آزادی مارچ شروع ہو گیا ۔ کیا ہوگا

مولانا اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکومت سے ٹکراؤ نہیں چاہ رہے

msuherwardy@gmail.com

مولانا کا آزادی مارچ شروع ہو چکا ہے۔ اب تو مارچ درمیان میں ہے۔ اس لیے قیاس آرائیاں بھی درمیان میں ہیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ حکومت دباؤ میں ہے۔کیا یہ دباؤ نہیں کہ وزیر اعظم سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اگر سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا تو وزیر اعظم سعودی عرب جاتے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو سب کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ وہ ان دیکھے خوف کا شکار ہیں۔ایسے میں غلطیاں ہونے لگتی ہیں۔

وزیر اعظم نے ننکانہ میں جو تقریر کی ہے اس میں ان کا لہجہ محتاط تھا۔ ان کی تقریر اور ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ابھی دل کی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ دباؤ میں ہیں۔ آج عمران خان بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں نواز شریف کھڑے تھے۔ آج عمران خان بھی اس مقام پر ہیں۔ جب ان کے استعفیٰ کی بات ہو رہی ہے وہ جوابی حملہ نہیں کر سکتے۔ صرف دفاع کر سکتے ہیں۔ عمران خان کے لیے یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ ادھر مولانا اپنے گیم کو سنبھال کر رکھ رہے ہیں۔ یہ مارچ ایک دکھاؤا لگ رہا ہے۔ بظاہر مولانا کی حکمت عملی یہ سمجھ آرہی کہ وہ اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے آرام سے اسلام آباد پہنچ جائیں۔ مولانا اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکومت سے ٹکراؤ نہیں چاہ رہے۔ اسی لیے جب ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن نے حکومت سے معاہدہ ختم کرنے کی بات کی تو مولانا نے اس کی تردید کر دی۔ کیونکہ یہ معاہدہ مولانا کو اپنی طاقت اسلام آباد میں جمع کرنے کا بھر پور موقع دے رہا ہے۔ اس لیے مولانا نے اپنے لوگوں کو ہدایات دی ہیں کہ سب اسلام آباد پہنچیں۔ مارچ کے ساتھ چلنا ضروری نہیں ہے۔ اسلام آباد پہنچنا ضروری ہے۔

اب جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو ابھی تک جو تعداد مولانا کے ساتھ ہے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں اور مارچ کی تعدا د سے زیاد ہ ہے۔کراچی سے سکھر تک بھی تعداد مناسب تھی لیکن سکھر سے تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ مولانا کے ساتھ تعداد جس طرح بڑھ رہی ہے ، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انھیں اپنی منزل اتنی ہی قریب نظر آرہی ہے۔

ابھی بلوچستان سے چلنے والے قافلے ساتھ نہیں ملے ہیں۔ ابھی کے پی سے آنے والے لوگ ساتھ نہیں ہیں۔ ان سب کے بغیر مولانا ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس لیے اگر اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد پہنچ گئے تو کیا ہوگا۔ پنجا ب کے داخلی راستوں پر مولانا کو روکنے کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا۔ عوام کی تعداد دیکھ کر اس کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے بارڈر پر مولانا کی آمد سے پہلے ہی پولیس کی نفری کم کر دی گئی تھی۔ سڑکیں بھی کھول دی گئی ہیں۔کنٹینر بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔


اب سوال یہ ہے کہ پنجاب میں ن لیگ مولانا کے مارچ میں کتنا رنگ بھر سکتی ہے۔ اگر پنجاب سے ن لیگ ایک بڑی قوت میں مولانا کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے تو منظر بہت تبدیل ہو جائے گا۔ اگر جی ٹی روڈ پر ن لیگ کے کارکن نکل آتے ہیں تو مارچ جم غفیر بن جائے گا۔ اس کا اسلام آباد پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔ عوام کی اتنی بڑی تعداد کو ایک جگہ روکنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے جیسے جیسے مارچ میں عوام کی تعداد بڑھ رہی ہے مجھے حکومت کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا بھی نظر آرہا ہے۔

کے پی سے بھی اگر بڑی تعداد اسلام آباد پہنچ جاتی ہے تو یقینا اسلام آباد میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا حکومت اور مولانا دونوں کے لیے نا ممکن ہو جائے گا۔ آپ اس کا عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں سے موازنہ نہیں کر سکیں گے۔ ان کے چند ہزار لوگ کنٹرول کرنے آسان تھے۔ یہاں تو مجمع لاکھوں میں پہنچتا نظر آرہا ہے۔ اس کو کنٹرول کرنا عملی طور پر ناممکن ہو جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ اسلام آباد پہنچ کر کیا ہوگا؟ کیا مولانا ایک جلسہ کر کے گھر چلے جائیں گے؟ حکومت کے دوست دعویٰ کر رہے ہیں کہ بات ہو گئی ہے، مولانا زیادہ مسائل پیدا نہیں کریں گے۔ وہ ایک نئی ڈیڈ لائن دیکر واپس چلے جائیں گے۔ یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح مولانا گھر چلے جائیں۔ لیکن جو صورتحال بن رہی ہے، اس میں نہیں لگ رہا کہ اتنے بڑے شو کے بعد مولانا آسانی سے گھر چلے جائیں گے۔ لیکن عمران خان کا استعفیٰ بھی ممکن نظر نہیں آرہا۔

مولانا نے ابھی گرم تقریریں شروع نہیں کی ہیں۔ پہلے دن انھوں نے نرم تقاریر کی ہیں۔ کیا وہ بھی گرم تقاریر اسلام آباد پہنچ کر شروع کریں گے یا پنجاب میں گرم تقاریر شروع ہو جائیں گے۔ ہم گرم تقاریر کس کو کہہ رہے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے۔ کیا اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیا جائے گا۔ خدشہ ہے کہ جب ماحول بن جائے گا۔ لوگوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ اسلام آباد قریب آجائے گا تو لہجہ بھی بدل جائے گا۔ مطالبے بھی بدل جائیں گے اور ٹارگٹ بھی بدل جائے گا۔

ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ آخر کیا ہوگا؟ اسکرپٹ کیا ہے؟ لوگ نئے وزیر اعظم کی بات کر رہے ہیں، لوگ تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ عمران خان کا جانا آسان بھی نہیں ہے لیکن صورتحال ایسی بن رہی ہے کہ ان کے جائے بغیر گزارا بھی نظر نہیں آرہا۔ کیا ملک نئے انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیا دھاندلی مان لی جائے گی اور نئے انتخابات پر بات ختم ہو جائے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ اپوزیشن کسی جوڈیشل کمیشن پر مانے گی۔ شاید اب عدلیہ کے ریفری بننے کا ماحول ہی نہیں رہا۔ اب کوئی نیا حل تلاش کرنا ہوگا۔ عمران خان کو اس وقت نئے انتخابات قبول نہیں ہوںگے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک سال کی کارکردگی اتنی بری ہے کہ ابھی عوام کے پاس نہیں جایا جا سکتا۔ لیکن مولانا کے ساتھ جتنے لوگ آرہے ہیں ان کو خالی ہاتھ گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔
Load Next Story