مارچ

کچھ مذہبی جماعتیں پاکستان کے ایسی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے ہیں

مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ خوش قسمتی سے حکومت نے بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا راستہ نہیں روکا اور امید ہے کہ جمع ہونے والے مظاہرین بھی اسی سمجھ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ اگرچہ یہ اجتماع عمران خان کی سیاست کے خاتمے کا تند و تیز مطالبہ کررہا ہے تاہم امید ہے کہ اس کے باوجود یہ اسلام آباد کے امن و امان(اور صفائی ستھرائی) کو متاثر نہیں کرے گا۔

''آزادی مارچ'' کا آغاز پشتون آبادی رکھنے والے کراچی کے نواحی علاقے سہراب گوٹھ سے ہوا۔ مذاکراتی ٹیم کی مسلسل کوششوں کے باوجود حکومت یہ مارچ روک نہیں سکی۔ آزادی مارچ کے قائدین یہ ثابت کرنے کے لیے سڑکوں پر نہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت ناکام ہورہی ہے، بلکہ انھیں اس بات کا خوف ہے کہ حکومت کامیاب ہورہی ہے۔ مولانا یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اس لیے وہ عمران خان کے استعفیٰ سے کم پر راضی نہیں۔ کیا وہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حیثیت کچھ زیادہ نہیں؟ ان کے نعرے''آزادی'' کا مفہوم بھی واضح نہیں۔

موجودہ حکومت کو ایک تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی جسے سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار نے برباد کیا، بدقسمتی یہ ہے کہ مولانا ایک ایسے وقت میں سڑکوں پر ہیں جب اقتصادی حالات میں بہتری کی علامات نمایاں ہورہی ہیں۔ اگرچہ یہ علامتیں ابھی تک عوام پر بہت واضح نہیں ہیں کیوں کہ انھیں مہنگائی اور دیگر مسائل کا تاحال سامنا ہے۔

لیکن کسی حکومت سے صرف 15ماہ کے اقتدار میں دہائیوں کی خرابیاں ٹھیک کردینے کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں ہوگی۔ تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے، راستہ دشوار گزار ہے لیکن سرنگ کے دوسرے کنارے روشنی ہے۔ معیشت اور اقتصادی پالیسیوں کاکچھ بھی علم رکھنے والے پاکستان کے خیرخواہوں کو یہ بہتری نظر آرہی ہے۔

لیکن کچھ لوگوں اور ان کے ہمنواؤں کا مسئلہ یہ نہیں۔ وہ اپنا راستہ صاف کرنے کے لیے اپنی ڈنڈا بردار فوج کی ویڈیوز دکھا کر حکومت کو ڈراتے رہے۔ یہاں تک کہ یہ پیغام دے دیا گیا کہ ہنگامہ خیزی مولانا کے کام نہیں آئے گی۔ مولانا کی یکسوئی کی ایک وجہ انھیں حاصل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی درون خانہ حمایت بھی ہے، جن کے لیڈر یا تو جیلوں میں بیٹھے ہیں یا مبینہ کرپشن کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔

ان دونوں جماعتوں کی حالت دگرگوں ہے اور یہ کسی عملی اقدام کے قابل نہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ مل کر مخالفین نے وزیر اعظم پر ''مودی کے موقف کی تائید'' کا نیا ڈراما رچایا ہے حالاں کہ ان کے مارچ کی ٹائمنگ ایسی ہے کہ اس سے کشمیر سے توجہ ہٹی ہے اور کشمیر پر پاکستانی کاوشوں کو بھی زد پہنچی ہے۔ گزشتہ حکومت میں جب مولانا کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے تو ان کے پورے دور میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں کوئی پیش رفت نہیںہوئی۔کیا حکومت کے سیاسی مخالفین پاکستان کو تباہ کرنے کے راستے پر ہیں، جو شخص شیشے کے گھر میں بیٹھا ہو اسے دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہیں۔


کچھ مذہبی جماعتیں پاکستان کے ایسی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی کوئی خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں کرسکیں اور ان کی حیثیت پریشر گروپس سے زیادہ نہیں۔ فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے آبائی حلقے سے بھی دوسری جماعتوں کی مدد سے نشست جیتنے میں کام یاب ہوتے تھے۔ 1980میں 27سال کی عمر میں انھیں جمعیت علمائے اسلام اپنے والد مفتی محمود سے ورثے میں ملی جو موروثی سیاست کی ایک اور مثال ہے۔

اس جماعت کی بنیاد دیوبندی مکتب کے افکار پر ہے جو اسلامی ریاست کے قیام پر یقین رکھتی ہے اور اسی لیے جمہوریت اور انتخابات سے متعلق ان کا رویہ مختلف ہے۔ وہ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصے لیتے ہیں اور دوسری جانب طالبان کے بھی حامی ہیں جن میں سے کئی ایک ان کی جماعت کے زیر انتظام مدارس کے طلبا رہے ہیں۔

1981میں جے یو آئی نے آزادانہ انتخابات کے لیے ضیاالحق پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایم آر ڈی میں شمولیت کی۔ 1990کے انتخابات میں جے یو آئی نے قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر کام یابی حاصل کی لیکن مولانا ڈی آئی خان سے اپنی نشست نہیں جیت سکے۔ 1993کے قومی انتخابات میں جے یو آئی اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی اور مولانا سمیت اس کے چار اراکین کام یاب ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے افغان طالبان سے روابط قائم کیے ، جن کی بڑی تعداد نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم مدارس سے تعلیم حاصل کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھیں افغان طالبان کا سرپرست بھی کہا جاسکتا ہے۔ جے یو آئی(ف)کو خیبر پختون خوا، فاٹا اور بلوچستان میں مقبولیت حاصل رہی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی پاکستان کی ایسی واحد سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے جو سابقہ قبائلی علاقوں میں مضبوط تنظیمی ڈھانچہ رکھتی ہے۔ اس جماعت کو حاصل حمایت کا بڑا حصہ شمال مغربی پاکستان میں قائم مدارس کے نیٹ ورک سے منسلک گروہوں پر مشتمل ہے۔

2007میں اس وقت تبدیلی آئی جب امریکا کے دفترخارجہ کی افشا ہونے والی کیبلز میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ جے یو آئی کے قائد نے مبینہ طور پر امریکا اور طالبان کے مابین ثالثی کی پیش کش کی۔ اس انکشاف کے بعد افغان طالبان جنگ جوؤں اور القاعدہ کی قیادت نے جے یو آئی (ف) کے ساتھ مبینہ طور پر رابطے منقطع کرلیے۔ اس کے بعد ہی سے جے یو آئی (ف)کی قیادت اور مولانا پر حملوں کا آغاز ہوا۔ فضل الرحمن تین قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے۔ حال ہی میں کوئٹہ میں جے یو آئی (ف) کے کوئٹہ میں منعقدہ کنونشن میں خود کُش حملے میں متعدد افراد کی جانیںگئیں۔ گزشتہ برسوں میں جے یو آئی کے متعدد کارکنان اور قائدین کو خیبر پختون خوا اور فاٹا میں نامعلوم مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔ ایسا ہی واقعہ کچھ روز قبل باجوڑ کی تحصیل مومند میں پیش آیا جس میں جے یو آئی(ف) کے مقامی رہنما مفتی سلطان محمد قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے۔

یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ جے یو آئی کو حکومت نے مارچ کی اجازت کیوں دی۔ اسے شاید ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن مسلح گروہوں کے حامیوںکے ایسے مارچ سے ایسے ملک میں کیا پیغام جائے گا جہاں لوگ ناخواندہ ہیں اور اپنی رائے کے لیے اپنے مولوی یا پیر کی جانب دیکھتے ہیں؟ خود وزیر اعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ آزادی مارچ کے قائدین اپنے مقاصد میں واضح نہیں ، یہ کبھی کہتے ہیں کہ ملک پر یہودی لابی قابض ہورہی ہے، کبھی حکومت کو قادیانیوں سے جوڑتے ہیں اور کبھی مہنگائی کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ٹرکوں اور بسوں میں بھر کر جن لوگوں کو اسلام آباد لایا جارہا ہے انھیں خود بھی نہیں معلوم کہ وہ یہ مشقت کیوں اٹھا رہے ہیں ۔ جب دنیا ان کو اسلام آباد کی جانب مارچ کرتا دیکھے گی تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج شدید متاثر ہوگا۔

ایک ایسا ملک جہاں جاگیردار اشرافیہ اقتدار پر قابض ہو اور جمہوریت کی حقیقی روح انسانی مساوات کا ادراک ہی نہیں رکھتی ہو وہاں صرف 'جمہوریت' کا تاثر بہتر کرنے کے لیے ایسے کھیل کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہیں۔ یاد کیجیے کچھ ہی عرصہ قبل جب ایک دھرنے کی وجہ سے ہفتوں دارالحکومت کے معمولات زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئے تھے۔ 'جمہوریت' کی علم برداری کا یہ شوق مالی مسائل میں گھرے اس ملک کے لیے بہت مہنگا سودا نہیں؟ یہ سوال تو ذہن میں آتا ہے کہ اب یہ مارچ پاکستان کی 'آزادی' کے لیے ہے یا کسی اور مقصد کے لیے؟
Load Next Story