بااثر سسرالیوں اور پولیس کی بے حسی کے باعث مقتول نومولود کا باپ انصاف کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجب

ایک سال تک تھانے سے دھتکارنے کے بعد بالآخر مقدمہ درج، اب قاتل نہیں پکڑے جا رہے

ایک سال تک تھانے سے دھتکارنے کے بعد بالآخر مقدمہ درج، اب قاتل نہیں پکڑے جا رہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
شادی کے پہلے سال اولاد نرینہ کی نعمت حاصل ہونے پر تحسین احسن اوراس کاخاندان خوشی سے نہال تھا۔ چاند سے بیٹے کی پیدائش کے روز ہی باہمی مشاورت سے بیٹے کا نام محمد اویس رکھ دیاگیا۔

میجر آپریشن کے ذریعے ہونے والے ڈلیوری کیس کے ایک روز بعد زچہ وبچہ کو نجی ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ اہلیہ ماریہ منیرکی خواہش پرتحسین اسے ملت ٹاؤن میں مقیم سسرال چھوڑ آیا۔ عزیز وا قارب اوردوست احباب کی طرف سے مبارکباد دئیے جانے کاسلسلہ رات گئے تک جاری رہا، لیکن تحسین کے مطابق اسے کیا خبر تھی کہ خوشیاں ابتداء میں ہی غارت ہوجائیںگی۔

اگلے ہی روز سسرال سے موصول ہونے والی فون کال کے ذریعے اسے بیٹے کی موت کی اطلاع دی گئی، جسے سنتے ہی وہ سکتے میں آگیا۔ کل ہی وہ بیٹے کو بخریت چھوڑکر آیا تھا پھر اچانک موت کیسے ہوگئی؟

وہ ہانپتاکانپتاسسرال پہنچا تو اس کی پریشانی حیرت میں بدل گئی۔ میت کے گردجمع سسرالی رشتہ داروں کاکہناتھاکہ سب جنات کا کیا دھرا ہے، جو بچے کوگھر سے اٹھا کر لے گئے اور قتل کرکے خالی پلاٹ میں پھینک گئے۔ خاصے پڑھے لکھے افرادکی عجب منطق سن کر وہ اور اس کے گھر والے سرپکڑکررہ گئے۔ بچے کے گلے پر پائے جانے والے نشان اور پچکا ہوا سر معاملے کی سنگینی ظاہر کر رہا تھا۔

31 اکتوبر 2018ء کو لحد میں اتارئے گئے نومولود اویس کے بدقسمت باپ کومقدمہ درج کرانے کے لئے ایک سال جدوجہد کرنا پڑی۔ ایڈن گارڈن کے تحسین احسن کی طر ف سے درج کرائے گئے قتل کیس میں اہلیہ کی بڑی بہن صائمہ منیر، چھوٹی بہن مہوش منیر،برادرنسبتی عاطف منیر،اس کی اہلیہ رمشا، اس کی والدہ اللہ رکھی اور چک جھمرہ سے تعلق رکھنے والے ان کے مبینہ پیرضیا رحمت ملزم نامزدکئے گئے۔

تحسین کے مطابق وہ بیٹے کی موت کوجنات کی کارروائی تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا، اسی بناپروہ موت کے اسباب کا پتہ چلانے کے لئے کوشاں رہا۔ گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ باربارسسرال جاتارہا۔ اس دوران وہاں نصب کیمروں کی ویڈیو ریکارڈنگ کا جائزہ بھی لیاگیا۔ وقوعہ کے روزکی فوٹیج کا بغورمشاہدہ کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ نوکرانی کے جانے کے بعد گھرکے بعض افراد عجلت میں باہرگئے، جس کے کچھ ہی دیر بعد بالائی منزل سے بچے کی نعش ملحقہ خالی پلاٹ میں پھینکی گئی، جسے دیکھ کر راہگیر لڑکے نے محلہ داروں کوصورت حال سے آگاہ کیا۔ خواتین کے دستک دینے پرگھرسے باہرآنے والے زاہد نامی کرایہ دارنے خالی پلاٹ سے بچے کی نعش اٹھاکر سسرال والوں کے گھر پر موجود عورتوں کے سپرد کی۔

تحسین کے مطابق کرایہ دار سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد اس کی تشویش مزید بڑھ گئی۔ باز پرس پرسسرال والے ایک طرف اپنی صفائی پیش کرتے رہے تو دوسری جانب اسے وہمی ہونے کے طعنے دیتے رہے۔ ان کے غیر سنجیدہ رویے اور مشکوک حرکات سے اس کاتجسس مزید بڑھ گیا۔ سعودیہ سے آئی ہوئی ماریہ کی بڑی بہن صائمہ منیر پرجب ایک روز یہ واضح کیاگیاکہ میرے بیٹے کی موت جنات کے بجائے سفاک انسانوں کے ہاتھوں ہوئی ہے اور قاتل بھی عنقریب بے نقاب ہونے والے ہیں تو یہ بات سن کروہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ بعدازاں برادر نسبتی کی اہلیہ رمشا کو احساس کرایا گیا کہ اگرتم سچ بتادوتمہیں قتل کیس کی تفتیش سے فارغ کرایا جا سکتا ہے۔


تحسین احسن کے در ج کرائے گئے کیس میں یہ بھی بیان کیاگیاکہ اس کے گھرآ کر رمشاکی جانب سے اہل خانہ کی موجودگی میں برملا اقرارکیا گیا کہ تمہارے بیٹے کو جنات نے نہیں مارا بلکہ اسے سازش کے تحت قتل کیاگیاہے ۔ اولاد نرینہ سے محروم اس کی بڑی نند صائمہ منیر کے پیر کا کہنا تھا کہ کسی نومولود کوقتل کرنے کے بعد ہی تمہارے ہاں بیٹاپیداہوسکتاہے، اسی کی باتوں میں تمہاری بیوی کونشہ آورچیز سے بے ہوش کرنے کے بعد آغوش میں پڑے نومولود کوقتل کرنے کے بعد بالائی منزل سے ملحقہ پلاٹ میں پھینکا گیا۔ رمشاکی طرف سے گھرکے بعض دیگرافرادکوبھی اس سازش کا حصہ قرار دیا گیا۔

تحسین کے مطابق بیٹے کے قتل کا راز افشا ہونے پر وہ قانونی کارروائی کے لئے تھانہ ملت ٹاون گیا تواس وقت کا ایس ایچ اوایوب ساہی قصہ سن کرسیخ پہ ہوگیاجس کاکہناتھاکہ میرے پاس ایسی فضول باتوں کے لئے وقت نہیں۔ تھانیدارکے بعد سرکل ڈی ایس پی بھی اس کی اشک شوئی کے لئے تیار نہ ہوئے۔ انصاف کے حصول کی خاطر وہ کئی ماہ دربدرکی ٹھوکریں کھاتارہا۔ اس کی طرف سے بیٹے کی قبرکشائی اورپوسٹمارٹم کرانے کافیصلہ کیاگیا تو سسرال والے تب بھی اسے خاموش کرانے کے لئے کوشاں ہوئے لیکن وہ بھی اپنے فیصلے پربضد رہا۔ اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پرگھونہ قبرستان پہنچنے والی میڈیکل ٹیم نے قبرکشائی کے بعد نومولود اویس کی نعش کاپوسٹمارٹم کیا ۔

تحسین احسن کے مطابق اس مرحلے پربھی اسے سخت تگ ودوکرناپڑی ۔ رپورٹ کے حصول کیلئے اسے کئی چکر لگانا پڑے، جس سے اسے لگاکہ سسرال والے ہرمقام پراسے نیچا دکھانے کے لئے اپنے تعلقات اوروسائل بروئے کارلارہے ہیں۔

مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں پوسٹمارٹم بھی بالآخر اس کے ہاتھ لگ گئی۔ دو روزکے اویس کی موت غیرطبعی قراردیئے جانے پروہ کیس کے اندراج کے لئے ایک بارپھرتھانہ ملت ٹاون گیاتونئے ایس ایچ او ارم رضا رپورٹ کاجائزہ لینے کے باوجود کیس کے اندراج سے انکاری رہے۔

اس صورت حال پرآئی جی شکایت سیل سے دوسری بار رجوع کرکے رپورٹ سمیت ضروری شواہد ارسال کئے گئے توحکام کی جانب سے ایس پی مدینہ ڈویژن طاہر مقصود نے اس کی رودادسن کرملت ٹاؤن پولیس کوریکاڈسمیت پیش ہونے کاحکم دیا۔ تھانے والوں کی جانب سے ابتدائی طورپراس کی کمپلینٹ گم ہونے کاجوازپیش کیا گیا افسرموصوف کے سخت حکم پربعدازاں سب کچھ دستیاب ہوگیا۔ قتل کے ایک سال بعددرج ہونے والے کیس کی تفتیش بھی ہومی سائیڈانوسٹی گیشن کے رفیق نامی ایسے افسرکے سپرد کی گئی جوتھانے سے کچھ فاصلے پررہائش پذیر ملزمان کوگرفتارکرنے کی زحمت نہ کرسکے، جس بنا پر بعض ملزمان ضمانت قبل ازگرفتاری کرانے میں کامیاب رہے۔

تحسین احسن کاکہنا ہے کہ قتل کیس کے اندراج کے لئے اسے ایک سال تک جدوجہد کرنا پڑی۔ انصاف کے حصول میں نہ جانے سو سال لگ جائیں۔ دوسری جانب ملزم فریق کاکہناہے نومولودسے ہماری کیاعداوت تھی؟ اسے جانی نقصان پہنچانے سے ہمیں کیاحاصل ہوتا؟ دریں اثناء 12اکتوبرسے قتل کیس ''ڈیل ''کرنے والے ہومی سائیڈانوسٹی گیشن آفیسر محمد رفیق (سب انسپکٹر) کے مطابق مدعی مقدمہ اورگواہان کے بیانات قلمبند کئے گئے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ پولیس افسران کی تساہل پسندی کی مثالیں بہت سے سنگین مقدمات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ بچے کی موت واقعی جنات کے ہاتھوں ہوئی ہے یاکہ وہ اپنوں کے ظلم کاشکارہواہے یہ بات ابھی تحقیق طلب ہے۔ اس بارے میں تفتیش مکمل کرکے حتمی رپورٹ مرتب کی جائے گی۔ پھول سے بچے کاقتل اگر اولادنرینہ کے حصول کی خاطرہی کیاگیاہے تویہ اقدام انتہائی گھناؤنا اور شرمناک ہے۔جادو ٹونے، دین سے دوری کی بدترین مثال ہے ایسے فعل کاارتکاب کرنے والے یقیناکسی رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔

 
Load Next Story