ویمنز کرکٹ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

جہاں پاکستانی مرد کرکٹرز کو سری لنکا سے شکست ہوئی وہیں لڑکیوں نے بنگلہ دیش کو ٹی ٹوئنٹی سیریز ہرا کرتاریخ رقم کردی

جہاں پاکستانی مرد کرکٹرز کو سری لنکا سے شکست ہوئی وہیں لڑکیوں نے بنگلہ دیش کو ٹی ٹوئنٹی سیریز ہرا کرتاریخ رقم کردی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم کسی سے کم نہیں... زندگی کے ہر شعبے کی طرح کھیلوں میں بھی پاکستانی خواتین بڑی جرأت اور بہادری سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں مصروف ہیں؛ اور ان میں سے سب سے زیادہ پاکستانی ویمن کرکٹرز پیش پیش ہیں۔ عالمی سطح پر نام کمانے والوں میں ثنا میر سرفہرست ہیں جنہیں حال ہی میں نیویارک میں ایشین گیم چینجر ایوارڈ ملا ہے۔ وہ اس ایوارڈ کےلیے منتخب ہونے والی واحد ایشیائی کرکٹر تھیں۔ ثنا میر اس سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی کمیٹی کا حصہ بننے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ سابق کپتان کھیل سے ہٹ کر بھی جس طرح پاکستان کا نام روشن کررہی ہیں، وہ قابل ستائش ہے۔ ثنا میر ان تمام لڑکیوں کےلیے رول ماڈل ہیں جو آگے بڑھ کر منزل پانے کی جستجو اور جذبہ رکھتی ہیں۔ ثنا میر نے یہ ثابت کیا ہے کہ سچی لگن کے ساتھ سخت محنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیاجائے تو کامیابی خود آپ کی منتظر رہتی ہے۔

اور اب ذکر پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم کا۔ لاہور کے جس میدان میں پاکستانی مرد کرکٹرز کو دورے پر آنے والی سری لنکا کی کمزور ٹیم کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسی میدان پر لڑکیوں نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز ہرا کرتاریخ رقم کردی ہے۔ یقین ہے کہ اسی جذبے کے ساتھ وہ کھیل کر دو میچوں پر مشتمل ون ڈے سیریز بھی پاکستان کے نام کرنے میں کامیاب رہیں گی۔

قذافی اسٹیڈیم میں جب بھی ٹی ٹوئنٹی میچز ہوتے ہیں تو پی سی بی کوشش کرتا ہے کہ وہ فلڈلائٹس میں رکھے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کراؤڈ، گراؤنڈ پہنچ کر ان میچز کو انجوائے کرسکے۔ تاہم حیران کن طورپر ویمنز میچز میں لوگوں کو میدان تک لانے کےلیے یہ فارمولا اپنایا ہی نہیں گیا۔ بنگلہ دیش کے ساتھ سیریز کے تمام میچز دن کو رکھے گئے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ویمنز کی پہلی بار لاہور میں ہونے والی اس سیریز کےلیے ڈے اینڈ نائٹ میچز اگر صرف بجٹ مہم کی وجہ سے نہیں رکھے گئے تو یہ نہایت افسوسناک بات ہے۔


پاکستان کرکٹ بورڈ کے اثاثے اربوں میں ہیں اور وہ ویمنز کرکٹ کے فروغ کےلیے ایک بڑی رقم بھی ہر سال مختص کرتا ہے۔ تو پھر ایسی کیا مجبوری تھی کہ ویمن کرکٹرز کی حوصلہ افزائی کےلیے فلڈ لائٹس میچز شیڈول نہیں کیے گئے؟ دن میں ہونے والے ان تمام میچوں کےلیے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا دو اسٹینڈز میں ہلہ گلہ کرتے ضرور نظرآتے ہیں۔ کاش یہ قذافی اسٹیڈیم، مینز کرکٹ میچوں کی طرح ویمنز میچوں کو دیکھنے والوں سے بھی بھرا ہوتا۔

دوسری جانب کسی بھی اسپورٹس چینل پر یہ میچز براہ راست بھی نہیں دکھائے جارہے۔ پی سی بی نے یوٹیوب پر لائیو میچز دکھانے کا ضرور بندوبست کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا نام روشن کرنے والی ان ویمن کرکٹرز کےلیے حکام کا یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟

اگر وہ خواتین کرکٹ کے فروغ اور گھر سے باہر آکر اس میدان میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کےلیے نیک نیتی اور ایمانداری سے اقدامات نہیں کرسکتے تو پھر ویمنز کرکٹ بند کیوں نہیں کردیتے؟ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story