ویت نام کی فتح یا شکست

’’تم ہمارے دس آدمی مارو، ہم تمھارا ایک آدمی ماریں گے۔دیکھتے ہیں تم کب تک لڑتے ہو۔تم بہت جلد تھک جاؤ گے۔

shaikhjabir@gmail.com

''تم ہمارے دس آدمی مارو، ہم تمھارا ایک آدمی ماریں گے۔دیکھتے ہیں تم کب تک لڑتے ہو۔تم بہت جلد تھک جاؤ گے۔''یہ الفاظ ہیں ویت نام کے عظیم جنرل جیاپ کے ہیں ، جو انھوں نے فرانسیسیوں سے کہے تھے۔گزشتہ کالم میں بھی ہم نے تذکرہ کیا تھا کہ عوام و خواص میں بہت سے مغالطے راہ پا جاتے ہیں ۔مثال کے طور پریہ کہ جنگیں جذبے سے نہیں بلکہ اعلیٰ ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔جنرل جیاپ عسکری تاریخ کا وہ عظیم جنرل ہے جس نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں دومرتبہ اس مغالطے کوغلط ثابت کر دکھایا۔

اُس نے دو بڑی عالمی طاقتوں،فرانس اور امریکا کویکے بعد دیگرے جنگی شکست سے دوچار کیا۔ پہلی انڈو چائنا جنگ (1946-1954)اوردوسری ویت نام جنگ(1960-1975)دونوں جنگوں میں آپ پرنسپل کمانڈر تھے۔خاص کر ویت نام کی جنگ میں آپ کا کردار ''ہو چی منھ'' کے اہم ساتھی اور ہم پلہ کا نظر آتا ہے۔جنرل جیاپ نے بے تیغ سپاہیوں سے کام لے کر تیغ و تبر کے منہ پھیر دیے۔ویت نام کے اس عظیم سپوت اور نام ور جنرل ''وُو نیگن جیاپ'' (25اگست1911تا 4اکتوبر2013)کا گذشتہ جمعے کو 102برس کی عمرمیں انتقال ہوا۔جنگی حکمتِ عملی ،خاص کر گوریلا جنگ کے عالمی ماہرین میں آپ کا اونچا مقام ہے۔

ویت نام کی جنگ(یکم نومبر1955تا 30اپریل1975) قریباً19برس،5ماہ،4ہفتے اور ایک دن جاری رہی۔یہ جنگ امریکی سامراج کے توسیع پسندانہ اور دہشت گردانہ کردار کا بھیانک رخ ہے۔ایک اندازے کے مطابق ویت نام کے عام ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 20لاکھ تک ہو سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ صرف ایک جنگ میں20لاکھ شہریوں کو ہلاک کر دینے والوں کوحقوقِ انسانی کا پاسبان کیسے مان لیا جائے؟جب کہ اس جنگ کا کوئی واضح مقصد بھی نظر نہیں آتا ۔زیادہ سے زیادہ اسے کمیونسٹوں کے خلاف امریکی سامراج کی جنگ کہا جا سکتا ہے۔

اس جنگ سے خود امریکا کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی تاریخی ہے۔امریکا کے دیگر نقصانات اس کے علاوہ تھے۔ مثال کے طور پر،صرف 1965سے 1975کے دوران امریکا کاصرف اس جنگ پر 111ملین ڈالر کا خرچ ہوا۔اس کی بہ دولت امریکی بجٹ خسارے کا شکار ہو گیا۔جنگ میں 30لاکھ سے زائد امریکی سپاہیوں نے حصہ لیا۔15لاکھ باقاعدہ جنگ میں شریک تھے۔جیمز ای ویسٹ ہیڈر لکھتا ہے''امریکی مداخلت کے دنوں میں 1968میں 543,000امریکی سپاہی ویت نام میں تھے۔لیکن جنگ میں شریک سپاہی صرف 80,000ہی تھے۔''جنگ کے خاتمے تک ہلاک ہونے والے امریکی سپاہیوں کی تعداد 58,220تک پہنچ گئی تھی۔150,000سے زائد زخمی تھے اور 21,000ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے تھے۔

اس جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی سپاہیوں کی اوسط عمر23.11برس تھی۔2013کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا ویت نام کے زخمیوں ہلاک ہونے والوں کے ورثاء اور دیگر افراد و خا ندانوں کو آج بھی22ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہا ہے۔امریکا نے جنگ کے دوران کیمیائی مادے بھی بے محابا استعمال کیے۔امریکی فوج کا کہنا تھا کہ وہ کیمیکل کا استعمال پودوں اور پتوں میں چھپے ہتھیاروں کو نمایاں کرنے کے لیے کر رہے ہیں ۔یہ کیمیکل ''ڈی فولینٹس'' کہلاتے تھے ۔ان کے ڈرم خاص رنگوں کے حامل ہو اکرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایجنٹ پنک، ایجنٹ پرپل، ایجنٹ وائٹ اور سب سے خطرناک ایجنٹ اورنج۔ایجنٹ اورنج ڈائی اوکسن پر مشتمل ہوا کرتا تھا جو انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔تقریباً ساڑھے چار کروڑ لیٹر کیمیکل چھڑکا گیا۔

آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا یہ انسانیت ہے؟کیا حقوقِ انسانی کے پرچارک اسی طرح کے کردار کے حامل ہوا کرتے ہیں؟1961سے 1962کے دوران امریکی صدر کینیڈی کی انتظامیہ نے حکم دیا کی چاول کی فصلوں کو تباہ کر دیا جائے۔امریکی فضائیہ نے75,700,000لٹر کیمیکل چھڑکا۔یہ کیمیکل ساٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر چھڑکا گیا۔1965میں 42فی صد تک اراضی اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا یا گیا۔کیا یہ انسانیت ہے؟ ان خطرناک کیمیکلز سے ہونے والی بیماریوں میںپراسٹیٹ کا سرطان،سانس کی نالیوں کا سرطان،ملٹی پل مائیلوما،شوگر،بی سیل لمفو ماس،سوفٹ ٹشو سارکوما،کلورا کین،پورفھائیرا کیو ٹینا ٹارڈا،پیری فیرل نیورو پے تھی اور اسپینا بی فیڈا جیسی بیماریاں پھیلتی چلی گئیں۔اس سے بچے خاص طور پر متاثر ہوئے۔


بیماریوں سے متا ثر ہونے والوں نے کیمیکل بنانے اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی۔لیکن کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جیک بی ونسٹائن نے کیس ڈسمس کر دیا۔اپیل کی کوشش کی گئی وہ بھی منطور نہ ہو سکی۔ویت نام کی حکو مت کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے کیمیکل استعمال کرنے کے نتیجے میں ویت نام کے متاثر ہونے والے شہریوں کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے۔سوال یہ ہے کہ اس تاریخ کا حامل کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے کوئی قدغن عائد کرنے کا عندیہ دے سکتا ہے؟

یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ بہت سے دانش ور عدالتی نظام کی تعریفوں میں رطب اللسان رہتے ہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عدالتیں انصاف کسی نہ کسی نظام کے تحت فراہم کرتی ہیں۔ جب امریکا یا کسی بھی ملک کا مذہب سرمائے کی بڑھوتری قرار پا جائے تو آپ اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔کیمیکلز کی تیاری اور فروخت سے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے،اب اگر اس سے انسان مرتے ہیں تو مرا کریں۔آپ کسی بھی عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے سرمائے پر تحدید نہیں لگا سکتے۔

ویت نام جنگ کے دوران امریکا نے ویت نام پر شدید ترین بم باری کی۔70لاکھ بم برسائے گئے۔ یہ تعداد دوسری جنگِ عظیم کے دوران گرائے جانے والے امریکی بموں سے دگنی تھی۔لیکن تمام تر جنگی مظالم و جرائم کے با وجود امریکی یہ جنگ نہیں جیت سکے۔ جنرل جیاپ کی قدیم چینی جنگی حکمت عملی''سین زُو'' کے طریقوں اور گوریلا جنگ کے طریقوں نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سے نہیں جیتی جا سکتیں۔

لیکن بات یہیں تک نہیں رہ جاتی ،مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات،مقامِ عبرت یہ ہے کہ ویت نام، جنرل جیاپ اور ہو چی منھ نے جو جنگ عسکری محاذ پر قریباً بیس برس کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد جیتی ،ویت نامی وہ جنگ ذہنی، معاشرتی، سماجی، معاشی اور سیاسی محاذ پر دس برس سے بھی کم عرصے میں ہار گئے۔امریکا جس ملک کو لڑ کر فتح نہ کر سکا اُس ملک کو امریکا نے بغیر لڑے فتح کر لیا۔آج کا ویت نام وہ ویت نام نہیں جس کے لیے لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔چین کی طرح کمیونسٹ ویت نام نے بھی سرمایہ داریت کو خوش دلی سے قبول کر لیا ہے۔

جنرل جیاپ جس ملک کی آزادی کے لیے نصف صدی سے بھی زیادہ بر سرِ پیکار رہا وہ ملک چند برسوں اور چند ٹَکوں کے عوض سرمائے کا غلام ہو گیا۔آج کا ویت نام پوری طرح مغرب زدہ ہے۔ایساتاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب فاتحین خود مخالف نظریے کے مفتوح ہو گئے ہوں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اصل فتح و شکست جنگ کے میدان میں نہیں ہوتی۔اصل چیز ذہنی آزادی یا ذہنی غلامی ہے۔قومیں بعض جنگیں میدان جنگ میں جیت کر بھی ہار جاتی ہیںاور بعض قومیںبغیر کسی جنگ کے بھی فتح یاب ہو جاتی ہیں۔

ویت نام کی نئی نسل کا المیہ صرف یہ ہی نہیں کہ وہ اپنی شکست اور قربانیوں کی رائیگانیوں سے لاتعلق ہو گئی ہے۔اصل المیہ یہ ہے کہ انھیں اپنی شکست کا ادراک بھی نہیں۔
Load Next Story