سیلف میڈہوم میڈ اور گاڈمیڈ

فرق یہ ہے کہ عقیدوں میں اس کی ’’ماہیت‘‘ میں اختلاف ہے ’’ہویت‘‘میں نہیں

barq@email.com

سیلف میڈ،ہوم میڈ اور گاڈ میڈ پر تو بعد میں بات کریں گے کہ میڈ،میڈ میں بھی فرق ہوتاہے کہ ایک ''میڈ'' وہ ہوتاہے جو ''میڈ''نہیں ہوتا اور دوسرا میڈ بھی وہ ہوتاہے جو میڈ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی میڈ ہی میڈ ہوتاہے۔پہلے اس کتاب کا ذکر جس کانام ''گاڈمیڈ''ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی کتاب کے پہلے باب ہی نے ہمیں چونکا دیاہو، شاید اس لیے کہ اس کے لکھنے والے کے اندر ہم نے خودکو پایاہے اور اس نے جو کہا ہے وہ ع

دیکھنا ''تحریر''کی لذت کہ جو اس نے لکھا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا

بلکہ یہ ''ہی''کہنا چاہیے۔سب سے پہلے تو ہمیں اس پر اپناپتا اور نام دیکھ کر ہنسی آئی کہ ہمارے نام کے آگے ''علامہ''لکھاہوا تھا۔ جی ہاں ساتویں جماعت میں اسکول سے بھاگنے والے ایک اجڈ جاہل اور پینڈو اور''علامہ''۔ پہلے تو ہم اسے طنز سمجھے پھر خوشامد سمجھے لیکن کتاب شروع کرتے ہی پتہ چلا کہ جو اچھے ہوتے ہیں، سچے ہوتے ہیں، ان کو ہرکوئی اپنے جیسا لگتاہے۔سیدھا سا ڈاکٹرعبدالستارمنعم نام ہے اس کا، اندر سیدھے سادے الفاظ میں اپنی سیدھی سادی زندگی کا قصہ لکھاہے اس نے۔لیکن اس سادگی میں جو پرکاری اور گہرائی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ ہم پہلی بار اپنے کالم میں کسی اور کی تحریر کوجگہ دے رہے ہیں اور اس لیے دے رہے ہیں کہ یہی ہم بھی کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں سکے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں جوکہاگیاہے وہی اصل حقیقت ہے، باقی سب اداکاریاں ہیں۔

لکھتے ہیں ''آپ کو بھی زندگی میں ایسے بہت سارے لوگوں سے واسطہ پڑاہوگاجو بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہوں گے کہ میں سیلف میڈآدمی ہوں، میں نے اپنی محنت اور کاوش سے اعلیٰ مقام حاصل کیاہے، اپنی کوشش اور محض تگ ودو سے محنت مشقت کرکے علم حاصل کیا، چھوٹے چھوٹے کام کیے، تنگی ترشی میں وقت گزارا اور اب یہ مقام حاصل کیاہے لہذا میں کہہ سکتاہوں کہ میں اپنی قسمت کا خود مالک ہوں اورسیلف میڈآدمی ہوں۔ مجھے کسی نے نہیں بنایا، میں کسی کے سہارے، کسی کی سفارش یا کسی کی مدد سے اس مقام تک نہیں پہنچاہوں۔

یہ مجھے میری اپنی جدوجہد اور کاوش سے معاشرے میں حیثیت حاصل ہوئی ہے بظاہر یہ دعویٰ تو صحیح معلوم ہوتاہے کہ اس نے مشقت بھری زندگی گزاری، تنگ دستی کا سامناکیامگر ہمت نہیں ہاری اور مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں اور رواں دواں رہا۔مگرذرا دیر کے لیے کہ اس کا یہ دعویٰ سچاہے ہرگزنہیں۔کیا اس کا کوئی پیدا کرنے والا خالق نہیں ہے؟کیااس کا کوئی پالنے والا رب نہیں یا اس نے کسی ایسی کائنات میں پرورش پائی ہے جو اس کی اپنی بنائی ہوئی ہے، کیا اس کی شکل صورت خود اس نے بنائی ہے، کیا اسے عقل وشعور اور فہم وادارک کی قوتیں اس کی اپنی عطا کردہ ہیں، کیا اس نے خود یہ فیصلہ کیاتھا کہ اسے کس گھرانے میں پیدا ہوناتھا، کیا اس نے خود یہ فیصلہ کیاتھا کہ مجھے فلاں وقت پیدا ہونا ہے۔

کیا اس نے خود یہ طے کیاتھا کہ میرا قد کاٹھ اتنا ہوگا، کیا اس نے اپنے رنگ کا چناو خودکیاتھا کہ گورا چٹاہوگا یا مٹیالا یا کالا؟کیا اس نے اب یہ طے کیاہوا ہے کہ کب فوت ہوگا؟اس کی عمر کتنی طویل ہوگی ،کیا اسے معلوم ہے کہ اپنے انجام کو کیسے پہنچے گا اور پھر کہاں دفن ہوگا؟کیا وہ ماحول جو اسے فطرت نے عطاکیاہے اس کا اپنا ہے جس میں وہ پروان چڑھے گا ،کیا سوچنے سمجھنے پرکھنے اور کرنے کی صلاحیتیں اس کی اپنی ہیں یا خالق اور رب نے عطا کی ہیں۔ انسان جتنا بھی غور وحوض کرتا جائے، یہ حقیقت واضح ہوتی چلی جائے گی کہ وہ''تخلیق''ہے''خالق''نہیں ہے۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حقیر بوندنطفہ سے پیدا کیا۔ یہ نطفہ علقہ میں تبدیل ہوا اور علقہ سے مصعفہ بنا ، اس سے ہڈیاں بنیں پھر ان ہڈیوں پرگوشت چڑھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے سمیع وبصیر بناکر بھیجا، یہ اس عظیم قادر مطلق ہستی کا قائم کردہ نظام تخلیق ہے جس نے ایک منظم ومستحکم نظام کائنات چلایا ہواہے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ نظام ہستی وکائنات خودکار نہیں ہے بلکہ اس کو بنانے اور چلانے والی ایک مدبر ہستی ہے جو اس نظام کو چلارہی ہے اور وہ واحد ویکتا ذات ہے اوراس کے علاوہ بھی خدا ہوتا تو یہ نظام کب کا درہم برہم ہوچکاہوتا۔

اس کائنات کے ذرے ذرے پر اس کی حاکمیت مستحکم ہے، اس کی گرفت سے آزاد نہیں، اس کا علم کائنات کے ہر ذرے کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ علیم وخبیر اور سمیع وبصیر مالک الملک ہے۔ بادشاہ حقیقی ہے۔توگویا کوئی انسان'' سیلف میڈ'' نہیں ہوتا بلکہ ''گاڈمیڈ'' ہے۔ یہ گاڈمیڈ کا لفظ میری زبان سے اس وقت نکلا تھا جب میرے محلے کا ایک پڑھا لکھا شخص جو ایک اسکول میں استاد بھی تھا، ایک دن باتوں باتوں میں مجھ سے میرے حالات پوچھنے لگاتھا تو میں نے مختصر طور پر اپنی محنت بھری زندگی کے کچھ اوراق اس کے سامنے رکھے تو وہ گویاہوئے کہ آپ بھی میری طرح سیلف میڈ ہیں۔

اس کی بات ختم ہونے پر کہا،بھائی میں سیلف میڈ نہیں ہوں بلکہ ''گاڈمیڈ''ہوں، اس نے تھوڑی دیر توقف کے بعد کہا، آپ ٹھیک کہتے ہیں، سیلف میڈ کوئی نہیں ہوتا''۔یہ اقتباس ہم نے من وعن اس لیے پیش کیا کہ کیا انسان کیا اس کا سیلف میڈہونا۔جب کہ اس نے خود''سیلف'' کو نہیں بنایا نہ بناسکتا ہے پھر اور کیا بناپائے گا۔جہاں تک ''خدا''اور بعض لوگوں کے بے خداکائنات کے نظریے کا تعلق ہے تو یہ ایک جاہلانہ غلط العام ہے ورنہ سائنس وطبعیات بھی اس ہستی یا سپریم پاورکومانتے ہیں جو اس عظیم خودکار کارخانے کو بنانے چلانے اور متحرک رکھنے کے پیچھے کارفرما ہے۔

فرق یہ ہے کہ عقیدوں میں اس کی ''ماہیت'' میں اختلاف ہے ''ہویت''میں نہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سائنس وطبعیات بھی اس پاور اور انرجی کی تلاش میں ہے اور تلاش اس چیز کی جاتی ہے جس کی ''ہویت''کا یقین ہو نہ ہونے کا یقین ہوجائے تو پھر کوئی ڈھونڈے ہی کیوں؟ جہاں تک ناموں اور شکل وصورت کا تعلق ہے تو انسان اس کا ادارک کرہی نہیں سکتا کیونکہ انسان اس نظام کا''جزو''ہے اور ''جزو''کسی کل کا احاطہ کرہی نہیں سکتا۔ قطرہ، سمندر ذرہ ریگستان اور کسی پتے سے چمٹا ہوا کیڑا جنگل کا ادارک نہیں کرسکتا تو اس کے مالک سرچشمے اور محرک کے بارے میں کیا جان سکتاہے۔

ہرتخیل سے ماورا ہے تو

ہر تخیل میں ہے مگر موجود

ترا ادراک غیرممکن ہے

عقل محدود توہے لامحدود
Load Next Story