد میں بھی تھے۔
یہ تمام لوگ اب بھی حیات ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مراد علی شاہ اس وقت خود سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ اس ناطے سے اُن پر اب مزید ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے صوبہ کے حق کے لیے اس معاملے کو سی سی آئی لے کر جائیں اور ساتھ ہی وفاق سے سخت احتجاج کریں۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ان مسائل کا مستقل حل صوبائی خودمختاری ہے جو کہ تمام یونٹس کے حقوق کی ضمانت بھی ہے اور صوبوں کے آپس میں اور صوبوں کے وفاق کے ساتھ پائیدار مراسم کا بھی اہم و مضبوط میثاق ثابت ہوگا۔
اس لیے اگر حکومت واقعی میں ملک میں آبی مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو وہ غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاروں صوبوں کی اسمبلیوں اور آبی ماہرین کے ساتھ مل کرڈیلٹا کی بحالی سے لے کر دیا میر بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے تک اور بھارت سے مذاکرات میں بھی دریائے سندھ پر سندھ کے ازلی و تاریخی حق رکھنے والے موقف کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں پانی ضایع ہونے جیسی بے تکی ، مضحکہ خیزاور نان ٹیکنیکل باتوں کا گردان بن بند کرکے سنجیدہ اور ملک کے مجموعی مفاد پر مبنی پانی پالیسی اور منصوبے بنائے جائیں تاکہ تھر، کوہستان ، سندھ کی کوسٹل پٹی سمیت پنجاب کے میانوالی اور چولستان کی غیر آباد زمینوں تک کو آباد کیا جاسکے لیکن یہ سب پہلے سے موجود زرخیز و سرسبز زمینوں کی شادابی کو برقرار رکھ کر ہونا چاہیے نہ کہ آباد زمینوں کو غیر آباد کرکے نئی بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا جائے ، کیونکہ موجودہ پالیسی یہی ہے کہ پنجاب کی بنجر اور غیر آباد زمینوں کو پانی فراہمی کے لیے سندھ کی سرسبز اور آباد زمینوں کو بنجر بنایا جائے ۔ یہ ایک صوبے کا مفاد تو ہوسکتا ہے لیکن یہ ایک دوسرے صوبے کا نقصان اور ملک کی مجموعی ترقی کی شرح نمو کو جمود کی طرف لے جانا ہے ۔
یہ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ اسمبلی نے اس کے خلاف متفقہ طور پر قرار داد پاس کی ۔ جس میں پی پی پی کی حکومتی جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے ، یہاں تک کہ وفاق اور تینوں صوبوں (بشمول پنجاب) میں حکومت رکھنے والی خود پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس قرارداد میں سندھ حکومت کا ساتھ دیا ہے ۔ سندھ اسمبلی نے یک رائے قرار داد منظور کرتے ہوئے سی جے فلڈ کینال کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ لیکن سندھ کے عوام اورتجزیہ کار ان اقدامات سے مطمئن ہوتے نظر نہیں آتے۔
حالانکہ NOCکی وجہ بجلی بنانا بتایا گیا ہے ۔ لیکن سندھ کے عوام اور ملک کے غیر جانبدار حلقے یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ یہ محض بہانا ہے ، دراصل اس کے پیچھے سیلاب کی صورت میں عارضی طور پر چلنے والے اس سیلابی کینال کو سال بھر بہانے کی تیاری ہی کار فرما ہے ۔ کیونکہ اگر صرف بجلی بنانے کی بات ہے تو اس کے لیے متبادل توانائی کے بے پناہ مواقع اور وسائل ملک میں موجود ہیں ۔
جیسے ونڈانرجی ، سولر انرجی اور کول انرجی وغیرہ ، جن سے سندھ میں کئی جگہ سے بجلی کی پیداوار شروع بھی ہوگئی ہے اور نیشنل گرڈ میں شامل کردی گئی ہے ، جنھیں توسیع دیکر بجلی کی پیداوار آیندہ سو سال تک کی ضروریات کے مساوی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہری نظام میں آنیوالے پانی کوملکی معیشت کی ریڑھ سمجھے جانے والے شعبہ زراعت کی بہتری اور توسیع کے لیے استعمال کرکے ہم ملک میں غذائی قلت کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں تو دریاؤں کے بہاؤ کو جاری رکھ کرانڈس ڈیلٹا اور ملک بھر میںقدرتی جنگلات کا عروج پھر سے واپس لاسکتے ہیں۔ لیکن وفاق اس طرف جانا نہیں چاہتا ۔
چشمہ جہلم لنک کینال کی تعمیر اور بہاؤ در اصل وہ تنازعہ ہے جوسندھ اور پنجاب کے مابین قیام ِ پاکستان سے قبل سے چل رہا ہے ۔ یہ ایک لنک اور فلڈ کینال ہے جو صرف اضافی پانی (یعنی جب دریاؤں میں چڑھاؤ ہو اور صوبوں کی ضرورت پوری ہورہی ہوں )کی صورت میں جہلم اور چناب دریاؤں کے زیریں علاقوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، حالانکہ اُن کی تعمیر پر ہی سندھ نے اعتراض کیا تھا لیکن دیگر اعتراضات کی طرح یہاں بھی یہ کینال تعمیر کیے گئے۔ پھرماضی میں سندھ اور پنجاب میں ایسے دو معاہدے ہوچکے ہیں جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چشمہ جہلم لنک کو حکومت ِ سندھ سے پیشگی اجازت کے بغیر نہیں چلایا جائے گا اور جیسے ہی حکومت ِ سندھ مطالبہ کرے گی اس لنک کو فوری طور پر بند کردیا جائے گا۔
لیکن کئی برس سے جشمہ جہلم لنک کو سارا سال آپریٹ کیا جاتا رہا ہے ۔ پھر مسلسل انھیں اضافی پانی کی عدم دستیابی میں بھی چلا کر سندھ کے حصے سے پانی کٹوتی کی جاتی رہی ہے ۔ حال میں ہی ایک مرتبہ پھر چشمہ جہلم لنک کینال کو کھول دیا گیا ہے ۔جب تک دونوں فریقین کے درمیان متوازن و سخت قانونی و اُصولی بنیادوں پر قائم جہاندیدہ اور انگریز سرکار جیسا ثالث موجود تھا تو اُس نے کسی ایک فریق کی جانبداری کرنے والی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے ہمیشہ انصاف اور اُصولوں کی راہ اختیار کی اور غیر جانبداری سے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کیے جس سے خطے میں کبھی فریقین کے مابین نفرتیں نہیں بڑھیں بلکہ کئی فیصلے تو ایسی مثال بنے کہ اُس کے اثرات آج تک خطے پر نظر آتے ہیں ۔
انھیں میں سے ایک فیصلہ 1941میں کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج اور دوچیف انجینئروں پر مشتمل راؤ کمیشن کا ہے۔ جس نے پنجاب کو سندھ کو ہرجانہ ادا کرنے اور دریائے سندھ پر گڈو اور کوٹری کے مقام پر دو بیراج بنانے کے لیے پنجاب کوسندھ کی مدد کا پابند کیا۔یہ ایسی مثال ہے کہ جب ایک فریق پنجاب پر دریائے ستلج پر بھاکڑ بند اور تھل کینال کی تعمیر کے خلاف جرمانہ اور سزا لاگو ہوئی تو اس کی بجاآوری بھی نہایت فرمانبرداری سے کی گئی لیکن ان بیراج منصوبوں پر شروع کام کیا ۔لیکن جب انگریز چلا گیا تو اس کے بعد ان دونوں فریقین کے مابین کوئی متوازن قانونی ثالث نہیں رہا ،جس کے باعث دونوں ہمسایہ فریقین کے مابین یہ اور اس جیسے دیگر تنازعے خیر اسلوبی سے نمٹ نہ سکے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد سندھ و پنجاب صوبوں کے مابین وفاق ایک بہترین و غیر جانبدار ثالث بن سکتا تھا لیکن یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ ملک جو صوبائی خودمختاری اور ترقی کے برابر مواقع کی فراہمی کے نام پر قائم ہوا تھا وہ اکثریتی و اقلیتی اور آبادی کے نام پر ایک نئے طبقاتی استحصال کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔ پھر یہ ملک قانونی ، پارلیمانی و جمہوری طریقہ سے طویل ڈائیلاگ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا ۔ اس میں قانون ، پارلیمنٹ اور جمہوریت و ڈائیلاگ جیسی تمام چیزوں کو عاق کرکے باہر پھینک دیا گیا اور وہاں گروہی مفادات کی حامل قوتیں طبقاتی و آبادیاتی استحصال کے ذریعے قابض ہوگئیں اور یہ استحصال فردوں اور طبقوں سے ہوتا ہوا قومی استحصال کی شکل اختیار کر گیا۔ جس میں عددی اکثریت کو سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا ۔
چونکہ عددی اکثریت کے لحاظ سے پہلے مغربی پاکستان یعنی موجودہ بنگلا دیش پاکستان کا بڑا صوبہ تھا لیکن یہ ملک پر قابض گروہی مفاد پرست طبقے سے وابستہ بیورو کریسی سے ہضم نہ ہوا اور اُس نے ایسا ماحول پیدا کیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی ایک اکثریتی آبادی اپنی اقلیتی آبادی سے علیحدہ ہوگئی ۔ حیرت انگیز طور پر چھوٹے صوبوں کے مفادات ملک کے نام نہاد مفاد کے خلاف شمار کیے جانے لگے ۔ پھر برابری اور سراسری یہاں سے کوچ کر گئی اور ملک میںغیر مساوی ماحول کی بنیادیں مضبوط ہوئیں ۔ اسی پس منظر میں سندھ و پنجاب کے مابین چشمہ جہلم کینال کا یہ دیرینہ تنازعہ بھی one sidedپالیسی کا شکار ہوگیا ۔
دیکھا جائے تو ارسا ایک مانیٹرنگ ادارہ ہے ۔ وہ اپنے تئیں ایسے فیصلوں کا مجاز نہیں ہے ۔ ایسے فیصلوں کے لیے مشترکہ مفادات کونسل یعنی سی سی آئی ( Council of Common Interest) ہی واحد ادارہ ہے جو کہ ملکی آئین و قانون اور 1991ء کے واحد آبی معاہدے کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز پلیٹ فارم ہے ۔ ماضی میں بھی ارساایسے متنازع فیصلے کرتا رہا ہے جن کا ہمیشہ نقصان سندھ کو ہوا ہے اور سندھ نے ہر بار ایسے فیصلوں کو بے نقاب کیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ان فیصلوں کو ختم نہیں کیا جاتا ، اور سندھ کو پانی کے مسائل سے پے در پے شکار کیا جاتا رہا ہے۔
2010کے جولائی میں بھی ارسا کے اُس وقت کے پنجاب کے رکن اورقائم مقام چیئرمین شفقت مسعود نے سی سی آئی کے اختیارات کو بائی پاس کرتے ہوئے ایسا ہی فیصلہ کرتے ہوئے سیلاب کے دوران کھولے جانے والے چشمہ جہلم سیلابی لنک کینال کو سال بھر کے لیے کھولنے اور اس کے لیے 10,000کیوسک پانی مختص کرنے کی منظوری دی تھی ، جس پر سندھ نے شدید احتجاج کیا اور اس فیصلے کو سی سی آئی میں چیلنج کیا ۔ اُس وقت مرکز اور سندھ میں پی پی پی کی حکومت تھی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی ، لیکن باوجود مخالفت کے دونوں کی جانب سے جمہوری طرز عمل اختیار کیا گیا ۔
جمہوری رویوں کی بدولت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق ایک مضبوط ثالث کے طور پر نظر آیا ۔ وفاقی ثالثی میں سندھ اور پنجاب کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اُس میں پنجاب و سندھ کے وزرائے اعلیٰ ، آبپاشی وزراء ، سیکریٹریز ، آبی ماہرین کے ساتھ ساتھ واپڈا ور وفاقی حکومت کے وزراء و اراکین نے حصہ لیا ۔ اس مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر ارسا کے اُس فیصلے کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیا گیا اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کو سفارشات پیش کیں ۔
وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے اُن سفارشات اور منٹس آف میٹنگ (Minutes of Meeting) کے جائزے کے بعد نہ صرف ارسا کے اُس فیصلے کو معطل کردیا بلکہ اختیارات کے ناجائز استعمال پر نگران چیئرمین ارسا شفقت مسعود کو بھی معزول کردیا اور اُس کی جگہ ارسا میں کے پی کے کے رکن عبدالرقیب کو قائم مقام چیئرمین مقرر کردیا ۔ سندھ کی جانب سے مراد علی شاہ (موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ)، نادر مگسی ، شجاع جونیجو اورملک کے مایہ ناز آبی ماہر ادریس راجپوت نے تاریخی و قانونی حقائق اور دونوں صوبوں کے مابین اس تنازعے پر ماضی میں ہوئے فیصلوں کی روشنی میں جو دلائل و نکات پیش کیے وہ نہ صرف سندھ کےPoint of View کی حمایت کرتے تھے بلکہ ملک کے مجموعی مفاد میں بھی تھے۔
یہ تمام لوگ اب بھی حیات ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مراد علی شاہ اس وقت خود سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ اس ناطے سے اُن پر اب مزید ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے صوبہ کے حق کے لیے اس معاملے کو سی سی آئی لے کر جائیں اور ساتھ ہی وفاق سے سخت احتجاج کریں۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ان مسائل کا مستقل حل صوبائی خودمختاری ہے جو کہ تمام یونٹس کے حقوق کی ضمانت بھی ہے اور صوبوں کے آپس میں اور صوبوں کے وفاق کے ساتھ پائیدار مراسم کا بھی اہم و مضبوط میثاق ثابت ہوگا۔
اس لیے اگر حکومت واقعی میں ملک میں آبی مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو وہ غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاروں صوبوں کی اسمبلیوں اور آبی ماہرین کے ساتھ مل کرڈیلٹا کی بحالی سے لے کر دیا میر بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے تک اور بھارت سے مذاکرات میں بھی دریائے سندھ پر سندھ کے ازلی و تاریخی حق رکھنے والے موقف کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں پانی ضایع ہونے جیسی بے تکی ، مضحکہ خیزاور نان ٹیکنیکل باتوں کا گردان بن بند کرکے سنجیدہ اور ملک کے مجموعی مفاد پر مبنی پانی پالیسی اور منصوبے بنائے جائیں تاکہ تھر، کوہستان ، سندھ کی کوسٹل پٹی سمیت پنجاب کے میانوالی اور چولستان کی غیر آباد زمینوں تک کو آباد کیا جاسکے لیکن یہ سب پہلے سے موجود زرخیز و سرسبز زمینوں کی شادابی کو برقرار رکھ کر ہونا چاہیے نہ کہ آباد زمینوں کو غیر آباد کرکے نئی بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا جائے ، کیونکہ موجودہ پالیسی یہی ہے کہ پنجاب کی بنجر اور غیر آباد زمینوں کو پانی فراہمی کے لیے سندھ کی سرسبز اور آباد زمینوں کو بنجر بنایا جائے ۔ یہ ایک صوبے کا مفاد تو ہوسکتا ہے لیکن یہ ایک دوسرے صوبے کا نقصان اور ملک کی مجموعی ترقی کی شرح نمو کو جمود کی طرف لے جانا ہے ۔