مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اور سندھ کابینہ کے اہم فیصلے
مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔
جمعیت علمااسلام (ف)کے آزادی مارچ کا سہراب گوٹھ کراچی سے آغاز ہوگیا ہے، جس کے بعد مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔
سہراب گوٹھ جلسے میں اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ( ن)، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما پاکستان کے رہنماؤ ں اور کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے وفد میں سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی ، سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی ، جاوید ناگوری ، مرتضی بلوچ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وفد میں سابق گورنر سند محمد زبیر ، شاہ محمد شاہ اور نہال ہاشمی سمیت دیگر رہنما شامل تھے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے وفد کی قیادت اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کر رہے تھے۔ جمعیت علماء پاکستان کے رہنماشاہ محمد اویس نورانی بھی کارکنوں کے ہمراہ آزادی مارچ میں شرکت کے لیے سہراب گوٹھ پہنچے۔ حکومت سندھ کی جانب سے آزادی مارچ کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور شرکاء کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات تھی۔
جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ 25 جولائی کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ عمران خان کو استعفیٰ دینا ہوگا۔ بعد ازاں مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے سلسلے میں سکھر میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا، پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ سندھ کے لوگ مولانا فضل الرحمن اور مولانا خالد محمود کا کردار بھی نہیں بھولے ہیں۔عوام نے ان حکمرانوں کو مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے وعدے کے مطابق 27 اکتوبر سے اپنے آزادی مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے اور مولانا فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی کی وجہ سے ہی اپنی تحریک کا آغاز سندھ سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اب ان کو اصل چیلنج کا سامنا پنجاب میں کرنا پڑے گا۔ جہاں تک مولانا کے قافلے میں شریک افراد کی تعداد کی بات ہے ، تو سکھر روہڑی تک ہزاروں افراد ان کے قافلے میں شریک تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مرا علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں چند تاریخی فیصلے کیے گئے ہیں، جن میں خواجہ سراؤں کے لیے تمام صوبائی محکموں میں نوکریوں کا کوٹا مقرر کرنا، فزیکل اور ری ہیبلی ٹیشن سینٹر کا قیام اور بی آر ٹی کے کرائے کے اسٹریکچر کو مقرر کرنا شامل ہے۔ سندھ کابینہ نے ایک قرارداد کے ذریعے وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ سی سی آئی کا اجلاس بلائیں جس میں سندھ کی صوبائی حکومت کے حوالے سے زیر التوا مسائل پر غور کیا جائے۔
سی سی آئی اجلاس گذشتہ 11 ماہ سے نہیں ہوا ہے، اجلاس منعقد نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے توانائی، پانی اور دیگر اہم معاملات رکے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سی سی آئی اجلاس آئین کے تحت ہر 90 دن کے اندر بلانا لازمی ہے۔کابینہ اجلاس میں آئی جی سندھ کی بریفنگ پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور احکامات جاری کیے کہ منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، وزیراعلی سندھ نے اسٹریٹ کرائم پر مزید کنٹرول کرنے کی ہدایت بھی دی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے سندھ کابینہ کے اجلاس میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے کو سراہا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ ہے ،جن کا ہر شعبے میں استحصال ہورہا ہے ۔پہلی مرتبہ کسی حکومت نے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ خواجہ سرا بھی معاشرے کا کارآمد شہری بن کر زندگی بسر کرسکیں ۔صوبائی حکومت کی جانب سے فزیکل اور ری ہیبلی ٹیشن سینٹر کا قیام ،بی آر ٹی کے کرائے کے اسٹرکچر کو مقرر کرنابھی نہایت احسن اقدام ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان فیصلوں پرعملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا ہے ۔
بحیرہ عرب کی تاریخ کے طاقتور ترین سپر سائیکلون'' کیار '' کی وجہ سے کراچی کی ساحلی پٹی متاثر ہونے لگی ہے، ابراہیم حیدری کی لٹھ بستی میں سمندرکا پانی داخل ہوگیا جس سے 185 مکان متاثر ہوئے جبکہ 500 سے زائد افراد کو نکال لیا گیا۔ سمندری طوفان کی و جہ سے فشرمین کوآپریٹوسوسائٹی نے ماہی گیروں کو فوری واپسی کی ہدایت کرتے ہوئے 3 دن تک سمندر میں جانے اور شکار پر پابندی عائد کردی ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سمندی طوفان سائیکلون کیار کے اثرات بدھ سے جمعہ تک رہیں گے، اس دوران گہرے سمندر میں لہریں3 سے 4 میٹر تک بلند ہو سکتی ہیں۔ سمندری طوفان کے باعث کراچی، سجاول اور ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔اس طوفان کے زیر اثر کراچی سمیت صوبے کے دیگر ساحلی علاقوں میں بارشوں کا بھی امکان ہے۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال کے لیے تیار رہے اور عوام کو بروقت ریلیف پہنچانے کے لیے متعلقہ محکموں کو ہائی الرٹ رکھا جائے۔
سہراب گوٹھ جلسے میں اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ( ن)، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما پاکستان کے رہنماؤ ں اور کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے وفد میں سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی ، سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی ، جاوید ناگوری ، مرتضی بلوچ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وفد میں سابق گورنر سند محمد زبیر ، شاہ محمد شاہ اور نہال ہاشمی سمیت دیگر رہنما شامل تھے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے وفد کی قیادت اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کر رہے تھے۔ جمعیت علماء پاکستان کے رہنماشاہ محمد اویس نورانی بھی کارکنوں کے ہمراہ آزادی مارچ میں شرکت کے لیے سہراب گوٹھ پہنچے۔ حکومت سندھ کی جانب سے آزادی مارچ کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور شرکاء کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات تھی۔
جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ 25 جولائی کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ عمران خان کو استعفیٰ دینا ہوگا۔ بعد ازاں مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے سلسلے میں سکھر میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا، پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ سندھ کے لوگ مولانا فضل الرحمن اور مولانا خالد محمود کا کردار بھی نہیں بھولے ہیں۔عوام نے ان حکمرانوں کو مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے وعدے کے مطابق 27 اکتوبر سے اپنے آزادی مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے اور مولانا فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی کی وجہ سے ہی اپنی تحریک کا آغاز سندھ سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اب ان کو اصل چیلنج کا سامنا پنجاب میں کرنا پڑے گا۔ جہاں تک مولانا کے قافلے میں شریک افراد کی تعداد کی بات ہے ، تو سکھر روہڑی تک ہزاروں افراد ان کے قافلے میں شریک تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مرا علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں چند تاریخی فیصلے کیے گئے ہیں، جن میں خواجہ سراؤں کے لیے تمام صوبائی محکموں میں نوکریوں کا کوٹا مقرر کرنا، فزیکل اور ری ہیبلی ٹیشن سینٹر کا قیام اور بی آر ٹی کے کرائے کے اسٹریکچر کو مقرر کرنا شامل ہے۔ سندھ کابینہ نے ایک قرارداد کے ذریعے وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ سی سی آئی کا اجلاس بلائیں جس میں سندھ کی صوبائی حکومت کے حوالے سے زیر التوا مسائل پر غور کیا جائے۔
سی سی آئی اجلاس گذشتہ 11 ماہ سے نہیں ہوا ہے، اجلاس منعقد نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے توانائی، پانی اور دیگر اہم معاملات رکے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سی سی آئی اجلاس آئین کے تحت ہر 90 دن کے اندر بلانا لازمی ہے۔کابینہ اجلاس میں آئی جی سندھ کی بریفنگ پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور احکامات جاری کیے کہ منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، وزیراعلی سندھ نے اسٹریٹ کرائم پر مزید کنٹرول کرنے کی ہدایت بھی دی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے سندھ کابینہ کے اجلاس میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے کو سراہا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ ہے ،جن کا ہر شعبے میں استحصال ہورہا ہے ۔پہلی مرتبہ کسی حکومت نے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ خواجہ سرا بھی معاشرے کا کارآمد شہری بن کر زندگی بسر کرسکیں ۔صوبائی حکومت کی جانب سے فزیکل اور ری ہیبلی ٹیشن سینٹر کا قیام ،بی آر ٹی کے کرائے کے اسٹرکچر کو مقرر کرنابھی نہایت احسن اقدام ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان فیصلوں پرعملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا ہے ۔
بحیرہ عرب کی تاریخ کے طاقتور ترین سپر سائیکلون'' کیار '' کی وجہ سے کراچی کی ساحلی پٹی متاثر ہونے لگی ہے، ابراہیم حیدری کی لٹھ بستی میں سمندرکا پانی داخل ہوگیا جس سے 185 مکان متاثر ہوئے جبکہ 500 سے زائد افراد کو نکال لیا گیا۔ سمندری طوفان کی و جہ سے فشرمین کوآپریٹوسوسائٹی نے ماہی گیروں کو فوری واپسی کی ہدایت کرتے ہوئے 3 دن تک سمندر میں جانے اور شکار پر پابندی عائد کردی ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سمندی طوفان سائیکلون کیار کے اثرات بدھ سے جمعہ تک رہیں گے، اس دوران گہرے سمندر میں لہریں3 سے 4 میٹر تک بلند ہو سکتی ہیں۔ سمندری طوفان کے باعث کراچی، سجاول اور ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔اس طوفان کے زیر اثر کراچی سمیت صوبے کے دیگر ساحلی علاقوں میں بارشوں کا بھی امکان ہے۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال کے لیے تیار رہے اور عوام کو بروقت ریلیف پہنچانے کے لیے متعلقہ محکموں کو ہائی الرٹ رکھا جائے۔