’’ بھاشن چار‘‘ یا موت کا غار
بھاشن چار کو اس وقت عالمی انسانی حقوق کے ادارے موت کے غار سے تشبیہہ دے رہے ہیں
روہنگیا مہاجرین کی بد قسمتی ایسی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اس بدقسمتی کے ذمے داروں میں بنگلہ دیش کو بھی شمارکیا جاتا ہے جب کہ بنگلہ دیش اس سانحے کے براہِ راست ذمے داروں میں شامل نہیں بلکہ وہ خود روہنگیا مہاجرین کی اپنی حدود میں ایک بڑی تعداد کی موجودگی سے پریشان ہے، اس کے وسائل اور جگہ دونوں مہاجرین کے لیے ناکافی پڑ چکے ہیں۔
اس کے برعکس روہنگیا مہاجرین کی اصل مجرم تو دنیا کی وہ طاقتیں ہیں جن میں سے کسی کے ہاتھوں توکسی کی ناک کے نیچے جدید دنیا کا یہ بد ترین سانحہ رونما ہوا اور انھوں نے اس کو روکنے اور بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی ہنگامی تدابیر اختیار نہ کیں، اور اس سانحے کے رونما ہونے کے بعد ، کمال ڈھٹائی سے، منہ پھاڑے، دیدے پھیلائے کاکسس بازار میں ٹھونسے گئے۔ روہنگیا مسلمان مہاجرین کی حالتِ زار کا محض شکوہ کر لینے کو انسانیت کے حق کی ادائیگی میں شمارکرنے کو ہی کافی جانا۔
بنگلہ دیش کی حکومت ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے کی، یہ سچ ہے کہ پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنا اور ان کے لیے انتظامات کرنا ہر ریاست کے لیے ایک بڑے مسئلے اور بوجھ کے سوا اورکچھ نہیں۔ اس بوجھ سے نجات پانے کے لیے بنگلہ دیشی سر زمین سے بڑی تعداد میں روہنگیا مہاجرین کو جبراً واپس بھی بھیجا گیا ، اس کے باوجود اب بھی کاکسس بازار میں لاکھوں مہاجرین قابلِ رحم حالت میں موجود ہیں۔
بنگلہ دیش کی طرف سے مہاجرین کی جبری میانمار واپسی کو عالمی سطح پر جب تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو بنگلا حکومت نے متبادل منصوبے کے طور پرکاکسس بازار میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر ، عالمی اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان میں سے سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی دوسرے مقام پر منتقلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس وقت مہاجرین کی منتقلی کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور بنگلادیشی حکام کے بیان کے مطابق دسمبرکے سرد تھپیڑوں میں مہاجرین بھاشن چارکے جزیرے پر منتقل کر دیے جائیں گے۔
بھاشن چار کو اس وقت عالمی انسانی حقوق کے ادارے موت کے غار سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور بنگلادیشی حکومت کے اس فیصلے سے انسانی بحران کے مزید بڑھنے کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ خلیج بنگال میں واقع بھاشن چار انسانی بودوباش کے لیے ایک انتہائی غیر مناسب مقام ہے۔ 2006ء میں بھاشن چار کا جزیرہ سطح سمندر پر نمودار ہوا تھا، جو مون سون میں طوفان میں گھرا رہتا ہے۔ انسانی زندگی کا تصور یہاں محال ہے۔ سمندر چڑھتا ہے تو اس کی اونچی اونچی لہریں پورے جزیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اس جزیرے پر مہاجرین کی منتقلی ان کو سیدھا موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے، ایسے میں بنگلا دیشی حکام کا یہ کہنا کہ مہاجرین وہاں بہ خوشی جانے کے لیے تیار ہیں، عقل سے پَرے ہے۔
بنگلا دیش کی حکومت کا یہ کہنا ہرگز غلط نہیں کہ کاکسس بازار میں مہاجرین کا جمِ غفیر آئے دن، نت نئی ناپسندیدہ صورت حال کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے جس کے لیے یہاں سے نصف کے قریب مہاجرین کی منتقلی ناگزیر ہے، لیکن اس مقصد کے لیے بھاشن چار کا انتخاب سب سے کم زور آپشن ہے جس کا انتخاب کرنے پر پوری دنیا بنگلا دیشی حکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے لیے جب میانمار کی زمین تنگ کی گئی تو ایک ملین کے قریب غریب الوطن باشندے کاکسس بازار میں آ بسے۔ جہاں ان کی حالت اس وقت مُردوں سے بدتر ہے۔
گندگی اور ناقص غذاؤں نے بچوں کو بڑی تعداد میں موت کے حوالے کر دیا یے اور جو زندہ ہیں وہ خالی آنکھوں سے امدادی ٹیموں کی راہ تکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کاکسس بازار کے مہاجرین کی کسمپرسی اور بے بسی پر بہت سوالات اٹھائے۔ ان کا کوئی شافی جواب تو کوئی نہ دے سکا البتہ بنگلادیشی حکومت نے کاکسس بازار کا رش ختم کرنے کے لیے ایک لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو بھاشن چارکا رستہ دکھانے کی ٹھان لی ہے۔
بنگلا دیش پہلے سے ایک گنجان آباد ملک ہے۔ ایسے میں مہاجرین کا سیلاب اس کے لیے سونامی سے کم نہیں۔ حکومت اگرچہ میانمار کے پیدا کردہ اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں کام یاب نہیں ہو پا رہی۔ بنگلادیش کی سربراہِ حکومت شیخ حسینہ واجد کئی مواقعے پر ان مہاجرین کو ایک بڑا بوجھ قرار دے چکی ہیں۔ میانمار کی حکومت سے اگرچہ مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ بھی طے کیا گیا تھا لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اپنے وطن جانے سے خوفزدہ ہے، کیونکہ ان کے ساتھ بیتے سانحے کی ذمے دار خود وہاں کی حکومت تھی لہٰذا مہاجرین ان کے کسی وعدے پر اعتبارکرنے کو تیار نہیں۔ 1982ء کے سٹیزن شپ ایکٹ کے مطابق میانمار میں رہنے والے روہنگیا کو ان تمام حقوق اور مراعات سے محروم کر دیا گیا تھا جو دیگر اقلیتوں کو حاصل تھیں۔
سرکار نے ان کو بنگالی قرار دیا اور پھر ان کے خلاف نفرت اتنی بڑھی کہ2017ء میں خطرناک آپریشن کے نتیجے میں روہنگیا کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ میانمار میں یہ نسل کشی کیوں کہ حکومتی ایما پر کی گئی اس لیے یہ خدشہ اب تک موجود ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کے بعد دوبارہ ان کے ساتھ یہی سب کچھ نہ کیا جائے۔
اس خدشے کے سِوا یہ بھی ایک بھیانک حقیقت ہے کہ بنگلا دیش میں یہ مہاجرین جانوروں سے بدتر حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خارجہ امورکے ایک امریکی افسر نے گزشتہ دنوں بنگلا دیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپ کا دورہ کیا تو ایک نوجوان روہنگیا سامنے آ کرکھڑا ہو گیا اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا، '' یہاں میرے بچوں کے لیے اسکول ہے نہ استاد ہے۔ کوئی مسجد نہیں جہاں جا کر ہم عبادت کر سکیں۔ یہ جگہ چھوڑنے کے لیے میں تحریری اجازت کا محتاج ہوں جو مجھے کبھی نہیں ملی اور نہ ملے گی۔ خوراک کے نام پر کھانے کو بس وہی ہے جو آپ ہم تک پہنچاتے ہیں۔ روز اپنے بچوں کی آنکھوں میں سوالات دیکھتا ہوں، جن کا جواب میرے پاس نہیں۔''
افسوس، ان سوالات کا جواب توکسی کے پاس نہیں۔ میانمارکی رخائن ریاست میں اب بھی جو روہنگیا موجود ہیں ان کی حالت بھی قابلِ رحم ہے اور جو اپنا وطن چھوڑ گئے وہ بھی جیتے جی مر رہے ہیں۔ انسانی اسمگلروں نے یہاں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ حسینہ واجد کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کی وجہ سے صرف بنگلادیش ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں بحرانی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ایسا بھی کوئی غلط نہیں، یہ مہاجرین بے روزگاری اور افلاس کے جس دور سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ان کا اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کے لیے کسی بھی مسلح گروہ سے وابستہ ہو جانے کا خدشہ پوری شدت سے موجود ہے۔
اسی خدشے کے پیشِ نظر بنگلا دیش کی حکومت نے ان مہاجرین کو کیمپوں میں ایک طرح سے قید کر رکھا ہے۔ یہاں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی رسائی نہیں۔ کیمپوں کے گرد باڑیں اور سیکیورٹی گشت بڑھا دیا گیا ہے۔ اور اب بڑی تعداد میں مہاجرین کو بھاشن چار کے دور دراز جزیرے میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں مہاجرین کے لیے نقل وحرکت اور آزادی کے تھوڑے بہت کھلے دروازے بھی بند ہو جائیں گے۔
بھاشن چار ایک بڑے انسانی جیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ دنیا میں اس وقت بنگلہ دیش کی حکومت کی اس اقدام پر ملامت تو کی جا رہی ہے لیکن میانمارکی حکومت سے کوئی سر پھوڑنے کو تیار نہیں جو اس بحران کی اصل ذمے دار ہے۔ ایسے میں اگر حسینہ واجد یہ کہتی ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو اپنی مٹی پر جگہ دے تو دی، اس سے زیادہ اور کیا کریں، تو میرے خیال میں غلط نہیں ، کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ صرف بنگلادیش کا مسئلہ نہیں بلکہ اقوامِ عالم کا مسئلہ ہے، پوری انسانیت کا مسئلہ ہے، اور اس کے حل کی ذمے داری کسی ایک ملک پر ڈالنا سوائے اسے زیر بارکرنے کے اورکچھ نہیں۔
اس کے برعکس روہنگیا مہاجرین کی اصل مجرم تو دنیا کی وہ طاقتیں ہیں جن میں سے کسی کے ہاتھوں توکسی کی ناک کے نیچے جدید دنیا کا یہ بد ترین سانحہ رونما ہوا اور انھوں نے اس کو روکنے اور بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی ہنگامی تدابیر اختیار نہ کیں، اور اس سانحے کے رونما ہونے کے بعد ، کمال ڈھٹائی سے، منہ پھاڑے، دیدے پھیلائے کاکسس بازار میں ٹھونسے گئے۔ روہنگیا مسلمان مہاجرین کی حالتِ زار کا محض شکوہ کر لینے کو انسانیت کے حق کی ادائیگی میں شمارکرنے کو ہی کافی جانا۔
بنگلہ دیش کی حکومت ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے کی، یہ سچ ہے کہ پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنا اور ان کے لیے انتظامات کرنا ہر ریاست کے لیے ایک بڑے مسئلے اور بوجھ کے سوا اورکچھ نہیں۔ اس بوجھ سے نجات پانے کے لیے بنگلہ دیشی سر زمین سے بڑی تعداد میں روہنگیا مہاجرین کو جبراً واپس بھی بھیجا گیا ، اس کے باوجود اب بھی کاکسس بازار میں لاکھوں مہاجرین قابلِ رحم حالت میں موجود ہیں۔
بنگلہ دیش کی طرف سے مہاجرین کی جبری میانمار واپسی کو عالمی سطح پر جب تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو بنگلا حکومت نے متبادل منصوبے کے طور پرکاکسس بازار میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر ، عالمی اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان میں سے سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی دوسرے مقام پر منتقلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس وقت مہاجرین کی منتقلی کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور بنگلادیشی حکام کے بیان کے مطابق دسمبرکے سرد تھپیڑوں میں مہاجرین بھاشن چارکے جزیرے پر منتقل کر دیے جائیں گے۔
بھاشن چار کو اس وقت عالمی انسانی حقوق کے ادارے موت کے غار سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور بنگلادیشی حکومت کے اس فیصلے سے انسانی بحران کے مزید بڑھنے کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ خلیج بنگال میں واقع بھاشن چار انسانی بودوباش کے لیے ایک انتہائی غیر مناسب مقام ہے۔ 2006ء میں بھاشن چار کا جزیرہ سطح سمندر پر نمودار ہوا تھا، جو مون سون میں طوفان میں گھرا رہتا ہے۔ انسانی زندگی کا تصور یہاں محال ہے۔ سمندر چڑھتا ہے تو اس کی اونچی اونچی لہریں پورے جزیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اس جزیرے پر مہاجرین کی منتقلی ان کو سیدھا موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے، ایسے میں بنگلا دیشی حکام کا یہ کہنا کہ مہاجرین وہاں بہ خوشی جانے کے لیے تیار ہیں، عقل سے پَرے ہے۔
بنگلا دیش کی حکومت کا یہ کہنا ہرگز غلط نہیں کہ کاکسس بازار میں مہاجرین کا جمِ غفیر آئے دن، نت نئی ناپسندیدہ صورت حال کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے جس کے لیے یہاں سے نصف کے قریب مہاجرین کی منتقلی ناگزیر ہے، لیکن اس مقصد کے لیے بھاشن چار کا انتخاب سب سے کم زور آپشن ہے جس کا انتخاب کرنے پر پوری دنیا بنگلا دیشی حکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے لیے جب میانمار کی زمین تنگ کی گئی تو ایک ملین کے قریب غریب الوطن باشندے کاکسس بازار میں آ بسے۔ جہاں ان کی حالت اس وقت مُردوں سے بدتر ہے۔
گندگی اور ناقص غذاؤں نے بچوں کو بڑی تعداد میں موت کے حوالے کر دیا یے اور جو زندہ ہیں وہ خالی آنکھوں سے امدادی ٹیموں کی راہ تکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کاکسس بازار کے مہاجرین کی کسمپرسی اور بے بسی پر بہت سوالات اٹھائے۔ ان کا کوئی شافی جواب تو کوئی نہ دے سکا البتہ بنگلادیشی حکومت نے کاکسس بازار کا رش ختم کرنے کے لیے ایک لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو بھاشن چارکا رستہ دکھانے کی ٹھان لی ہے۔
بنگلا دیش پہلے سے ایک گنجان آباد ملک ہے۔ ایسے میں مہاجرین کا سیلاب اس کے لیے سونامی سے کم نہیں۔ حکومت اگرچہ میانمار کے پیدا کردہ اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں کام یاب نہیں ہو پا رہی۔ بنگلادیش کی سربراہِ حکومت شیخ حسینہ واجد کئی مواقعے پر ان مہاجرین کو ایک بڑا بوجھ قرار دے چکی ہیں۔ میانمار کی حکومت سے اگرچہ مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ بھی طے کیا گیا تھا لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اپنے وطن جانے سے خوفزدہ ہے، کیونکہ ان کے ساتھ بیتے سانحے کی ذمے دار خود وہاں کی حکومت تھی لہٰذا مہاجرین ان کے کسی وعدے پر اعتبارکرنے کو تیار نہیں۔ 1982ء کے سٹیزن شپ ایکٹ کے مطابق میانمار میں رہنے والے روہنگیا کو ان تمام حقوق اور مراعات سے محروم کر دیا گیا تھا جو دیگر اقلیتوں کو حاصل تھیں۔
سرکار نے ان کو بنگالی قرار دیا اور پھر ان کے خلاف نفرت اتنی بڑھی کہ2017ء میں خطرناک آپریشن کے نتیجے میں روہنگیا کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ میانمار میں یہ نسل کشی کیوں کہ حکومتی ایما پر کی گئی اس لیے یہ خدشہ اب تک موجود ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کے بعد دوبارہ ان کے ساتھ یہی سب کچھ نہ کیا جائے۔
اس خدشے کے سِوا یہ بھی ایک بھیانک حقیقت ہے کہ بنگلا دیش میں یہ مہاجرین جانوروں سے بدتر حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خارجہ امورکے ایک امریکی افسر نے گزشتہ دنوں بنگلا دیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپ کا دورہ کیا تو ایک نوجوان روہنگیا سامنے آ کرکھڑا ہو گیا اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا، '' یہاں میرے بچوں کے لیے اسکول ہے نہ استاد ہے۔ کوئی مسجد نہیں جہاں جا کر ہم عبادت کر سکیں۔ یہ جگہ چھوڑنے کے لیے میں تحریری اجازت کا محتاج ہوں جو مجھے کبھی نہیں ملی اور نہ ملے گی۔ خوراک کے نام پر کھانے کو بس وہی ہے جو آپ ہم تک پہنچاتے ہیں۔ روز اپنے بچوں کی آنکھوں میں سوالات دیکھتا ہوں، جن کا جواب میرے پاس نہیں۔''
افسوس، ان سوالات کا جواب توکسی کے پاس نہیں۔ میانمارکی رخائن ریاست میں اب بھی جو روہنگیا موجود ہیں ان کی حالت بھی قابلِ رحم ہے اور جو اپنا وطن چھوڑ گئے وہ بھی جیتے جی مر رہے ہیں۔ انسانی اسمگلروں نے یہاں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ حسینہ واجد کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کی وجہ سے صرف بنگلادیش ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں بحرانی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ایسا بھی کوئی غلط نہیں، یہ مہاجرین بے روزگاری اور افلاس کے جس دور سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ان کا اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کے لیے کسی بھی مسلح گروہ سے وابستہ ہو جانے کا خدشہ پوری شدت سے موجود ہے۔
اسی خدشے کے پیشِ نظر بنگلا دیش کی حکومت نے ان مہاجرین کو کیمپوں میں ایک طرح سے قید کر رکھا ہے۔ یہاں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی رسائی نہیں۔ کیمپوں کے گرد باڑیں اور سیکیورٹی گشت بڑھا دیا گیا ہے۔ اور اب بڑی تعداد میں مہاجرین کو بھاشن چار کے دور دراز جزیرے میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں مہاجرین کے لیے نقل وحرکت اور آزادی کے تھوڑے بہت کھلے دروازے بھی بند ہو جائیں گے۔
بھاشن چار ایک بڑے انسانی جیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ دنیا میں اس وقت بنگلہ دیش کی حکومت کی اس اقدام پر ملامت تو کی جا رہی ہے لیکن میانمارکی حکومت سے کوئی سر پھوڑنے کو تیار نہیں جو اس بحران کی اصل ذمے دار ہے۔ ایسے میں اگر حسینہ واجد یہ کہتی ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو اپنی مٹی پر جگہ دے تو دی، اس سے زیادہ اور کیا کریں، تو میرے خیال میں غلط نہیں ، کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ صرف بنگلادیش کا مسئلہ نہیں بلکہ اقوامِ عالم کا مسئلہ ہے، پوری انسانیت کا مسئلہ ہے، اور اس کے حل کی ذمے داری کسی ایک ملک پر ڈالنا سوائے اسے زیر بارکرنے کے اورکچھ نہیں۔