پروٹیکشن ازم ڈی انڈسٹریلائزیشن کا ایک بڑا سبب
عشروں کے بعد گلوبلائزیشن چین اور امریکا کو جانے والے دوراہے پر پہنچ چکی
عشروں تک سرپٹ دوڑنے کے بعد گلوبلائزیشن ( عالمگیریت ) اب ایک دوراہے پر پہنچ چکی ہے۔ ایک راستہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف جاتا ہے جو گلوبلائزیشن کے کھلے مخالف ہیں۔ وہ دو طرف فرنٹ پر ٹیکسوں کے نفاذ، بڑے علاقائی تجارتی معاہدوں سے کنارہ کشی، اور عالمی تنظیموں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سہ رخی حکمت عملی کے ذریعے گلوبلائزیشن کی رفتار سست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس کوشش میں انھیں اپنے اتحادی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی حمایت حاصل ہے جنھوں نے بریگزٹ مہم کی قیادت کی اور اب اس پر جلدازجلد عملدرآمد چاہتے ہیں۔ دوسری جانب چین ہے جس کے صدر شی چن پنگ خود کو آزادانہ تجارت کے لیڈر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ وہ کئی بار دہراچکے ہیں کہ ان کے ملک کے دروازے وسیع سے وسیع تر ہوتے رہیں گے۔ امریکی مخالفت کے باوجود چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے تحت سرمایہ کاری کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقا کو ملانے کی جانب اچھی پیش رفت کررہا ہے۔
اسی طرح ایک بااثر گروپ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا ہے جو گلوبلائزیشن کے فوائد کو تسلیم کرتا ہے اور اس سمت میں پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر عالمی تجارت میں 40 فیصد حصہ رکھنے والے 11 ممالک نے CPTPP معاہدہ کیا جو رواں برس سے مؤثر ہوگیا۔ ان ممالک میں جاپان، ویتنام، برونائی، ملائشیا، سنگاپور، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، میکسیکو، پیرو اور چلی شامل ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں پیچھے کیوں ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں سب سے واضح تجارتی پالیسیاں ہیں۔
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 7 سب سے زیادہ پروٹیکشنسٹ ( تحفظ تجارت پر زور دینے والا ) ملک ہے۔ پچھلے بجٹ میں اصلاحات کی جانب اس وقت ایک بڑا قدم اٹھایا گیا جب 1600 اقسام کے صنعتی خام مال پر ڈیوٹیاں کم کردی گئیں۔ تاہم یہ اقدام اس وقت بے اثر ہوگیا جب 3000 مصنوعات پر نئی ریگولیٹری ڈیوٹیاں عائد کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ درآمد اشیاء پر اردو میں معلومات درج کرنے اور بھارت سے درآمدات بشمول بنیادی ضرورت کا خام مال کی بندش جیسے اقدامات بھی کیے گئے۔
تحفظ تجارت کے ضمن میں کیے گئے یہ اقدام معاشی حجم کے مزید سکڑنے کا سبب بنے گا۔ گذشتہ ہفتے جاری کی گئی ورلڈ بینک کی رپورٹ بعنوان ' ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس' کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے کم رفتار سے ترقی کرنے والا ملک ہے جہاں صنعتی پیداوار مستقل زوال کا شکار ہے اور 2018 کے بعد سے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔
پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اب تک جو اقتصادی اور معاشی پالیسیاں اختیار کی جاتی رہی ہیں وہ ملکی مفاد میں نہیں تھیں۔ پروٹیکشن ازم کے نام پر کیے گئے اقدام کا نتیجہ قبل از وقت ڈی انڈسٹریلائزیشن اور تنہائی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ پاکستان کو عالمی تجارت کے بدلتے ہوئے رجحانات کی مناسبت سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی اور دوسرے ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے پالیسیوں کو کامیاب ملکوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
اس کوشش میں انھیں اپنے اتحادی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی حمایت حاصل ہے جنھوں نے بریگزٹ مہم کی قیادت کی اور اب اس پر جلدازجلد عملدرآمد چاہتے ہیں۔ دوسری جانب چین ہے جس کے صدر شی چن پنگ خود کو آزادانہ تجارت کے لیڈر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ وہ کئی بار دہراچکے ہیں کہ ان کے ملک کے دروازے وسیع سے وسیع تر ہوتے رہیں گے۔ امریکی مخالفت کے باوجود چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے تحت سرمایہ کاری کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقا کو ملانے کی جانب اچھی پیش رفت کررہا ہے۔
اسی طرح ایک بااثر گروپ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا ہے جو گلوبلائزیشن کے فوائد کو تسلیم کرتا ہے اور اس سمت میں پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر عالمی تجارت میں 40 فیصد حصہ رکھنے والے 11 ممالک نے CPTPP معاہدہ کیا جو رواں برس سے مؤثر ہوگیا۔ ان ممالک میں جاپان، ویتنام، برونائی، ملائشیا، سنگاپور، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، میکسیکو، پیرو اور چلی شامل ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں پیچھے کیوں ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں سب سے واضح تجارتی پالیسیاں ہیں۔
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 7 سب سے زیادہ پروٹیکشنسٹ ( تحفظ تجارت پر زور دینے والا ) ملک ہے۔ پچھلے بجٹ میں اصلاحات کی جانب اس وقت ایک بڑا قدم اٹھایا گیا جب 1600 اقسام کے صنعتی خام مال پر ڈیوٹیاں کم کردی گئیں۔ تاہم یہ اقدام اس وقت بے اثر ہوگیا جب 3000 مصنوعات پر نئی ریگولیٹری ڈیوٹیاں عائد کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ درآمد اشیاء پر اردو میں معلومات درج کرنے اور بھارت سے درآمدات بشمول بنیادی ضرورت کا خام مال کی بندش جیسے اقدامات بھی کیے گئے۔
تحفظ تجارت کے ضمن میں کیے گئے یہ اقدام معاشی حجم کے مزید سکڑنے کا سبب بنے گا۔ گذشتہ ہفتے جاری کی گئی ورلڈ بینک کی رپورٹ بعنوان ' ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس' کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے کم رفتار سے ترقی کرنے والا ملک ہے جہاں صنعتی پیداوار مستقل زوال کا شکار ہے اور 2018 کے بعد سے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔
پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اب تک جو اقتصادی اور معاشی پالیسیاں اختیار کی جاتی رہی ہیں وہ ملکی مفاد میں نہیں تھیں۔ پروٹیکشن ازم کے نام پر کیے گئے اقدام کا نتیجہ قبل از وقت ڈی انڈسٹریلائزیشن اور تنہائی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ پاکستان کو عالمی تجارت کے بدلتے ہوئے رجحانات کی مناسبت سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی اور دوسرے ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے پالیسیوں کو کامیاب ملکوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔