سارے رنگ
’تمہیں کھونے کا ڈر تو پانے سے پہلے ہی تھا۔۔۔‘
'تمہیں کھونے کا ڈر تو پانے سے پہلے ہی تھا۔۔۔'
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
''روکتا ہے سانس یا ہٹاؤں وینٹیلیٹر؟''
اب اس دھمکی کے مخاطب کے پاس کتنا 'اختیار' ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔۔۔
اس کا بھی یہ سن کر جی چاہا کہ کچھ کہنے کے بہ جائے اپنے چہرے کو قید کیے اس آلے کو نکال کر اسی کے منہ پر دے مارے اور کہے 'جا! ہٹا دیا۔۔۔ تجھے کیا لگتا ہے کہ میں اب بھی زندہ ہوں۔۔۔؟'
لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی التجائی آواز میں پہلے 'رحم' کی بھیک مانگی اور پھر چارو ناچار دو میں سے پہلا راستہ اختیار کرنے کی ہامی بھرلی۔۔۔
'موت' تو دونوں صورتوں میں ہی تھی، لیکن اس نے جبری کے بہ جائے قدرے ''اختیاری'' راستے کو فوقیت دی۔۔۔ یہاں اُسے اپنی 'مرضی' سے سانس روکنا تھا، جب کہ دوسری صورت میں تو 'زبردستی' اسے قفس سے آزاد کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔۔۔
وہ محبت کرتا تھا۔۔۔!
اب محبت کی عجیب وغریب جمع تفریق دنیا کے کسی حسابی کلیے پر تو ممکن ہے نہیں۔۔۔ یہ گوشوارے دل کی عدالت میں بنتے ہیں، اور اس میں اپنے لیے ہمیشہ خسارے کا فیصلہ ہوتا ہے۔۔۔ ویسے محبت تو وہ پہلے بھی بہت کر چکا، لیکن وہ ہمیشہ اس جذبے کا اظہار سنبھالے، اپنے تئیں صحیح حق دار کا منتظر رہا اور اب جب یہ اظہار اُس کے سپرد کر دیا، تو بھلا اتنے انتظار کے بعد 'پالینے' کی ایک آس کا کواڑ وہ خود کیسے بند کر سکتا تھا۔۔۔ ہر چند کہ اب واقف تھا کہ یہ جذبہ دل کے خانے میں صرف دل سے ہی عطا کیا جاتا ہے۔۔۔ اس 'خانۂ دل' کو کشکول کر کے کسی کے آگے نہ تو گڑگڑایا جاتا ہے اور نہ قدموں میں گرا جا سکتا ہے۔۔۔
'پھر سارا سہارہ ہی چھین لیا ہے تم نے مجھ سے۔۔۔' اس نے کمزور سی آواز میں ایسے خود کلامی کی کہ وہ خود بھی ٹھیک سے نہ سن سکا، پھر لرزش کرتے ہونٹوں کی جنبش میں کلام کرنے لگا۔
'میری بدنصیبی کہ میں 'خوابوں کے تصادم' میں مارا گیا۔۔۔! شاید تب ہی مجھے تمہیں کھونے کا ڈر، تمہیں پانے سے پہلے سے تھا۔۔۔ مگر تم 'پاگل' کہہ کر مجھے ٹال جاتے۔۔۔ یقیناً تمہارے خواب بڑے ہیں، بلکہ شاید بہت بڑے۔۔۔ اور تمہارے خوابوں کی تکمیل میں، میں سنگ میل تو کیا ہوتا، میں رکاوٹ کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ پھر اپنے خوابوں کی قیمت پر میرا وجود تو سراسر گھاٹا ہی تھا، کیوں کہ 'میں حد ہوں اور تم بے حد ہو۔۔۔' لیکن تم خود بھی ذرا سوچ لینا، کہ خواب تو پورے کرلو گے، لیکن اس تکمیل میں کہیں خود پھر ادھورے نہ رہ جانا۔۔۔!'
پھر اس کے ڈوبتے ابھرتے خیال نے اوقات سے بڑا خواب دیکھنے کا سوال بھی کر ڈالا، جس پر وہ خود ہی ایک کھوکھلی سی ہنسی ہنستے ہوئے بڑبڑایا کہ 'بڑے خواب دیکھنے کا ایک فائدہ یہ تو ہوتا ہے نا کہ سالے، جب ٹوٹتے ہیں، تو ان کا ملبہ ہی اچھا خاصا ہو جاتا ہے۔۔۔ جو پھر کسی کام تو آ ہی جاتا ہے۔۔۔'
''میرے خدا تو مجھے اتنا 'بنجر' کر دے۔۔۔ میرے سینے میں جو یہ دھڑکتا ہے، اُسے پتھر کر دے۔۔۔!'' اس نے آسمان کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی، پھر دوبارہ فضاؤں کو تکتے ہوئے بولنا چاہا۔
'ہاں۔۔۔! اگر اب بھی کوئی میرے دل کو تم سے زیادہ درد پہنچائے، تو میں اِسے تمہاری توہین خیال کرتا ہوں، اور کسی کو بھی ایسا کرنے کا حق نہیں دیتا، یہ حق اب بھی صرف تمہارا ہی ہے، اور شاید تب تک رہے، جب تک میں ہوں۔۔۔'
اس کے بعد اس کی ڈھلکتی سی پلکیں ایک جانب کو ٹھیرنے لگیں۔۔۔ خیالات کی اڑان پھڑپڑاتی ہوئی ملن کے کسی خیالی اور دل فریب سے منظر پر ڈولنے لگی۔۔۔
۔۔۔
خبر لیجیے
'مشاعرہ' بگڑا۔۔۔
کامران نفیس
اردو مشاعرہ اپنے تہذیبی منہاج میں ایک ادارے کی سی حیثیت رکھتا چلا آرہا ہے۔ ایک صدی سے زائد کا سفر اس نے اپنی روایت سے جڑ کر طے کیا، جس میں ارتقا کی منازل بھی طے کیں، لیکن اپنی بنیاد سے پیوست رہتے ہوئے شائستگی اور علمی جواہر کو ہمیشہ طاقت بخشی ہے۔
کراچی میں 1970ء کی دہائی کی شعری نشستیں اور مشاعرے ہوں یا 1990ء کی دہائی کے 'ساکنان شہر قائد' کے تحت ہونے والی عظیم الشان شعری محافل۔ دبئی میں مرسلیم جعفری کی یونیکیرئینز کے تحت ہونے والے بین الاقوامی مشاعرے ہوں یا ملک مصیب الرحمن کی کوششوں سے قطر میں منعقد کیے گئے مختلف شعرا کے جشن۔ یہ تمام تر سلسلہ اپنے بنیادی لوازمات کی ساتھ دنیا بھر میں بڑی کام یابی کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ جہاں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے احباب ذوق و شوق سے شرکت کرتے رہے اور ان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ جوش و خروش کیساتھ شریک ہوتی رہی۔
گذشتہ کئی برسوں سے دیکھنے میں آیا کہ ہم مشاعرے کی تہذیبی اساس سے دور ہوتے گئے۔ مشاعرے کے نام پر پھکڑ پن کا پرچار ہوا اور منتظمین کی جانب سے عجیب قسم کے فیصلے سامنے آئے۔ جس سے نہ زبان کی خدمت ہو سکی اور نہ ہی شعر و ادب کی، کجا یہ کہ نوجوان نسل نے مشاعرے یا 'تیز موسیقی کی محفل' کی تفریق بھی کھو دی۔
آج بھی روایت سے جڑے ہوئے شاعر اپنے کلام پر ''واہ واہ''، ''سبحان اللہ''، ''مکرر'' اور ''ارشاد'' کی دادو تحسین ہی پسند فرماتے ہیں، تالیوں اور شور کو ناپسند کرتے ہیں۔۔۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ شعر پر تالی بجانا بے ادبی کہلاتا ہے، مگر کیا کیجیے عرصہ ہوا یہ چلن بھی روا ہوچکا ہے۔۔۔
مشاعرے میں شمع محفل شاعر بہت تہذیب کے ساتھ بیٹھ کر اپنا کلام باذوق قارئین کی نذر کرتا ہے اور منچ سے لے کر حاضرین تک اسے بہت گہرائی سے اپنے اندر اتارتے ہیں اور پھر اس کے جواب میں وہ جو دل سے داد دیتے ہیں، وہ مشاعرے میں بالکل الگ ہی سماں باندھ دیتی ہے۔۔۔ کلام پر ہوٹنگ بھی ضرور ہوتی ہے، لیکن اس کے لیے سنائے گئے شعر کا مصرع پکڑنا، اسے جذب کرنا، سمجھنا، الٹنا پلٹنا اور پھر اس کے اپنی بساط کے معنی نکالنا مشاعروں کا لطف ہوتا تھا۔
حالیہ عرصے میں تو ان سب کی جگہ گائو تکیے چھوڑ کر مائیک ہاتھ میں تھامے کھڑا ہوا شاعر کسی اداکار کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یہ سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا رہا، ظاہر ہے جو اپنے تہذیبی ورثے سے محبت کرتے ہیں، ان کے لیے یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ رہی۔ مختلف پلیٹ فارمز پر احباب اس پر رائے زنی کرتے رہے اور اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ کچھ احباب نے سختی سے گرفت کی تو کچھ اپنی نرم مزاجی کے باعث مختلف انداز میں اس پر تنقید کو لے کر آگے بڑھے۔ کچھ احباب اس قسم کی پرفارمنس زدہ مشاعروں کو جدت کہہ کر اس کے حق میں ہیں، تو بہت سے اس کے مخالف۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس قسم کی 'بدعت' ان مشاعروں میں رائج ہوئی ہے، وہ کہاں جا کر رکے گی؟ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد شاعر کسی خوب صورت رقاصہ کے ساتھ سامعین میں جا کر اپنا کلام سنا رہا ہو اور احباب اس کو جدت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوں!
یہاں یہ بات واضح کرنا بھی اہم ہے کہ مسئلہ مشاعرے کو اس کی تہذیبی منہاج میں آگے بڑھانے کا ہے، خدانخواستہ کسی شاعر کا چناؤ یا اس کی شاعری پر ہرگز کلام نہیں۔ یہ منصب کس کا ہے اور کس کا نہیں کہ وہ طے کرے کہ شاعر کا کلام کتنا عمدہ ہے یا اغلاط سے پُر۔۔۔ یہاں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشاعرہ اپنی تہذیبی اساس سے جس قدر جڑا رہے گا، ہماری زبان اور شاعری کو اس کا اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا، ہر ایک کو اپنی مرضی کا حق ہے، لیکن صاحب، اگر یہ مرضی ہماری زبان کی قیمت پر ہوگی تو ہم اس کی گرفت کریں گے۔
۔۔۔
بہت ''حفاظت'' سے لائی ہوں میں کتابیں!
مرسلہ:اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
کہتے ہیں اپنی کتاب کسی کو پڑھنے کے لیے دینا بے وقوفی ہے اور دے کر مانگنا اس سے بھی بڑی بے وقوفی۔۔۔ ماجرا یہ ہے کہ بہت سے لوگ کتابوں کو یا شاید پرائی کتابوں کو بہت بے پروائی سے برتتے ہیں۔۔۔ اگر آپ نے کبھی کسی کو کوئی کتاب دی ہوگی تو بخوبی جان سکتے ہیں کہ اگر کتاب کسی کے ہاں سے واپس آتی ہے تو اپنے آپ ایک کہانی کہہ رہی ہوتی ہے۔ راجہ مہدی علی خان اس حوالے سے کیا خوب منظر کشی کرتے ہیں۔
کلام حالی پہ گھی کی تھالی رکھی ہوئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ پھر اْس پہ ایک دن دوات میری اُلٹ گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔کلام داغ آہ! کَتھِے چُونے کے پیارے داغوں سے بھر گیا ہے، اور اس میں سے ایک حَسَیِن غزل میں نے پھاڑ لی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ کلامِ غالب پہ غالب آئی ہے میرے بچوں کی بدتمیزی، ورق ورق ہو کے ہر غزل بٹ گئے۔
معاف کیجیے۔۔۔ کلامِ آزاد جِلد سے اپنی آج آزاد ہو گیا، کتاب جب یہ پڑھی تو بارش برس رہی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ کلامِ آتش باورچی خانے میں لے گھسی تھی میری پڑوسن، حساب اس پر لکھ گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ فسانہ میرؔ پر ذرا کھیر گر گئی تھی نہ آہیں بھریں، وہ کھیر جھٹ سے میں نے اپنے آنچل سے پونچھ لی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ انیس کے مرثیوں پر آنسو میرے گرے تھے ورق پسیجے، لگا کہ آنکھوں کو سے شاید میں رو پڑی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ بالِ جبریل کھو گئی لے گئے ہیں، شاید اْسے فرشتے، سنبھال کر ورنہ طاق نسیان میں یہ رکھی تھی۔
معاف کیجیے۔۔۔کلامِ اکبر الہ آبادی کو شاید میرے اصغر نے بیچ ڈالا، زیادہ پیسے نہیں ملے چونکہ پھٹ گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ جوش صاحب کی نظم مزدور ایک چرا کر لے گیا ہے، اُسی کو پہنچی وہ چیز جس کے لیے لکھی گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ وہ نقش فریادی روس چل دی کہ روس اُس کو پسند آیا، ہمارے گھر میں بہت ترقی نہ کر سکی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ کتابِ راشد کو قافیوں کی تلاش میں گھر سے چل پڑی تھی، میں کیا کہوں یہ بہت ہی آزاد ہو گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ بہت حفاظت سے لائی ہوں میں کتابیں اپنی سنبھال لیجیے، میں پڑھ چکی نظم نثر الماریوں سے مجھ کو نکال لیجیے۔۔۔!
۔۔۔
یوں تو سب ہی کو اپنے والدین اور بزرگ اچھے لگتے ہیں، لیکن میرے نانا امداد علی بلوچ صرف میرے لیے ہی اہم نہیں، بلکہ وہ غریب گھرانے سے نکل کر ترقی کرنے والے ایک ایسے فرد ہیں، جس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے گاؤں کے لوگوں کی زندگیوں کو بھی سنوارا۔۔۔
وہ ہمارے گاؤں ضلع نوشہرو فیروز تعلقہ مورو (سندھ) میں سرکاری اسکول کے ایک لائق طالب علم رہے، انہیں چوتھی کلاس میں پہلی بار اسکالر شپ ملی، میٹرک تک مزید دو 'اسکالر شپس' حاصل ہوئیں، میٹرک کے بعد ان کو حیدرآباد نوکری کے لیے جانا پڑا، صبح وہ کام پر جاتے اور شام کو آکر کلاس لیتے، پھر کچھ وہ کراچی منتقل ہوئے، جہاں وہ کلرک کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اس کے بعد بھی انہوں نے تعلیم جاری رکھی اور پھر 'سی ایم اے' کیا یہاں سے ان کا نصیب کھلا اور ان کو ایک نجی صنعت میں اکاؤنٹ افسر کی پوسٹ دی ایسے دو سال کام کرتے کرتے وہ ڈپٹی اکاؤنٹ آفیسر بنے اور سال بعد اکاؤنٹ مینجر ہوگئے۔ 1979ء میں وہ ترقی کرتے کرتے دبئی میں ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے، جہاں انہوں نے 30 سال محنت کرتے ہوئے گزارے۔ اس کے بعد دوسری کمپنی میں ایکزیکٹو ڈائریکٹر بن کر کام کیا، جہاں سے 10برس بعد اب وہ ریٹائر ہوگئے، لیکن ملک شام میں اب بھی وہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
وہ ہمارے گاؤں میں بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے والے پہلے فرد بنے، پھر پورے گاؤں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی لڑکی بھی انہی کی بیٹی تھی، یعنی میری امّی، جس کے بعد سب والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کی طرف راغب ہوئے۔ پھر نانا نے گاؤں میں اپنا ذاتی پلاٹ گرلز پرائمری ہائی اسکول کے لئے عطیہ کر دیا۔ یہی نہیں میرے نانا نے گاؤں کے 200 سے زائد بچوں کو دبئی لے جا کر اعلیٰ تعلیم اور نوکریاں دلوائیں۔ آج یہ اپنے اہل خانہ کا سہارا ہیں۔ گاؤں والے اپنے تنازعات کے فیصلے تو ان سے کراتے ہی تھے۔
پھر سب نے انہیں اپنا سردار بنانا چاہا، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ وہ سب انسانوں کی برابری پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے بغیر کسی لالچ کے اپنے لوگوں کی خدمت جاری رکھی، وہ اب تک 300 افراد کو دبئی، ملائشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں اسکالر شپ دلا چکے ہیں۔ انہوں نے تعلیم، صحت اور روزگار سے سڑکوں کی مرمت سے لے کر گاؤں میں شمسی توانائی سے چلنے والی بتیاں بھی لگوا دی ہیں۔ ساتھ ہی ہم سائے گاؤں میں بھی پانی کا مسئلہ حل کرایا ہے۔
وہ کڑے اصول پسند، وقت کے پابند اور ہم سب سے بہت محبت کرنے والے ہیں، ان کی یہی شفقت ماشااللہ آج بھی انہیں جوان رکھے ہوئے ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی اپنے نانا جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف اپنی زندگی بہتر کروں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچانے کا باعث بنوں۔
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
''روکتا ہے سانس یا ہٹاؤں وینٹیلیٹر؟''
اب اس دھمکی کے مخاطب کے پاس کتنا 'اختیار' ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔۔۔
اس کا بھی یہ سن کر جی چاہا کہ کچھ کہنے کے بہ جائے اپنے چہرے کو قید کیے اس آلے کو نکال کر اسی کے منہ پر دے مارے اور کہے 'جا! ہٹا دیا۔۔۔ تجھے کیا لگتا ہے کہ میں اب بھی زندہ ہوں۔۔۔؟'
لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی التجائی آواز میں پہلے 'رحم' کی بھیک مانگی اور پھر چارو ناچار دو میں سے پہلا راستہ اختیار کرنے کی ہامی بھرلی۔۔۔
'موت' تو دونوں صورتوں میں ہی تھی، لیکن اس نے جبری کے بہ جائے قدرے ''اختیاری'' راستے کو فوقیت دی۔۔۔ یہاں اُسے اپنی 'مرضی' سے سانس روکنا تھا، جب کہ دوسری صورت میں تو 'زبردستی' اسے قفس سے آزاد کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔۔۔
وہ محبت کرتا تھا۔۔۔!
اب محبت کی عجیب وغریب جمع تفریق دنیا کے کسی حسابی کلیے پر تو ممکن ہے نہیں۔۔۔ یہ گوشوارے دل کی عدالت میں بنتے ہیں، اور اس میں اپنے لیے ہمیشہ خسارے کا فیصلہ ہوتا ہے۔۔۔ ویسے محبت تو وہ پہلے بھی بہت کر چکا، لیکن وہ ہمیشہ اس جذبے کا اظہار سنبھالے، اپنے تئیں صحیح حق دار کا منتظر رہا اور اب جب یہ اظہار اُس کے سپرد کر دیا، تو بھلا اتنے انتظار کے بعد 'پالینے' کی ایک آس کا کواڑ وہ خود کیسے بند کر سکتا تھا۔۔۔ ہر چند کہ اب واقف تھا کہ یہ جذبہ دل کے خانے میں صرف دل سے ہی عطا کیا جاتا ہے۔۔۔ اس 'خانۂ دل' کو کشکول کر کے کسی کے آگے نہ تو گڑگڑایا جاتا ہے اور نہ قدموں میں گرا جا سکتا ہے۔۔۔
'پھر سارا سہارہ ہی چھین لیا ہے تم نے مجھ سے۔۔۔' اس نے کمزور سی آواز میں ایسے خود کلامی کی کہ وہ خود بھی ٹھیک سے نہ سن سکا، پھر لرزش کرتے ہونٹوں کی جنبش میں کلام کرنے لگا۔
'میری بدنصیبی کہ میں 'خوابوں کے تصادم' میں مارا گیا۔۔۔! شاید تب ہی مجھے تمہیں کھونے کا ڈر، تمہیں پانے سے پہلے سے تھا۔۔۔ مگر تم 'پاگل' کہہ کر مجھے ٹال جاتے۔۔۔ یقیناً تمہارے خواب بڑے ہیں، بلکہ شاید بہت بڑے۔۔۔ اور تمہارے خوابوں کی تکمیل میں، میں سنگ میل تو کیا ہوتا، میں رکاوٹ کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ پھر اپنے خوابوں کی قیمت پر میرا وجود تو سراسر گھاٹا ہی تھا، کیوں کہ 'میں حد ہوں اور تم بے حد ہو۔۔۔' لیکن تم خود بھی ذرا سوچ لینا، کہ خواب تو پورے کرلو گے، لیکن اس تکمیل میں کہیں خود پھر ادھورے نہ رہ جانا۔۔۔!'
پھر اس کے ڈوبتے ابھرتے خیال نے اوقات سے بڑا خواب دیکھنے کا سوال بھی کر ڈالا، جس پر وہ خود ہی ایک کھوکھلی سی ہنسی ہنستے ہوئے بڑبڑایا کہ 'بڑے خواب دیکھنے کا ایک فائدہ یہ تو ہوتا ہے نا کہ سالے، جب ٹوٹتے ہیں، تو ان کا ملبہ ہی اچھا خاصا ہو جاتا ہے۔۔۔ جو پھر کسی کام تو آ ہی جاتا ہے۔۔۔'
''میرے خدا تو مجھے اتنا 'بنجر' کر دے۔۔۔ میرے سینے میں جو یہ دھڑکتا ہے، اُسے پتھر کر دے۔۔۔!'' اس نے آسمان کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی، پھر دوبارہ فضاؤں کو تکتے ہوئے بولنا چاہا۔
'ہاں۔۔۔! اگر اب بھی کوئی میرے دل کو تم سے زیادہ درد پہنچائے، تو میں اِسے تمہاری توہین خیال کرتا ہوں، اور کسی کو بھی ایسا کرنے کا حق نہیں دیتا، یہ حق اب بھی صرف تمہارا ہی ہے، اور شاید تب تک رہے، جب تک میں ہوں۔۔۔'
اس کے بعد اس کی ڈھلکتی سی پلکیں ایک جانب کو ٹھیرنے لگیں۔۔۔ خیالات کی اڑان پھڑپڑاتی ہوئی ملن کے کسی خیالی اور دل فریب سے منظر پر ڈولنے لگی۔۔۔
۔۔۔
خبر لیجیے
'مشاعرہ' بگڑا۔۔۔
کامران نفیس
اردو مشاعرہ اپنے تہذیبی منہاج میں ایک ادارے کی سی حیثیت رکھتا چلا آرہا ہے۔ ایک صدی سے زائد کا سفر اس نے اپنی روایت سے جڑ کر طے کیا، جس میں ارتقا کی منازل بھی طے کیں، لیکن اپنی بنیاد سے پیوست رہتے ہوئے شائستگی اور علمی جواہر کو ہمیشہ طاقت بخشی ہے۔
کراچی میں 1970ء کی دہائی کی شعری نشستیں اور مشاعرے ہوں یا 1990ء کی دہائی کے 'ساکنان شہر قائد' کے تحت ہونے والی عظیم الشان شعری محافل۔ دبئی میں مرسلیم جعفری کی یونیکیرئینز کے تحت ہونے والے بین الاقوامی مشاعرے ہوں یا ملک مصیب الرحمن کی کوششوں سے قطر میں منعقد کیے گئے مختلف شعرا کے جشن۔ یہ تمام تر سلسلہ اپنے بنیادی لوازمات کی ساتھ دنیا بھر میں بڑی کام یابی کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ جہاں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے احباب ذوق و شوق سے شرکت کرتے رہے اور ان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ جوش و خروش کیساتھ شریک ہوتی رہی۔
گذشتہ کئی برسوں سے دیکھنے میں آیا کہ ہم مشاعرے کی تہذیبی اساس سے دور ہوتے گئے۔ مشاعرے کے نام پر پھکڑ پن کا پرچار ہوا اور منتظمین کی جانب سے عجیب قسم کے فیصلے سامنے آئے۔ جس سے نہ زبان کی خدمت ہو سکی اور نہ ہی شعر و ادب کی، کجا یہ کہ نوجوان نسل نے مشاعرے یا 'تیز موسیقی کی محفل' کی تفریق بھی کھو دی۔
آج بھی روایت سے جڑے ہوئے شاعر اپنے کلام پر ''واہ واہ''، ''سبحان اللہ''، ''مکرر'' اور ''ارشاد'' کی دادو تحسین ہی پسند فرماتے ہیں، تالیوں اور شور کو ناپسند کرتے ہیں۔۔۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ شعر پر تالی بجانا بے ادبی کہلاتا ہے، مگر کیا کیجیے عرصہ ہوا یہ چلن بھی روا ہوچکا ہے۔۔۔
مشاعرے میں شمع محفل شاعر بہت تہذیب کے ساتھ بیٹھ کر اپنا کلام باذوق قارئین کی نذر کرتا ہے اور منچ سے لے کر حاضرین تک اسے بہت گہرائی سے اپنے اندر اتارتے ہیں اور پھر اس کے جواب میں وہ جو دل سے داد دیتے ہیں، وہ مشاعرے میں بالکل الگ ہی سماں باندھ دیتی ہے۔۔۔ کلام پر ہوٹنگ بھی ضرور ہوتی ہے، لیکن اس کے لیے سنائے گئے شعر کا مصرع پکڑنا، اسے جذب کرنا، سمجھنا، الٹنا پلٹنا اور پھر اس کے اپنی بساط کے معنی نکالنا مشاعروں کا لطف ہوتا تھا۔
حالیہ عرصے میں تو ان سب کی جگہ گائو تکیے چھوڑ کر مائیک ہاتھ میں تھامے کھڑا ہوا شاعر کسی اداکار کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یہ سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا رہا، ظاہر ہے جو اپنے تہذیبی ورثے سے محبت کرتے ہیں، ان کے لیے یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ رہی۔ مختلف پلیٹ فارمز پر احباب اس پر رائے زنی کرتے رہے اور اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ کچھ احباب نے سختی سے گرفت کی تو کچھ اپنی نرم مزاجی کے باعث مختلف انداز میں اس پر تنقید کو لے کر آگے بڑھے۔ کچھ احباب اس قسم کی پرفارمنس زدہ مشاعروں کو جدت کہہ کر اس کے حق میں ہیں، تو بہت سے اس کے مخالف۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس قسم کی 'بدعت' ان مشاعروں میں رائج ہوئی ہے، وہ کہاں جا کر رکے گی؟ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد شاعر کسی خوب صورت رقاصہ کے ساتھ سامعین میں جا کر اپنا کلام سنا رہا ہو اور احباب اس کو جدت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوں!
یہاں یہ بات واضح کرنا بھی اہم ہے کہ مسئلہ مشاعرے کو اس کی تہذیبی منہاج میں آگے بڑھانے کا ہے، خدانخواستہ کسی شاعر کا چناؤ یا اس کی شاعری پر ہرگز کلام نہیں۔ یہ منصب کس کا ہے اور کس کا نہیں کہ وہ طے کرے کہ شاعر کا کلام کتنا عمدہ ہے یا اغلاط سے پُر۔۔۔ یہاں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشاعرہ اپنی تہذیبی اساس سے جس قدر جڑا رہے گا، ہماری زبان اور شاعری کو اس کا اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا، ہر ایک کو اپنی مرضی کا حق ہے، لیکن صاحب، اگر یہ مرضی ہماری زبان کی قیمت پر ہوگی تو ہم اس کی گرفت کریں گے۔
۔۔۔
بہت ''حفاظت'' سے لائی ہوں میں کتابیں!
مرسلہ:اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
کہتے ہیں اپنی کتاب کسی کو پڑھنے کے لیے دینا بے وقوفی ہے اور دے کر مانگنا اس سے بھی بڑی بے وقوفی۔۔۔ ماجرا یہ ہے کہ بہت سے لوگ کتابوں کو یا شاید پرائی کتابوں کو بہت بے پروائی سے برتتے ہیں۔۔۔ اگر آپ نے کبھی کسی کو کوئی کتاب دی ہوگی تو بخوبی جان سکتے ہیں کہ اگر کتاب کسی کے ہاں سے واپس آتی ہے تو اپنے آپ ایک کہانی کہہ رہی ہوتی ہے۔ راجہ مہدی علی خان اس حوالے سے کیا خوب منظر کشی کرتے ہیں۔
کلام حالی پہ گھی کی تھالی رکھی ہوئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ پھر اْس پہ ایک دن دوات میری اُلٹ گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔کلام داغ آہ! کَتھِے چُونے کے پیارے داغوں سے بھر گیا ہے، اور اس میں سے ایک حَسَیِن غزل میں نے پھاڑ لی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ کلامِ غالب پہ غالب آئی ہے میرے بچوں کی بدتمیزی، ورق ورق ہو کے ہر غزل بٹ گئے۔
معاف کیجیے۔۔۔ کلامِ آزاد جِلد سے اپنی آج آزاد ہو گیا، کتاب جب یہ پڑھی تو بارش برس رہی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ کلامِ آتش باورچی خانے میں لے گھسی تھی میری پڑوسن، حساب اس پر لکھ گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ فسانہ میرؔ پر ذرا کھیر گر گئی تھی نہ آہیں بھریں، وہ کھیر جھٹ سے میں نے اپنے آنچل سے پونچھ لی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ انیس کے مرثیوں پر آنسو میرے گرے تھے ورق پسیجے، لگا کہ آنکھوں کو سے شاید میں رو پڑی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ بالِ جبریل کھو گئی لے گئے ہیں، شاید اْسے فرشتے، سنبھال کر ورنہ طاق نسیان میں یہ رکھی تھی۔
معاف کیجیے۔۔۔کلامِ اکبر الہ آبادی کو شاید میرے اصغر نے بیچ ڈالا، زیادہ پیسے نہیں ملے چونکہ پھٹ گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ جوش صاحب کی نظم مزدور ایک چرا کر لے گیا ہے، اُسی کو پہنچی وہ چیز جس کے لیے لکھی گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ وہ نقش فریادی روس چل دی کہ روس اُس کو پسند آیا، ہمارے گھر میں بہت ترقی نہ کر سکی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ کتابِ راشد کو قافیوں کی تلاش میں گھر سے چل پڑی تھی، میں کیا کہوں یہ بہت ہی آزاد ہو گئی تھی، معاف کیجیے۔۔۔ بہت حفاظت سے لائی ہوں میں کتابیں اپنی سنبھال لیجیے، میں پڑھ چکی نظم نثر الماریوں سے مجھ کو نکال لیجیے۔۔۔!
۔۔۔
انہوں نے سردار بننے سے انکار کردیا۔۔۔
ریبا غفار،کراچی
یوں تو سب ہی کو اپنے والدین اور بزرگ اچھے لگتے ہیں، لیکن میرے نانا امداد علی بلوچ صرف میرے لیے ہی اہم نہیں، بلکہ وہ غریب گھرانے سے نکل کر ترقی کرنے والے ایک ایسے فرد ہیں، جس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے گاؤں کے لوگوں کی زندگیوں کو بھی سنوارا۔۔۔
وہ ہمارے گاؤں ضلع نوشہرو فیروز تعلقہ مورو (سندھ) میں سرکاری اسکول کے ایک لائق طالب علم رہے، انہیں چوتھی کلاس میں پہلی بار اسکالر شپ ملی، میٹرک تک مزید دو 'اسکالر شپس' حاصل ہوئیں، میٹرک کے بعد ان کو حیدرآباد نوکری کے لیے جانا پڑا، صبح وہ کام پر جاتے اور شام کو آکر کلاس لیتے، پھر کچھ وہ کراچی منتقل ہوئے، جہاں وہ کلرک کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اس کے بعد بھی انہوں نے تعلیم جاری رکھی اور پھر 'سی ایم اے' کیا یہاں سے ان کا نصیب کھلا اور ان کو ایک نجی صنعت میں اکاؤنٹ افسر کی پوسٹ دی ایسے دو سال کام کرتے کرتے وہ ڈپٹی اکاؤنٹ آفیسر بنے اور سال بعد اکاؤنٹ مینجر ہوگئے۔ 1979ء میں وہ ترقی کرتے کرتے دبئی میں ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے، جہاں انہوں نے 30 سال محنت کرتے ہوئے گزارے۔ اس کے بعد دوسری کمپنی میں ایکزیکٹو ڈائریکٹر بن کر کام کیا، جہاں سے 10برس بعد اب وہ ریٹائر ہوگئے، لیکن ملک شام میں اب بھی وہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
وہ ہمارے گاؤں میں بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے والے پہلے فرد بنے، پھر پورے گاؤں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی لڑکی بھی انہی کی بیٹی تھی، یعنی میری امّی، جس کے بعد سب والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کی طرف راغب ہوئے۔ پھر نانا نے گاؤں میں اپنا ذاتی پلاٹ گرلز پرائمری ہائی اسکول کے لئے عطیہ کر دیا۔ یہی نہیں میرے نانا نے گاؤں کے 200 سے زائد بچوں کو دبئی لے جا کر اعلیٰ تعلیم اور نوکریاں دلوائیں۔ آج یہ اپنے اہل خانہ کا سہارا ہیں۔ گاؤں والے اپنے تنازعات کے فیصلے تو ان سے کراتے ہی تھے۔
پھر سب نے انہیں اپنا سردار بنانا چاہا، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ وہ سب انسانوں کی برابری پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے بغیر کسی لالچ کے اپنے لوگوں کی خدمت جاری رکھی، وہ اب تک 300 افراد کو دبئی، ملائشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں اسکالر شپ دلا چکے ہیں۔ انہوں نے تعلیم، صحت اور روزگار سے سڑکوں کی مرمت سے لے کر گاؤں میں شمسی توانائی سے چلنے والی بتیاں بھی لگوا دی ہیں۔ ساتھ ہی ہم سائے گاؤں میں بھی پانی کا مسئلہ حل کرایا ہے۔
وہ کڑے اصول پسند، وقت کے پابند اور ہم سب سے بہت محبت کرنے والے ہیں، ان کی یہی شفقت ماشااللہ آج بھی انہیں جوان رکھے ہوئے ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی اپنے نانا جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف اپنی زندگی بہتر کروں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچانے کا باعث بنوں۔