پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈر پھٹنے کی روک تھام کیلئے ورکشاپس کا قیام
دنیا بھر میں سی این جی سب سے محفوظ فیول سمجھا جاتا ہے
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ اورگاڑیوں میں گیس سلنڈرپھٹنے اوران میں سے گیس کے اخراج کی روک تھام کے لیے سی این اجی ایسوسی ایشن کی معاونت سے مختلف سی این جی اسٹیشنوں پرگیس کٹ انسٹالیشن اورٹیسٹنگ ورکشاپس کاقیام شروع ہوگیا ہے، ابتدائی طورپر 31 سی این جی اسٹیشنوں پرورکشاپ قائم ہوگئی ہیں جبکہ نومبرکے آخرتک ان کی تعداد 100 تک بڑھائے جانے کا امکان ہے۔
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ایل پی جی کا بطورایندھن استعمال ممنوع ہے اس کے باوجود غیرقانونی طریقے سے اس کا استعمال کیا جارہا ہے جو بعض اوقات خوفناک حادثات کا سبب بنتاہے۔ پاکستان میں دہائیوں سے پیٹرول سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن رہا ہے لیکن 90 کی دہائی میں سستے ایندھن کے طور پر کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کو متعارف کروایا گیا۔ تاہم غیرمعیاری سلنڈرزکے استعمال کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں۔
مسافرگاڑیوں میں گیس سلنڈرپھٹنے سے رونما ہونے والے حادثات اوران سے ہونے والے نقصان کی مکمل تفصیلات کسی محکمے کے پاس نہیں ہیں۔ تاہم ریسکیو1122 سے دستیاب ریکارڈکے مطابق یکم ستمبر2018 سے 30 ستمبر 2019 تک یعنی ایک سال کے دوران فائرایمرجنسی کے مجموعی طورپر 19 ہزار 217 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 9069 واقعات ایل پی جی سلنڈرجبکہ 1033 واقعات سی این جی سلنڈرکی وجہ سے آگ لگنے کے ہیں۔ آگ لگنے کے حادثات بشمول گیس سلنڈر میں 79 افرادجاں بحق ہوئے، جبکہ 523 افرادکو اسپتالوں میں منتقل کیاگیا۔مجموعی طورپر 5 ہزار 490 واقعات کمرشل علاقوں ، 5 ہزار 490 واقعات رہائشی علاقوں اور 8 ہزار508 واقعات شاہراؤں اوردیگرمقامات پرپیش آئے۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث الدین پراچہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی بھی گاڑی میں سی این جی سلنڈرنہیں پھٹاہے۔ انہوں نے بتایا کہ سی این جی ہواسے ہلکی ہوتی ہے، گیس کے اخراج کاپریشرزیادہ ہونے کی وجہ سے گیس اوپرکی طرف اٹھتی ہے اورآگ لگ جاتی ہے لیکن سلنڈرنہیں پھٹتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ عرصے میں سی این جی پرپابندی کی وجہ سے اسٹیشن بندہوگئے اورسی این جی کٹ کی فٹنگ کرنے والوں کا کام بھی ٹھنڈاپڑگیاتھا، اس دوران جن گاڑیوں میں سلنڈرنصب تھے وہ ایل پی جی گیس استعمال کرنے لگے۔
غیاث الدین پراچہ نے بتایا کہ ہم نے ایک بارپھرملک بھرمیں مختلف سی این جی اسٹیشنوں پر گیس کٹ کی انسٹالیشن اوران کی ٹیسٹنگ کے لیے ورکشاپس بنانے کا فیصلہ کیا ہے ابھی 30 ورکشاپس قائم ہوگئی ہیں جبکہ نومبرکے آخرتک ان کی تعداد100 تک پہنچ جائیں گی۔ ان ورکشاپس کی ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) سے منظوری لی جارہی ہے۔
مسافرگاڑیوں میں سی این جی سلنڈر استعمال کرنے والے ایک بس ڈرائیور فیصل خان نے بتایا کہ گاڑی میں سی این جی کٹ کے ساتھ دو سلنڈر لگے جن میں دس کلو فی سلنڈر گیس بھری جا سکتی ہے، انہوں نے بتایا کہ پٹرول کے ساتھ ایک لیٹر میں چھ جبکہ سی این جی سے دس کلو میٹر فاصلہ طے ہوتا ہے اس لیے گاڑی مالکان کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر زیادہ تر مسافروں کو سگریٹ پینے سے منع کیا جاتاہے، کیونکہ اگر گیس کسی موقع پر لیک ہو تو شعلے سے حادثہ پیش آسکتا ہے۔ فیصل خان کہتے ہیں ہر چھ ماہ بعد گاڑیوں کی چیکنگ متعلقہ محکمہ کے افسران کرتے ہیں جس کے بعد سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جاتا ہے اس ضمن میں وہ محکمہ کو فیس بھی ادا کرتے ہیں۔
ملتان روڈلاہورپرکئی ایسے کاریگراورمکینک موجود ہیں جو انتہائی کم پیسوں میں گیس سلنڈر فٹ کر دیتے ہیں اور گاڑی مالکان بھی اس چیز سے بے خبر رہتے ہیں کہ سلنڈر کی فٹنگ میں کیا نقص رہ گیا ہے، ناقص سی این جی فٹنگ کے ذمہ دار صرف کاریگر ہی نہیں بلکہ گاڑی مالکان بھی ہیں جو تھوڑے سے پیسوں کی خاطر اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکتےہیں۔محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب کے حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایچ آئی ڈی پی کو ہر ضلع میں ورکشاپ کھولنی چاہیے تاکہ پی ایس ویز میں گیس کِٹس اور سلنڈرز کی کوالٹی کی جانچ کی جاسکے لیکن کوئی ورکشاپ فعال نہیں اور اس سلسلے میں مطلوبہ مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے۔
غیاث الدین پراچہ کہتے ہیں چندروزپہلے میانوالی میں ایک حادثہ پیش آیا توتحقیق کے بغیرہی یہ کہا گیا کہ ایمبولینس میں موجود سی این جی سلنڈرپھٹ گیا ہے، اس واقعہ کے بعد ہماری ٹیم وہاں پہنچی اورتحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ایمبولینس میں موجود آکسیجن سیلنڈر پھٹنے سے جانی نقصان ہواہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان میں آج تک سی این جی کا کوئی سرٹیفائیڈ سلنڈر نہیں پھٹا، حادثوں کے موجب بننے والے سلنڈر کسی دوسری گیس کے استعمال والے جوڑ دار سلنڈرہوتے ہیں اور بدنامی سی این جی کو ملتی ہے جبکہ دنیا بھر میں سی این جی سب سے محفوظ فیو ل سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل پی جی بلند شعلے والی گیس ہے، یہ ہوا سے بھاری ہوتی ہے اس لئے لیک ہونے کی صورت میں گاڑی میں بھر کر نقصان کا سبب بنتی ہے جبکہ سی این جی ہوا سے ہلکی ہوتی ہے اورلیکج کی صورت میں زیادہ پریشر کی وجہ سے گاڑی سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایل پی جی کو گاڑیوں میں استعمال کرنے کیلئے سی این جی کٹ میں ردوبدل کرنا پڑتا ہے جو خطرناک ثابت ہوتا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے۔
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ایل پی جی کا بطورایندھن استعمال ممنوع ہے اس کے باوجود غیرقانونی طریقے سے اس کا استعمال کیا جارہا ہے جو بعض اوقات خوفناک حادثات کا سبب بنتاہے۔ پاکستان میں دہائیوں سے پیٹرول سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن رہا ہے لیکن 90 کی دہائی میں سستے ایندھن کے طور پر کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کو متعارف کروایا گیا۔ تاہم غیرمعیاری سلنڈرزکے استعمال کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں۔
مسافرگاڑیوں میں گیس سلنڈرپھٹنے سے رونما ہونے والے حادثات اوران سے ہونے والے نقصان کی مکمل تفصیلات کسی محکمے کے پاس نہیں ہیں۔ تاہم ریسکیو1122 سے دستیاب ریکارڈکے مطابق یکم ستمبر2018 سے 30 ستمبر 2019 تک یعنی ایک سال کے دوران فائرایمرجنسی کے مجموعی طورپر 19 ہزار 217 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 9069 واقعات ایل پی جی سلنڈرجبکہ 1033 واقعات سی این جی سلنڈرکی وجہ سے آگ لگنے کے ہیں۔ آگ لگنے کے حادثات بشمول گیس سلنڈر میں 79 افرادجاں بحق ہوئے، جبکہ 523 افرادکو اسپتالوں میں منتقل کیاگیا۔مجموعی طورپر 5 ہزار 490 واقعات کمرشل علاقوں ، 5 ہزار 490 واقعات رہائشی علاقوں اور 8 ہزار508 واقعات شاہراؤں اوردیگرمقامات پرپیش آئے۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث الدین پراچہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی بھی گاڑی میں سی این جی سلنڈرنہیں پھٹاہے۔ انہوں نے بتایا کہ سی این جی ہواسے ہلکی ہوتی ہے، گیس کے اخراج کاپریشرزیادہ ہونے کی وجہ سے گیس اوپرکی طرف اٹھتی ہے اورآگ لگ جاتی ہے لیکن سلنڈرنہیں پھٹتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ عرصے میں سی این جی پرپابندی کی وجہ سے اسٹیشن بندہوگئے اورسی این جی کٹ کی فٹنگ کرنے والوں کا کام بھی ٹھنڈاپڑگیاتھا، اس دوران جن گاڑیوں میں سلنڈرنصب تھے وہ ایل پی جی گیس استعمال کرنے لگے۔
غیاث الدین پراچہ نے بتایا کہ ہم نے ایک بارپھرملک بھرمیں مختلف سی این جی اسٹیشنوں پر گیس کٹ کی انسٹالیشن اوران کی ٹیسٹنگ کے لیے ورکشاپس بنانے کا فیصلہ کیا ہے ابھی 30 ورکشاپس قائم ہوگئی ہیں جبکہ نومبرکے آخرتک ان کی تعداد100 تک پہنچ جائیں گی۔ ان ورکشاپس کی ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) سے منظوری لی جارہی ہے۔
مسافرگاڑیوں میں سی این جی سلنڈر استعمال کرنے والے ایک بس ڈرائیور فیصل خان نے بتایا کہ گاڑی میں سی این جی کٹ کے ساتھ دو سلنڈر لگے جن میں دس کلو فی سلنڈر گیس بھری جا سکتی ہے، انہوں نے بتایا کہ پٹرول کے ساتھ ایک لیٹر میں چھ جبکہ سی این جی سے دس کلو میٹر فاصلہ طے ہوتا ہے اس لیے گاڑی مالکان کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر زیادہ تر مسافروں کو سگریٹ پینے سے منع کیا جاتاہے، کیونکہ اگر گیس کسی موقع پر لیک ہو تو شعلے سے حادثہ پیش آسکتا ہے۔ فیصل خان کہتے ہیں ہر چھ ماہ بعد گاڑیوں کی چیکنگ متعلقہ محکمہ کے افسران کرتے ہیں جس کے بعد سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جاتا ہے اس ضمن میں وہ محکمہ کو فیس بھی ادا کرتے ہیں۔
ملتان روڈلاہورپرکئی ایسے کاریگراورمکینک موجود ہیں جو انتہائی کم پیسوں میں گیس سلنڈر فٹ کر دیتے ہیں اور گاڑی مالکان بھی اس چیز سے بے خبر رہتے ہیں کہ سلنڈر کی فٹنگ میں کیا نقص رہ گیا ہے، ناقص سی این جی فٹنگ کے ذمہ دار صرف کاریگر ہی نہیں بلکہ گاڑی مالکان بھی ہیں جو تھوڑے سے پیسوں کی خاطر اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکتےہیں۔محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب کے حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایچ آئی ڈی پی کو ہر ضلع میں ورکشاپ کھولنی چاہیے تاکہ پی ایس ویز میں گیس کِٹس اور سلنڈرز کی کوالٹی کی جانچ کی جاسکے لیکن کوئی ورکشاپ فعال نہیں اور اس سلسلے میں مطلوبہ مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے۔
غیاث الدین پراچہ کہتے ہیں چندروزپہلے میانوالی میں ایک حادثہ پیش آیا توتحقیق کے بغیرہی یہ کہا گیا کہ ایمبولینس میں موجود سی این جی سلنڈرپھٹ گیا ہے، اس واقعہ کے بعد ہماری ٹیم وہاں پہنچی اورتحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ایمبولینس میں موجود آکسیجن سیلنڈر پھٹنے سے جانی نقصان ہواہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان میں آج تک سی این جی کا کوئی سرٹیفائیڈ سلنڈر نہیں پھٹا، حادثوں کے موجب بننے والے سلنڈر کسی دوسری گیس کے استعمال والے جوڑ دار سلنڈرہوتے ہیں اور بدنامی سی این جی کو ملتی ہے جبکہ دنیا بھر میں سی این جی سب سے محفوظ فیو ل سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل پی جی بلند شعلے والی گیس ہے، یہ ہوا سے بھاری ہوتی ہے اس لئے لیک ہونے کی صورت میں گاڑی میں بھر کر نقصان کا سبب بنتی ہے جبکہ سی این جی ہوا سے ہلکی ہوتی ہے اورلیکج کی صورت میں زیادہ پریشر کی وجہ سے گاڑی سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایل پی جی کو گاڑیوں میں استعمال کرنے کیلئے سی این جی کٹ میں ردوبدل کرنا پڑتا ہے جو خطرناک ثابت ہوتا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے۔