سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیاں پہلے اقتصادی جائزہ پر باضابطہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔
افغان امن عمل میں پاکستان ایک دفعہ پھر اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہو گیا ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی استعداد کے مطابق بطور مخلص سہولت کار اور دوست افغانستان کی ہر ممکن مدد کرے گا،کیوں کہ افغانستان میں امن و استحکام اور خطے میں ترقی اور خوشحالی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔
پاکستان ایک مخلص سہولت کار کے طور پر اگرچہ یہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے مگر اس کیلئے امریکی قیادت کو بھی اپنے رویے میں اعتدال اور استقامت لانا ہوگی اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا اور پھر یہ کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان سے وقت نکلنے پر آنکھیں نہ صرف پھیری ہیں بلکہ آنکھیں دکھائی بھی ہیں اس بارے میں بھی گارنٹی دینا ہوگی کہ پاکستان کو ڈومور کی دلدل میں نہیں دھکیلا جائے گا بلکہ بدلے میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی کیونکہ اس کے علاوہ ترکی اور شام کا معاملہ ہو یا ایران و چین کا معاملہ ہو ان سب میں پاکستان کا کردار کلیدی رہے گا اور امریکہ کو عالمی سطح پر ان تمام معاملات میں فیصلہ سازی میں پاکستان کی معاونت درکار رہے گی اس کے بغیر کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔
فیٹف کے معاملہ پر ایک بار پھر چین نے امریکہ سمیت تمام ممبر ممالک کو سیاسی بنیادوں پر پاکستان کی مخالفت سے باز رہنے کا کہا ہے، یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے اس سے یقینی طور پر عالمی برادری میں پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی اور بھارت جو اس وقت مقبوضہ کشمیر میں درندگی کے باعث دنیا بھر میں رسواء ہو رہا ہے اس پر عالمی دباو مزید بڑھے گا لیکن اس صورتحال کو پاکستان کیلئے مزید مفید بنانے کیلئے پاکستان کی سیاسی قیادت کو اندرونی سطح پر درپیش چیلنجز سے بھی نمٹنا ہوگا اور سیاسی عدم استحکام و بے یقینی کی صورتحال ختم کرنا ہوگی۔
پچھلے کچھ عرصے میں اس حوالے سے کوئی امید پیدا ہونے چلی تھی مگر پھر سخت بیان بازی اور عوامی بیانیہ نے حالات کو اسی نہج پر پہنچایا جہاں سے چلے تھے، اب تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور حکومت کو قومی اسمبلی و عوامی اسمبلی میں شدید سیاسی و عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔
دوسری طرف قانونی جنگ میں بھی اب حکومت پسپائی اختیارکرتے دکھائی دے رہی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ سیاسی حالات پھر سے کروٹ بدل رہے ہیں، نئے جوڑ توڑ میں پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین بھی پھر سے اہمیت اختیار کر گئے ہیں تو سیاسی ماحول گرم کرکے مولانا فضل الرحمن نے بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ واقعی ایک زیرک اور بااثر سیاستدان ہیں اور اس وقت جو ملک میں سیاسی گہماگہمی ہے اس کا سہرہ انہی کے سر جاتا ہے کہ ایک طر ف مولانا فضل الرحمن سندھ سے آزادی مارچ لے کر ملتان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچ گئے ہیں، پتہ نہیں عمران خان کو اتنی جلدی کس بات کی تھی ابھی مولانا لاہور ہی پہنچے تھے کہ میں استعفی نہیں دوں گا اور نہ ہی این آر او دوں گا کی رٹ لگا دی، مولانا نے اس کے جواب میں حکومت کو کہا ہے کہ اب حکومت کو این آر او نہیں دوں گا، ابھی مولانا اسلام آباد پہنچے ہی نہیں کہ حکومت نے پہلے سے پورے اسلام آباد میں کنٹینر لا کر رکھ دیئے ہیں۔
اسلام آباد اور مارچ کے راستوں میں کنٹینر پہنچائے جا چکے ہیں۔ جے یو آئی ایف کے چند رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور بات مذاکرات تک آن پہنچی ہے۔ حزبِ اختلاف کی رہبر کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ مارچ کے شرکا اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے جو حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس وقت پاکستان کی تما م اپوزیشن ایک طرف کھڑی ہے اور حکومت ایک طرف۔ کسی بھی ایک ایشو پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نہیں آرہے۔
دوسری جانب محکمہ داخلہ کی جانب سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر حملے سے متعلق تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے۔تھریٹ الرٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان پر بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' اور افغان ایجنسی 'این ڈی ایس' جان لیوا حملہ کرسکتی ہیں ، جب کہ سینٹر ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
اب یہ مارچ جوں جوں اسلام آباد کے قریب آ رہا ہے، شرکاء کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور حکومتی رویہ اور لب و لہجہ بھی سخت ہوتا جا رہا ہے، دوسری طرف جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مقتدر قوتوں کے درمیان اختیارات اور بالادستی و انا کی لڑائی اتنی خوفناک ہو چکی ہے کہ معاملہ اب این آر او سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور وزیراعظم عمران خان کا مقدر قوتوں کو استعفے کی دھمکی دینے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں اور نوازشریف کی ضمانت کے کیس میں نیب کے موقف کو بھی اسی سلسلہ کی کڑی قراردیا جا رہا ہے اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسی کھچڑی پکی ہے کہ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورتحال میں کوئی ایڈونچر بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں پوری جمہوری بساط ہی لپیٹنے کا خطرہ ہے پھر تمام سیاسی جماعتوں کو اسکا خمیازہ بھگتنا ہوگا،اسی کے ساتھ ساتھ ان ہاوس تبدیلی کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں اور کہاجا رہا ہے کہ اسلام آباد میں شاہ محمود قریشی پھر سے اہمیت اختیار کر گئے ہیں لیکں یہ تمام افواہیں اپنی جگہ مگر جو عمران خان نیازی کو قریب سے جانتے ہیں انکا کہنا ہے کہ اگر ایسی صورتحال آئی تو عمران خان اسمبلیاں توڑ دے گا مگر اپنے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا، یہی نہیں اور بھی بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں ہیں، میاں محمد سومرو سمیت کئی لوگوں کی شیروانیوں کے تذکرے ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد مکمل طور پر افواہوں کی زد میں ہے۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیاں پہلے اقتصادی جائزہ پر باضابطہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ مگر دوسری جانب تاجروں نے کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جس پر حکومت کے تاجروں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے آغاز کے بعد میڈیا سے گفتگو میں حسب روایت خوشگوار دعوے کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں اور وفد نے معاشی کارکردگی کو سراہا ہے۔
معاشی استحکام نظر آرہا ہے حکومتی آمدن میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بجٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے اور ٹیکسوں کا دائرہ کار وسیع کر رہے ہیں، مگر ذرائع بتاتے ہیں کہ وفد نے بہت سے تحفظات بھی ظاہر کئے ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے حکومت کو آئی ایم ایف سے کچھ استثنیٰ لینا ہوگے، اگر یہ استثنیٰ مل جاتے ہیں تو اگلی قسط بھی مل جائے گی لیکن اس کی عوام کو مزید کیا قیمت چکانا ہوگی یہ طے ہونا ابھی باقی ہے جس کیلئے اب یہ وفد مزید کچھ دن مذاکرات کرے گا ۔
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی استعداد کے مطابق بطور مخلص سہولت کار اور دوست افغانستان کی ہر ممکن مدد کرے گا،کیوں کہ افغانستان میں امن و استحکام اور خطے میں ترقی اور خوشحالی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔
پاکستان ایک مخلص سہولت کار کے طور پر اگرچہ یہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے مگر اس کیلئے امریکی قیادت کو بھی اپنے رویے میں اعتدال اور استقامت لانا ہوگی اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا اور پھر یہ کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان سے وقت نکلنے پر آنکھیں نہ صرف پھیری ہیں بلکہ آنکھیں دکھائی بھی ہیں اس بارے میں بھی گارنٹی دینا ہوگی کہ پاکستان کو ڈومور کی دلدل میں نہیں دھکیلا جائے گا بلکہ بدلے میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی کیونکہ اس کے علاوہ ترکی اور شام کا معاملہ ہو یا ایران و چین کا معاملہ ہو ان سب میں پاکستان کا کردار کلیدی رہے گا اور امریکہ کو عالمی سطح پر ان تمام معاملات میں فیصلہ سازی میں پاکستان کی معاونت درکار رہے گی اس کے بغیر کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔
فیٹف کے معاملہ پر ایک بار پھر چین نے امریکہ سمیت تمام ممبر ممالک کو سیاسی بنیادوں پر پاکستان کی مخالفت سے باز رہنے کا کہا ہے، یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے اس سے یقینی طور پر عالمی برادری میں پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی اور بھارت جو اس وقت مقبوضہ کشمیر میں درندگی کے باعث دنیا بھر میں رسواء ہو رہا ہے اس پر عالمی دباو مزید بڑھے گا لیکن اس صورتحال کو پاکستان کیلئے مزید مفید بنانے کیلئے پاکستان کی سیاسی قیادت کو اندرونی سطح پر درپیش چیلنجز سے بھی نمٹنا ہوگا اور سیاسی عدم استحکام و بے یقینی کی صورتحال ختم کرنا ہوگی۔
پچھلے کچھ عرصے میں اس حوالے سے کوئی امید پیدا ہونے چلی تھی مگر پھر سخت بیان بازی اور عوامی بیانیہ نے حالات کو اسی نہج پر پہنچایا جہاں سے چلے تھے، اب تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور حکومت کو قومی اسمبلی و عوامی اسمبلی میں شدید سیاسی و عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔
دوسری طرف قانونی جنگ میں بھی اب حکومت پسپائی اختیارکرتے دکھائی دے رہی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ سیاسی حالات پھر سے کروٹ بدل رہے ہیں، نئے جوڑ توڑ میں پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین بھی پھر سے اہمیت اختیار کر گئے ہیں تو سیاسی ماحول گرم کرکے مولانا فضل الرحمن نے بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ واقعی ایک زیرک اور بااثر سیاستدان ہیں اور اس وقت جو ملک میں سیاسی گہماگہمی ہے اس کا سہرہ انہی کے سر جاتا ہے کہ ایک طر ف مولانا فضل الرحمن سندھ سے آزادی مارچ لے کر ملتان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچ گئے ہیں، پتہ نہیں عمران خان کو اتنی جلدی کس بات کی تھی ابھی مولانا لاہور ہی پہنچے تھے کہ میں استعفی نہیں دوں گا اور نہ ہی این آر او دوں گا کی رٹ لگا دی، مولانا نے اس کے جواب میں حکومت کو کہا ہے کہ اب حکومت کو این آر او نہیں دوں گا، ابھی مولانا اسلام آباد پہنچے ہی نہیں کہ حکومت نے پہلے سے پورے اسلام آباد میں کنٹینر لا کر رکھ دیئے ہیں۔
اسلام آباد اور مارچ کے راستوں میں کنٹینر پہنچائے جا چکے ہیں۔ جے یو آئی ایف کے چند رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور بات مذاکرات تک آن پہنچی ہے۔ حزبِ اختلاف کی رہبر کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ مارچ کے شرکا اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے جو حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس وقت پاکستان کی تما م اپوزیشن ایک طرف کھڑی ہے اور حکومت ایک طرف۔ کسی بھی ایک ایشو پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نہیں آرہے۔
دوسری جانب محکمہ داخلہ کی جانب سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر حملے سے متعلق تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے۔تھریٹ الرٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان پر بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' اور افغان ایجنسی 'این ڈی ایس' جان لیوا حملہ کرسکتی ہیں ، جب کہ سینٹر ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
اب یہ مارچ جوں جوں اسلام آباد کے قریب آ رہا ہے، شرکاء کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور حکومتی رویہ اور لب و لہجہ بھی سخت ہوتا جا رہا ہے، دوسری طرف جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مقتدر قوتوں کے درمیان اختیارات اور بالادستی و انا کی لڑائی اتنی خوفناک ہو چکی ہے کہ معاملہ اب این آر او سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور وزیراعظم عمران خان کا مقدر قوتوں کو استعفے کی دھمکی دینے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں اور نوازشریف کی ضمانت کے کیس میں نیب کے موقف کو بھی اسی سلسلہ کی کڑی قراردیا جا رہا ہے اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسی کھچڑی پکی ہے کہ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورتحال میں کوئی ایڈونچر بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں پوری جمہوری بساط ہی لپیٹنے کا خطرہ ہے پھر تمام سیاسی جماعتوں کو اسکا خمیازہ بھگتنا ہوگا،اسی کے ساتھ ساتھ ان ہاوس تبدیلی کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں اور کہاجا رہا ہے کہ اسلام آباد میں شاہ محمود قریشی پھر سے اہمیت اختیار کر گئے ہیں لیکں یہ تمام افواہیں اپنی جگہ مگر جو عمران خان نیازی کو قریب سے جانتے ہیں انکا کہنا ہے کہ اگر ایسی صورتحال آئی تو عمران خان اسمبلیاں توڑ دے گا مگر اپنے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا، یہی نہیں اور بھی بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں ہیں، میاں محمد سومرو سمیت کئی لوگوں کی شیروانیوں کے تذکرے ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد مکمل طور پر افواہوں کی زد میں ہے۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیاں پہلے اقتصادی جائزہ پر باضابطہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ مگر دوسری جانب تاجروں نے کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جس پر حکومت کے تاجروں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے آغاز کے بعد میڈیا سے گفتگو میں حسب روایت خوشگوار دعوے کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں اور وفد نے معاشی کارکردگی کو سراہا ہے۔
معاشی استحکام نظر آرہا ہے حکومتی آمدن میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بجٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے اور ٹیکسوں کا دائرہ کار وسیع کر رہے ہیں، مگر ذرائع بتاتے ہیں کہ وفد نے بہت سے تحفظات بھی ظاہر کئے ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے حکومت کو آئی ایم ایف سے کچھ استثنیٰ لینا ہوگے، اگر یہ استثنیٰ مل جاتے ہیں تو اگلی قسط بھی مل جائے گی لیکن اس کی عوام کو مزید کیا قیمت چکانا ہوگی یہ طے ہونا ابھی باقی ہے جس کیلئے اب یہ وفد مزید کچھ دن مذاکرات کرے گا ۔