عالمی طاقتوں نے سیاچن پر قبضے کیلئے بھارت کو درِپردہ مدد فراہم کی
افغان جنگ میں بھرپور مدد دینے کے باوجود امریکہ نے پاکستان کو سیاچن پر بھارتی کارروائی کے منصوبے سے آگاہ نہ کیا
(قسط نمبر7)
سیا چن خشکی کے علاقے میں موجود دنیا کا سب سے بڑا گلیشیر ہے، جو 75 کلو میٹر لمبا ہے۔ سیا چن مقامی زبان میں کالے گلاب کو کہتے ہیں، یہ سطح سمندر سے 6400 میٹر یعنی 21000 فٹ بلند ہے اور گلیشیر سائنس کی زبان میں برف کے دریا کو کہتے ہیں، یہاں اپریل 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں، اور یہاں اُس وقت سے اب تک کم ازکم تین بڑی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔
مگر یہاں بھارت اور پاکستان کے اتنے فوجی ایک دوسرے سے لڑائیوں میں ہلاک نہیں ہو ئے جتنے سرد موسم کی وجہ سے ہلاک ہوئے، اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بڑا دشمن سرد ترین موسم ہے، سیا چین لڑائیوں پر گفتگو سے قبل کوہ ہمالیہ کی عکاسی ضروری ہے کہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر، لداخ، پاکستانی آزاد کشمیر،گلگت و بلتستان، چینی لداخ اکسائے چن، تبت حقیقت میں یہ پورا علاقہ ہمالہ کا ہے جس کی عظمت علامہ اقبال نے اپنی نظم ہمالہ میں تفصیل سے بیان کی ہے، جس کا مطلع ہے
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
ہمالہ کے نزدیک اردگرد پاکستان ،چین ، چینی علاقہ تبت، بھارت اور نیپال واقع ہیں اور قدرے نزدیک ، برما یعنی میانمار، سکھم ، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ واقع ہیں، قدیم ہندو دھرم میں ہمالیہ کو ساگر ماتا کہا گیا ہے جس کے معنی سمندروں کی ماں کے ہیں، جب کہ سنسکرت میں ہمالہ کے معنی برف کا گھر ہے۔
کوہ ہمالیہ کی 8000 میٹر سے بلند 14 چوٹیاں ہیں جن میںسے آٹھ نیپا ل کے پاس ہیں، پانچ پاکستان کے پاس ہیں اور ایک چین کے پاس ہے، سب سے اُنچی چوٹی ماونٹ ایوریسٹ ہے جو نیپال کے پاس ہے جس کی بلندی 8848 میٹر ہے جب کہ پاکستان کے پاس دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو ہے جس کی بلندی8611 میٹر ہے اس کے علاوہ پاکستان کے پاس نانگا پربت جس کو اس کی خطرناکی کے سبب Killer Mountainبھی کہا جاتا ہے۔
اس کی بلندی8125 میٹر ہے، نمبر3۔گیشروم اوّل بلندی 8068 میٹر، نمبر4۔براڈ پیک بلندی 8051 میٹر، نمبر5 ۔گیشروم ثانی 8035 میٹر بلند ہے، اور گلگت شہر کے قریب 100کلومیٹرکے نصف قطر کے اندر اندر24 سے زیادہ برفانی چوٹیاں ایسی ہیں جن کی بلندی20000 فٹ سے زائد ہے سطح سمندر سے 16000 فٹ کی بلندی کو خط برف یا سنو لائن Snow Line کہتے ہیں کہ اس بلندی پر ہمیشہ برف جمی رہتی ہے اور سال کے کسی مہینے میں بھی نہیں پگھلتی، یوں پاکستان کے شمال میں یہاں قطبین سے باہر دنیا کے بڑے گلیشیر ہیں،گلیشیر پہاڑوں جیسے برف کے بڑے ڈھیر ہوتے ہیں جو بلندی سے آہستہ آہستہ، رفتہ رفتہ نیچے سرکتے رہتے ہیںاسی لیے سائنس کی زبان میں اِن کو برف کا دریا کہا جا تا ہے۔
سیا چن پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیر ہے جس پر بھارت اپنا قبضہ مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ سیاچن گلیشیر پاکستا ن کے جغرافیائی حصے میں ضلع سکردومیں واقع ہے، اسی علاقے میں دوسرے مشہور اور بڑے گلیشیروں میں بلتوروگلیشیر کی لمبائی 62 کلومیٹر ہے پھر بتورا گلیشیر ہے جس کی لمبائی 58 کلومیٹر ہے۔
ان سے قدرے کم لمبے گلیشیروں میں بیافوگلیشیر،گارڈون گلیشیر ، آسٹن گلیشیر اور چوغولنگنھما گلیشیر شامل ہیں۔ یہ تمام علاقے 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کے پاس ہیں۔واضح رہے کہ پہلی پاک بھارت جنگ کے بعد 1949ء میں کراچی ایگریمنٹ ہوا تھا، یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان ہوا تھا کیونکہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر پر جنگ رکوانے کے لیے اقوام متحدہ گئے تھے جہاں اقوام کی ضمانت پر خود انہوں نے اِن قراردادوں کو منظور کیا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ خود کشمیریوں کی مرضی سے استصواب رائے کی بنیاد پر ہو گا اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے جو علاقے پاکستانی فوج اور مجاہدین نے آزاد کروائے تھے اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے کے درمیان سیز فائر لائن( جنگ بندی کی لائن)طے پائی تھی۔
پھر جب 1965ء کی جنگ کے بعد سابق سوویت یونین اور امریکہ نے بھارت کی جان خلاصی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہو ئے جیتی ہوئی جنگ کے باوجود تاشقند کا معاہدہ کر وایا تھا۔اس معاہدے میں بھی تمام علاقے جو 1947-48 کی جنگ میں ہمارے قبضے میں آئے وہ اس وقت معاہدہ کراچی کی پوزیشن پر فوجوں کی واپسی کی بنیاد پر طے ہوئے تھے اور پھر جب 1971 کی جنگ کے بعد 1972میں شملہ معاہد طے پایا تو اگر چہ اُس وقت بھارت کی وزیر اعظم نے معاہدہ تاشقند کے اصول کو نہیں تسلیم کیا تھا اور سیزفائر لائن کی جگہ لائن آف کنٹرول قرار پائی تھی وہ 1971 کی جنگ جن کے مقامات پر بند ہوئی تھی انہی خطوط پر طے ہوئی تھی مگر اُس میں بھی سیاچن گلیشیر کا علاقہ پاکستان کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔
اسی طرح 1962 سے پہلے جب چین جس کو امریکہ نے ویسے ہی تسلیم نہیں کیا تھا اس چین کے تعلقات سوویت یونین سے خراب ہو ئے تو بھارت نے دونوں بڑی قوتوں یعنی سوویت یونین اور امریکہ سے اپنے بہتر مفادات کے لیے چین جیسے بہتر ہمسایہ سے تعلقات بگاڑ لئے اور چینی علاقے تبت میں اِن دونوں طاقتوں کی خوشنودی اور علاقے میں اپنی بالادستی قا ئم کرنے کیلئے وہاں کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں سیاسی پناہ دی۔
نیپال، سکھم اور تبت کے یہ علاقے اور کشمیر لداخ اور گلگت و بلتستان کے علاقے چین، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں سارا سال بہنے والے دریاؤں کے بہاؤ کے لیے نہایت اہم ہیں، اس سے پہلے بھی تبت کی جھیل ما نسرورکا ذکر ہو چکا ہے یہاں گلیشیر وں کے اعتبار سے اس کی مزید وضاحت بہت ضروری ہے۔
کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک پہاڑ کا نام کیلاش ہے جو سطح سمندر سے6700 میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑکے درمیان نصف گولائی میں تقریباً پچاس کلومیٹر طویل اور بالکل درمیان میں 250 فٹ کی گہرائی کے ساتھ دنیا میں قدرت کے حیرت انگیز شاہکار کے طور پر نہایت ٹھنڈے اور شفاف ترین پانی کی جھیل مانسرور ہے۔ یہ جھیل ہندو مت اور بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے مقدس ہے، اس بلندی پر ہونا تو یہ چاہیے کہ مانسرور جھیل سردی سے جمی رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس جھیل کے نیچے ابلتے ہوئے پانی کے چشمے رکھے ہیں۔
ایسے عظیم چشمے کہ جن سے بھار ت، پاکستان، چین ، بنگلہ دیش، نیپال کو سیراب کرنے والے دنیا کے بڑے بڑے دریا نکلتے ہیں، اس جھیل کے ارد گرد کوئی مستقل انسانی آبادی نہیں ہے، کیلاش کی چوٹی اور اس جھیل کے بارے میں سنسکرت کی قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ یہاں ہندو مت کے شکتی (فنا) اور مکتی (بقا )کے دیوتا شیوا جی کی مستقل قیام گاہ ہے جہاں وہ اپنی بیوی پاروتی کے ساتھ رہتے ہیں اور خوش قسمت انسان کو یہ دیوی دیوتا سفید کونجوں کی صورت میں اپنے خدمت گاروں کے ساتھ نظر آتے ہیں جب کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے عقائد کے مطابق یہ ایسی مقدس اور بابرکت جھیل ہے کہ یہاں جو انسان بھی اس جھیل کو دیکھنے آئے اُس کے من کی مراد پوری ہو جاتی ہے اس لئے بدھ مت کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی میں ایک بار یہاں ضرور جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ مہاتما بدھ آج بھی اپنے پانچ سو بھکشووں کے ساتھ اس جھیل کے کنارے ابدی زندگی بسر کر رہے ہیں، یوں ہر ہندو اوربدھ مت کے ماننے والے کے لئے تبت کیلاش کی جھیل مانسرور بہت مقدس ہے، بدھ اور ہندو دیومالامیں کیلا ش پہاڑ کوکائنات کی ناف قرار دیا گیا ہے،کیلاش پہاڑ، جھیل مانسرور اور یہاں واقع گلیشیروں سے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کو سیراب کرنے والے دنیا کے تقریباً سات بڑے دریا نکلتے ہیں، دریا برہما پتر جو بنگلہ دیش کو زیادہ سیراب کرتا ہے یہ یہاں جھیل سے نکلنے کے بعد پہلے چین میں داخل ہوتا ہے، وہاں اس کا نام سانپو دریا ہے، جھیل سے نکلنے والا دوسرا دریا ستلج ہے، یہ یہاں سے جنوب میں بہتا ہوا دنیا کے دو بڑے دریاؤںسندھ اور گنگا کے طاسوں کی حد بندی کرتا ہوا آخر دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔
مانسرور جھیل سے نکلنے والا تیسرا دریا کرنالی ہے، یہ بھی جنوب میں سفر کرتا آگے گنگوتری نامی گلیشیر کے نیچے سے نکلنے والے ہندوستان کے مقدس دریا گنگا سے مل جاتا ہے، واضح رہے کہ ہندو دھرم میں گنگا نہانے والے کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ باکل پاک ہو جاتا ہے، دریا گنگا شمالی ہندوستان میں شمال سے مشرق میں بہتا ہے، گنگو تری گلیشیر سے کچھ فاصلے پر ایک دوسر ے گلیشیر کا نام جموتری ہے اور یہاں سے ہندستان کا دوسرا مشہور مشہور دریا جمنا نکلتا ہے۔
دہلی کا تاریخی شہر اور آگرہ کا تاج محل اسی دریا کے کناروں پر واقع ہیںاور دریائے گنگا اور جمنا کا سنگم الہ آباد کے مشہور شہر کے قریب ہوتا ہے جب کہ اَن تمام دریاؤں میں سب سے بڑا اور اہم دریا دریائے سندھ ہے، یہ برصغیر کا سب سے لمبا دریا ہے اور لمبائی کے اعتبار سے دنیا کے ٹاپ ٹونٹی دریاؤں میں اپنی کل لمبائی 2950 کلومیٹر کے ساتھ 19 ویں نمبر پر ہے، برصغیر میں تین دریا برہماپتر، دریائے گنگا اور دریائے سند ھ الگ الگ تین خطوں کی قدیم تہذیبوں کی جغرافیائی حدود کا تعین بھی کرتے ہیں جس میں بنگال کی تہذیب کا تعین دریاِ برہما پتر، ہندوستان کی قدیم تہذیب کا تعین دریائے گنگا اور پاکستان کی قدیم تہذیب کا تعین دریائے سندھ کرتا ہے۔
اب دریاؤں، ہمالہ کی بلند چوٹیوں اور بڑے گلیشیروں کے اس پورے منظر نامے کو دیکھیں تو کشمیر پر ظالمانہ قبضہ، 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی سازش اور پھر سیا چن گلیشیر پر ناجائز قبضہ یہ گواہی دیتا ہے کہ بھارت کی بری نیت اور علاقے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کی حماقت واضح ہے۔ بد قسمتی دیکھئے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی جارحیت کے خلاف قرارداد 23 ملکوں کے ووٹوں کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے منظور ہوئی اور امریکہ اور مغربی دنیا سمیت اکثر ملکوں نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی مزاحمت کو ضروری سمجھا اور پاکستان کی جانب سے ان کی ٹریننگ کو سراہا اور اِن مجاہدین کے اہل خانہ کو پاکستان میں 35 لاکھ کی تعداد میں پناہ دینے پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملکوں نے اسے انسانی حقوق اور انسانیت کی بنیاد قرار دیکر پاکستان کی تعریف کی۔
عین اسی وقت 1982 میں بھارت پاکستان کے سب سے بڑے گلیشیر پر قبضہ کرنے کا پورا منصوبہ تیار کر چکا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ جنگ دنیا کے بلند ترین محاذ پر سطح سمندر سے 21000 فٹ کی بلندی پر لڑی جانے والی تھی۔ 1982 میں بھارت کی فوج ایک مو نٹین ڈویژن کو Antarctica انٹارٹیکا میں ٹریننگ کرائی گئی ۔ان دنوں آزادیٔ کشمیر اور خالصتان کی جدوجہد زوروں پر تھی اور بھارت اس کا مقابلہ یوں کر رہا تھا کہ وہ پاکستان میں تخریبی کارروائیاں شروع کروا چکا تھا۔ دوسری بڑی قوت سوویت یونین کا سامنا تھا جو بہرحال بھارت سے اس لیے بھی تعاون کر رہا تھا کہ اس طرح وہ پاکستان پر متواتر دباؤ ڈال کر اِسے مجاہدین کی بھرپور حمایت اور مدد سے باز رکھ سکے لیکن جس طرح بے خو ف ہوکر افغان مجاہدین سوویت فوجوں کے خلاف لڑرہے تھے اُسی طرح پاکستان اُن کی مدد بھی بہت بے خوفی سے کر رہا تھا۔
جب صدر سردار داؤد کو قتل کیا گیا تھا اور نور محمد تراکئی نے اقتدار حاصل کیا تھا تو کابل، جلال آباد، ہرات، قندھار اور دیگر شہروں سے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے خاندان پاکستان آگئے تھے جن میں سے بعض پھر امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ بھی گئے۔
اس اعتبار سے پاکستان اور افغانستان کے دونوں طرف لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اس لیے پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاسوسی کی صلاحیت یہاں انسانی بنیادوںپر ہمیشہ سے ز یادہ مضبوط رہی ہے، اور اس سے افغانستان میں سوویت یونین کے خلا ف لڑی جانے والی جنگ میں امریکی سی آئی اے کو روسی ا یجنسی ،کے جی بی، کے مقابلے میں بہت سہولت اور فائدہ ہوا، لیکن جب یہاں افغان مجاہدین کی جانب سے روس کے خلاف مزاحمت جاری تھی تو اُسی وقت سے بھارتی جاسوسی ایجنسی راء بھی یہاں زیادہ مصروفِ عمل ہوگئی اور اُس وقت راء کے روابط کے جی بی کے ساتھ پاکستان مخالف تھے اور اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ Raw را کے ساتھ ہی کسی سطح پر امریکی سی آئی اے سے بھی رابطے میں ہو۔
کیونکہ پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی نے تو امریکی سی آئی اے سے ہر مرحلے پر افغانستان میں تعاون کیا مگر اس مرحلے پر جب بھارت سیا چن گلیشیر پر قبضے کی تیاری کر رہا تھا تو امریکا نے پاکستان کو کچھ نہیں بتایا بلکہ اس کا پتہ بھی آئی ایس آئی نے لگایاتھا۔ سوال یہ ہے کہ اِس دوران امریکہ سمیت اُن ملکوں نے ہمارے ساتھ یہاں انفارمیشن کی حد تک بھی کیوں تعاون نہیں کیا بلکہ وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ جس طرح تاخیری حربوں کی وجہ سے یا پاکستان پر عالمی سیاسی، معاشی اور اقتصادی دباؤ ڈال کر 1947-48 کی جنگ کے بعد کشمیر پر اتفاق رائے سے تسلیم کی جانے والی قراردادوں پر آج تک عملدرآمد نہیں کر وایا گیا۔
جس طرح 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت کی ساکھ بحال کرنے کے لیے پہلے بھارت کی جان خلاصی کرائی گئی اور پھر عا لمی سازش کے تحت 1971 کی جنگ میں بھارت کو پاکستان میں کھلی فوجی مداخلت کی چھٹی دے دی گئی، اسی طرح یہاں سیاچن میں بھی بھارتی فوجی مداخلت بڑی قوتوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ہوئی ہے اور اُس وقت ہوئی جب پاکستان پوری دنیا کی قرارداد پر اُن کی مرضی کے مطابق سابق سوویت یونین جیسی بڑی قوت کے سامنے فرنٹ لائن کا ملک بن کر مقابلہ کر رہا تھا۔
پاکستان دنیا کے اس بلند ترین محاذ جنگ پر 35 برسوں سے بھارت کی فوجوں کا مقابلہ کر رہا ہے، سیاچن جو دنیا کا سب سے بلند اور سرد ترین محاذ جنگ ہے، انسانی تاریخ میںآج تک اتنی بلندی اور شدید سرد مقام پر کبھی جنگ نہیں ہوئی، سیا چن اور اس کے قریب واقع تمام بڑے گلیشیر پاکستان کے ہیں اور قیام پاکستان کے بعد یہاں ہی سے دنیا کے کوہ پیما بلند چوٹیوں کو سر کرنے سیا چن گلیشیر کو سرکرنے دیکھنے کے لیے جاتے رہے ہیں، جہاں تک تعلق یہاں کسی فوجی چوکی وغیرہ کا ہے تو یہ غالباً کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس جگہ جہاں زندگی ممکن نہیں ہے دو ملکوں کی فوجوں کے درمیان لڑائی ہو گی۔
بھارت نے یہاں قبضے کا منصوبہ کافی پہلے سے بنا رکھا تھا، اس بلند اور سرد ترین مقام پر قیام کرنے کے لیے خاص قسم کا لباس،جوتوں ، ٹوپیوں اوردیگر فوجی سامان کی ضرورت ہوتی ہے، یوں بھارت نے اس کا پہلے سے انتظام کر لیا تھا، 1982 میں جب پاکستان کو اس کی اطلاعات ملیں تو پاکستان کی فوج نے فوری طور پر سیا چن گلیشیر پر اپنے فوجی دستے تعینات کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے 1983 میں لندن کی ایک فرم کو جو ایسے سرد ترین مقامات پر جانے والے مہم جو افراد کے لیے خصوصی لباس تیار کر تی ہے۔
اُسے سیا چن گلیشیر پراپنی فوج کے لیے لباس یعنی خصوصی یونیفارم وغیرہ کے آڈردئیے، بد قسمتی سے بھارت نے بھی اسی فرم سے اپنے فوجیوں کے لیے یونیفارم بنوا ئے تھے، یوں بھارت کو یہ خبر مل گئی اور اس نے بھی اپنی تیار ی تیز تر کر دی، واضح رہے کہ سیا چن تک جانے لیے زمینی راستے پاکستانی علاقے سے جاتے ہیں کیو نکہ یہاں ڈھلوان سے اُوپر بلندی تک راستہ کم خطرناک ہے اور پاکستانی علاقے میںیہاں1984 میں لڑائی سے ذرا قبل جاپانی کوہ پیما رینو چوٹی کو سر کرنے گیا تھا۔
یہ چوٹی سیاچن کے مشرق میں ہے اور یہاں سے شمال مغرب میںاکسائی چن ہے، یہ علاقہ چین کے پاس ہے اور اس پر بھارت کا دعویٰ ہے ، یہاں سے ایک راستہ شمال مغرب میں چین سے جنوب مغرب میں پاکستان کی طرف کارگل ریجن سے نکلتا ہے، بھارتی فوج کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ اس اہم اور اسٹرٹیجک پوزیشن پر پاکستانی فوج کو روک دے، بھارت نے اِس آپریشن کا نام چوتھی صدی عیسو ی میں پیدا ہونیوالے سنسکرت زبان کے شاعر کالی داس کی ایک نظم کے عنوان پرآپریشن میگڈوٹ یا مغودتOperation Mghdoot رکھا تھا جس کی کمانڈ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل پریم ناتھ اور لیفٹیننٹ کرنل درخاننا نے کی اور13 اپریل 1984 کو بھارتی فضائیہ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اپنی دس انفنٹری پلٹنیں یعنی تقریباً 3000 کی تعداد میں فوج اتار دی اور سیاچن گلیشیر کے علاقے میں پاکستان کے 2553 مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا۔
پاکستان کی جانب سے اس کی اطلاع کے ساتھ ہی کارروائی ہوئی اور پاکستانی فوج نے یہاں چار روز کے بعد 17اپریل کو جوابی کاروائی کی مگر دونوں جانب سے ہونے والے جانی نقصانات کے بارے میں تفصیلا ت سامنے نہیں آسکیں،17 اپریل1984 میں پاکستان کی جانب سے اس جوابی فوجی کارروائی کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل زا ہد علی اکبر اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف جو اُس وقت بریگیڈئیر تھے اِنہوں نے کی تھی، بھارت نے یہاں سیاچن گلیشیر پر قبضہ کر کے تین مقامی دروں پر کنٹرول حاصل کیا اور سیاہ چن گلیشیرکے کناروں پر پہنچا، جب کہ 1984 میں ہی پاکستان نے یہاں سلاٹور رینج پر نشیب میں پوزیشن حاصل کر لی اس کے بعد سے یہاں 1987 اور اس کے بعد 1989 میں بڑی لڑائیاں ہوئیں، بھارت یہاں موجود اپنی فوج کو طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سامان سپلائی کرتا ہے لیکن پاکستان کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ زمینی راستے سے بھی یہاں سپلائی پہنچا سکتا ہے۔
یہاں قبضے کے بعد بھارت کا موقف یہ ہے کہ معاہدہ کراچی1949 میں اس علاقے کی حد بندی میں ابہام ہے اور اس طرح یہ علاقہ بھارت کا ہے ،جب کہ معاہدہ کراچی، معاہدہ تاشقند اور شملہ معاہدہ سب میں مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے، اور دنیا بھر کے تمام قوانین میں ابہام کے بارے میں یہ ہے کہ اس پر شواہد کیا کہتے ہیں اور شواہد پر نظر ڈالیں تو سیا چن کے اردگردکا تمام علاقہ پاکستانی ہے یہاں ایک جانب جہاں چینی علاقہ اکسائی چن اور چین کا لداخ ہے وہ بھی سیا چن پر پاکستان کے قبضے کو تسلیم کرتا، 1949کے معاہد ہ کراچی کے بعد سے دنیا کے بیشتر کوہ پیما پاکستانی علاقے سے سیا چن کی جانب گئے پھر اہم بات یہ ہے کہ اتنی بلندی پر واقع سیاچن گلیشیر پر جہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا کی تخلیق سے 1984 تک کسی نے فوجیں نہیں بھیجیں وہاں بھارت نے کیوں فوجیں بھیج کر قبضہ کیا ہے؟
یہاں یہ بات اہم ہے کہ بھارت اس بڑے گلیشیر سے پانی کا بہاؤ بھارت کی جانب لے جا رہا ہے اور یہ بھی عالمی قوانین کی سخت خلا ف ورزی ہے، پانی کی تقسیم پر ہزاروں برس کے قدرتی بہاؤ کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اگر تنازعہ پیدا ہو جائے تو پھر اس میں اور بہت سے پہلووں پر غور کیا جا سکتا ہے مگر بنیاد ی چیز صدیوں سے پانی کا بہاؤ جس طرف ہوتا ہے اس پانی پر اسی کا حق تسلیم کیا جاتا ہے پھر جہاں تک تعلق دنیا میں ہونے والی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہے تو بھارت اس میں عالمی سطح پر تین بڑے حصہ داروںمیں شامل ہے اور اس وقت پوری دنیا کا ایک بڑا اور اہم مسئلہ ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب 1984میں سیاچن پر بھارت نے اپنی فوجیں بھیجیں تھیں تو اُس وقت یہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی 50 سینٹی گریڈ تھا اور اب سیاچن میں ریکارڈ کے مطابق 2012 میں یہ درجہ حرات منفی40 سینٹی گریڈ ہوا، پھر یہاں کم سے کم درجہ حرارت 2014 میں منفی 37 سنٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، سیا چن پر 2015 میں درجہ حرارت منفی 34 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا اور ریکارڈ پرآخری کم سے کم درجہ حرارت 2016 میں منفی30 سینٹی گریڈ ہے، اس کے بعد کا درجہ حرارت مہیا نہیں ہے۔
یہ دنیا بھر کے ماحولیات سے متعلق سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ 1984 کے 28 سال بعد سیاچن گلیشیر پر کم سے کم درجہ حرارت میں 10 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا، اور 2012 میں یہاں کم سے کم درجہ حرارت مزید بڑھ کر منفی 40 سینٹی گریڈ ہو گیا، اورپھر صرف چار برسوں کے مختصر عرصے میں یہ منفی درجہ حرارت مزید 10 سینٹی گریڈ بڑھا ہے اور 2016 کے مطابق سیاچن میں درجہ حرارت منفی 30 سینٹی گریڈ ہو گیا ہے، بدقسمتی دیکھئے کہ دنیا بھر کے ماحولیاتی نظام میں اہم ترین کردار ادا کر نے والے ہمالیہ پر اقوام متحدہ جو ماحولیاتی تبدیلیوں ،کلائمیٹ چینج ،گلوبل وارمنگ جیسے مسائل پر 2000 ء سے خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں پہلےUNDP کے تحت ملین ڈیویلپمنٹ گولز پروگرام کے تحت اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور پھر اس کے بعد اب اُسی پروگرام کو سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز کے نام سے جاری رکھتے ہوئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے، وہ اس جانب توجہ کیوں نہیں دے رہا کہ آخر بھارت سیاچن گلیشیر پر کیا کر رہا ہے؟
جس کی وجہ سے یہاں ''ساگر ماتا'' جیسے کوہ ہمالیہ ہندو اور بدھ عقائد ہی کے مطابق کائنات کی ناف کے قریب جہاں اُن کی شکتی( تباہی) اور مکتی (بقا) کے دیوتا شیوا کی رہائش ہے اس پورے ہمالیہ پر قدرتی ماحول کو بھارت نے تباہ و برباد کر دیا ہے، ریکارڈ کے مطابق 2012 سے2016 تک جو 10 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا یہاں اضافہ ہوا ہے اس سے ہزاروں سال سے گلیشیرز کی صورت میں جمے ہوئے پانی کے ذخائر کو منفی 50 سنٹی گریڈ درجہ حرارت نے مضبوطی سے جما رکھا تھا، اب ان کے تیزی سے پگھلنے کے عمل سے پوری دنیا کے ہزاروں سال کا مستحکم قدرتی ماحول بھارت نے تباہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پورے برصغیر میں سالانہ درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے، اورکلائمیٹ چینج سے جہاں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
وہاں اِن گلیشیروں کے زیادہ تیزی سے پگھلنے سے مالدیپ جیسے ملک کا آدھے سے زیادہ رقبہ سمندر میں ڈوب چکا ہے، اور آئندہ پندرہ بیس برسوں میں بنگلہ دیش کا بھی تقریباً پندرہ سے بیس فیصد رقبہ سمندر میں ڈوب جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی مشن بھارتی قبضے میں سیاچن گلیشیر کا پورا معائنہ کرے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہاں اتنے مختصر سے عرصے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا، اور ساتھ ہی فوری طور پر سیاچن گلیشیر پر عالمی ماہرین قوانین سے 1949ء کے معاہدہ کراچی کی روشنی میں سیاچن گلیشیر کا فیصلہ بھی اقوام متحدہ کروائے کہ یہ مسئلہ شملہ معاہدہ کے بارہ سال بعد بھارت نے پیدا کیا ہے جس پر بھارت کا کشمیر کے حوالے سے یہ موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی تیسرے فریق کی بجائے دونوں ملک یعنی بھارت اور پاکستان آپس میں مذاکرات کی بنیاد پر پُر امن طور پر اس مسئلے کو حل کر یں گے جو بھارت اب تک نہیں کر سکا، لیکن جہاں تک تعلق سیاچن گلیشیر کا ہے اس پر اقوام متحدہ کو فوری کاروائی کرنی چاہیے کہ یہ مسئلہ پوری دنیا اور انسانی بقا سے متعلق ہے کہ بھارت کے ہندو حکمران اپنے دیوتا کے امن کے پہلو کو بھول کر تباہی کے پہلو پر زور دے رہے ہیں۔
اس پورے علاقے میں یوں تو گلیشیروں کے بننے پگھلنے کا قدر تی عمل تو ہزاروں برس سے جاری ہے لیکن اب اس میں تیزی سے اضا فے کی وجہ سے پاکستان کو یہ نقصان ہو رہا ہے کہ یہاں تباہ کن سیلابوں، شمالی علاقوں میں زمین بردگی میں بھی کا فی اضافہ ہو چکا ہے ۔ 2010 کا سیلاب دنیا کے تباہ کن سیلابوں میں سے تھا جس کے بارے میں اُس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری بانکی مون نے پاکستان کے ہنگامی دورے پر کہا تھا کہ ایسا سیلاب نہ پہلے دیکھا اور نہ سنا، سیاچن پر قبضے کے بعد گلیشیروں کے پگھلنے کا عمل بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
جس کی وجہ سے اس پورے علاقے میں لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے بھی سالانہ بہت سا جانی اور مالی نقصا ن ہو رہا ہے جب کہ سیاچن کے پورے علاقے میںبرفانی تودوں کے گرنے یعنی ایوالانچ Avalanche کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ویسے توکئی ایوالانچ سالانہ خصوصاً موسم گرما میں آتے رہتے ہیں لیکن یہاں سیاچن پر دنیا کے سب سے بلند اور سرد ترین محاذ جنگ پر تین بڑے ایوالانچ جانی نقصان کا سبب بنے۔ 7 اپریل 2010 ء میں ایوالانچ کی وجہ سے 24 پاکستانی فوجی سپاہی جاں بحق ہوئے، 29 مئی 2012 ء کو ایسے ہی برفانی طوفان کی وجہ سے 129 پاکستا نی فوجی اورگیارہ سویلین جاں بحق ہوئے جب کہ 3 فروری 2016 کو سیاچن گلیشیر میں 12 بھارتی فوجی برف کے نیچے دفن ہو گئے، اگرچہ یہاں بھارت اور پاکستان دونوں کی جانب سے ہلاک ہونے والوں اور معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد کبھی پوری طرح نہیں بتائی گئی، البتہ ایک بار بھارتی پارلیمنٹ میں 18 نومبر 1984 کو یہ بتایا گیا تھا کہ سیاچن میں 35 بھارتی فوجی افسر اور 887 جے اوسیز ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت نے کئی سال پہلے یہ بھی بتایا تھا کہ سیاچن کے محاذ پر بھارت کا یومیہ خرچ 50 ملین روپے یعنی پانچ کروڑ روپے ہے۔ 1984 میں جب بھارت نے سیا چن پر قبضہ کر لیا، تو بھارت میں مقبوضہ کشمیر سے کہیں زیادہ بحرانی صورتحال بھارتی مشرقی پنجاب میں خالصتان تحریک کے حوالے سے ہوئی جس پر اندرا گاندھی نے اپنے قتل سے قبل سخت ترین اقدامات کئے۔ 1982 سے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات جن میں ایران، پاکستان تھے بعد میںاقوام متحدہ کے تعاون ہی سے پاکستان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان اور افغانستان کے شاہ محمد دوست کے ساتھ شروع ہوئے، یوں یہ حقیقت عیاں ہونے لگی کہ سوویت یونین کی قیادت نے ایران اور پاکستان میں اسلامی انقلابات کے ممکنہ اثرات کو روکنے کے لیے جو حکمت عملی اپناتے ہوئے دسمبر1979 میں افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کی تھیں کہ وہ سنٹرل ایشیا کی اپنی ریا ستوں کو محفوظ رکھ سکے تو صرف دو برسوں ہی میں سوویت یونین کی قیادت کو انداز ہ ہو گیا کہ اس سے سوویت یونین کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ بالکل ایسی ہی صورت تھی کہ جب ویت نام سے امریکی فوجیوں کی میتیں لگاتار آنے لگی تھیں تو امریکی عوام کی طرف سے حکومت پر بہت زیادہ دباؤ بڑھ گیا تھا، جہاں تک مالی نقصان کا تعلق تھا تو وہ امریکہ کئی برس تک مزید برداشت کر سکتا تھا ، مگر سوویت یونین کے لیے صورتحال دونوں اعتبار سے بہت مشکل ہو گئی تھی، اُس کی معیشت اشتراکی بنیادوں پر تھی اور اُس کی مارکیٹ عام ایشیا کی اور ایشیا خوردنی کے لحاظ سے ہمیشہ سے محدود رہی تھی۔
اس صورتحال میں جب دنیا کے 23 ممالک کے مقابلے میں 116 ممالک روس کے خلاف ہو گئے تھے تو صورتحال اور بھی ابتر ہو گئی تھی، سوویت یونین کی سب سے اہم مارکیٹ اسلحہ کی تھی اور سرد جنگ میں 1947-48 سے1973 کی عرب اسرائیل جنگ تک کے عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے مقابلے میں خصوصاً ورسا پیکٹ کے ممالک کے ساتھ امریکہ مخالف ملکوںمیں سوویت یونین کے اسلحہ کی اچھی مارکیت تھی مگر افغانستان میں مداخلت کے بعد اب سوویت یونین کی پیداوار اور تجارت محدود ہو تی جا رہی تھی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی سی آئی اے کی حکمت عملی اور منصو بہ بندی بہت بہتر تھی کہ تقریباً اپنی ہم پلہ قوت کو امریکہ بہت دانش مندی سے اس طرح شکست دے رہا تھا کہ اس کے نتیجے میں دنیا میں کوئی بحران رونما نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکی اپنے صدور میں صدر رونالڈ ریگن کو بہت اہم صدر تصو ر کرتے ہیں۔
اگرچہ امریکی تاریخ میں صدر کینیڈی بھی بہت مقبول تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت سوویت یونین نے کیوبا سے میزائل ہٹانے پر رضامندی ظاہر کر کے دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا تھا اور اب 1982 سے وہ دور شروع ہو رہا تھا جس میںآئندہ اس خطرے سے بچنا تھا مگر ساتھ ہی جنگی حکمت عملی یہ تھی سوویت یونین کو اُس وقت تک افغانستان سے نکلنے نہ دیا جائے جب تک وہ اُن خطوط پر آگے نہ بڑھے جن سے آزاد عالمی منڈی کا مزید استحکام ہو اور جمہوری بنیادوں سوویت یونین کے حاشیہ بردار کیمونسٹ ملک اور خود سوویت یونین کی ریاستیں آزاد نہ ہو جائیں،1984 تک جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا تھا اور دوسری جانب بھارت کشمیر اور خالصتان کی آزادی کی تحریکوں کے شدید بحران سے گزر رہا تھا تو اُس وقت سے امریکہ نے پاکستان پر بھی دباؤ میں اضا فہ کردیا تھا کیونکہ وہ علاقے میں مستحکم پاکستان کو اپنے مفاد میں بہتر نہیں سمجھتا تھا، ایک ایسا پاکستان جس کا ہمسایہ ا فغانستان جو تقربیاً ایک صدی سے بفر اسٹیٹ رہا ہو اور اب سوویت یونین کی شکست کے بعد پاکستان کا بہترین ہمسایہ اور دوست ملک بن جائے۔
ویسے بھی امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کا یہ راز رہا ہے کہ اُس نے 1914 میں جنگ عظیم اوّل سے اس پالیسی کو اپنائے رکھا ہے کہ امریکہ سات سمندر پار دنیا کا محفوظ ترین ملک اور مواقع کی سر زمین ہے، جہاں دنیا بھر کے سرمایہ دار اور ذہین و فطین سائنس دان اور ماہرین خود کو مکمل طور پر محفوظ تصور کرتے ہیں، یوں امریکہ کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی ایک ایسی قوت کی ضرورت تھی جس سے امریکہ دنیا بھر کے سرمایہ داروں اور ذہین وفطین سائنس دانوں اور ماہرین کو ڈرا کر امریکی کشش کو برقرار رکھ سکے۔
اس لیے بھی امریکہ نے پاکستان کو باوجود بہت زیادہ وفاداری کے ایک خاص انداز سے اپنے مفادات کیلئے استعمال میں رکھنے کے لیے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے ہونے والی سیا چن کی کاروائی سے باخبر رکھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی لڑائی میں بھارت کے مقابلے میں سیاچن کے محاذ پر عسکری یا دفاعی یا عالمی سطح پر کوئی اخلاقی مدد کی ، بلکہ آئندہ دنوں میں جیسے جیسے سوویت یونین گھٹنے ٹیکتی رہی ویسے ویسے امریکہ پاکستان سے بے نیاز ہوتا گیا، بدقسمتی سے اس موقع پر حکمرانوں کو نہ تو صدر ایوب خان کی کتاب کا عنوان ''فرینڈز ناٹ ماسٹر'' یاد رہا، اور نہ ہی بھٹو کا راجہ بازار راولپنڈی کا لہراتا خط اور سفید ہاتھی کا استعارہ یاد آیا، اگر اپریل 1984 میں ہی جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا تھا پاکستان بھی افغانستان پر اپنی پو زیشن تبدیل کر لیتا تو شاید صورتحال کچھ اور ہو تی۔
(جاری ہے)
سیا چن خشکی کے علاقے میں موجود دنیا کا سب سے بڑا گلیشیر ہے، جو 75 کلو میٹر لمبا ہے۔ سیا چن مقامی زبان میں کالے گلاب کو کہتے ہیں، یہ سطح سمندر سے 6400 میٹر یعنی 21000 فٹ بلند ہے اور گلیشیر سائنس کی زبان میں برف کے دریا کو کہتے ہیں، یہاں اپریل 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں، اور یہاں اُس وقت سے اب تک کم ازکم تین بڑی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔
مگر یہاں بھارت اور پاکستان کے اتنے فوجی ایک دوسرے سے لڑائیوں میں ہلاک نہیں ہو ئے جتنے سرد موسم کی وجہ سے ہلاک ہوئے، اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بڑا دشمن سرد ترین موسم ہے، سیا چین لڑائیوں پر گفتگو سے قبل کوہ ہمالیہ کی عکاسی ضروری ہے کہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر، لداخ، پاکستانی آزاد کشمیر،گلگت و بلتستان، چینی لداخ اکسائے چن، تبت حقیقت میں یہ پورا علاقہ ہمالہ کا ہے جس کی عظمت علامہ اقبال نے اپنی نظم ہمالہ میں تفصیل سے بیان کی ہے، جس کا مطلع ہے
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
ہمالہ کے نزدیک اردگرد پاکستان ،چین ، چینی علاقہ تبت، بھارت اور نیپال واقع ہیں اور قدرے نزدیک ، برما یعنی میانمار، سکھم ، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ واقع ہیں، قدیم ہندو دھرم میں ہمالیہ کو ساگر ماتا کہا گیا ہے جس کے معنی سمندروں کی ماں کے ہیں، جب کہ سنسکرت میں ہمالہ کے معنی برف کا گھر ہے۔
کوہ ہمالیہ کی 8000 میٹر سے بلند 14 چوٹیاں ہیں جن میںسے آٹھ نیپا ل کے پاس ہیں، پانچ پاکستان کے پاس ہیں اور ایک چین کے پاس ہے، سب سے اُنچی چوٹی ماونٹ ایوریسٹ ہے جو نیپال کے پاس ہے جس کی بلندی 8848 میٹر ہے جب کہ پاکستان کے پاس دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو ہے جس کی بلندی8611 میٹر ہے اس کے علاوہ پاکستان کے پاس نانگا پربت جس کو اس کی خطرناکی کے سبب Killer Mountainبھی کہا جاتا ہے۔
اس کی بلندی8125 میٹر ہے، نمبر3۔گیشروم اوّل بلندی 8068 میٹر، نمبر4۔براڈ پیک بلندی 8051 میٹر، نمبر5 ۔گیشروم ثانی 8035 میٹر بلند ہے، اور گلگت شہر کے قریب 100کلومیٹرکے نصف قطر کے اندر اندر24 سے زیادہ برفانی چوٹیاں ایسی ہیں جن کی بلندی20000 فٹ سے زائد ہے سطح سمندر سے 16000 فٹ کی بلندی کو خط برف یا سنو لائن Snow Line کہتے ہیں کہ اس بلندی پر ہمیشہ برف جمی رہتی ہے اور سال کے کسی مہینے میں بھی نہیں پگھلتی، یوں پاکستان کے شمال میں یہاں قطبین سے باہر دنیا کے بڑے گلیشیر ہیں،گلیشیر پہاڑوں جیسے برف کے بڑے ڈھیر ہوتے ہیں جو بلندی سے آہستہ آہستہ، رفتہ رفتہ نیچے سرکتے رہتے ہیںاسی لیے سائنس کی زبان میں اِن کو برف کا دریا کہا جا تا ہے۔
سیا چن پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیر ہے جس پر بھارت اپنا قبضہ مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ سیاچن گلیشیر پاکستا ن کے جغرافیائی حصے میں ضلع سکردومیں واقع ہے، اسی علاقے میں دوسرے مشہور اور بڑے گلیشیروں میں بلتوروگلیشیر کی لمبائی 62 کلومیٹر ہے پھر بتورا گلیشیر ہے جس کی لمبائی 58 کلومیٹر ہے۔
ان سے قدرے کم لمبے گلیشیروں میں بیافوگلیشیر،گارڈون گلیشیر ، آسٹن گلیشیر اور چوغولنگنھما گلیشیر شامل ہیں۔ یہ تمام علاقے 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کے پاس ہیں۔واضح رہے کہ پہلی پاک بھارت جنگ کے بعد 1949ء میں کراچی ایگریمنٹ ہوا تھا، یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان ہوا تھا کیونکہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر پر جنگ رکوانے کے لیے اقوام متحدہ گئے تھے جہاں اقوام کی ضمانت پر خود انہوں نے اِن قراردادوں کو منظور کیا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ خود کشمیریوں کی مرضی سے استصواب رائے کی بنیاد پر ہو گا اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے جو علاقے پاکستانی فوج اور مجاہدین نے آزاد کروائے تھے اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے کے درمیان سیز فائر لائن( جنگ بندی کی لائن)طے پائی تھی۔
پھر جب 1965ء کی جنگ کے بعد سابق سوویت یونین اور امریکہ نے بھارت کی جان خلاصی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہو ئے جیتی ہوئی جنگ کے باوجود تاشقند کا معاہدہ کر وایا تھا۔اس معاہدے میں بھی تمام علاقے جو 1947-48 کی جنگ میں ہمارے قبضے میں آئے وہ اس وقت معاہدہ کراچی کی پوزیشن پر فوجوں کی واپسی کی بنیاد پر طے ہوئے تھے اور پھر جب 1971 کی جنگ کے بعد 1972میں شملہ معاہد طے پایا تو اگر چہ اُس وقت بھارت کی وزیر اعظم نے معاہدہ تاشقند کے اصول کو نہیں تسلیم کیا تھا اور سیزفائر لائن کی جگہ لائن آف کنٹرول قرار پائی تھی وہ 1971 کی جنگ جن کے مقامات پر بند ہوئی تھی انہی خطوط پر طے ہوئی تھی مگر اُس میں بھی سیاچن گلیشیر کا علاقہ پاکستان کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔
اسی طرح 1962 سے پہلے جب چین جس کو امریکہ نے ویسے ہی تسلیم نہیں کیا تھا اس چین کے تعلقات سوویت یونین سے خراب ہو ئے تو بھارت نے دونوں بڑی قوتوں یعنی سوویت یونین اور امریکہ سے اپنے بہتر مفادات کے لیے چین جیسے بہتر ہمسایہ سے تعلقات بگاڑ لئے اور چینی علاقے تبت میں اِن دونوں طاقتوں کی خوشنودی اور علاقے میں اپنی بالادستی قا ئم کرنے کیلئے وہاں کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں سیاسی پناہ دی۔
نیپال، سکھم اور تبت کے یہ علاقے اور کشمیر لداخ اور گلگت و بلتستان کے علاقے چین، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں سارا سال بہنے والے دریاؤں کے بہاؤ کے لیے نہایت اہم ہیں، اس سے پہلے بھی تبت کی جھیل ما نسرورکا ذکر ہو چکا ہے یہاں گلیشیر وں کے اعتبار سے اس کی مزید وضاحت بہت ضروری ہے۔
کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک پہاڑ کا نام کیلاش ہے جو سطح سمندر سے6700 میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑکے درمیان نصف گولائی میں تقریباً پچاس کلومیٹر طویل اور بالکل درمیان میں 250 فٹ کی گہرائی کے ساتھ دنیا میں قدرت کے حیرت انگیز شاہکار کے طور پر نہایت ٹھنڈے اور شفاف ترین پانی کی جھیل مانسرور ہے۔ یہ جھیل ہندو مت اور بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے مقدس ہے، اس بلندی پر ہونا تو یہ چاہیے کہ مانسرور جھیل سردی سے جمی رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس جھیل کے نیچے ابلتے ہوئے پانی کے چشمے رکھے ہیں۔
ایسے عظیم چشمے کہ جن سے بھار ت، پاکستان، چین ، بنگلہ دیش، نیپال کو سیراب کرنے والے دنیا کے بڑے بڑے دریا نکلتے ہیں، اس جھیل کے ارد گرد کوئی مستقل انسانی آبادی نہیں ہے، کیلاش کی چوٹی اور اس جھیل کے بارے میں سنسکرت کی قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ یہاں ہندو مت کے شکتی (فنا) اور مکتی (بقا )کے دیوتا شیوا جی کی مستقل قیام گاہ ہے جہاں وہ اپنی بیوی پاروتی کے ساتھ رہتے ہیں اور خوش قسمت انسان کو یہ دیوی دیوتا سفید کونجوں کی صورت میں اپنے خدمت گاروں کے ساتھ نظر آتے ہیں جب کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے عقائد کے مطابق یہ ایسی مقدس اور بابرکت جھیل ہے کہ یہاں جو انسان بھی اس جھیل کو دیکھنے آئے اُس کے من کی مراد پوری ہو جاتی ہے اس لئے بدھ مت کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی میں ایک بار یہاں ضرور جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ مہاتما بدھ آج بھی اپنے پانچ سو بھکشووں کے ساتھ اس جھیل کے کنارے ابدی زندگی بسر کر رہے ہیں، یوں ہر ہندو اوربدھ مت کے ماننے والے کے لئے تبت کیلاش کی جھیل مانسرور بہت مقدس ہے، بدھ اور ہندو دیومالامیں کیلا ش پہاڑ کوکائنات کی ناف قرار دیا گیا ہے،کیلاش پہاڑ، جھیل مانسرور اور یہاں واقع گلیشیروں سے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کو سیراب کرنے والے دنیا کے تقریباً سات بڑے دریا نکلتے ہیں، دریا برہما پتر جو بنگلہ دیش کو زیادہ سیراب کرتا ہے یہ یہاں جھیل سے نکلنے کے بعد پہلے چین میں داخل ہوتا ہے، وہاں اس کا نام سانپو دریا ہے، جھیل سے نکلنے والا دوسرا دریا ستلج ہے، یہ یہاں سے جنوب میں بہتا ہوا دنیا کے دو بڑے دریاؤںسندھ اور گنگا کے طاسوں کی حد بندی کرتا ہوا آخر دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔
مانسرور جھیل سے نکلنے والا تیسرا دریا کرنالی ہے، یہ بھی جنوب میں سفر کرتا آگے گنگوتری نامی گلیشیر کے نیچے سے نکلنے والے ہندوستان کے مقدس دریا گنگا سے مل جاتا ہے، واضح رہے کہ ہندو دھرم میں گنگا نہانے والے کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ باکل پاک ہو جاتا ہے، دریا گنگا شمالی ہندوستان میں شمال سے مشرق میں بہتا ہے، گنگو تری گلیشیر سے کچھ فاصلے پر ایک دوسر ے گلیشیر کا نام جموتری ہے اور یہاں سے ہندستان کا دوسرا مشہور مشہور دریا جمنا نکلتا ہے۔
دہلی کا تاریخی شہر اور آگرہ کا تاج محل اسی دریا کے کناروں پر واقع ہیںاور دریائے گنگا اور جمنا کا سنگم الہ آباد کے مشہور شہر کے قریب ہوتا ہے جب کہ اَن تمام دریاؤں میں سب سے بڑا اور اہم دریا دریائے سندھ ہے، یہ برصغیر کا سب سے لمبا دریا ہے اور لمبائی کے اعتبار سے دنیا کے ٹاپ ٹونٹی دریاؤں میں اپنی کل لمبائی 2950 کلومیٹر کے ساتھ 19 ویں نمبر پر ہے، برصغیر میں تین دریا برہماپتر، دریائے گنگا اور دریائے سند ھ الگ الگ تین خطوں کی قدیم تہذیبوں کی جغرافیائی حدود کا تعین بھی کرتے ہیں جس میں بنگال کی تہذیب کا تعین دریاِ برہما پتر، ہندوستان کی قدیم تہذیب کا تعین دریائے گنگا اور پاکستان کی قدیم تہذیب کا تعین دریائے سندھ کرتا ہے۔
اب دریاؤں، ہمالہ کی بلند چوٹیوں اور بڑے گلیشیروں کے اس پورے منظر نامے کو دیکھیں تو کشمیر پر ظالمانہ قبضہ، 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی سازش اور پھر سیا چن گلیشیر پر ناجائز قبضہ یہ گواہی دیتا ہے کہ بھارت کی بری نیت اور علاقے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کی حماقت واضح ہے۔ بد قسمتی دیکھئے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی جارحیت کے خلاف قرارداد 23 ملکوں کے ووٹوں کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے منظور ہوئی اور امریکہ اور مغربی دنیا سمیت اکثر ملکوں نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی مزاحمت کو ضروری سمجھا اور پاکستان کی جانب سے ان کی ٹریننگ کو سراہا اور اِن مجاہدین کے اہل خانہ کو پاکستان میں 35 لاکھ کی تعداد میں پناہ دینے پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملکوں نے اسے انسانی حقوق اور انسانیت کی بنیاد قرار دیکر پاکستان کی تعریف کی۔
عین اسی وقت 1982 میں بھارت پاکستان کے سب سے بڑے گلیشیر پر قبضہ کرنے کا پورا منصوبہ تیار کر چکا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ جنگ دنیا کے بلند ترین محاذ پر سطح سمندر سے 21000 فٹ کی بلندی پر لڑی جانے والی تھی۔ 1982 میں بھارت کی فوج ایک مو نٹین ڈویژن کو Antarctica انٹارٹیکا میں ٹریننگ کرائی گئی ۔ان دنوں آزادیٔ کشمیر اور خالصتان کی جدوجہد زوروں پر تھی اور بھارت اس کا مقابلہ یوں کر رہا تھا کہ وہ پاکستان میں تخریبی کارروائیاں شروع کروا چکا تھا۔ دوسری بڑی قوت سوویت یونین کا سامنا تھا جو بہرحال بھارت سے اس لیے بھی تعاون کر رہا تھا کہ اس طرح وہ پاکستان پر متواتر دباؤ ڈال کر اِسے مجاہدین کی بھرپور حمایت اور مدد سے باز رکھ سکے لیکن جس طرح بے خو ف ہوکر افغان مجاہدین سوویت فوجوں کے خلاف لڑرہے تھے اُسی طرح پاکستان اُن کی مدد بھی بہت بے خوفی سے کر رہا تھا۔
جب صدر سردار داؤد کو قتل کیا گیا تھا اور نور محمد تراکئی نے اقتدار حاصل کیا تھا تو کابل، جلال آباد، ہرات، قندھار اور دیگر شہروں سے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے خاندان پاکستان آگئے تھے جن میں سے بعض پھر امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ بھی گئے۔
اس اعتبار سے پاکستان اور افغانستان کے دونوں طرف لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اس لیے پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاسوسی کی صلاحیت یہاں انسانی بنیادوںپر ہمیشہ سے ز یادہ مضبوط رہی ہے، اور اس سے افغانستان میں سوویت یونین کے خلا ف لڑی جانے والی جنگ میں امریکی سی آئی اے کو روسی ا یجنسی ،کے جی بی، کے مقابلے میں بہت سہولت اور فائدہ ہوا، لیکن جب یہاں افغان مجاہدین کی جانب سے روس کے خلاف مزاحمت جاری تھی تو اُسی وقت سے بھارتی جاسوسی ایجنسی راء بھی یہاں زیادہ مصروفِ عمل ہوگئی اور اُس وقت راء کے روابط کے جی بی کے ساتھ پاکستان مخالف تھے اور اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ Raw را کے ساتھ ہی کسی سطح پر امریکی سی آئی اے سے بھی رابطے میں ہو۔
کیونکہ پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی نے تو امریکی سی آئی اے سے ہر مرحلے پر افغانستان میں تعاون کیا مگر اس مرحلے پر جب بھارت سیا چن گلیشیر پر قبضے کی تیاری کر رہا تھا تو امریکا نے پاکستان کو کچھ نہیں بتایا بلکہ اس کا پتہ بھی آئی ایس آئی نے لگایاتھا۔ سوال یہ ہے کہ اِس دوران امریکہ سمیت اُن ملکوں نے ہمارے ساتھ یہاں انفارمیشن کی حد تک بھی کیوں تعاون نہیں کیا بلکہ وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ جس طرح تاخیری حربوں کی وجہ سے یا پاکستان پر عالمی سیاسی، معاشی اور اقتصادی دباؤ ڈال کر 1947-48 کی جنگ کے بعد کشمیر پر اتفاق رائے سے تسلیم کی جانے والی قراردادوں پر آج تک عملدرآمد نہیں کر وایا گیا۔
جس طرح 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت کی ساکھ بحال کرنے کے لیے پہلے بھارت کی جان خلاصی کرائی گئی اور پھر عا لمی سازش کے تحت 1971 کی جنگ میں بھارت کو پاکستان میں کھلی فوجی مداخلت کی چھٹی دے دی گئی، اسی طرح یہاں سیاچن میں بھی بھارتی فوجی مداخلت بڑی قوتوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ہوئی ہے اور اُس وقت ہوئی جب پاکستان پوری دنیا کی قرارداد پر اُن کی مرضی کے مطابق سابق سوویت یونین جیسی بڑی قوت کے سامنے فرنٹ لائن کا ملک بن کر مقابلہ کر رہا تھا۔
پاکستان دنیا کے اس بلند ترین محاذ جنگ پر 35 برسوں سے بھارت کی فوجوں کا مقابلہ کر رہا ہے، سیاچن جو دنیا کا سب سے بلند اور سرد ترین محاذ جنگ ہے، انسانی تاریخ میںآج تک اتنی بلندی اور شدید سرد مقام پر کبھی جنگ نہیں ہوئی، سیا چن اور اس کے قریب واقع تمام بڑے گلیشیر پاکستان کے ہیں اور قیام پاکستان کے بعد یہاں ہی سے دنیا کے کوہ پیما بلند چوٹیوں کو سر کرنے سیا چن گلیشیر کو سرکرنے دیکھنے کے لیے جاتے رہے ہیں، جہاں تک تعلق یہاں کسی فوجی چوکی وغیرہ کا ہے تو یہ غالباً کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس جگہ جہاں زندگی ممکن نہیں ہے دو ملکوں کی فوجوں کے درمیان لڑائی ہو گی۔
بھارت نے یہاں قبضے کا منصوبہ کافی پہلے سے بنا رکھا تھا، اس بلند اور سرد ترین مقام پر قیام کرنے کے لیے خاص قسم کا لباس،جوتوں ، ٹوپیوں اوردیگر فوجی سامان کی ضرورت ہوتی ہے، یوں بھارت نے اس کا پہلے سے انتظام کر لیا تھا، 1982 میں جب پاکستان کو اس کی اطلاعات ملیں تو پاکستان کی فوج نے فوری طور پر سیا چن گلیشیر پر اپنے فوجی دستے تعینات کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے 1983 میں لندن کی ایک فرم کو جو ایسے سرد ترین مقامات پر جانے والے مہم جو افراد کے لیے خصوصی لباس تیار کر تی ہے۔
اُسے سیا چن گلیشیر پراپنی فوج کے لیے لباس یعنی خصوصی یونیفارم وغیرہ کے آڈردئیے، بد قسمتی سے بھارت نے بھی اسی فرم سے اپنے فوجیوں کے لیے یونیفارم بنوا ئے تھے، یوں بھارت کو یہ خبر مل گئی اور اس نے بھی اپنی تیار ی تیز تر کر دی، واضح رہے کہ سیا چن تک جانے لیے زمینی راستے پاکستانی علاقے سے جاتے ہیں کیو نکہ یہاں ڈھلوان سے اُوپر بلندی تک راستہ کم خطرناک ہے اور پاکستانی علاقے میںیہاں1984 میں لڑائی سے ذرا قبل جاپانی کوہ پیما رینو چوٹی کو سر کرنے گیا تھا۔
یہ چوٹی سیاچن کے مشرق میں ہے اور یہاں سے شمال مغرب میںاکسائی چن ہے، یہ علاقہ چین کے پاس ہے اور اس پر بھارت کا دعویٰ ہے ، یہاں سے ایک راستہ شمال مغرب میں چین سے جنوب مغرب میں پاکستان کی طرف کارگل ریجن سے نکلتا ہے، بھارتی فوج کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ اس اہم اور اسٹرٹیجک پوزیشن پر پاکستانی فوج کو روک دے، بھارت نے اِس آپریشن کا نام چوتھی صدی عیسو ی میں پیدا ہونیوالے سنسکرت زبان کے شاعر کالی داس کی ایک نظم کے عنوان پرآپریشن میگڈوٹ یا مغودتOperation Mghdoot رکھا تھا جس کی کمانڈ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل پریم ناتھ اور لیفٹیننٹ کرنل درخاننا نے کی اور13 اپریل 1984 کو بھارتی فضائیہ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اپنی دس انفنٹری پلٹنیں یعنی تقریباً 3000 کی تعداد میں فوج اتار دی اور سیاچن گلیشیر کے علاقے میں پاکستان کے 2553 مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا۔
پاکستان کی جانب سے اس کی اطلاع کے ساتھ ہی کارروائی ہوئی اور پاکستانی فوج نے یہاں چار روز کے بعد 17اپریل کو جوابی کاروائی کی مگر دونوں جانب سے ہونے والے جانی نقصانات کے بارے میں تفصیلا ت سامنے نہیں آسکیں،17 اپریل1984 میں پاکستان کی جانب سے اس جوابی فوجی کارروائی کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل زا ہد علی اکبر اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف جو اُس وقت بریگیڈئیر تھے اِنہوں نے کی تھی، بھارت نے یہاں سیاچن گلیشیر پر قبضہ کر کے تین مقامی دروں پر کنٹرول حاصل کیا اور سیاہ چن گلیشیرکے کناروں پر پہنچا، جب کہ 1984 میں ہی پاکستان نے یہاں سلاٹور رینج پر نشیب میں پوزیشن حاصل کر لی اس کے بعد سے یہاں 1987 اور اس کے بعد 1989 میں بڑی لڑائیاں ہوئیں، بھارت یہاں موجود اپنی فوج کو طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سامان سپلائی کرتا ہے لیکن پاکستان کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ زمینی راستے سے بھی یہاں سپلائی پہنچا سکتا ہے۔
یہاں قبضے کے بعد بھارت کا موقف یہ ہے کہ معاہدہ کراچی1949 میں اس علاقے کی حد بندی میں ابہام ہے اور اس طرح یہ علاقہ بھارت کا ہے ،جب کہ معاہدہ کراچی، معاہدہ تاشقند اور شملہ معاہدہ سب میں مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے، اور دنیا بھر کے تمام قوانین میں ابہام کے بارے میں یہ ہے کہ اس پر شواہد کیا کہتے ہیں اور شواہد پر نظر ڈالیں تو سیا چن کے اردگردکا تمام علاقہ پاکستانی ہے یہاں ایک جانب جہاں چینی علاقہ اکسائی چن اور چین کا لداخ ہے وہ بھی سیا چن پر پاکستان کے قبضے کو تسلیم کرتا، 1949کے معاہد ہ کراچی کے بعد سے دنیا کے بیشتر کوہ پیما پاکستانی علاقے سے سیا چن کی جانب گئے پھر اہم بات یہ ہے کہ اتنی بلندی پر واقع سیاچن گلیشیر پر جہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا کی تخلیق سے 1984 تک کسی نے فوجیں نہیں بھیجیں وہاں بھارت نے کیوں فوجیں بھیج کر قبضہ کیا ہے؟
یہاں یہ بات اہم ہے کہ بھارت اس بڑے گلیشیر سے پانی کا بہاؤ بھارت کی جانب لے جا رہا ہے اور یہ بھی عالمی قوانین کی سخت خلا ف ورزی ہے، پانی کی تقسیم پر ہزاروں برس کے قدرتی بہاؤ کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اگر تنازعہ پیدا ہو جائے تو پھر اس میں اور بہت سے پہلووں پر غور کیا جا سکتا ہے مگر بنیاد ی چیز صدیوں سے پانی کا بہاؤ جس طرف ہوتا ہے اس پانی پر اسی کا حق تسلیم کیا جاتا ہے پھر جہاں تک تعلق دنیا میں ہونے والی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہے تو بھارت اس میں عالمی سطح پر تین بڑے حصہ داروںمیں شامل ہے اور اس وقت پوری دنیا کا ایک بڑا اور اہم مسئلہ ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب 1984میں سیاچن پر بھارت نے اپنی فوجیں بھیجیں تھیں تو اُس وقت یہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی 50 سینٹی گریڈ تھا اور اب سیاچن میں ریکارڈ کے مطابق 2012 میں یہ درجہ حرات منفی40 سینٹی گریڈ ہوا، پھر یہاں کم سے کم درجہ حرارت 2014 میں منفی 37 سنٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، سیا چن پر 2015 میں درجہ حرارت منفی 34 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا اور ریکارڈ پرآخری کم سے کم درجہ حرارت 2016 میں منفی30 سینٹی گریڈ ہے، اس کے بعد کا درجہ حرارت مہیا نہیں ہے۔
یہ دنیا بھر کے ماحولیات سے متعلق سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ 1984 کے 28 سال بعد سیاچن گلیشیر پر کم سے کم درجہ حرارت میں 10 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا، اور 2012 میں یہاں کم سے کم درجہ حرارت مزید بڑھ کر منفی 40 سینٹی گریڈ ہو گیا، اورپھر صرف چار برسوں کے مختصر عرصے میں یہ منفی درجہ حرارت مزید 10 سینٹی گریڈ بڑھا ہے اور 2016 کے مطابق سیاچن میں درجہ حرارت منفی 30 سینٹی گریڈ ہو گیا ہے، بدقسمتی دیکھئے کہ دنیا بھر کے ماحولیاتی نظام میں اہم ترین کردار ادا کر نے والے ہمالیہ پر اقوام متحدہ جو ماحولیاتی تبدیلیوں ،کلائمیٹ چینج ،گلوبل وارمنگ جیسے مسائل پر 2000 ء سے خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں پہلےUNDP کے تحت ملین ڈیویلپمنٹ گولز پروگرام کے تحت اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور پھر اس کے بعد اب اُسی پروگرام کو سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز کے نام سے جاری رکھتے ہوئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے، وہ اس جانب توجہ کیوں نہیں دے رہا کہ آخر بھارت سیاچن گلیشیر پر کیا کر رہا ہے؟
جس کی وجہ سے یہاں ''ساگر ماتا'' جیسے کوہ ہمالیہ ہندو اور بدھ عقائد ہی کے مطابق کائنات کی ناف کے قریب جہاں اُن کی شکتی( تباہی) اور مکتی (بقا) کے دیوتا شیوا کی رہائش ہے اس پورے ہمالیہ پر قدرتی ماحول کو بھارت نے تباہ و برباد کر دیا ہے، ریکارڈ کے مطابق 2012 سے2016 تک جو 10 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا یہاں اضافہ ہوا ہے اس سے ہزاروں سال سے گلیشیرز کی صورت میں جمے ہوئے پانی کے ذخائر کو منفی 50 سنٹی گریڈ درجہ حرارت نے مضبوطی سے جما رکھا تھا، اب ان کے تیزی سے پگھلنے کے عمل سے پوری دنیا کے ہزاروں سال کا مستحکم قدرتی ماحول بھارت نے تباہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پورے برصغیر میں سالانہ درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے، اورکلائمیٹ چینج سے جہاں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
وہاں اِن گلیشیروں کے زیادہ تیزی سے پگھلنے سے مالدیپ جیسے ملک کا آدھے سے زیادہ رقبہ سمندر میں ڈوب چکا ہے، اور آئندہ پندرہ بیس برسوں میں بنگلہ دیش کا بھی تقریباً پندرہ سے بیس فیصد رقبہ سمندر میں ڈوب جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی مشن بھارتی قبضے میں سیاچن گلیشیر کا پورا معائنہ کرے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہاں اتنے مختصر سے عرصے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا، اور ساتھ ہی فوری طور پر سیاچن گلیشیر پر عالمی ماہرین قوانین سے 1949ء کے معاہدہ کراچی کی روشنی میں سیاچن گلیشیر کا فیصلہ بھی اقوام متحدہ کروائے کہ یہ مسئلہ شملہ معاہدہ کے بارہ سال بعد بھارت نے پیدا کیا ہے جس پر بھارت کا کشمیر کے حوالے سے یہ موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی تیسرے فریق کی بجائے دونوں ملک یعنی بھارت اور پاکستان آپس میں مذاکرات کی بنیاد پر پُر امن طور پر اس مسئلے کو حل کر یں گے جو بھارت اب تک نہیں کر سکا، لیکن جہاں تک تعلق سیاچن گلیشیر کا ہے اس پر اقوام متحدہ کو فوری کاروائی کرنی چاہیے کہ یہ مسئلہ پوری دنیا اور انسانی بقا سے متعلق ہے کہ بھارت کے ہندو حکمران اپنے دیوتا کے امن کے پہلو کو بھول کر تباہی کے پہلو پر زور دے رہے ہیں۔
اس پورے علاقے میں یوں تو گلیشیروں کے بننے پگھلنے کا قدر تی عمل تو ہزاروں برس سے جاری ہے لیکن اب اس میں تیزی سے اضا فے کی وجہ سے پاکستان کو یہ نقصان ہو رہا ہے کہ یہاں تباہ کن سیلابوں، شمالی علاقوں میں زمین بردگی میں بھی کا فی اضافہ ہو چکا ہے ۔ 2010 کا سیلاب دنیا کے تباہ کن سیلابوں میں سے تھا جس کے بارے میں اُس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری بانکی مون نے پاکستان کے ہنگامی دورے پر کہا تھا کہ ایسا سیلاب نہ پہلے دیکھا اور نہ سنا، سیاچن پر قبضے کے بعد گلیشیروں کے پگھلنے کا عمل بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
جس کی وجہ سے اس پورے علاقے میں لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے بھی سالانہ بہت سا جانی اور مالی نقصا ن ہو رہا ہے جب کہ سیاچن کے پورے علاقے میںبرفانی تودوں کے گرنے یعنی ایوالانچ Avalanche کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ویسے توکئی ایوالانچ سالانہ خصوصاً موسم گرما میں آتے رہتے ہیں لیکن یہاں سیاچن پر دنیا کے سب سے بلند اور سرد ترین محاذ جنگ پر تین بڑے ایوالانچ جانی نقصان کا سبب بنے۔ 7 اپریل 2010 ء میں ایوالانچ کی وجہ سے 24 پاکستانی فوجی سپاہی جاں بحق ہوئے، 29 مئی 2012 ء کو ایسے ہی برفانی طوفان کی وجہ سے 129 پاکستا نی فوجی اورگیارہ سویلین جاں بحق ہوئے جب کہ 3 فروری 2016 کو سیاچن گلیشیر میں 12 بھارتی فوجی برف کے نیچے دفن ہو گئے، اگرچہ یہاں بھارت اور پاکستان دونوں کی جانب سے ہلاک ہونے والوں اور معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد کبھی پوری طرح نہیں بتائی گئی، البتہ ایک بار بھارتی پارلیمنٹ میں 18 نومبر 1984 کو یہ بتایا گیا تھا کہ سیاچن میں 35 بھارتی فوجی افسر اور 887 جے اوسیز ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت نے کئی سال پہلے یہ بھی بتایا تھا کہ سیاچن کے محاذ پر بھارت کا یومیہ خرچ 50 ملین روپے یعنی پانچ کروڑ روپے ہے۔ 1984 میں جب بھارت نے سیا چن پر قبضہ کر لیا، تو بھارت میں مقبوضہ کشمیر سے کہیں زیادہ بحرانی صورتحال بھارتی مشرقی پنجاب میں خالصتان تحریک کے حوالے سے ہوئی جس پر اندرا گاندھی نے اپنے قتل سے قبل سخت ترین اقدامات کئے۔ 1982 سے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات جن میں ایران، پاکستان تھے بعد میںاقوام متحدہ کے تعاون ہی سے پاکستان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان اور افغانستان کے شاہ محمد دوست کے ساتھ شروع ہوئے، یوں یہ حقیقت عیاں ہونے لگی کہ سوویت یونین کی قیادت نے ایران اور پاکستان میں اسلامی انقلابات کے ممکنہ اثرات کو روکنے کے لیے جو حکمت عملی اپناتے ہوئے دسمبر1979 میں افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کی تھیں کہ وہ سنٹرل ایشیا کی اپنی ریا ستوں کو محفوظ رکھ سکے تو صرف دو برسوں ہی میں سوویت یونین کی قیادت کو انداز ہ ہو گیا کہ اس سے سوویت یونین کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ بالکل ایسی ہی صورت تھی کہ جب ویت نام سے امریکی فوجیوں کی میتیں لگاتار آنے لگی تھیں تو امریکی عوام کی طرف سے حکومت پر بہت زیادہ دباؤ بڑھ گیا تھا، جہاں تک مالی نقصان کا تعلق تھا تو وہ امریکہ کئی برس تک مزید برداشت کر سکتا تھا ، مگر سوویت یونین کے لیے صورتحال دونوں اعتبار سے بہت مشکل ہو گئی تھی، اُس کی معیشت اشتراکی بنیادوں پر تھی اور اُس کی مارکیٹ عام ایشیا کی اور ایشیا خوردنی کے لحاظ سے ہمیشہ سے محدود رہی تھی۔
اس صورتحال میں جب دنیا کے 23 ممالک کے مقابلے میں 116 ممالک روس کے خلاف ہو گئے تھے تو صورتحال اور بھی ابتر ہو گئی تھی، سوویت یونین کی سب سے اہم مارکیٹ اسلحہ کی تھی اور سرد جنگ میں 1947-48 سے1973 کی عرب اسرائیل جنگ تک کے عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے مقابلے میں خصوصاً ورسا پیکٹ کے ممالک کے ساتھ امریکہ مخالف ملکوںمیں سوویت یونین کے اسلحہ کی اچھی مارکیت تھی مگر افغانستان میں مداخلت کے بعد اب سوویت یونین کی پیداوار اور تجارت محدود ہو تی جا رہی تھی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی سی آئی اے کی حکمت عملی اور منصو بہ بندی بہت بہتر تھی کہ تقریباً اپنی ہم پلہ قوت کو امریکہ بہت دانش مندی سے اس طرح شکست دے رہا تھا کہ اس کے نتیجے میں دنیا میں کوئی بحران رونما نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکی اپنے صدور میں صدر رونالڈ ریگن کو بہت اہم صدر تصو ر کرتے ہیں۔
اگرچہ امریکی تاریخ میں صدر کینیڈی بھی بہت مقبول تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت سوویت یونین نے کیوبا سے میزائل ہٹانے پر رضامندی ظاہر کر کے دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا تھا اور اب 1982 سے وہ دور شروع ہو رہا تھا جس میںآئندہ اس خطرے سے بچنا تھا مگر ساتھ ہی جنگی حکمت عملی یہ تھی سوویت یونین کو اُس وقت تک افغانستان سے نکلنے نہ دیا جائے جب تک وہ اُن خطوط پر آگے نہ بڑھے جن سے آزاد عالمی منڈی کا مزید استحکام ہو اور جمہوری بنیادوں سوویت یونین کے حاشیہ بردار کیمونسٹ ملک اور خود سوویت یونین کی ریاستیں آزاد نہ ہو جائیں،1984 تک جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا تھا اور دوسری جانب بھارت کشمیر اور خالصتان کی آزادی کی تحریکوں کے شدید بحران سے گزر رہا تھا تو اُس وقت سے امریکہ نے پاکستان پر بھی دباؤ میں اضا فہ کردیا تھا کیونکہ وہ علاقے میں مستحکم پاکستان کو اپنے مفاد میں بہتر نہیں سمجھتا تھا، ایک ایسا پاکستان جس کا ہمسایہ ا فغانستان جو تقربیاً ایک صدی سے بفر اسٹیٹ رہا ہو اور اب سوویت یونین کی شکست کے بعد پاکستان کا بہترین ہمسایہ اور دوست ملک بن جائے۔
ویسے بھی امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کا یہ راز رہا ہے کہ اُس نے 1914 میں جنگ عظیم اوّل سے اس پالیسی کو اپنائے رکھا ہے کہ امریکہ سات سمندر پار دنیا کا محفوظ ترین ملک اور مواقع کی سر زمین ہے، جہاں دنیا بھر کے سرمایہ دار اور ذہین و فطین سائنس دان اور ماہرین خود کو مکمل طور پر محفوظ تصور کرتے ہیں، یوں امریکہ کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی ایک ایسی قوت کی ضرورت تھی جس سے امریکہ دنیا بھر کے سرمایہ داروں اور ذہین وفطین سائنس دانوں اور ماہرین کو ڈرا کر امریکی کشش کو برقرار رکھ سکے۔
اس لیے بھی امریکہ نے پاکستان کو باوجود بہت زیادہ وفاداری کے ایک خاص انداز سے اپنے مفادات کیلئے استعمال میں رکھنے کے لیے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے ہونے والی سیا چن کی کاروائی سے باخبر رکھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی لڑائی میں بھارت کے مقابلے میں سیاچن کے محاذ پر عسکری یا دفاعی یا عالمی سطح پر کوئی اخلاقی مدد کی ، بلکہ آئندہ دنوں میں جیسے جیسے سوویت یونین گھٹنے ٹیکتی رہی ویسے ویسے امریکہ پاکستان سے بے نیاز ہوتا گیا، بدقسمتی سے اس موقع پر حکمرانوں کو نہ تو صدر ایوب خان کی کتاب کا عنوان ''فرینڈز ناٹ ماسٹر'' یاد رہا، اور نہ ہی بھٹو کا راجہ بازار راولپنڈی کا لہراتا خط اور سفید ہاتھی کا استعارہ یاد آیا، اگر اپریل 1984 میں ہی جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا تھا پاکستان بھی افغانستان پر اپنی پو زیشن تبدیل کر لیتا تو شاید صورتحال کچھ اور ہو تی۔
(جاری ہے)