وزیر باتدبیر

شہنشاہ اکبر بذات خود ان پڑھ تھا مگر اس کی کابینہ میں بیربل اور ٹوڈی مل جیسے وزیر باتدبیر شامل تھا۔

S_afarooqi@yahoo.com

ISLAMABAD:
شہنشاہ اکبر بذات خود ان پڑھ تھا مگر اس کی کابینہ میں بیربل اور ٹوڈی مل جیسے وزیر باتدبیر شامل تھے جن کی لیاقت سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اس نے ہندوستان پر خوب حکمرانی کی اور تاریخ کے اوراق پر ایک انمٹ چھاپ چھوڑ گیا، پھر جب 1947 میں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور وہاں پنڈت جواہر لعل نہرو کی زیر قیادت جمہوری حکومت قائم ہوئی تو نہرو کی کابینہ میں مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی جیسے لائق و فائق وزراء شامل ہوئے۔ مولانا آزاد کے نام سے تو سب ہی لوگ آشنا ہیں لیکن رفیع احمد قدوائی سے واقفیت شاید کم ہی لوگوں کو ہوگی۔ ان کی بے مثال کارکردگی کی بنا پر ہندوستان کے عوام نے انھیں جادوگر کے خطاب سے نوازا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس خطاب کے پوری طرح مستحق تھے۔ عوامی خدمت کی ایسی درخشاں مثال ہمیں اور کوئی نظر نہیں آتی۔ قدوائی صاحب بڑے درویش صفت انسان تھے اور ان کے روز و شب عوام کی خدمت کے لیے وقف تھے۔ ہندوستان کی راجدھانی نئی دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ قدوائی صاحب کا کمال یہ تھا کہ جو محکمہ ڈوب رہا ہوتا تھا وہ ان کے حوالے کردیا جاتا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس محکمے کی کایا پلٹ جایا کرتی تھی۔

ایک زمانے میں جب ہندوستان میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور راشننگ کا نظام بھی بدعنوانی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھنے کے بعد بری طرح ناکام ہوگیا تو وزیراعظم نہرو نے وزارت خوراک کا قلم دان رفیع احمد قدوائی کے حوالے کردیا۔ صورت حال اتنی دگرگوں ہوچکی تھی کہ اس بحران کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا تھا، لیکن قدوائی صاحب نے اس سنگین چیلنج کو بخوبی قبول کرلیا۔ بیوروکریسی پر انحصار کرنے کے بجائے قدوائی صاحب لنگر لنگوٹ کس کر خود اکھاڑے میں اتر گئے۔ بہت جلد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ خوراک کا بحران ذخیرہ اندوزوں کا پیدا کردہ تھا جس میں افسر شاہی کی ملی بھگت شامل تھی۔ اصلاح احوال کے لیے انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ بالکل انوکھی تھی۔ انھوں نے خفیہ ذرایع سے تمام معلومات حاصل کیں اور اس کے بعد بھیس بدل کر ذخیرہ اندوزوں کے بڑے بڑے مگرمچھوں کی گردنیں دبوچ لیں اور خوراک کا بحران بہت جلد ختم ہوگیا۔

چنانچہ جب ان کے انتقال کی خبر پورے ہندوستان میں جنگل کی طرح پھیلی تو پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہر طرف ایک کہرام مچ گیا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ''ہائے ان داتا مر گیا' ہائے ان داتا مر گیا''۔ کسی وزیر کے مرنے پر عوام کے ردعمل کا ایسا دل سوز منظر ہم نے اپنی زندگی میں پھر کبھی نہیں دیکھا۔اس سے قبل جب ڈاک اور تار کے محکمے کی لٹیا ڈوب رہی تھی تو تب بھی پنڈت نہرو نے ڈوبتی ہوئی نیا کو قدوائی صاحب کے ہی حوالے کیا تھا۔ حالت یہ تھی کہ ڈاک خانے کا عملہ انتہائی کام چور اور کرپٹ ہوچکا تھا۔ خطوں کے دیر سے پہنچنے اور ڈاک کے غائب ہونے کی شکایتیں عام ہوچکی تھیں اور منی آرڈروں کی چوری کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ قدوائی صاحب نے یہاں بھی اپنا مخصوص گر آزمایا اور کرپٹ اور نااہل افسران کو گدی سے پکڑا۔ سزا اور جزا ان کا سنہری اصول تھا اور سورس اور سفارش کے لیے ان کے یہاں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ خود وزیراعظم نہرو کی مجال نہ تھی کہ ان کے کام میں دخل اندازی کرسکیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ قدوائی صاحب نے پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے محکمے کا نہ صرف قبلہ درست کردیا بلکہ اسے ایک مثالی محکمے میں تبدیل کردیا۔


قدوائی صاحب مرحوم ہمیں اس لیے یاد آئے کہ ریلوے کے موجودہ وزیر خواجہ سعد رفیق آج کل ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے انھیں جو محکمہ سونپا ہے وہ شاید سب سے زیادہ آزمائش طلب ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی ممالک ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے اور ریلوے کا محکمہ انھیں برطانوی حکومت سے ورثے میں ملا تھا۔ انڈین ریلوے کو اس لحاظ سے خوش قسمت کہا جاسکتا ہے کہ اسے دیانت دار اور خدمت گزار قسم کے وزرا میسر آئے جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اس محکمے کی کایا پلٹ دی۔ یہ اسی کا ثمر ہے کہ آج انڈین ریلوے کا شمار دنیا کے بہترین اور منافع بخش محکموں میں ہوتا ہے جب کہ پاکستان ریلوے کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ محکمہ کرپٹ ہوتے ہوتے بینک کرپٹ ہوگیا ہے اور ارباب اختیار نے اس کی بحالی کے لیے نج کاری کا نسخہ کیمیا تجویز کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مریض کسی معتبر اور حاذق معالج کے بجائے کسی بددیانت اور لالچی عطائی کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کی حالت کا بگڑنا ایک فطری عمل اور لازمی نتیجہ ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اور پاکستان اسٹیل مل کی طرح پاکستان ریلوے کا المیہ بھی یہی ہے کہ قومی اہمیت کا یہ بدقسمت ادارہ بھی بدعنوانی اور بدانتظامی کی بھینٹ چڑھ گیا اور محمد خان جونیجو اور شیخ رشید احمد جیسے وزرا کے سوا اسے مخلص، لائق اور دیانت دار وزیر میسر ہی نہیں آئے ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے'' کے مصداق ایک مدت دراز کے بعد اس بدنصیب محکمے کے نصیب جاگے ہیں کہ اسے خواجہ سعد رفیق کی صورت میں ایک وزیر باتدبیر میسر آیا ہے جس نے اس محکمے کی کایا پلٹنے کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ خواجہ صاحب سے ہماری ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی مگر ہم ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں، ہمیں ان میں ایک spark نظر آتی ہے جس کی بنا پر ہمارا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ پاکستان ریلوے کے دائمی مریض کو روبہ صحت کرکے ہی دم لیں گے اور رفیع احمد قدوائی ثانی ثابت ہوں گے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے پاکستان ریلوے کی حالت کو سدھارنے کا بیڑا ایک چیلنج سمجھ کر اٹھایا ہے اور یہ ان کے لیے Do or Die والا معاملہ ہے۔ خواجہ صاحب کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ اکھاڑا چھوڑ کر بھاگنے والے پہلوان نہیں ہیں۔ ان کے عزائم روز اول ہی سے صاف ظاہر ہیں۔

چند ہی دنوں میں انھوں نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ پاکستان ریلوے کا مسئلہ یہی ہے کہ ''حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟'' ان کی زیرک نگاہوں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو اس محکمے کی تباہی کا اصل باعث ہیں۔ انھیں اس محکمے کی Liabilities کا بھی پتہ ہے اور اس کے Assets کا بھی خوب اندازہ ہے۔ وہ ان عناصر سے بھی واقف ہیں جو اس ادارے کی زبوں حالی کے اصل ذمے دار ہیں۔ ان کی اپروچ قطعی حقیقت پسندانہ ہے جس کا تازہ ترین نمونہ عید کے موقع پر ریلوے کے کرایوں میں اضافے کے بجائے نمایاں کمی کی صورت میں واضح طور پر نظر آگیا ہے۔ انھوں نے ایک ماہر اور دیانت دار طبیب کی طرح اس ادارے کے مرض کی بڑی اچھی طرح تشخیص کرلی ہے اور اس کا باقاعدہ علاج بھی شروع کردیا ہے۔

انھیں قومی اہمیت کے اس منفرد ادارے میں بڑا زبردست پوٹینشل نظر آرہا ہے جس کی بنا پر انھوں نے اس ادارے کی نجکاری کی تجویز کی بالکل کھل کر مخالفت کردی ہے اور یہ تک کہہ دیا ہے کہ اگر اسے پرائیویٹائز کیا گیا تو وہ نہ صرف اس وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے بلکہ کوئی اور وزارت بھی قبول نہیں کریں گے۔ پاکستان ریلوے کی ماضی کی کرپشن سے بھی وہ بخوبی آگاہ ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے ریلوے کے انجنوں کی خریداری کے پرانے معاہدے بھی منسوخ کردیے ہیں۔ ان کا اگلا قدم اس ادارے کی تطہیر ہونا چاہیے جس کے لیے انھیں ہر قسم کے اثر و رسوخ اور زور دباؤ سے بالاتر ہونا ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہParasites سے نجات کے بغیر کوئی بھی ادارہ پنپ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ انھیں اس ادارے کے Loop Holes کو Plug بھی کرنا پڑے گا۔ اس عمل کے لیے انھیں ایک مخلص اور فرض شناس ٹیم تشکیل دینا ہوگی کیونکہ اتنا بڑا کام وہ تنہا انجام نہیں دے سکتے۔ بلاشبہ ایک اچھے قائد کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ممولے کو شہباز سے لڑاسکتا ہے مگر کامیابی کے لیے ایک اچھے کپتان کے علاوہ ایک اچھی ٹیم بھی درکار ہوتی ہے۔
Load Next Story