انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹی فکیشن بظاہر غیر موثر ہے اسلام آباد ہائی کورٹ
انصارالاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت، اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ کے افسر کوکل طلب کرلیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی کا بظاہر نوٹی فکیشن غیر موثر ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کوکل طلب کرلیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ جمعیت علماء اسلام کو سنے بغیر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی، وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور انصار الاسلام نجی ملیشیا نہیں بلکہ ہماری تنظیم جمعیت علماء اسلام کا حصہ ہے، قائداعظم کے دور سے یہ تنظیم کام کر رہی ہے۔
یہ پڑھیں: خیبر پختون خوا حکومت کا انصار الاسلام پر پابندی عائد نہ کرنے کا فیصلہ
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر انصار السلام کے کارکن سیاسی جماعت کے رکن ہیں تو پھر اس پر پابندی کا نوٹی فکیشن ہی غیر موثر ہے، اگر یہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں لیکن اس کے پاس ڈنڈے تو ہیں۔ وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔
عدالت نے ہوچھا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کا موقف سنا بھی ہے یا نہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ نے ہمیں سنے بغیر پابندی لگا دی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے، کم از کم حکومت آپ سے پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے، 24 اکتوبر کو وزارتِ داخلہ نے انصارالاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی، میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، انصار کے کارکن خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں توپھر کیا ہوگا۔
عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کوکل طلب کرلیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ جمعیت علماء اسلام کو سنے بغیر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی، وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور انصار الاسلام نجی ملیشیا نہیں بلکہ ہماری تنظیم جمعیت علماء اسلام کا حصہ ہے، قائداعظم کے دور سے یہ تنظیم کام کر رہی ہے۔
یہ پڑھیں: خیبر پختون خوا حکومت کا انصار الاسلام پر پابندی عائد نہ کرنے کا فیصلہ
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر انصار السلام کے کارکن سیاسی جماعت کے رکن ہیں تو پھر اس پر پابندی کا نوٹی فکیشن ہی غیر موثر ہے، اگر یہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں لیکن اس کے پاس ڈنڈے تو ہیں۔ وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔
عدالت نے ہوچھا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کا موقف سنا بھی ہے یا نہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ نے ہمیں سنے بغیر پابندی لگا دی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے، کم از کم حکومت آپ سے پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے، 24 اکتوبر کو وزارتِ داخلہ نے انصارالاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی، میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، انصار کے کارکن خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں توپھر کیا ہوگا۔
عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔