شہر جالب سے شہر جالب تک
حبیب جالب لاہور کے ساتھ ساتھ (اہل کراچی خصوصاً) کراچی کو بھی شہرجالب کہتے ہیں۔
کراچی میں بڑا بھرپوردورگزارا ہے، حبیب جالب اس لیے لاہور کے ساتھ ساتھ (اہل کراچی خصوصاً) کراچی کو بھی شہر جالب کہتے ہیں ۔ بروز پیر میں شہر جالب سے شہر جالب کی طرف روانہ ہوا۔ اس بار سال سے اوپر ہوگیا اور لاہور جانا نہیں ہوسکا۔ وہاں کے یار دوست بھی فون کرتے رہتے ہیں ''کب آرہے ہو؟ بس یونہی بہت سا وقت گزرگیا۔
لاہور میں ایک ہفتہ بڑا زبردست گزرا۔ 12 اور 13اکتوبر روزنامہ ایکسپریس کی عالمی اردو کانفرنس ہوئی یہی تاریخیں کہ مجھے ایک شادی کی تقریبات میں شریک ہونا تھا تو پروگرام یہی تھا کہ دن کانفرنس میں گزاریں گے اور رات کو شادی، ولیمہ بھگتائیں گے۔ چند اہم احباب سے بھی ملناتھا، ہر بار چھوٹی سی فہرست بناکر لاہور جاتا ہوں اور وہ چھوٹی سی فہرست بھی ادھوری رہ جاتی ہے، بہت سے احباب رہ جاتے ہیں۔ لاہور میں اس بار ایک اور زبردست کام ہوا ، میرے بھتیجے حبیب جالب کے بڑے فرزند ناصر جالب نے اپنا ابا کے بارے میں کتاب لکھ ڈالی ہے ۔کتاب جمہوری پبلی کیشنزلاہور کے روح رواں معروف قلم کار دانشور فرخ سہیل گویندی نے بڑے سلیقے سے شایع کی ہے۔ انتہائی دلکش سرورق قابل دید ہے، جالب صاحب کے چہرے کے نقوش سرخ اور سیاہ رنگوں میں ابھارے گئے ہیں۔ ناصر جالب نے کتاب کا انتساب اپنی دادی (والدہ حبیب جالب) رابعہ بصری اور اپنی والدہ (بیگم حبیب جالب) ممتاز جالب کے نام کیا ہے، ناصر نے کتاب بھی اچھے پیرائے میں لکھی ہے۔ کتاب کا نام ''حبیب جالب۔ روداد وفا'' ہے یہ نام جالب صاحب کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
''روداد وفا'' دار پہ دہرا تو گئے ہم
''روداد وفا'' جالب فہمی کے لیے اضافہ ثابت ہوگی۔ ناصر جالب نے اپنے والد کی یادوں کو لکھ کر بڑا اہم فریضہ ادا کیا ہے، کتاب میں ایس ایم ظفر، اعتزاز احسن، مطاہر احمد، سلمان عابد کی تحریریں بھی شامل ہیں، فلیپ پر فرخ سہیل گویندی کی تحریر موجود ہے۔
ناصر جالب نے دو روز پہلے اپنی کتاب سحر انصاری کو پیش کی، میں بھی آرٹس کونسل میں موجود تھا۔ سحر صاحب نے کتاب دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ''صوفی عنایت اﷲ خان (والد حبیب جالب) مشتاق مبارک، حبیب جالب اور سعید پرویز کے بعد اب ناصر جالب بھی گھر کے قلم کاروں میں شامل ہوگئے'' سحر انصاری صاحب کی خوبصورت بات سن کر میرا دل خوش ہوا، بے شک جالب سے اپنا حوالہ مستحکم کرنے کا مضبوط اظہار قلم ہی ہے۔ حبیب جالب خدا کا بنایا ہوا خاص بندہ تھا۔ خدا نے اپنے خزانے سے بہت اعلیٰ اوصاف اپنے خاص بندے حبیب جالب کو عطا فرمائے تھے۔ جن کی طاقت سے وہ زندگی گزار کے ساتھ ایمان کے اپنی قبر میں اتر گیا، کوئی احساس کی بات ہے کہ اﷲ کے خاص بندے کے لواحقین کیا برتائو کرتے ہیں، باقی اصل میں تو اﷲ کے خاص بندے پوری دنیا کے لیے ہوتے ہیں۔ ناصر جالب نے کتاب لکھ کر اپنا حق ادا کردیا۔ لاہور گیا، تو ایکسپریس کی عالمی اردو کانفرنس کے ساتھ ساتھ ''روداد وفا'' کا جشن بھی منایا۔
اکتوبر میں لاہور کا موسم بڑا اچھا ہوتا ہے گرمی کا زور کافی حد تک ٹوٹ چکا ہوتا ہے، خصوصاً شام بڑی سہانی ہوجاتی ہے۔ الحمرا آرٹس کونسل کی سرخ اینٹوں کی بنی ہوئی عمارتیں سبز گھاس میں بنی ہوئی راہداریاں، بھول بوٹے، اکتوبر کی شاموں میں کئی رنگ بھردیتے ہیں۔ ایسے میں اپنے ''دل دے جانی'' یار دوست ساتھ ہوں تو سوچو کیا مزا آتا ہے۔
میں نے جاتے ہوئے چاروں طرف ایک نگاہ دوڑائی اور کہا کہ اے میرے پیارے شہر کراچی! بس ایک ہفتے کی رخصت منظور کرلے، مجھے لاہور جانے کی اجازت دے دے، میں وعدہ کرتاہوں کہ 15اکتوبر کو واپس آجائوںگا ۔ اے میرے کراچی! میں عید تیرے ساتھ ہی منائوںگا بس سات دن کے لیے جانے دے! میں میٹروبس پر سواری کر لوں، میں بھی لنک روڈ گھوم لوں، انڈر پاس اور فلائی اوور پھر سے دیکھ لو، پاک ٹی ہائوس میں بیٹھ کر اپنے پیاروں کو یاد کرلوں، وہ کونا دیکھ لوں جہاں اسرار زیدی کے ساتھ میں چائے پیتاتھا۔ جہاں اظہر جاوید مجھے کیک پیسٹری بھی کھلاتے تھے، میں الحمد پبلی کیشنز بھی جائوں گا جہاں عظیم شاعر احمد راہی سے میری ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ پرانی انارکلی کے بازار میں ساغر صدیقی کی یادیں، مجھے ساغر صدیقی کے ساتھ کچھ دیر رکنا ہوگا۔
قارئین! ساغر صدیقی لاہور کے بادشاہ تھے، جنرل ایوب نے گورنر ہائوس بلایا۔ پولیس والے ملنگوں کے ڈیروں، داتا دربار کے فقیروں میں ساغر کو ڈھونڈتے رہے کہ یہی اس بادشاہ کے ٹھکانے تھے، آخر ایک پان سگریٹ کے کھوکھے پر کھڑے ہوئے ساغر پولیس والوں کو مل گئے، ڈی ایس پی نے مودبانہ عرض کیا کہ ''صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان آپ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں اور گورنر ہائوس میں آپ کے منتظر ہیں'' اپنی دنیا کے بادشاہ نے ملاقات سے انکار کردیا اور ڈی ایس پی سے کہا ''وہ سگریٹ کا پیکٹ اٹھائو'' ڈی ایس پی نے سڑک پر پڑا ہوا سگریٹ کا خالی پیکٹ اٹھایا، ساغر نے اپنا ایک شعر اس پیکٹ پر لکھ کر ڈی ایس پی کو یہ کہتے ہوئے دیا ''یہ ایوب خان کو دے دینا'' وہ شعر مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا ورنہ کالم کا رنگ دوبالا ہوجاتا۔ تبرکاً ساغر کے تین اشعار حسب حال بھی ہیں۔
چراغ طور جلائو بڑا اندھیراہے
ذرا نقاب اٹھائو بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلائو، بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھائو بڑا اندھیرا ہے
جاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے شہر پر نگاہ دوڑائی اور کہا کہ بس کراچی بس! تیرے روگ، تیرے سوگ، یہیں چھوڑے جارہاہوں، سات دن بعد واپس آؤں گا تو پھر میں ہوںگا اور میرا کراچی ہوگا۔ میرا وعدہ ہے کہ میں لحد جالب پر تیرا احوال سنائوںگا اور ادھر سے جو پیغام ملا لے کر آئوںگا۔ اﷲ حافظ میں شہر جالب سے شہر جالب جارہاہوں۔اب میں شہر جالب لاہور کی بہت سے یادیں لیے واپس شہر جالب کراچی آ گیا ہوں۔
لاہور میں ایک ہفتہ بڑا زبردست گزرا۔ 12 اور 13اکتوبر روزنامہ ایکسپریس کی عالمی اردو کانفرنس ہوئی یہی تاریخیں کہ مجھے ایک شادی کی تقریبات میں شریک ہونا تھا تو پروگرام یہی تھا کہ دن کانفرنس میں گزاریں گے اور رات کو شادی، ولیمہ بھگتائیں گے۔ چند اہم احباب سے بھی ملناتھا، ہر بار چھوٹی سی فہرست بناکر لاہور جاتا ہوں اور وہ چھوٹی سی فہرست بھی ادھوری رہ جاتی ہے، بہت سے احباب رہ جاتے ہیں۔ لاہور میں اس بار ایک اور زبردست کام ہوا ، میرے بھتیجے حبیب جالب کے بڑے فرزند ناصر جالب نے اپنا ابا کے بارے میں کتاب لکھ ڈالی ہے ۔کتاب جمہوری پبلی کیشنزلاہور کے روح رواں معروف قلم کار دانشور فرخ سہیل گویندی نے بڑے سلیقے سے شایع کی ہے۔ انتہائی دلکش سرورق قابل دید ہے، جالب صاحب کے چہرے کے نقوش سرخ اور سیاہ رنگوں میں ابھارے گئے ہیں۔ ناصر جالب نے کتاب کا انتساب اپنی دادی (والدہ حبیب جالب) رابعہ بصری اور اپنی والدہ (بیگم حبیب جالب) ممتاز جالب کے نام کیا ہے، ناصر نے کتاب بھی اچھے پیرائے میں لکھی ہے۔ کتاب کا نام ''حبیب جالب۔ روداد وفا'' ہے یہ نام جالب صاحب کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
''روداد وفا'' دار پہ دہرا تو گئے ہم
''روداد وفا'' جالب فہمی کے لیے اضافہ ثابت ہوگی۔ ناصر جالب نے اپنے والد کی یادوں کو لکھ کر بڑا اہم فریضہ ادا کیا ہے، کتاب میں ایس ایم ظفر، اعتزاز احسن، مطاہر احمد، سلمان عابد کی تحریریں بھی شامل ہیں، فلیپ پر فرخ سہیل گویندی کی تحریر موجود ہے۔
ناصر جالب نے دو روز پہلے اپنی کتاب سحر انصاری کو پیش کی، میں بھی آرٹس کونسل میں موجود تھا۔ سحر صاحب نے کتاب دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ''صوفی عنایت اﷲ خان (والد حبیب جالب) مشتاق مبارک، حبیب جالب اور سعید پرویز کے بعد اب ناصر جالب بھی گھر کے قلم کاروں میں شامل ہوگئے'' سحر انصاری صاحب کی خوبصورت بات سن کر میرا دل خوش ہوا، بے شک جالب سے اپنا حوالہ مستحکم کرنے کا مضبوط اظہار قلم ہی ہے۔ حبیب جالب خدا کا بنایا ہوا خاص بندہ تھا۔ خدا نے اپنے خزانے سے بہت اعلیٰ اوصاف اپنے خاص بندے حبیب جالب کو عطا فرمائے تھے۔ جن کی طاقت سے وہ زندگی گزار کے ساتھ ایمان کے اپنی قبر میں اتر گیا، کوئی احساس کی بات ہے کہ اﷲ کے خاص بندے کے لواحقین کیا برتائو کرتے ہیں، باقی اصل میں تو اﷲ کے خاص بندے پوری دنیا کے لیے ہوتے ہیں۔ ناصر جالب نے کتاب لکھ کر اپنا حق ادا کردیا۔ لاہور گیا، تو ایکسپریس کی عالمی اردو کانفرنس کے ساتھ ساتھ ''روداد وفا'' کا جشن بھی منایا۔
اکتوبر میں لاہور کا موسم بڑا اچھا ہوتا ہے گرمی کا زور کافی حد تک ٹوٹ چکا ہوتا ہے، خصوصاً شام بڑی سہانی ہوجاتی ہے۔ الحمرا آرٹس کونسل کی سرخ اینٹوں کی بنی ہوئی عمارتیں سبز گھاس میں بنی ہوئی راہداریاں، بھول بوٹے، اکتوبر کی شاموں میں کئی رنگ بھردیتے ہیں۔ ایسے میں اپنے ''دل دے جانی'' یار دوست ساتھ ہوں تو سوچو کیا مزا آتا ہے۔
میں نے جاتے ہوئے چاروں طرف ایک نگاہ دوڑائی اور کہا کہ اے میرے پیارے شہر کراچی! بس ایک ہفتے کی رخصت منظور کرلے، مجھے لاہور جانے کی اجازت دے دے، میں وعدہ کرتاہوں کہ 15اکتوبر کو واپس آجائوںگا ۔ اے میرے کراچی! میں عید تیرے ساتھ ہی منائوںگا بس سات دن کے لیے جانے دے! میں میٹروبس پر سواری کر لوں، میں بھی لنک روڈ گھوم لوں، انڈر پاس اور فلائی اوور پھر سے دیکھ لو، پاک ٹی ہائوس میں بیٹھ کر اپنے پیاروں کو یاد کرلوں، وہ کونا دیکھ لوں جہاں اسرار زیدی کے ساتھ میں چائے پیتاتھا۔ جہاں اظہر جاوید مجھے کیک پیسٹری بھی کھلاتے تھے، میں الحمد پبلی کیشنز بھی جائوں گا جہاں عظیم شاعر احمد راہی سے میری ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ پرانی انارکلی کے بازار میں ساغر صدیقی کی یادیں، مجھے ساغر صدیقی کے ساتھ کچھ دیر رکنا ہوگا۔
قارئین! ساغر صدیقی لاہور کے بادشاہ تھے، جنرل ایوب نے گورنر ہائوس بلایا۔ پولیس والے ملنگوں کے ڈیروں، داتا دربار کے فقیروں میں ساغر کو ڈھونڈتے رہے کہ یہی اس بادشاہ کے ٹھکانے تھے، آخر ایک پان سگریٹ کے کھوکھے پر کھڑے ہوئے ساغر پولیس والوں کو مل گئے، ڈی ایس پی نے مودبانہ عرض کیا کہ ''صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان آپ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں اور گورنر ہائوس میں آپ کے منتظر ہیں'' اپنی دنیا کے بادشاہ نے ملاقات سے انکار کردیا اور ڈی ایس پی سے کہا ''وہ سگریٹ کا پیکٹ اٹھائو'' ڈی ایس پی نے سڑک پر پڑا ہوا سگریٹ کا خالی پیکٹ اٹھایا، ساغر نے اپنا ایک شعر اس پیکٹ پر لکھ کر ڈی ایس پی کو یہ کہتے ہوئے دیا ''یہ ایوب خان کو دے دینا'' وہ شعر مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا ورنہ کالم کا رنگ دوبالا ہوجاتا۔ تبرکاً ساغر کے تین اشعار حسب حال بھی ہیں۔
چراغ طور جلائو بڑا اندھیراہے
ذرا نقاب اٹھائو بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلائو، بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھائو بڑا اندھیرا ہے
جاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے شہر پر نگاہ دوڑائی اور کہا کہ بس کراچی بس! تیرے روگ، تیرے سوگ، یہیں چھوڑے جارہاہوں، سات دن بعد واپس آؤں گا تو پھر میں ہوںگا اور میرا کراچی ہوگا۔ میرا وعدہ ہے کہ میں لحد جالب پر تیرا احوال سنائوںگا اور ادھر سے جو پیغام ملا لے کر آئوںگا۔ اﷲ حافظ میں شہر جالب سے شہر جالب جارہاہوں۔اب میں شہر جالب لاہور کی بہت سے یادیں لیے واپس شہر جالب کراچی آ گیا ہوں۔