’میں بھی نواز ہوں‘
کاش میرے نام کے ساتھ بھی شریف، بھٹو یا زرداری لگتا، یہی وہ واحد صورت ہے جس کے بعد میرے جینے مرنے کی فکر ریاست کو ہوتی
آج آپ سے ایک عام آدمی مخاطب ہے۔ اس ملک کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگوں کی طرح میں بھی ایک عام آدمی ہوں۔ میرے نام کے ساتھ بھٹو، زرداری یا شریف نہیں لگتا۔ اس ملک کے روزانہ کے حالات دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ کاش میرے نام کے ساتھ بھی شریف، بھٹو یا زرداری لگتا۔ شاید یہی وہ واحد صورت ہے جس کے بعد میرے جینے اور مرنے کی فکر ریاست کو ہوتی۔ ریاست تو ماں ہوتی ہے اور ماں کےلیے تو سب بچے یکساں ہوتے ہیں، برابر ہوتے ہیں۔ یہاں مگر ایسی مثال نہیں ملتی۔ یہاں ریاست کا برتاؤ نواز شریفوں، آصف زرداریوں، حمزہ شہبازوں اور مریم نوازوں کے ساتھ الگ ہے، خاص ہے، جبکہ مجھ جیسے عام اور غریب شہریوں کے ساتھ الگ اور انتہائی عامیانہ۔
آپ سمجھ رہے ہیں کہ شاید میں غیر اہم بوں۔ نہیں، ایسا نہیں کہ میں اہم نہیں یا میرے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ ایسا بالکل نہیں۔ میں اہم ہوں۔ میں ہوں تو پاکستان ہے۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ مجھ سے ڈائریکٹ اور ان ڈائرکٹ طریقوں سے ہر ماہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ میرے ٹیکس کے پیسوں سے ہی ریاست چلتی ہے، پلتی ہے اور اپنے ملازمین کی تنخواہوں کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ وہی ملازمین میرے پیسوں سے تنخواہ لے کر میری ہی توہین کرتے ہیں، مجھے حقارت سے دیکھتے ہیں اور ہر صورت میرے کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ ملازمین اپنی ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے کو میری جیب استعمال کرتے ہیں، مگر خود کو میری خدمت کے فرض سے ماورا سمجھتے ہیں۔ میرے ہی کمائے چار سو لاکھ اس جمہوری ڈھونگ کے مقدس پارلیمان کے ایک اجلاس میں بے رحمی سے جھونک دیے جاتے ہیں۔ وہاں میرے لیے قانون سازی تو چھوڑیے، میرے بھلے کی بات بھی رہنے دیں، میرا ذکر تک میرے ووٹوں سے منتخب لوگ گوارا نہیں کرتے۔ انھیں بس میرے پیسوں سے کی گئی ہیر پھیر کے الزام میں قید لوگوں کےلیے پروڈکشن آرڈر کا شور مچانا ہے، مخالفین کو گالیاں دینی ہیں، لغو اور بے معنی تقاریر کرکے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا نمونہ پیش کرنا ہے۔
اب آپ سمجھ رہے ہیں کہ شاید میں کوئی غلط شخص ہوں۔ نہیں ایسا بھی نہیں۔ میرا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں۔ میرا نام کسی ایف آئی آر میں درج نہیں۔ نہ ہی میں کسی مقدمے میں مطلوب ہوں، مجھے عدالت نے اشتہاری بھی قرار نہیں دیا اور کسی کیس میں کبھی مجھے طلب بھی نہیں کیا گیا۔ میں زندگی میں کبھی منی لانڈرنگ کا مرتکب نہیں ہوا۔ میرے لندن میں محل نما اوپن فیلڈ فلیٹس بھی نہیں اور جدّہ میں سرور پیلس بھی نہیں۔ میری دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں بھی نہیں۔ میرے پاس دبئی کا اقامہ بھی نہیں، میرا پاناما میں نام نہیں، میرا ذکر کسی چھپن کمپنیز اسکینڈل، حدیبیہ پیپر ملز، چوہدری شوگر ملز، فلیگ شپ کیس، العزیزیہ نامی گھپلے میں نہیں۔ میرے اوپر جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں کی منی لانڈرنگ کا کیس بھی نہیں چل رہا اور سپریم کورٹ نے مجھے سیسلین مافیا اور گاڈ فادر کے خطاب سے بھی نہیں نوازا۔
بس یہ سب سیاست کا بے رحم کھیل ہے، جس نے مجھے بے وقعت کردیا۔ سیاست سے میرا یعنی عام آدمی کا دل تقریباً اٹھ گیا ہے۔ سیاست تو میرے نام پر کی جاتی ہے، ہر جلسے، ہر جلوس اور ہر احتجاج میں میرا ہی ذکر نمایاں ہوتا ہے۔ حکومت میرے ہی نام پر حاصل کی جاتی ہے، میرے مفادات کے تحفظ کے وعدے کیے جاتے ہیں اور احتجاج بھی میرے ہی مفادات کے عدم تحفظ کو بنیاد بنا کر کیے جاتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد مجھ سے وعدے کرنے والوں تک میری رسائی نہیں ہوتی تو مجھے احتجاج کرنے والوں میں اپنا مسیحا دکھائی دیتا ہے۔ میں اْنھیں اپنا آئیڈیل بناؤں تو جب وہ اقتدار پائیں تو وہ بھی اپنے سے پہلوں جیسے ہی نکلتے ہیں۔ ستر سال میں نہ تو میری بہتری کا کوئی کام ہوا اور اب تو آئندہ کے ستر سال میں کوئی ایسی امید بھی نہیں۔
میں روز مرتا ہوں۔ کبھی ڈاکٹروں کی غفلت سے، تو کبھی ناکافی سہولیات سے۔ کبھی کے الیکٹرک کی نالائقی سے بارش کا کھڑا پانی مجھے کرنٹ لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو کبھی لاہور کے اسپتال میں آکسیجن کی فراہمی معطل ہوکر میری سانسوں کی روانی معطل کردیتی ہے۔ کبھی پشاور کی بی آر ٹی کے گڑھوں میں گر کر میری موت واقع ہوجاتی ہے تو کبھی کسی سیاست دان کا پروٹوکول مجھے کچل کر آگے بڑھ نکلتا ہے۔ جب میری مائیں بہنیں مناسب جگہ نہ ہونے پر اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر بچے جن دیتی ہیں تو میرے ذہنی اسٹریس کا کسی عدالت، کسی صحافی، کسی وکیل کو اندازہ نہیں ہوتا۔ میرے خون کے خلیوں کی کوئی بریکنگ نیوز نہیں چلتی، جب میرے گھر زہریلا پانی صف ماتم بچھانے آتا ہے۔
میرے نصیب میں سسکنا لکھا ہے، کبھی ڈینگی کے ہاتھوں، کبھی ملیریا، کبھی نقلی انڈوں، کبھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ہونے سے تو کبھی زہریلی مٹھائی کھانے سے۔ ہاں میرے لیے کوئی وزیرِاعلیٰ ایئر ایمبولینس نہیں بھیجتا۔ میرے لیے کوئی یاسمین راشد نو رکنی میڈکل بورڈ سمیت تیار نہیں ہوتیں، میرے لیے کوئی طاہر شمسی عمران خان کی ہدایت پر نہیں بلوایا جاتا اور میری سانسوں کےلیے کوئی عدالت کسی وفاقی اور صوبائی حکومت سے ضمانت نہیں مانگتی۔ میری یہی عرض ہے کہ چلو میں بھی نواز ہوں۔ شاید کہ میں بھی اہم ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ سمجھ رہے ہیں کہ شاید میں غیر اہم بوں۔ نہیں، ایسا نہیں کہ میں اہم نہیں یا میرے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ ایسا بالکل نہیں۔ میں اہم ہوں۔ میں ہوں تو پاکستان ہے۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ مجھ سے ڈائریکٹ اور ان ڈائرکٹ طریقوں سے ہر ماہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ میرے ٹیکس کے پیسوں سے ہی ریاست چلتی ہے، پلتی ہے اور اپنے ملازمین کی تنخواہوں کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ وہی ملازمین میرے پیسوں سے تنخواہ لے کر میری ہی توہین کرتے ہیں، مجھے حقارت سے دیکھتے ہیں اور ہر صورت میرے کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ ملازمین اپنی ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے کو میری جیب استعمال کرتے ہیں، مگر خود کو میری خدمت کے فرض سے ماورا سمجھتے ہیں۔ میرے ہی کمائے چار سو لاکھ اس جمہوری ڈھونگ کے مقدس پارلیمان کے ایک اجلاس میں بے رحمی سے جھونک دیے جاتے ہیں۔ وہاں میرے لیے قانون سازی تو چھوڑیے، میرے بھلے کی بات بھی رہنے دیں، میرا ذکر تک میرے ووٹوں سے منتخب لوگ گوارا نہیں کرتے۔ انھیں بس میرے پیسوں سے کی گئی ہیر پھیر کے الزام میں قید لوگوں کےلیے پروڈکشن آرڈر کا شور مچانا ہے، مخالفین کو گالیاں دینی ہیں، لغو اور بے معنی تقاریر کرکے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا نمونہ پیش کرنا ہے۔
اب آپ سمجھ رہے ہیں کہ شاید میں کوئی غلط شخص ہوں۔ نہیں ایسا بھی نہیں۔ میرا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں۔ میرا نام کسی ایف آئی آر میں درج نہیں۔ نہ ہی میں کسی مقدمے میں مطلوب ہوں، مجھے عدالت نے اشتہاری بھی قرار نہیں دیا اور کسی کیس میں کبھی مجھے طلب بھی نہیں کیا گیا۔ میں زندگی میں کبھی منی لانڈرنگ کا مرتکب نہیں ہوا۔ میرے لندن میں محل نما اوپن فیلڈ فلیٹس بھی نہیں اور جدّہ میں سرور پیلس بھی نہیں۔ میری دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں بھی نہیں۔ میرے پاس دبئی کا اقامہ بھی نہیں، میرا پاناما میں نام نہیں، میرا ذکر کسی چھپن کمپنیز اسکینڈل، حدیبیہ پیپر ملز، چوہدری شوگر ملز، فلیگ شپ کیس، العزیزیہ نامی گھپلے میں نہیں۔ میرے اوپر جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں کی منی لانڈرنگ کا کیس بھی نہیں چل رہا اور سپریم کورٹ نے مجھے سیسلین مافیا اور گاڈ فادر کے خطاب سے بھی نہیں نوازا۔
بس یہ سب سیاست کا بے رحم کھیل ہے، جس نے مجھے بے وقعت کردیا۔ سیاست سے میرا یعنی عام آدمی کا دل تقریباً اٹھ گیا ہے۔ سیاست تو میرے نام پر کی جاتی ہے، ہر جلسے، ہر جلوس اور ہر احتجاج میں میرا ہی ذکر نمایاں ہوتا ہے۔ حکومت میرے ہی نام پر حاصل کی جاتی ہے، میرے مفادات کے تحفظ کے وعدے کیے جاتے ہیں اور احتجاج بھی میرے ہی مفادات کے عدم تحفظ کو بنیاد بنا کر کیے جاتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد مجھ سے وعدے کرنے والوں تک میری رسائی نہیں ہوتی تو مجھے احتجاج کرنے والوں میں اپنا مسیحا دکھائی دیتا ہے۔ میں اْنھیں اپنا آئیڈیل بناؤں تو جب وہ اقتدار پائیں تو وہ بھی اپنے سے پہلوں جیسے ہی نکلتے ہیں۔ ستر سال میں نہ تو میری بہتری کا کوئی کام ہوا اور اب تو آئندہ کے ستر سال میں کوئی ایسی امید بھی نہیں۔
میں روز مرتا ہوں۔ کبھی ڈاکٹروں کی غفلت سے، تو کبھی ناکافی سہولیات سے۔ کبھی کے الیکٹرک کی نالائقی سے بارش کا کھڑا پانی مجھے کرنٹ لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو کبھی لاہور کے اسپتال میں آکسیجن کی فراہمی معطل ہوکر میری سانسوں کی روانی معطل کردیتی ہے۔ کبھی پشاور کی بی آر ٹی کے گڑھوں میں گر کر میری موت واقع ہوجاتی ہے تو کبھی کسی سیاست دان کا پروٹوکول مجھے کچل کر آگے بڑھ نکلتا ہے۔ جب میری مائیں بہنیں مناسب جگہ نہ ہونے پر اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر بچے جن دیتی ہیں تو میرے ذہنی اسٹریس کا کسی عدالت، کسی صحافی، کسی وکیل کو اندازہ نہیں ہوتا۔ میرے خون کے خلیوں کی کوئی بریکنگ نیوز نہیں چلتی، جب میرے گھر زہریلا پانی صف ماتم بچھانے آتا ہے۔
میرے نصیب میں سسکنا لکھا ہے، کبھی ڈینگی کے ہاتھوں، کبھی ملیریا، کبھی نقلی انڈوں، کبھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ہونے سے تو کبھی زہریلی مٹھائی کھانے سے۔ ہاں میرے لیے کوئی وزیرِاعلیٰ ایئر ایمبولینس نہیں بھیجتا۔ میرے لیے کوئی یاسمین راشد نو رکنی میڈکل بورڈ سمیت تیار نہیں ہوتیں، میرے لیے کوئی طاہر شمسی عمران خان کی ہدایت پر نہیں بلوایا جاتا اور میری سانسوں کےلیے کوئی عدالت کسی وفاقی اور صوبائی حکومت سے ضمانت نہیں مانگتی۔ میری یہی عرض ہے کہ چلو میں بھی نواز ہوں۔ شاید کہ میں بھی اہم ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔