کتابکارپٹ صاحب
مارٹن بوتھ کی کتاب دلچسپ ہے۔ وہ لکھتا ہے ’’میری عمر بارہ تیرہ برس کی ہوگی
NANTERRE, FRANCE:
راشد اشرف کو مشہور شکاری جم کارپٹ سے اپنے بچپن کے زمانے ہی سے ایک لگاؤ تھا۔ ان کی تحریریں پڑھتے رہتے تھے، شکار کے قصے۔ پھر جب انھوں نے مارٹن بوتھ کی لکھی اس کی داستان حیات "Carpet Sahib" پڑھی تو جی چاہا کہ یہ کتاب اردو میں بھی شایع ہو۔ چنانچہ انھوں نے محترمہ رابعہ سلیم سے جو ان کی والدہ ہیں، ترجمہ نگار ہیں ، درخواست کی اور انھوں نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی۔
مارٹن بوتھ کی کتاب دلچسپ ہے۔ وہ لکھتا ہے ''میری عمر بارہ تیرہ برس کی ہوگی جب میں اسکول کی لائبریری سے ایک کتاب محض اس کے سرورق پر بنی تصویر کی خاطر لے آیا۔ گرد پوش پر بنی تصویر ایک غراتے ہوئے شیر کا اسکیچ تھا۔ کتاب کا عنوان تھا '' کماؤں کے آدم خور'' اس سے پیشتر اسی قسم کی ایک کتاب جو پر جوش واقعات اور خونی مناظر سے بھر پور تھی ، میں خریدنے سے قاصر رہا تھا۔
وہ کتاب ایک آدم خور کے متعلق تھی جو نیروبی سے ممباسہ کے درمیان ریلوے لائن پر ، ساؤ کے مقام پر مزدوروں پر حملہ آور ہوکر انھیں جان سے مار ڈالتا تھا۔ جب میں ''کماؤں کے آدم خور'' پڑھ چکا تو مجھ میں آدم خور شیروں کے قصوں سے زیادہ اس کے بے مثال مصنف ، اس کی زندگی اور اس کے نظریات کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ جم کارپٹ برطانوی راج کا ایک رکن تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ شمالی ہندوستان میں گزارا اور وہاں وہ ایک شکاری بن گیا۔
وہ شیروں اور چیتوں کے پاؤں کے نشانات سے ان کا کھوج لگاتا اور ان کا تعاقب کرتا۔ وہ ہانکے کروا کر انھیں اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے پر مجبورکرتا اور انھیں پا پیادہ، مچان یا ہاتھی پر بیٹھ کر شکارکرتا۔ وہ ہرن ، ریچھ ، مور اور جنگلی مرغ کا بھی شکارکرتا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مچھلی کے شکارکا بھی شوقین تھا۔ بیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان اس نے آدم خوروں ، درندوں کا شکار شروع کر دیا۔ میرے نزدیک جم کارپٹ ایک ہیرو تھا۔ وہ ایک بہادر انسان تھا۔''
جم جس کا پورا نام ایڈورڈ جیمزکارپٹ تھا ، شمال ہند کے پہاڑی مقام نینی تال میں پیدا ہوا۔ یہ کئی بہن بھائی تھے۔ مارٹن بوتھ بتاتے ہیں کہ جم نے اپنے خاندانی ملازمین سے جوکچھ سیکھا اس نے جم کے لڑکپن کو ایک خاص قالب میں ڈھال دیا ، اس نے ان کی زبان سیکھ لی وہ اردو بھی اتنی ہی روانی سے بول سکتا تھا جتنی انگریزی۔
جم کارپٹ کی زندگی کا پہلا جنگل تو اس کے اپنے گھرکا پچھواڑا تھا۔ یہیں پر جنگلی درندوں کا خوف اس کے دل سے نکلا اور عمر بھر کے لیے جنگل کے قصوں ، روایات اور لوک کہانیوں کا علم حاصل کرنے کی ابتدا ہوئی۔ ریچھ اور ہرن یہاں پانی پینے آتے، جنگلی ہاتھی اور بندر بھی آتے، شیر اور چیتے بھی نمودار ہوجاتے تھے۔ جم کارپٹ نے زندگی میں پہلی بار شیر بھی یہیں دیکھا۔
مارٹن بوتھ لکھتے ہیں '' جم نے بندوق سے فائرکرنے کا پہلا تجربہ صرف پانچ سال کی عمر میں کیا۔ جم کے بڑے بھائی ٹام کا اسکول کا ایک دوست ڈیزے تھا جس کی مدد سے جم نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ چھوٹی عمر کے اس تجربے کا گہرا پائیدار اثر جم کی یاد داشت میں محفوظ ہوگیا۔''
جم کارپٹ نے ڈیزے سے ہی غلیل چلانی سیکھی اور تیرکمان کا استعمال بھی۔ جم نے کوششوں اور غلطیوں کے ساتھ ساتھ اپنے تیز مشاہدے کی بدولت رفتہ رفتہ راستے کے نشان پڑھنے کے طریقے ڈھونڈ لیے۔ مارٹن لکھتا ہے کہ جب جم نے فطری ماحول کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا تو اس کی عمر صرف سات برس تھی۔ وہ فطری ماحول کو نہ صرف سمجھنے لگا تھا بلکہ جو جانور اس کو نظر آتا وہ سوچ بچار سے اس کی درجہ بندی بھی کرنے لگا۔ جانوروں کے قدموں کے نشان سے کھوج لگانا سیکھنے کے بعد اگلا سبق ان کی بولی میں چھپے پیغام کو سمجھنا اور اس کی نقل اتارنا تھا۔ وہ ان کی حرکات اور سکنات کو بھی سمجھنے لگا تھا۔ وہ کس کیفیت میں کیا کرتے ہیں۔
مارٹن بوتھ لکھتے ہیں کہ اسکول میں تعلیمی اعتبار سے جم کوئی غیر معمولی ذہین طالب علم نہ تھا ، نہ ہی وہ کند ذہن تھا ، اوسط درجے سے ذرا بلند قابلیت کا طالب علم تھا۔ وہ سیکنڈری اسکول سے جب پاس ہوا تو اپنے مستقبل کی فکر ہوئی۔ وہ انجینئر بننا چاہتا تھا مگرگھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی تعلیم کی خواہش کو خیرباد کہنا پڑا۔ ساڑھے سترہ برس کی عمر میں وہ روزگار کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
اسے ریلوے میں فیول انسپکٹر کی ملازمت مل گئی۔ یہاں جم کے زیر انتظام علاقہ ریلوے سے دس میل دور تک جنگل کا ایک قطعہ تھا۔ 1913ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑگئی۔ جم کی عمر محاذ جنگ پر لڑنے کی نہ تھی تاہم اسے 1917ء میں بطورکیپٹن فوج میں کمیشن مل گیا۔ اس وقت تک وہ انڈین ریلوے میں اپنی محنت اور قابلیت سے بڑا مقام حاصل کرچکا تھا۔ جرمنی سے جنگ جاری تھی کہ اسے مغربی محاذ پر تعینات کیا گیا۔ مارٹن لکھتے ہیں کہ جم اس جنگ کے بارے میں بہت کم بات کرتا تھا، یہ اس کی زندگی کا وہ حصہ تھا جسے وہ بھول جانا چاہتا تھا۔ مغربی محاذ سے واپسی کے بعد جم کو پشاور بھیج دیا گیا جہاں افغانستان جنگ جاری تھی۔ یہ جنگ ختم ہوئی اور اس کے ساتھ جم کی فوجی خدمات بھی اختتام کو پہنچیں۔
یہ سب اور اس کے بعد کے واقعات جم کارپٹ کی داستان حیات کا حصہ ہیں لیکن اس کی شہرت ان واقعات سے وابستہ ہے جو جم کو جنگل کی سحر انگیز فضا میں پیش آئے۔ مارٹن نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے مگر اس سے بڑھ کر خود جم کارپٹ نے بیان کیے ہیں۔ اس کی کتاب ''جنگل کی کہانیاں'' اور '' کماؤں کے آدم خور'' میں اس کی شکاری مہمات کا موثر منظر کشی کے ساتھ ذکر ہے۔
مارٹن بوتھ لکھتے ہیں کہ جم کارپٹ ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخرکرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کوگرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔ مارٹن کہتے ہیں '' جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔''
جم کارپٹ اپنی کتاب ''کماؤں کے آدم خور'' میں لکھتے ہیں۔ '' اس کتاب میں چونکہ آدم خور شیروں اور چیتوں کے شکارکی کئی داستانوں کا تذکرہ ہے اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کا شکار شیروں اور چیتوں کی فطرت نہیں۔ میں جب ''شیر کی طرح ظالم'' یا ''شیر کی طرح خون کا پیاسا'' جیسے الفاظ لکھ دیتا ہوں تو میرے ذہن میں اپنا بچپن آجاتا ہے۔
اس وقت جب جنگل میں شیروں کی تعداد آج سے دس گنا زیادہ تھی، ایک چھوٹا سا لڑکا اپنی پرانی، شکستہ، مرمت شدہ ایک بیرل کی بندوق لیے ترائی اور بھابر کے جنگلوں میں گھومتا پھرتا تھا۔ رات ہونے پر آگ جلا کر کہیں بھی سو جاتا تھا۔ وقفوں وقفوں سے شیروں کی آواز سے جو کبھی دور ہوتے اورکبھی بالکل سر پر ہوتے اٹھ بیٹھتا اور ایک لکڑی اور آگ میں پھینک کر پھر دوبارہ سو جاتا تھا اس کا تجربہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ ننھی عمرکے اس تجربے اور جوکچھ دوسروں سے بھی جنھوں نے جنگل میں وقت گزارا تھا اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ شیر جب تک اسے ستایا نہ جائے نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس لڑکے نے دن کے وقت میں بھی جب کبھی شیر کو دیکھا تو اسے نظر انداز کرکے اپنے راستے پر چلتا رہا اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہوا تو جب تک اس کے قریب سے ہوکر گزر نہ گیا وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔''
مسز رابعہ سلیم نے مارٹن بوتھ کی کتاب '' کارپٹ صاحب '' کا بڑی محنت سے ترجمہ کیا ہے۔ ہند و پاکستان میں جم کارپٹ کی داستان زندگی کا اردو میں یہ پہلا ترجمہ ہے اور خوب ہے۔
راشد اشرف کو مشہور شکاری جم کارپٹ سے اپنے بچپن کے زمانے ہی سے ایک لگاؤ تھا۔ ان کی تحریریں پڑھتے رہتے تھے، شکار کے قصے۔ پھر جب انھوں نے مارٹن بوتھ کی لکھی اس کی داستان حیات "Carpet Sahib" پڑھی تو جی چاہا کہ یہ کتاب اردو میں بھی شایع ہو۔ چنانچہ انھوں نے محترمہ رابعہ سلیم سے جو ان کی والدہ ہیں، ترجمہ نگار ہیں ، درخواست کی اور انھوں نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی۔
مارٹن بوتھ کی کتاب دلچسپ ہے۔ وہ لکھتا ہے ''میری عمر بارہ تیرہ برس کی ہوگی جب میں اسکول کی لائبریری سے ایک کتاب محض اس کے سرورق پر بنی تصویر کی خاطر لے آیا۔ گرد پوش پر بنی تصویر ایک غراتے ہوئے شیر کا اسکیچ تھا۔ کتاب کا عنوان تھا '' کماؤں کے آدم خور'' اس سے پیشتر اسی قسم کی ایک کتاب جو پر جوش واقعات اور خونی مناظر سے بھر پور تھی ، میں خریدنے سے قاصر رہا تھا۔
وہ کتاب ایک آدم خور کے متعلق تھی جو نیروبی سے ممباسہ کے درمیان ریلوے لائن پر ، ساؤ کے مقام پر مزدوروں پر حملہ آور ہوکر انھیں جان سے مار ڈالتا تھا۔ جب میں ''کماؤں کے آدم خور'' پڑھ چکا تو مجھ میں آدم خور شیروں کے قصوں سے زیادہ اس کے بے مثال مصنف ، اس کی زندگی اور اس کے نظریات کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ جم کارپٹ برطانوی راج کا ایک رکن تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ شمالی ہندوستان میں گزارا اور وہاں وہ ایک شکاری بن گیا۔
وہ شیروں اور چیتوں کے پاؤں کے نشانات سے ان کا کھوج لگاتا اور ان کا تعاقب کرتا۔ وہ ہانکے کروا کر انھیں اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے پر مجبورکرتا اور انھیں پا پیادہ، مچان یا ہاتھی پر بیٹھ کر شکارکرتا۔ وہ ہرن ، ریچھ ، مور اور جنگلی مرغ کا بھی شکارکرتا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مچھلی کے شکارکا بھی شوقین تھا۔ بیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان اس نے آدم خوروں ، درندوں کا شکار شروع کر دیا۔ میرے نزدیک جم کارپٹ ایک ہیرو تھا۔ وہ ایک بہادر انسان تھا۔''
جم جس کا پورا نام ایڈورڈ جیمزکارپٹ تھا ، شمال ہند کے پہاڑی مقام نینی تال میں پیدا ہوا۔ یہ کئی بہن بھائی تھے۔ مارٹن بوتھ بتاتے ہیں کہ جم نے اپنے خاندانی ملازمین سے جوکچھ سیکھا اس نے جم کے لڑکپن کو ایک خاص قالب میں ڈھال دیا ، اس نے ان کی زبان سیکھ لی وہ اردو بھی اتنی ہی روانی سے بول سکتا تھا جتنی انگریزی۔
جم کارپٹ کی زندگی کا پہلا جنگل تو اس کے اپنے گھرکا پچھواڑا تھا۔ یہیں پر جنگلی درندوں کا خوف اس کے دل سے نکلا اور عمر بھر کے لیے جنگل کے قصوں ، روایات اور لوک کہانیوں کا علم حاصل کرنے کی ابتدا ہوئی۔ ریچھ اور ہرن یہاں پانی پینے آتے، جنگلی ہاتھی اور بندر بھی آتے، شیر اور چیتے بھی نمودار ہوجاتے تھے۔ جم کارپٹ نے زندگی میں پہلی بار شیر بھی یہیں دیکھا۔
مارٹن بوتھ لکھتے ہیں '' جم نے بندوق سے فائرکرنے کا پہلا تجربہ صرف پانچ سال کی عمر میں کیا۔ جم کے بڑے بھائی ٹام کا اسکول کا ایک دوست ڈیزے تھا جس کی مدد سے جم نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ چھوٹی عمر کے اس تجربے کا گہرا پائیدار اثر جم کی یاد داشت میں محفوظ ہوگیا۔''
جم کارپٹ نے ڈیزے سے ہی غلیل چلانی سیکھی اور تیرکمان کا استعمال بھی۔ جم نے کوششوں اور غلطیوں کے ساتھ ساتھ اپنے تیز مشاہدے کی بدولت رفتہ رفتہ راستے کے نشان پڑھنے کے طریقے ڈھونڈ لیے۔ مارٹن لکھتا ہے کہ جب جم نے فطری ماحول کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا تو اس کی عمر صرف سات برس تھی۔ وہ فطری ماحول کو نہ صرف سمجھنے لگا تھا بلکہ جو جانور اس کو نظر آتا وہ سوچ بچار سے اس کی درجہ بندی بھی کرنے لگا۔ جانوروں کے قدموں کے نشان سے کھوج لگانا سیکھنے کے بعد اگلا سبق ان کی بولی میں چھپے پیغام کو سمجھنا اور اس کی نقل اتارنا تھا۔ وہ ان کی حرکات اور سکنات کو بھی سمجھنے لگا تھا۔ وہ کس کیفیت میں کیا کرتے ہیں۔
مارٹن بوتھ لکھتے ہیں کہ اسکول میں تعلیمی اعتبار سے جم کوئی غیر معمولی ذہین طالب علم نہ تھا ، نہ ہی وہ کند ذہن تھا ، اوسط درجے سے ذرا بلند قابلیت کا طالب علم تھا۔ وہ سیکنڈری اسکول سے جب پاس ہوا تو اپنے مستقبل کی فکر ہوئی۔ وہ انجینئر بننا چاہتا تھا مگرگھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی تعلیم کی خواہش کو خیرباد کہنا پڑا۔ ساڑھے سترہ برس کی عمر میں وہ روزگار کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
اسے ریلوے میں فیول انسپکٹر کی ملازمت مل گئی۔ یہاں جم کے زیر انتظام علاقہ ریلوے سے دس میل دور تک جنگل کا ایک قطعہ تھا۔ 1913ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑگئی۔ جم کی عمر محاذ جنگ پر لڑنے کی نہ تھی تاہم اسے 1917ء میں بطورکیپٹن فوج میں کمیشن مل گیا۔ اس وقت تک وہ انڈین ریلوے میں اپنی محنت اور قابلیت سے بڑا مقام حاصل کرچکا تھا۔ جرمنی سے جنگ جاری تھی کہ اسے مغربی محاذ پر تعینات کیا گیا۔ مارٹن لکھتے ہیں کہ جم اس جنگ کے بارے میں بہت کم بات کرتا تھا، یہ اس کی زندگی کا وہ حصہ تھا جسے وہ بھول جانا چاہتا تھا۔ مغربی محاذ سے واپسی کے بعد جم کو پشاور بھیج دیا گیا جہاں افغانستان جنگ جاری تھی۔ یہ جنگ ختم ہوئی اور اس کے ساتھ جم کی فوجی خدمات بھی اختتام کو پہنچیں۔
یہ سب اور اس کے بعد کے واقعات جم کارپٹ کی داستان حیات کا حصہ ہیں لیکن اس کی شہرت ان واقعات سے وابستہ ہے جو جم کو جنگل کی سحر انگیز فضا میں پیش آئے۔ مارٹن نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے مگر اس سے بڑھ کر خود جم کارپٹ نے بیان کیے ہیں۔ اس کی کتاب ''جنگل کی کہانیاں'' اور '' کماؤں کے آدم خور'' میں اس کی شکاری مہمات کا موثر منظر کشی کے ساتھ ذکر ہے۔
مارٹن بوتھ لکھتے ہیں کہ جم کارپٹ ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخرکرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کوگرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔ مارٹن کہتے ہیں '' جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔''
جم کارپٹ اپنی کتاب ''کماؤں کے آدم خور'' میں لکھتے ہیں۔ '' اس کتاب میں چونکہ آدم خور شیروں اور چیتوں کے شکارکی کئی داستانوں کا تذکرہ ہے اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کا شکار شیروں اور چیتوں کی فطرت نہیں۔ میں جب ''شیر کی طرح ظالم'' یا ''شیر کی طرح خون کا پیاسا'' جیسے الفاظ لکھ دیتا ہوں تو میرے ذہن میں اپنا بچپن آجاتا ہے۔
اس وقت جب جنگل میں شیروں کی تعداد آج سے دس گنا زیادہ تھی، ایک چھوٹا سا لڑکا اپنی پرانی، شکستہ، مرمت شدہ ایک بیرل کی بندوق لیے ترائی اور بھابر کے جنگلوں میں گھومتا پھرتا تھا۔ رات ہونے پر آگ جلا کر کہیں بھی سو جاتا تھا۔ وقفوں وقفوں سے شیروں کی آواز سے جو کبھی دور ہوتے اورکبھی بالکل سر پر ہوتے اٹھ بیٹھتا اور ایک لکڑی اور آگ میں پھینک کر پھر دوبارہ سو جاتا تھا اس کا تجربہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ ننھی عمرکے اس تجربے اور جوکچھ دوسروں سے بھی جنھوں نے جنگل میں وقت گزارا تھا اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ شیر جب تک اسے ستایا نہ جائے نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس لڑکے نے دن کے وقت میں بھی جب کبھی شیر کو دیکھا تو اسے نظر انداز کرکے اپنے راستے پر چلتا رہا اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہوا تو جب تک اس کے قریب سے ہوکر گزر نہ گیا وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔''
مسز رابعہ سلیم نے مارٹن بوتھ کی کتاب '' کارپٹ صاحب '' کا بڑی محنت سے ترجمہ کیا ہے۔ ہند و پاکستان میں جم کارپٹ کی داستان زندگی کا اردو میں یہ پہلا ترجمہ ہے اور خوب ہے۔