معا شرے کے قابل احترام لوگ
اعجاز غنی بہار میں پیدا ہوئے اور اپنی جوانی کے آغاز ہی میں مشرقی پاکستان چلے گئے۔ ڈھاکہ میں انھوں نے۔۔۔
ہرمعاشرے میں معاشرتی احترام کا تعین اقتصادی نظام کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت میں بد عنوانیاں،منافع خوری،کرپشن شامل ہیںاس معاشرے میں حب الوطنی، عوام دوستی، اخلاص، ایمانداری جیسی خصوصیات کو نا اہلی تصور کیا جاتاہے۔ معاشرتی احترام کی بنیاد دولت ہوتی ہے، عموماً دولت مند شخص کو معاشرے میں بڑا آدمی مانا جاتاہے۔
کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے میں دو قسم کے لوگ اور جماعتیں پائی جاتی ہیں، ایک قسم وہ ہوتی ہے جو اس کرپٹ نظام کو بحال دیکھنا چاہتی ہے یعنی STATUS QUO کی حامی ہوتی ہے، انسانوں اور جماعتوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو نا انصافیوں پر مبنی نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، نظام کی حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہنے والے چونکہ مادی وسائل سے محروم ہوتے ہیں اس لیے STATUS QUO کے حامیوں کے مقابلے میں نہ صرف کمزور ہوتے ہیں بلکہ گمنام زندہ رہتے ہیں اور گمنامی میں مرجاتے ہیں۔
عوام کی زندگیوں کو بدلنے کی جدوجہد میں تنگ دستیوں کے ساتھ دارورسن کی آزمائشوں سے گزرنے والے ان عظیم انسانوں کو معاشرتی احترام ملنا چاہیے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں لیکن اس نظام زر کی دنیا میں ایسے عظیم انسان دنیا بلکہ خود ان عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں جن کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے وہ ساری زندگی جد و جہد کرتے رہتے ہیں، یہ ایک ایسا المیہ ہے جو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں دیکھا جاسکتاہے۔ یہ وہ گمنام سپاہی ہیں جو اپنی یادگاروں سے بھی محروم ہیں جب کہ بے مقصد جنگوں میں مارے جانے والے گمنام سپاہیوں کی یادگاریں بھی ہوتی ہیں ان کا احترام بھی کیاجاتاہے۔
میرے ایک افسانوی مجموعے ''ستائے ہوئے لوگ'' کا تعارف لکھتے ہوئے اردو ادب کی ایک معروف شخصیت شکیل عادل زادہ نے ایک دلچسپ اور انتہائی معنی خیز جملہ لکھا تھا ''جان دینا ہی ایک بڑی قربانی نہیں بلکہ اس سے بڑی قربانی سامنے رکھی ہوئی آسائشوں کو ٹھوکر مارکر صعوبتوں کی زندگی کو اپناناہے'' میں آج جس دوست کا ذکر کررہاہوں ان کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتاہے جنہوں نے سامنے رکھی ہوئی آسائشوں کو ٹھوکر مار کر کانٹوں بھری زندگی کو اپنایا، ساری زندگی عوام کی تقدیر بدلنے کی لڑائی میں شامل رہے اور خود اپنی تقدیر بدلنے کے ہر موقع کو ٹھکرادیا۔ اس عظیم انسان کا نام اعجاز غنی تھا۔
اعجاز غنی بہار میں پیدا ہوئے اور اپنی جوانی کے آغاز ہی میں مشرقی پاکستان چلے گئے۔ ڈھاکہ میں انھوں نے پارٹی جوائن کی اور ڈھاکہ ہی میں انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اس عملی قابلیت کی وجہ وہ بڑی آسانی سے کسی کالج یا یونیورسٹی میں جگہ حاصل کرکے رائج الوقت پر مسرت زندگی گزارسکتے تھے لیکن اس عومی مجاہد نے اس پر تعیش زندگی کو لات مارکر مشرقی پاکستان کی پارٹی جوائن کی اور اپنی دانشورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پارٹی کے رہنماؤں میں اپنی جگہ بنائی، مشرقی پاکستان کے مشہور ترقی پسند رہنما صوفی سکندر اور پروفیسر مظفر کے قریبی نظریاتی دوستوں میں ان کا شمار ہوتاتھا۔
مشرقی پاکستان کے بعد وہ کراچی آئے اور کراچی میں معروف دانشوروں محمد میاں، پروفیسر اقبال اور علی مختار رضوی وغیرہ کے ساتھ دانشورانہ محفلوں کی زینت بنے رہے چونکہ اعجاز غنی کی انگریزی بہت اچھی تھی وہ ڈان، اسٹار ،میگ وغیرہ میں لکھتے رہے لیکن کسی اخبار میں اپنی آزاد روی کی وجہ سے ملازمت نہ کی یہاں مزدور، کسان پارٹی میں شامل ہوئے، کوئی دس سال سے سانس کی بیماری میں مبتلا تھے، نیپا کے قریب جنید پلازہ کی چوتھی منزل پر رہتے تھے یہیں پچھلے ماہ ان کا انتقال ہوا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ STATUS QUO کی حامی سیاسی جماعتوں کے خاندانی رہنماؤں، ان کے مصاحبین اور ان کی اولاد کو جو ساری زندگی لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں ایک دنیا جانتی ہے، میڈیا انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتاہے وہ ساری زندگی عیش و عشرت میں گزارتے ہیں، پھر بھی معاشرے کے قابل احترام لوگ کیسے بن جاتے ہیں اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور جو ساری زندگی استحصالی نظام کو بدلنے کی جد وجہد کرتاہے کیوں گمنام زندگی گزارتاہے اور گمنام موت مرجاتاہے؟ نظام کو بدلنے کے بلندبانگ دعوے تو بہت سارے سیاست دان کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ سیاست دان اسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ایسے سیاست دانوں کے دعوے عوام کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے، اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی دھوکا بازوں کو تو عوام سر پر بٹھالیتے ہیں اور میڈیا بھی انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتاہے لیکن وہ مخلص اور نظریاتی لوگ جو اس نا منصفانہ استحصالی نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں ساری زندگی لگادیتے ہیں وہ عوام اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل کیوں رہتے ہیں۔؟
یہ سوال بہ ظاہر ایسا لگتاہے کہ اس سوال کا مقصد شہرت کا حصول ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا اصل مقصد قوم ملک اور غریب عوام تک ان نظریات کلی رسائی ہے جو نظام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اعجاز غنی جیسے سیکڑوں دوستوں کو میں جانتاہوں جو انتہائی نا مساعد حالات میں زندگی گزارتے رہے اس جدوجہد میں اپنے ہی نہیں اپنے خاندان، اپنی اولاد کا مستقبل بھی تباہ کردیا، ان قربانیوں کا اتنا تو صلہ ملنا چاہیے کہ ان کے نظریات عوام تک پہنچیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ STATUS QUO کو توڑنے کی جد و جہد کرنیوالے افراد اور جماعتیں مادی وسائل سے محروم رہتے ہیں اور عوام تک پہنچنے کے لیے ایسا ذریعہ ہے جو چاہے تو ان لوگوں کو ان کے نظریات کو عوام تک پہنچاسکتا ہے جو واقعی اس نظام زر کو بدلنے میں مخلص ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ میڈیا بھی نظام کو بدلنے کی بات دھڑلے سے کررہاہے لیکن اس پر ٹاک شو نہیں STATUS QUO کے حامی بیٹھے ایک دوسرے کے پول کھولتے نظر آتے ہیں ان ٹاک شوز میں اعجاز غنی جیسے لوگ کیوں نظر نہیں آتے جو STATUS QUO کو توڑنے، اس ظالمانہ نظام کو بدلنا اپنی نظریات ذمے داری اور مقصد حیات سمجھتے ہیں۔؟
آج ساری دنیا ایک ہیجانی دور سے گزررہی ہے دنیا کے 7ارب عوام اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جس نے صدبوں سے انھیں غلام بنائے رکھا ہے۔ انھیں احساس ہورہاہے کہ ان کی محنت سے ایک مٹھی بھر طبقہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہا ہے اور محنت کرنے والے 90فیصد سے زیادہ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں، دنیا بھر کے عوام اس معاشی نا انصافی، سماجی عدم مساوات، سیاسی اجارہ داریوں اور خاندانی حکمرانیوں سے نجات چاہتے ہیں اور انھیں اس نظام ظلم سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک سیاست ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں آجاتی جو اس استحصالی نظام کو بدلنا اپنی زندگی کا مشن بنائے ہوئے ہیں۔
میڈیا آج کل وہ سب سے بڑی اور موثر طاقت ہے جو بے وسیلہ لیکن نظام بدلنے کے حوالے سے مخلص لوگوں اور جماعتوں کو عوام میں بڑے پیمانے پر متعارف کراسکتاہے۔ جب یہ مخلص لوگ اور ان کے انقلابی نظریات عوام تک پہنچیںگے تو عوام میں بیداری پیدا ہوگی، عوام کو ایک بہتر عوام دوست قیادت ملے گی یوں تبدیلی کا وہ راستہ ہموار ہوگا جس پر اعجاز غنی جیسے ہزاروں لوگ زندگی بھر چلتے رہے یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو معاشرے میں قابل احترام رہے بھی ہیں اور قابل توقیر بھی کیونکہ یہ تبدیلیوں کے عمل کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے میں دو قسم کے لوگ اور جماعتیں پائی جاتی ہیں، ایک قسم وہ ہوتی ہے جو اس کرپٹ نظام کو بحال دیکھنا چاہتی ہے یعنی STATUS QUO کی حامی ہوتی ہے، انسانوں اور جماعتوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو نا انصافیوں پر مبنی نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، نظام کی حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہنے والے چونکہ مادی وسائل سے محروم ہوتے ہیں اس لیے STATUS QUO کے حامیوں کے مقابلے میں نہ صرف کمزور ہوتے ہیں بلکہ گمنام زندہ رہتے ہیں اور گمنامی میں مرجاتے ہیں۔
عوام کی زندگیوں کو بدلنے کی جدوجہد میں تنگ دستیوں کے ساتھ دارورسن کی آزمائشوں سے گزرنے والے ان عظیم انسانوں کو معاشرتی احترام ملنا چاہیے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں لیکن اس نظام زر کی دنیا میں ایسے عظیم انسان دنیا بلکہ خود ان عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں جن کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے وہ ساری زندگی جد و جہد کرتے رہتے ہیں، یہ ایک ایسا المیہ ہے جو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں دیکھا جاسکتاہے۔ یہ وہ گمنام سپاہی ہیں جو اپنی یادگاروں سے بھی محروم ہیں جب کہ بے مقصد جنگوں میں مارے جانے والے گمنام سپاہیوں کی یادگاریں بھی ہوتی ہیں ان کا احترام بھی کیاجاتاہے۔
میرے ایک افسانوی مجموعے ''ستائے ہوئے لوگ'' کا تعارف لکھتے ہوئے اردو ادب کی ایک معروف شخصیت شکیل عادل زادہ نے ایک دلچسپ اور انتہائی معنی خیز جملہ لکھا تھا ''جان دینا ہی ایک بڑی قربانی نہیں بلکہ اس سے بڑی قربانی سامنے رکھی ہوئی آسائشوں کو ٹھوکر مارکر صعوبتوں کی زندگی کو اپناناہے'' میں آج جس دوست کا ذکر کررہاہوں ان کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتاہے جنہوں نے سامنے رکھی ہوئی آسائشوں کو ٹھوکر مار کر کانٹوں بھری زندگی کو اپنایا، ساری زندگی عوام کی تقدیر بدلنے کی لڑائی میں شامل رہے اور خود اپنی تقدیر بدلنے کے ہر موقع کو ٹھکرادیا۔ اس عظیم انسان کا نام اعجاز غنی تھا۔
اعجاز غنی بہار میں پیدا ہوئے اور اپنی جوانی کے آغاز ہی میں مشرقی پاکستان چلے گئے۔ ڈھاکہ میں انھوں نے پارٹی جوائن کی اور ڈھاکہ ہی میں انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اس عملی قابلیت کی وجہ وہ بڑی آسانی سے کسی کالج یا یونیورسٹی میں جگہ حاصل کرکے رائج الوقت پر مسرت زندگی گزارسکتے تھے لیکن اس عومی مجاہد نے اس پر تعیش زندگی کو لات مارکر مشرقی پاکستان کی پارٹی جوائن کی اور اپنی دانشورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پارٹی کے رہنماؤں میں اپنی جگہ بنائی، مشرقی پاکستان کے مشہور ترقی پسند رہنما صوفی سکندر اور پروفیسر مظفر کے قریبی نظریاتی دوستوں میں ان کا شمار ہوتاتھا۔
مشرقی پاکستان کے بعد وہ کراچی آئے اور کراچی میں معروف دانشوروں محمد میاں، پروفیسر اقبال اور علی مختار رضوی وغیرہ کے ساتھ دانشورانہ محفلوں کی زینت بنے رہے چونکہ اعجاز غنی کی انگریزی بہت اچھی تھی وہ ڈان، اسٹار ،میگ وغیرہ میں لکھتے رہے لیکن کسی اخبار میں اپنی آزاد روی کی وجہ سے ملازمت نہ کی یہاں مزدور، کسان پارٹی میں شامل ہوئے، کوئی دس سال سے سانس کی بیماری میں مبتلا تھے، نیپا کے قریب جنید پلازہ کی چوتھی منزل پر رہتے تھے یہیں پچھلے ماہ ان کا انتقال ہوا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ STATUS QUO کی حامی سیاسی جماعتوں کے خاندانی رہنماؤں، ان کے مصاحبین اور ان کی اولاد کو جو ساری زندگی لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں ایک دنیا جانتی ہے، میڈیا انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتاہے وہ ساری زندگی عیش و عشرت میں گزارتے ہیں، پھر بھی معاشرے کے قابل احترام لوگ کیسے بن جاتے ہیں اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور جو ساری زندگی استحصالی نظام کو بدلنے کی جد وجہد کرتاہے کیوں گمنام زندگی گزارتاہے اور گمنام موت مرجاتاہے؟ نظام کو بدلنے کے بلندبانگ دعوے تو بہت سارے سیاست دان کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ سیاست دان اسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ایسے سیاست دانوں کے دعوے عوام کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے، اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی دھوکا بازوں کو تو عوام سر پر بٹھالیتے ہیں اور میڈیا بھی انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتاہے لیکن وہ مخلص اور نظریاتی لوگ جو اس نا منصفانہ استحصالی نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں ساری زندگی لگادیتے ہیں وہ عوام اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل کیوں رہتے ہیں۔؟
یہ سوال بہ ظاہر ایسا لگتاہے کہ اس سوال کا مقصد شہرت کا حصول ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا اصل مقصد قوم ملک اور غریب عوام تک ان نظریات کلی رسائی ہے جو نظام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اعجاز غنی جیسے سیکڑوں دوستوں کو میں جانتاہوں جو انتہائی نا مساعد حالات میں زندگی گزارتے رہے اس جدوجہد میں اپنے ہی نہیں اپنے خاندان، اپنی اولاد کا مستقبل بھی تباہ کردیا، ان قربانیوں کا اتنا تو صلہ ملنا چاہیے کہ ان کے نظریات عوام تک پہنچیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ STATUS QUO کو توڑنے کی جد و جہد کرنیوالے افراد اور جماعتیں مادی وسائل سے محروم رہتے ہیں اور عوام تک پہنچنے کے لیے ایسا ذریعہ ہے جو چاہے تو ان لوگوں کو ان کے نظریات کو عوام تک پہنچاسکتا ہے جو واقعی اس نظام زر کو بدلنے میں مخلص ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ میڈیا بھی نظام کو بدلنے کی بات دھڑلے سے کررہاہے لیکن اس پر ٹاک شو نہیں STATUS QUO کے حامی بیٹھے ایک دوسرے کے پول کھولتے نظر آتے ہیں ان ٹاک شوز میں اعجاز غنی جیسے لوگ کیوں نظر نہیں آتے جو STATUS QUO کو توڑنے، اس ظالمانہ نظام کو بدلنا اپنی نظریات ذمے داری اور مقصد حیات سمجھتے ہیں۔؟
آج ساری دنیا ایک ہیجانی دور سے گزررہی ہے دنیا کے 7ارب عوام اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جس نے صدبوں سے انھیں غلام بنائے رکھا ہے۔ انھیں احساس ہورہاہے کہ ان کی محنت سے ایک مٹھی بھر طبقہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہا ہے اور محنت کرنے والے 90فیصد سے زیادہ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں، دنیا بھر کے عوام اس معاشی نا انصافی، سماجی عدم مساوات، سیاسی اجارہ داریوں اور خاندانی حکمرانیوں سے نجات چاہتے ہیں اور انھیں اس نظام ظلم سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک سیاست ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں آجاتی جو اس استحصالی نظام کو بدلنا اپنی زندگی کا مشن بنائے ہوئے ہیں۔
میڈیا آج کل وہ سب سے بڑی اور موثر طاقت ہے جو بے وسیلہ لیکن نظام بدلنے کے حوالے سے مخلص لوگوں اور جماعتوں کو عوام میں بڑے پیمانے پر متعارف کراسکتاہے۔ جب یہ مخلص لوگ اور ان کے انقلابی نظریات عوام تک پہنچیںگے تو عوام میں بیداری پیدا ہوگی، عوام کو ایک بہتر عوام دوست قیادت ملے گی یوں تبدیلی کا وہ راستہ ہموار ہوگا جس پر اعجاز غنی جیسے ہزاروں لوگ زندگی بھر چلتے رہے یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو معاشرے میں قابل احترام رہے بھی ہیں اور قابل توقیر بھی کیونکہ یہ تبدیلیوں کے عمل کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔