لانگ مارچ بند گلی اور مفاہمت
یہ ملک نیشنل قیادت کا طلبگار ہے، یہ ملک اداروں کا طلبگار ہے اور اس بات کا بھی کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔
QUETTA:
لانگ مارچ کا اختتام کیسے ہوگا قطع نظر اس کے جو بات واضع طور پر نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک خداداد اب ایک نئے موڑپرآن کھڑا ہے ۔ لیکن اس موڑ سے بھی اگر دور تک دیکھو تو کوئی واضع روشنی نظر نہیں آتی۔
مہنگائی کے جو پہاڑاس بارگرے ہیں ان کے سنبھلنے کی کوئی خبر نہیں اور نہ ہی یہ خبر ہے کہ ہم اپنی بیرونی و داخلی پالیسیوں کے حوالے سے کس سمت جائیں گے۔ کوئی زبردستی کا سودا ہو نہیں سکتا یہ بھی ہماری ستر سال کی تاریخ ہے ورنہ یہاں بھی مصر کی طرح آج تک آمر ہی بدلتا رہتا۔ ہمارے ہاں بھی ایران کی طرح بند گلی ہوتی، ہم اتنے خوب نہ صحیح مگر اتنے برْے بھی نہیں ۔ اگر جمہوریت مستقل نہ رہی تو آمریت بھی مستقل نہ رہ سکی۔
کتنے رنگ ہیں کیسے کوئی ان سب رنگوں کو قید میں رکھ سکتا ہے۔ کتنا گوناگوں ہے یہ ملک اور اس ملک کی تاریخ۔ یہ ملک ستر سال پہلے نہیں بنا تھا یہی تو المیہ ہے ہماری سوچ کا۔ ستر سال پہلے بس ایک واقعہ ہوا تھا ۔ وادی مہران کا وجود یونان سے پہلے اور سکندر اعظم سے بھی قدیم ہے۔ شاید مصر سے بھی قدیم جتنی نہ ہو نہ دجلہ و فرات کی تہذیبیں ہوں۔ ہماری بدنصیبی کہ ہم محمد بن قاسم کے حملے کو اس ملک کے تصور سے جوڑتے ہیں ۔ جس طرح پیپلز پارٹی ہر جگہ ، ہر کالج ، ایئرپورٹ و شہر کا نام بینظیر آباد رکھ دیتی ہے اس طرح ہم بھی بطور یادگار ریاست کو ارغونوں ، ترخانوں ، غوریوں اور حجاج بن یوسف جو بصرا کا گورنر تھا اس سے جوڑ دیتے ہیں۔
کیاہم نہیں جانتے تھے کہ یہ وہ ہی حجاج بن یوسف ہے جو اپنے ظلم وجبر میں کوئی ثانی نہیں رکھتا ۔ کراچی اور لاہور میں بڑی بڑی شاہراہیں، خیابانیں و چوراہے ہیں جو بطور یادگار ان کے نام سے موسوم ہیں۔ ہمارے سارے ہیرو بیرونی، غیر ملکی اور اجنبی۔ کوئی تو باہو کے نام سے شاہراہ کی پہچان رکھے، کوئی بھٹائی، کوئی بلے شاہ، فرید، خوشحال خان خٹک! ہم نے اپنے لوگوں اور ہیروز کو غدار مانا۔
ہم اپنے آپ کو ایک دوسرے میں ضم نہ کر سکے اور ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ضم ہونا زبردستی کا فعل نہیں یہ راہ دل سے نکلتی ہے، حالات و سکنات سے۔ جبر سے صرف زیر دست ہوتا ہے اور فتح صرف شمشیر سے ہوتی ہے۔
ہم سے سب نالاں ہیں، بلوچ تو پہلے ہی سے تھے، اب ہمارے پنجابی بھائی بھی اور لانگ مارچ پورا پختون غصہ ہے جو واضع نظر آتا ہے۔ پختون کوئی چھوٹی قوم نہیں۔ انھیں راستوں سے سکندر اعظم آیا تھا۔ تاتاری و ہلاکو آئے، نادر شاہ آئے۔ سارے حملہ آور درہ خیبر سے اس سر زمیں پراترے۔ جنگیں ان کی گلیاں ہیں اور بندوقیں ان کے آنگن۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ یہ جب ناراض ہوتے ہیں تو ان کو منانا مشکل ہے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی تو سندھی صوفی طبیعت والے ایسے ہی ناراض ہوئے اور اس ملک میں جمہوریت کی تحریک کی قیادت سندھیوں نے کی جب پورا ملک سو رہا تھا۔ آج تحریک چلانا نواز شریف کے بس کی بات ہے نہ آصف زرداری کی اور دونوں نے جو حکومت کے نمونے پیش کیے وہ بھی کیا تھے!! مگر جو خان صاحب کی نا تجربہ کاری نے کام کیا کہ لوگ ان کی بری حکمرانی اور کرپشن کو بھی بھول گئے اور آج ہوشربا اور اذیت ناک مہنگائی کے مسئلے پر سارا ملک ایک ہے۔ مگر تحریک چلائے کون؟ تو لیجیے تحریک کی قیادت مذہبی قائد کے ہاتھ میں آ گئی اور یہ ایک طرح کی شکست بھی ہے۔
کلدیپ نیئر لکھتے ہیں کہ 1946 کے انتخابات میں پختونوں نے باچا خان کو، کانگریس کو جتوایا، لیکن جب پاکستان کے لیے ریفرنڈم ہوا اور مذہبی کارڈ باچا خان کے خلاف استعمال ہوا تو باچا خان ایک سال میں ہی چلے گئے۔ پختونوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
عجیب ہیں یہ پختون گزشتہ بیس سال میں یہ چار مرتبہ حکومتیں تبدیل کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی حکومت بنائی، اسفند یار ولی نے بھی، مولانا فضل نے بھی تو عمران خان نے بھی۔ جب کہ سندھیوں کی سوئی پچاس سال سے ایک ہی پارٹی پر اٹکی ہوئی ہے۔
یہ پختون تو ہیں مگر یہ بھرپور مڈل کلاس بھی ہیں جو پختونوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ٹرک یہ چلاتے ہیں، راستے یہ بناتے ہیں، افرادی قوت ہیں۔ اسلحہ کا کاروبار ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو، اس میں بھی آگے اور اب کراچی میں مہاجر بھائیوں کے بعد دوسری بڑی قوم یہ پختون ہیں۔ یہ پختون این جی اوز کے کاموں میں بھی سب سے آگے، اور ہماری فوج میں بھی۔ جس طرح MRD 1983کی تحریک کی قیادت سندھی کر رہے تھے آج اس ملک میں جمہوریت کی تحریک کی قیادت پختون کر رہے ہیں۔ کل یہ طالبان بھی تھے امریکا سے بھی لڑے، سویت یونین سے بھی۔
بہت مختلف ہے یہ پاکستان، اتنا سادہ و سلیس نہیں جو اس پر فزکس اور کیمسٹری کا فارمولہ لگایا جائے، پھر آئین بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اور کس نے کہا یہ آئین ہے یہ تو ہماری تاریخ کا عکس ہے۔ یہ تو اس قراداد کا حصہ ہے جس کو ہم قراداد پاکستان کہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ معاہدہ منطقی ہوتا ہے۔ صرف ہماری قوم نہیں، دنیا کی اور بھی قومیں ہیں، صرف ہم فیڈریشن نہیں دنیا میں اور بھی فیڈریشن ہیں۔ اور سب کی ارتقاء مختلف بھی ہے اور ایک جیسی بھی بہت ساری زبانیں، ثقافتیں بھی ہیں مگر انسان ایک ہی ہے۔ جن قوموں نے آئین انسانی حقوق کو بنیاد بنا کر ترتیب دیے وہ آج کی مہذب قومیں ہیں۔
آج اس لانگ مارچ سے پاکستان کے حالات ایک نیا رخ اختیار کر چکے ہیں، بہت ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا۔ ہم اپنی قوم کو فتح نہیں کر سکتے، ہم اب مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر سکتے کہ دنیا ہمارا تعاقب کر رہی ہے۔ اور عمران خان کی یہ بات بلکل سو فیصد درست ہے کہ کشمیر کے اندر مجاہدین کا جانا خود کشمیر دشمنی ہے۔ لڑنے دیجیے ان کشمیریوں کو اپنی جنگ آرٹیکل 370 والی اور ہم ان کی اخلاقی حمایت کرتے رہیں گے۔
یہ جو طرح طرح کے فساد ہیں، یہ شرفاء کا شرفائوں کے خلاف معاملہ ہے۔ ان سب کی توندیں نکل آئی ہیں اور غریب، غریب تر ہو گیا۔ یہ وقت مفاہمت Reconciliation کا ہے۔ اب بہت دیر ہو چکی۔ یہ ملک نہ عمران خان سے چل سکتا ہے اور نہ ہی آمریت سے۔ اس ملک کا واحد حل آئین میں ہے اس کی تشریح کوئی افسروں کا اجلاس نہیں کر سکتا اور نہ اسکو کارڈ بنا کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آئین کی تشریح عدالت کریگی اور کرنے دیجیئے اس کورٹ کو آئین کی غلط تشریح بھی۔ ایسی ججمنٹ خود ان عدالتوں کا تعاقب کریں گی۔ ہماری عدالتوں کے نظریہ ضرورت کے تحت کی ہوئی ججمنٹ ملک کی اس بدنصیبی کی ذمے دار ہیں۔
شعور بلآ خر دہلیز پر آن کھڑا ہے۔ یہ ملک نیشنل قیادت کا طلبگار ہے، یہ ملک اداروں کا طلبگار ہے اور اس بات کا بھی کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔
آئیے سر جوڑ کر ایک بار بیٹھیں اور اس بند گلی سے اس ملک کو نکالیں۔ اور اس کے لیے مصالحت Reconciliation ہی واحد صائب راستہ ہے۔
لانگ مارچ کا اختتام کیسے ہوگا قطع نظر اس کے جو بات واضع طور پر نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک خداداد اب ایک نئے موڑپرآن کھڑا ہے ۔ لیکن اس موڑ سے بھی اگر دور تک دیکھو تو کوئی واضع روشنی نظر نہیں آتی۔
مہنگائی کے جو پہاڑاس بارگرے ہیں ان کے سنبھلنے کی کوئی خبر نہیں اور نہ ہی یہ خبر ہے کہ ہم اپنی بیرونی و داخلی پالیسیوں کے حوالے سے کس سمت جائیں گے۔ کوئی زبردستی کا سودا ہو نہیں سکتا یہ بھی ہماری ستر سال کی تاریخ ہے ورنہ یہاں بھی مصر کی طرح آج تک آمر ہی بدلتا رہتا۔ ہمارے ہاں بھی ایران کی طرح بند گلی ہوتی، ہم اتنے خوب نہ صحیح مگر اتنے برْے بھی نہیں ۔ اگر جمہوریت مستقل نہ رہی تو آمریت بھی مستقل نہ رہ سکی۔
کتنے رنگ ہیں کیسے کوئی ان سب رنگوں کو قید میں رکھ سکتا ہے۔ کتنا گوناگوں ہے یہ ملک اور اس ملک کی تاریخ۔ یہ ملک ستر سال پہلے نہیں بنا تھا یہی تو المیہ ہے ہماری سوچ کا۔ ستر سال پہلے بس ایک واقعہ ہوا تھا ۔ وادی مہران کا وجود یونان سے پہلے اور سکندر اعظم سے بھی قدیم ہے۔ شاید مصر سے بھی قدیم جتنی نہ ہو نہ دجلہ و فرات کی تہذیبیں ہوں۔ ہماری بدنصیبی کہ ہم محمد بن قاسم کے حملے کو اس ملک کے تصور سے جوڑتے ہیں ۔ جس طرح پیپلز پارٹی ہر جگہ ، ہر کالج ، ایئرپورٹ و شہر کا نام بینظیر آباد رکھ دیتی ہے اس طرح ہم بھی بطور یادگار ریاست کو ارغونوں ، ترخانوں ، غوریوں اور حجاج بن یوسف جو بصرا کا گورنر تھا اس سے جوڑ دیتے ہیں۔
کیاہم نہیں جانتے تھے کہ یہ وہ ہی حجاج بن یوسف ہے جو اپنے ظلم وجبر میں کوئی ثانی نہیں رکھتا ۔ کراچی اور لاہور میں بڑی بڑی شاہراہیں، خیابانیں و چوراہے ہیں جو بطور یادگار ان کے نام سے موسوم ہیں۔ ہمارے سارے ہیرو بیرونی، غیر ملکی اور اجنبی۔ کوئی تو باہو کے نام سے شاہراہ کی پہچان رکھے، کوئی بھٹائی، کوئی بلے شاہ، فرید، خوشحال خان خٹک! ہم نے اپنے لوگوں اور ہیروز کو غدار مانا۔
ہم اپنے آپ کو ایک دوسرے میں ضم نہ کر سکے اور ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ضم ہونا زبردستی کا فعل نہیں یہ راہ دل سے نکلتی ہے، حالات و سکنات سے۔ جبر سے صرف زیر دست ہوتا ہے اور فتح صرف شمشیر سے ہوتی ہے۔
ہم سے سب نالاں ہیں، بلوچ تو پہلے ہی سے تھے، اب ہمارے پنجابی بھائی بھی اور لانگ مارچ پورا پختون غصہ ہے جو واضع نظر آتا ہے۔ پختون کوئی چھوٹی قوم نہیں۔ انھیں راستوں سے سکندر اعظم آیا تھا۔ تاتاری و ہلاکو آئے، نادر شاہ آئے۔ سارے حملہ آور درہ خیبر سے اس سر زمیں پراترے۔ جنگیں ان کی گلیاں ہیں اور بندوقیں ان کے آنگن۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ یہ جب ناراض ہوتے ہیں تو ان کو منانا مشکل ہے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی تو سندھی صوفی طبیعت والے ایسے ہی ناراض ہوئے اور اس ملک میں جمہوریت کی تحریک کی قیادت سندھیوں نے کی جب پورا ملک سو رہا تھا۔ آج تحریک چلانا نواز شریف کے بس کی بات ہے نہ آصف زرداری کی اور دونوں نے جو حکومت کے نمونے پیش کیے وہ بھی کیا تھے!! مگر جو خان صاحب کی نا تجربہ کاری نے کام کیا کہ لوگ ان کی بری حکمرانی اور کرپشن کو بھی بھول گئے اور آج ہوشربا اور اذیت ناک مہنگائی کے مسئلے پر سارا ملک ایک ہے۔ مگر تحریک چلائے کون؟ تو لیجیے تحریک کی قیادت مذہبی قائد کے ہاتھ میں آ گئی اور یہ ایک طرح کی شکست بھی ہے۔
کلدیپ نیئر لکھتے ہیں کہ 1946 کے انتخابات میں پختونوں نے باچا خان کو، کانگریس کو جتوایا، لیکن جب پاکستان کے لیے ریفرنڈم ہوا اور مذہبی کارڈ باچا خان کے خلاف استعمال ہوا تو باچا خان ایک سال میں ہی چلے گئے۔ پختونوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
عجیب ہیں یہ پختون گزشتہ بیس سال میں یہ چار مرتبہ حکومتیں تبدیل کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی حکومت بنائی، اسفند یار ولی نے بھی، مولانا فضل نے بھی تو عمران خان نے بھی۔ جب کہ سندھیوں کی سوئی پچاس سال سے ایک ہی پارٹی پر اٹکی ہوئی ہے۔
یہ پختون تو ہیں مگر یہ بھرپور مڈل کلاس بھی ہیں جو پختونوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ٹرک یہ چلاتے ہیں، راستے یہ بناتے ہیں، افرادی قوت ہیں۔ اسلحہ کا کاروبار ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو، اس میں بھی آگے اور اب کراچی میں مہاجر بھائیوں کے بعد دوسری بڑی قوم یہ پختون ہیں۔ یہ پختون این جی اوز کے کاموں میں بھی سب سے آگے، اور ہماری فوج میں بھی۔ جس طرح MRD 1983کی تحریک کی قیادت سندھی کر رہے تھے آج اس ملک میں جمہوریت کی تحریک کی قیادت پختون کر رہے ہیں۔ کل یہ طالبان بھی تھے امریکا سے بھی لڑے، سویت یونین سے بھی۔
بہت مختلف ہے یہ پاکستان، اتنا سادہ و سلیس نہیں جو اس پر فزکس اور کیمسٹری کا فارمولہ لگایا جائے، پھر آئین بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اور کس نے کہا یہ آئین ہے یہ تو ہماری تاریخ کا عکس ہے۔ یہ تو اس قراداد کا حصہ ہے جس کو ہم قراداد پاکستان کہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ معاہدہ منطقی ہوتا ہے۔ صرف ہماری قوم نہیں، دنیا کی اور بھی قومیں ہیں، صرف ہم فیڈریشن نہیں دنیا میں اور بھی فیڈریشن ہیں۔ اور سب کی ارتقاء مختلف بھی ہے اور ایک جیسی بھی بہت ساری زبانیں، ثقافتیں بھی ہیں مگر انسان ایک ہی ہے۔ جن قوموں نے آئین انسانی حقوق کو بنیاد بنا کر ترتیب دیے وہ آج کی مہذب قومیں ہیں۔
آج اس لانگ مارچ سے پاکستان کے حالات ایک نیا رخ اختیار کر چکے ہیں، بہت ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا۔ ہم اپنی قوم کو فتح نہیں کر سکتے، ہم اب مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر سکتے کہ دنیا ہمارا تعاقب کر رہی ہے۔ اور عمران خان کی یہ بات بلکل سو فیصد درست ہے کہ کشمیر کے اندر مجاہدین کا جانا خود کشمیر دشمنی ہے۔ لڑنے دیجیے ان کشمیریوں کو اپنی جنگ آرٹیکل 370 والی اور ہم ان کی اخلاقی حمایت کرتے رہیں گے۔
یہ جو طرح طرح کے فساد ہیں، یہ شرفاء کا شرفائوں کے خلاف معاملہ ہے۔ ان سب کی توندیں نکل آئی ہیں اور غریب، غریب تر ہو گیا۔ یہ وقت مفاہمت Reconciliation کا ہے۔ اب بہت دیر ہو چکی۔ یہ ملک نہ عمران خان سے چل سکتا ہے اور نہ ہی آمریت سے۔ اس ملک کا واحد حل آئین میں ہے اس کی تشریح کوئی افسروں کا اجلاس نہیں کر سکتا اور نہ اسکو کارڈ بنا کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آئین کی تشریح عدالت کریگی اور کرنے دیجیئے اس کورٹ کو آئین کی غلط تشریح بھی۔ ایسی ججمنٹ خود ان عدالتوں کا تعاقب کریں گی۔ ہماری عدالتوں کے نظریہ ضرورت کے تحت کی ہوئی ججمنٹ ملک کی اس بدنصیبی کی ذمے دار ہیں۔
شعور بلآ خر دہلیز پر آن کھڑا ہے۔ یہ ملک نیشنل قیادت کا طلبگار ہے، یہ ملک اداروں کا طلبگار ہے اور اس بات کا بھی کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔
آئیے سر جوڑ کر ایک بار بیٹھیں اور اس بند گلی سے اس ملک کو نکالیں۔ اور اس کے لیے مصالحت Reconciliation ہی واحد صائب راستہ ہے۔